Search
Close this search box.

فہرست موضوعات

دیباچہ
پیش لفظ
مقدمہ
انسان کا معاشی مسئلہ اور اس کا اسلامی حل
جُزو پرستی کا فتنہ
اصل معاشی مسئلہ
معاشی انتظام کی خرابی کا اصل سبب
نفس پرستی اور تعیش
سرمایہ پرستی
نظامِ محاربہ
چند سری نظام
اِشتراکیت کا تجویز کردہ حل
نیا طبقہ
نظامِ جبر
شخصیت کا قتل
فاشزم کا حل
اسلام کا حل
بنیادی اصول
حصولِ دولت
حقوقِ ملکیت
اصولِ صَرف
سرمایہ پرستی کا استیصال
تقسیم ِ دولت اور کفالتِ عامہ
سوچنے کی بات
قرآن کی معاشی تعلیمات (۱) بنیادی حقائق
۲۔ جائز و ناجائز کے حدود مقرر کرنا اللہ ہی کا حق ہے
۳۔ حدود اللہ کے اندر شخصی ملکیت کا اثبات
۴۔معاشی مساوات کا غیر فطری تخیل
۵۔ رہبانیت کے بجائے اعتدال اور پابندیِ حدود
۶ ۔ کسبِ مال میں حرام و حلال کا امتیاز
۷۔ کسبِ مال کے حرام طریقے
۸۔ بخل اور اکتناز کی ممانعت
۹۔ زر پرستی اور حرصِ مال کی مذمت
۱۰ ۔ بے جا خرچ کی مذمت
۱۱۔ دولت خرچ کرنے کے صحیح طریقے
۱۲۔ مالی کفّارے
۱۳۔ انفاق کے مقبول ہونے کی لازمی شرائط
۱۵۔ لازمی زکوٰۃ اور اس کی شرح
۱۶۔ اموالِ غنیمت کا خُمس
۱۷۔ مصارفِ زکوٰۃ
۱۸۔ تقسیم میراث کا قانون
۱۹۔ وصیت کا قاعدہ
۲۰۔ نادان لوگوں کے مفاد کی حفاظت
۲۱۔ سرکاری املاک میں اجتماعی مفاد کا لحاظ
۲۲۔ ٹیکس عائد کرنے کے متعلق اسلام کا اصولی ضابطہ
سرمایہ داری اور اسلام کافرق
۱۔ اکتساب مال کے ذرائع میں جائز اور ناجائز کی تفریق
۲۔ مال جمع کرنے کی ممانعت
۳۔ خرچ کرنے کا حکم
۴۔ زکوٰۃ
۵۔ قانونِ وراثت
۶۔ غنائم جنگ اور اموالِ مفتوحہ کی تقسیم
۷۔اقتصاد کا حکم
اسلامی نظامِ معیشت کے اُصول اور مقاصد( یہ تقریر پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ انتظامات کی مجلس مذاکرہ میں 17؍ دسمبر 65ء کو کی گئی تھی (مرتب)
اسلام کے معاشی نظام کی نوعیت
نظمِ معیشت کے مقاصد
(ا) انسانی آزادی
(ب) اخلاقی اور مادی ترقی میں ہم آہنگی
(ج) تعاون و توافُق اور انصاف کا قیام
بنیادی اصول
شخصی ملکیت اور اس کے حدود
منصفانہ تقسیم
اجتماعی حقوق
زکوٰۃ
قانونِ وراثت
محنت، سرمایہ اور تنظیم کا مقام
زکوٰۃ اور معاشی بہبود
غیر سُودی معیشت
معاشی، سیاسی اور معاشرتی نظام کا تعلق
معاشی زندگی کے چند بنیادی اصول (قرآن کی روشنی میں)
(۱) اسلامی معاشرے کی بنیادی قدریں(۱)
(۲) اخلاقی اور معاشی ارتقاء کا اسلامی راستہ (۱)
(۳) تصوّرِ رزق اور نظریۂ صَرف
(۴)اصولِ صرف
(۵) اصولِ اعتدال
(۶) معاشی دیانت اور انصاف
ملکیت ِ زمین کا مسئلہ
قرآن اور شخصی ملکیت (۱)
(۲) دورِ رسالت اور خلافتِ راشدہ کے نظائر
قسمِ اوّل کا حکم
قسمِ دوم کا حکم
قسم سوم کے احکام
قسمِ چہارم کے احکام
حقوقِ ملکیت بربنائے آبادکاری
عطیۂ زمین من جانب سرکار
عطیۂ زمین کے بارے میں شرعی ضابطہ
جاگیروں کے معاملے میں صحیح شرعی رویہ
حقوقِ ملکیت کا احترام
(۳) اسلامی نظام اور انفرادی ملکیت
(۴) زرعی اراضی کی تحدید کا مسئلہ
(۵) بٹائی ( ایک سوال کے جوا ب میں ترجمان القرآن، اکتوبر ۱۹۵۰ء۔) کا طریقہ اور اسلام کے اصول انصاف
(۶)ملکیت پر تصرف کے حدود
مسئلۂ سود
(۱) سود کے متعلق اسلامی احکام( ماخوذ از ’’سود‘‘۔)
ربوٰا کا مفہوم
جاہلیت کا ربٰوا
بیع اور ربوٰا میں اصولی فرق
علتِ تحریم
حُرمتِ سود کی شدت
(۲)سود کی ’’ضرورت‘‘… ایک عقلی تجزیہ( ماخوذ از ’سود‘۔)

معاشیات اسلام

اس ویب سائٹ پر آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ اب آپ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمتہ اللہ علیہ کی کتابوں کو ’’پی ڈی ایف ‘‘ کے ساتھ ساتھ ’’یونی کوڈ ورژن‘‘ میں بھی پڑھ سکتے ہیں۔کتابوں کی دستیابی کے حوالے سے ہم ’’اسلامک پبلی کیشنز(پرائیوٹ) لمیٹڈ، لاہور‘‘، کے شکر گزار ہیں کہ اُنھوں نے اس کارِ خیر تک رسائی دی۔ اس صفحے پر آپ متعلقہ کتاب PDF اور Unicode میں ملاحظہ کیجیے۔

پیش لفظ

اس وقت پوری دنیا میں اضطراب اور بے چینی کی کیفیت پائی جاتی ہے۔اس اضطراب کی تہ میں جو قوتیں کارفرما ہیں اور جن کی وجہ سے بے چینی میں برابر اضافہ ہو رہا ہے ان میں معاشی اسباب کو بڑا دخل ہے۔ اس لیے نہیں کہ انسانی زندگی میں فیصلہ کن حیثیت معاشی عوامل کو حاصل ہے ، بلکہ اس لیے کہ ان کو وہ مقام دیا گیا ہے جو فطرت کے در و بست میں انہیں حاصل نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بگاڑ کے اسباب کی تلاش اور اس کے مداوا کی کوششیں صورت حال کو اور خراب اور پیچیدہ کرتی جا رہی ہیں۔ پہلے انسان کا خیال تھا کہ اصلی مسئلہ وسائل معاش کی قلت کا ہے اور اگر پیداوار کو بڑھا دیا جائے تو تمام خرابیاں دور ہو جائیں گی۔ لیکن جب پیداوار سو بلکہ کچھ چیزوں میں ہزار گنی تک زیادہ ہو گئی تب بھی بگاڑ کی کیفیت وہی رہی۔ ’’پیدا آوری معاشیات‘‘ (economics of production) سے توجہ معاشیاتِ تقسیم (economics of distribution) کی طرف مبذول ہوئی۔ لیکن سو سال تک دولت کی تقسیمِ نو (redistribution of wealth) کے تجربہ کے بعد بھی ہم وہیں ہیں جہاں سے سفر کا آغاز کیا تھا۔ مسائل قلت (scarctiy) نے معاشیاتِ خورد (micro economics) کو جنم دیا تھا۔ لیکن تجارتی چکر (trade cycle) اور کساد بازاری کی تباہ کاریوں نے اس نظامِ فکر کی چولیں ہلا دیں۔ ان نئے حالات نے معاشیاتِ کلاں (macro economics) کے لیے راہ ہموار کی۔ لیکن اب جو نئی افراطِ دولت (affluence) رونما ہوئی ہے اور وہ اپنے جلو میں جو نئے مسائل لائی ہے اس کی بناء پر یہ خوش حالی خود دردِ سر بنتی جا رہی ہے اور معاشیات کا طالب علم ایک بار پھر ایک نئی معاشیات کی تلاش میں ہے۔ ایک گھن چکر (vicious circle) ہے جس میں انسان گردش کر رہا ہے اور ہر دور اور ہر سطح پر اس کا حال یہ ہے کہ
ڈور کو سلجھا رہا ہے، اور سرا ملتا نہیں!
ہم آج کے انسان کو اس امر پر غور و فکر کی دعوت دیتے ہیں کہ وہ اپنے بنیادی نقطۂ نظر کا از سر نو جائزہ لے۔ اصل خرابی سفر کے دوران میں پیش آنے والی دشواریوں کی بناء پر نہیں، سفر کے نقطۂ آغاز اور پھر سمتِ سفر میں ہے، یہ علمی جستجو اور عملی کاوش جس مقام سے شروع ہوتی ہے اسی جگہ غلطی واقع ہو رہی ہے اور وہی نظرثانی کی محتاج ہے۔ انسان نے اپنی حقیقت اور اپنے اصل مقام کو نظر انداز کر کے اپنے سارے افکار کے در ودیوار اٹھائے ہیں، اور چونکہ یہ بنیاد ہی غلط ہے اس لیے:
تاثریّا می رود دیوار کج
زیر نظر کتاب دراصل علم المعیشت (economic science) کی کتاب نہیں ہے بلکہ فلسفۂ معیشت (economic philosophy) کی ایک راہ کشا کتاب ہے۔ اس میں ان اولین امور سے بحث کی گئی ہے جنہیں ماہرینِ معاشیات بالعموم چھوڑ دیتے ہیں اور جن کے بارے میں غلط تصورات کے کارفرما ہونے کی وجہ سے وہ آگے کی شاہراہوں پر ہر قدم پر ٹھوکریں کھاتے چلے جاتے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ الاقدم فالاقدم کا چرچا کرنے والے اس پر عمل بھی کریں اور ہر میدان علم میں کریں۔ تا کہ آگے کی منزلیں آسان ہوسکیں۔ معاشی فکر میں جن انقلابی تبدیلیوں کی ضرورت ہے ان کا نقطۂ آغاز ایسی ہی کوششیں ہوسکتی ہیں اور اسی بنا پر ہم اسے ایک راہ کشا کتاب قرار دیتے ہیں۔
مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی اس دور کے سب سے نمایاں مسلمان مفکر ہیں۔ انہوں نے گزشتہ چالیس سال میں اسلامی نظامِ فکر و عمل کے کم و بیش ہر پہلو پر کلام کیا ہے اور بڑی بالغ نظری کے ساتھ دورِ حاضر کے مسائل اور اس کی الجھنوں کو سامنے رکھتے ہوئے اسلام کی حقیقی تعلیمات کو بلاکم و کاست بیان کیا ہے ۔ اس بارے میں اصل فیصلہ تو مستقبل ہی کرے گا، لیکن ہم جیسے طالب علموں کو نظر آتا ہے کہ مولانائے محترم کا سب سے اہم کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے اسلام کو ایک مکمل نظامِ فکر و عمل اور دین و دنیا کی فلاح کی ایک عالمگیر اصلاحی دعوت و تحریک کی حیثیت سے پیش کیا اور چالیس سال کی ہمہ وقت جدوجہد کے بعد اپنے مخالفین تک سے اس امر کا اعتراف کرالیا کہ زندگی کے ہر شعبے کے لیے اسلام اپنے مخصوص نقطۂ نظر سے بنیادی اور جامع ہدایات دیتا ہے اور ایک مسلمان… فرد کی حیثیت سے ہو یا قوم کی حیثیت سے… اسلام کے تقاضوں کو اسی وقت پورا کرسکتا ہے جب وہ ان ہدایات کی پابندی اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی میں کرے۔
فطری بات ہے کہ جس شخص نے یہ کام انجام دیا ہو وہ معاشی مسائل سے تعرض کئے بغیر کیسے رہ سکتا ہے؟ اس دور کا سب سے بڑا فتنہ تو یہی فتنۂ معاش ہے! اس لیے ہم دیکھتے ہیں کہ ترجمان القرآن کی اشاعت کے پہلے ہی سال (1933ء) مولانائے محترم ’’سود‘‘ اور ’’ضبطِ ولادت‘ ‘ کے مسائل سے نبرد آزما نظر آتے ہیں اور آج تک مختلف معاشی امور پر بحث و گفتگو کا سلسلہ جاری ہے۔ معاشی امور کے بارے میں مولانا کی چار کتابیں شائع بھی ہو چکی ہیں، یعنی … ’’سود‘‘ ، ’’اسلام اور جدید معاشی نظریات‘‘، ’’مسئلہ ملکیتِ زمین‘‘، ’’اسلام اور ضبطِ ولادت‘‘۔ ان کے علاوہ متعدد پمفلٹ، کتابچے، مضامین اور تقاریر ہیں جو مختلف اوقات میں شائع ہوتی رہی ہیں۔ ان مستقل کتابوں کی تو اپنی اہمیت ہے اور وہ ان شاء اللہ اپنا کام ہمیشہ انجام دیتی رہیں گی۔ لیکن میں ایک مدت سے اس امر کی ضرورت محسوس کر رہا تھا کہ مولانا محترم کی تمام تحریرات کو سامنے رکھ کر ایک جامع کتاب ایسی مرتب کی جائے جس میں تمام بنیادی معاشی امور کے بارے میں ان کا نقطۂ نظر بیک نظر معلوم کیا جاسکے اور معاشیات کے طلبہ اسلام کے نظمِ معیشت کے مختلف پہلوئوں کو ایک ہی نگاہ میں دیکھ سکیں۔ پھول کتنے ہی حسین ہوں اور چاروں طرف ہی کیوں نہ خنداں ہوں لیکن ان سے گلدستہ اسی وقت بنتا ہے جب گلچیں سارے باغ کا انتخاب ایک مختصر مجموعہ میں پیش کر دے! ضرورت کا یہ احساس تو ایک عرصہ سے تھا، لیکن مختلف وجوہ سے کام کا نقشہ بنانے کے باوجود میں اس کام کو زیادہ آگے نہ بڑھا سکا۔ اس زمانے میں جامعہ کراچی نے ایم ۔ اے۔ معاشیات کے طلبہ کے لیے ’’اسلامی معاشیات‘‘ کا ایک پرچہ داخلِ نصاب کر دیا ہے، اور اسی اثناء میں دانش گاہِ پنجاب نے بھی ایم۔ اے میں اسلامی معاشیات کی تدریس شروع کر دی ہے۔ یہ اقدام خواہ کتنی ہی تاخیر سے کیے گئے ہوں، لیکن نہایت خوش آئند اور حوصلہ افزاء ہیں ۔ اگر ارباب تعلیم نے اس نوعیت کا اقدام پاکستان کے قیام کے بعد ہی کر دیا ہوتا تو شاید آج ’’اسلامی معاشیات‘‘ پر فنی اعتبار سے بڑا قیمتی لٹریچر تیار ہو چکا ہوتا ۔ بہرحال ہم اس اقدام کی دل سے قدر کرتے ہیں اور اس چیز نے مجھے مجبور کیا کہ بلاتاخیر اپنی اس تجویز پر عمل کروں اور ایک ایسا مجموعہ مرتب کر دوں جس میں اسلامی معاشیات کے مختلف پہلوئوں پر مولانا محترم کی تمام ضروری تحریروں کا نچوڑ آجائے اور ایک ہی نظر میں اسلام کے نظمِ معیشت کی پوری تصویر دیکھی جاسکے۔
کتاب کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے ۔پہلے حصے میں اسلام کے فلسفۂ معیشت سے بحث کی گئی ہے۔ ان مضامین میں دنیا کے مروجہ معاشی نظاموں پر تنقیدی نگاہ ڈالی گئی ہے اور معیشت کے میدان میں اسلام کے مخصوص نقطۂ نظر کی پوری وضاحت کی گئی ہے۔ نیز ان اصولوں کو بھی ضروری تشریح کے ساتھ پیش کیا گیا ہے جو قرآن و سنت میں مرقوم ہیں۔ یہ حصہ ہمارے مستقبل کے کام کرنے والوں کے لیے نشانِ راہ کا کام دے گا۔ اب ضرورت اس کی ہے کہ معاشیات میں فنی مہارت رکھنے والے حضرات آگے بڑھیں اور ان اصولوں اور ان اقدار کی روشنی میں فنی زبان میں معاشیات کے مباحث کو پیش کریں ۔ ان مباحث کی حیثیت روشنی کے مینار کی ہے۔ لیکن یہ روشنی خود راہ نورد نہیں بن سکتی ۔ اس کی رہنمائی میں معاشیات کے مسلمان طالب علموں کو ان راہوں کو دریافت کرنا ہوگا جن کی طرف یہ اشارہ کر رہی ہے۔ اس چراغ سے ہزار نئے چراغ جلانے ہوں گے اور دوسروںکے لیے اپنے نقشِ پا راہبرانِ راہ کی حیثیت سے چھوڑنے ہوں گے۔ مولانائے محترم نے راستے کی نشان دہی کر دی ہے۔ اب یہ مسلمان معاشیّین کا کام ہے کہ وہ آگے بڑھیں اور اسے جادئہ وقت بنا دیں۔
دوسرے حصے میں ہم نے مصنف محترم کی ان تحریروں کو پیش کیا ہے جن کا تعلق ایک حیثیت سے اسلام کے فلسفۂ معیشت کے انطباق (application) سے ہے۔ اس سلسلے میں یہاں اسلام کے معاشی نظام کے صرف چند پہلوئوں سے بحث کی گئی ہے۔ لیکن ان چند مباحث ہی سے ہمارے سامنے متعین معاشی امور پر غور و فکر کی راہ کھلتی ہے ۔ ان مضامین میں ایک طرف تو وقت کے چند بنیادی معاشی مسائل… ملکیتِ زمین، سود، زکوٰۃ، عدلِ اجتماعی… پر اسلامی تعلیمات نہایت واضح اور دو ٹوک انداز میں ہمارے سامنے آتی ہیں۔اور دوسری طرف معاشیات کے طالب علموں کو یہ رہنمائی ملتی ہے کہ اسلام کے بنیادی تصور اور اس کے اساسی معاشی اصولوں کی روشنی میں متعین اور مخصوص مسائل کا مطالعہ کس طرح کیا جانا چاہیے، اور نام نہاد متجدّدین کے مقابلے میں، جو دراصل بدترین نقالی اور غیروں کی اندھی تقلید کے مرتکب ہو رہے ہیں، حقیقی تخلیقی اور اجتہادی رویہ کیا ہے۔ فکری آزادی کا یہ بڑا مسخ شدہ تصور ہے کہ آزادی اور اجتہاد نام ہے اپنے دین کی تعلیمات کو بدلنے اور مغرب کے ہر تصور کی کورانہ تقلید کرنے کا۔ یہ ’’فکری آزادی‘‘ نہیں، ذہنی غلامی ہے۔ اصل فکری آزادی یہ ہے کہ ہم دورِ جدید کے تمام نظریات کا مطالعہ کھلے ذہن اور تنقیدی نگاہ سے کریں اور خذما صفا و دع ما کدِر (جو صحیح ہے اسے اختیار کرلو اور جو غلط ہے اسے رد کر دو) کے اصول پر عمل کریں۔ نہ ہمیں اپنے ذہن کے دروازے بند کرلینے چاہئیں کہ کسی مفید علم سے فائدہ نہ اٹھائیں، اور نہ دل و دماغ پر غیروں کا ایسا تسلط ہونا چاہیے کہ ہم دیکھیں تو ان کی نظر سے، سوچیں تو ان کے ذہن سے اور بولیں تو ان کی زبان سے۔ کتاب کا دوسرا حصہ دراصل اسی تعمیری اور تخلیقی نقطۂ نظر کا ترجمان ہے اور معاشیات کے طالب علم اس کے مطالعہ سے یہ جان سکتے ہیں کہ متعین امور اور مسائل کے بارے میں کس طرح غور و فکر کیا جائے… اس حصے کی حیثیت بھی دراصل ایک روشن مثال کی سی ہے۔ ابھی آئندہ کام کرنے والوں کو بے شمار امور کے بارے میں نیا کام کرنا ہے اور ہمیں امید ہے کہ ان کی ان مساعی کے لیے یہ مجموعہ نشانِ راہ کا کام دے گا ۔ مولانا مودودی فنی اصطلاح میں ایک ماہرِ معاشیات (economist) نہیں ہیں۔ لیکن ان کا مقام اس سے بہت اونچا ہے کہ مخصوص علوم کے پیمانوں سے ان کے بارے میں گفتگو ہو۔ وہ ایک ایسے مفکر ہیں جنہوں نے خاص الٰہیات (theology) سے لے کر تقریباً تمام ہی عمرانی علوم (social sciences) کے میدانوں میں نہ صرف بالغ نظری کے ساتھ کلام کیا ہے بلکہ ان کی اساسی فکر (central core) کی، اسلامی تعلیمات کی روشنی میں، تشکیلِ نو کے خطوط بھی واضح کیے ہیں۔ معاشیات کے میدان میں بھی ان کا یہ مجموعہ یہی خدمت انجام دے رہا ہے۔ آگے اس پر کام کرنا ان لوگوں کے ذمے ہے جو اسلام پر پختہ یقین رکھتے ہیں ، علومِ عمرانی کے بارے میں صحیح نقطۂ نظر کے حامل ہیں، اور علم معاشیات میں فنی مہارت (technical competence) کے حامل ہیں۔ ہمارے نزدیک یہ کتاب عام قارئین کے لیے بھی اپنے اندر بہت کچھ مواد رکھتی ہے اور معاشیات کے طالب علموں اور کل کے اسلامی معاشیین کے لیے بھی ایک سنگِ میل ہے۔ ہم توقع رکھتے ہیں کہ ہماری جامعات میں اسلامی معاشیات کی تدریس میں یہ کتاب مفید خدمت انجام دے گی۔
مناسب معلوم ہوتا ہے کہ یہاں ایک بات اس کتاب کے مآخذ کے بارے میں بھی عرض کر دی جائے۔ اس میں مولانا محترم کے مضامین اور تقاریر کے علاوہ تفہیم القرآن (۴جلد میں) سے وہ مباحث بھی شامل کرلئے گئے ہیں جو معاشی امور سے متعلق تھے۔ اسی طرح رسائل و مسائل (۴ جلد میں) سے بھی ان جوابات کو لے لیا گیا ہے جو ہماری بحثوں سے متعلق تھے اور ان پہلوئوں پر روشنی ڈالتے تھے جن کی مستقل اہمیت ہے ۔ ان کے علاوہ ہم نے مسئلہ ملکیت زمین اور سود پر متعلقہ کتابوں سے چند ضروری مباحث کے اخذ و تلخیص کا راستہ بھی اختیار کیا ہے۔ لیکن اس موجودہ شکل میں ان کی ترتیب ہماری قائم کردہ ہے۔ یہ اقتباسات اصل کتابوں کا بدل (substitute) نہیں ہوسکتے۔ البتہ یہ اس کتاب میں ہماری ضرورت کو ایک حد تک پورا کر دیتے ہیں۔ تفصیلی مطالعہ کے لیے ہم قارئین کو اصل کتابوں کی طرف رجوع کا مشورہ دیتے ہیں۔
یہ مواد مختلف مقامات سے لیا گیا ہے، مختلف اوقات میں یہ چیزیں لکھی گئی ہیں، اور ان کو لکھتے وقت مختلف قسم کے مخاطبین مصنف محترم کے سامنے رہے ہیں۔ ان تمام چیزوں کو یکجا کرنا اور پھر ان میں تسلسل کو باقی رکھنا ایک مشکل کام تھا۔ ہم نے اپنی حد تک کوشش کی ہے کہ سلسلۂ کلام منقطع نہ ہونے پائے۔ لیکن ہم قارئین سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ مرتب کی ان دقتوں (limitations) کو سامنے رکھیں جو اس نوعیت کے کام میں ناگزیر ہیں۔ اسی طرح اس نوعیت کے مجموعے میں ایک حد تک تکرار کا پایا جانا بھی ناگزیر ہے۔ لیکن ہمیں توقع ہے کہ یہ تکرار بارِ خاطر نہیں ہوگی بلکہ تفہیم کا ذریعہ بنے گی اور بنیادی امور کو ذہن نشین کرنے کی باعث ہو گی۔ یہ چیز پہلے حصے ہی میں کچھ زیادہ ہے، اور اسی میںا س کی زیادہ ضرورت بھی ہے ۔ اس لیے ہم توقع رکھتے ہیں کہ یہ چیز ان شاء اللہ مفید ہی ہوگی۔
آخر میں ایک ذاتی معذرت بھی مجھے پیش کرنی ہے۔ میں نے اس کام کا بڑا حصہ اگست 1968ء تک مکمل کرلیاتھا اور صرف چند ہفتوں کی محنت باقی تھی کہ مجھے اعلیٰ تعلیم کے لیے انگلستان آنا پڑا۔ ہوائی سفر کی مشکلات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ انسان تمام ضروری چیزیں بھی اپنے ساتھ نہیں لاسکتا۔ میرا خیال تھا کہ میرے کاغذات مجھے جلد مل جائیں گے اور میں یہ کام فوراً مکمل کر کے بھیج دوں گا۔ لیکن بدقسمتی سے مسودات مجھے دسمبر میں ملے۔ نیز یہاں کے قیام کے اولین تین چار ماہ میں کچھ دوسری ذمہ داریوں کی وجہ سے بھی میں بے حد مصروف رہا اور یہ کام مؤخر ہوگیا۔ جنوری کا مہینہ میں نے کم و بیش اس کتاب پر صرف کیا اور الحمد للہ اب اسے پیش کرنے کی پوزیشن میں ہوں۔ خدا کرے کہ یہ بروقت زیورِ طباعت سے آراستہ ہو کر آجائے اور ہماری جامعات کے طلبہ اس سے اس سال فائدہ اٹھاسکیں۔
ادارئہ معارف اسلامی کراچی مولانا محترم کی تمام تحریروں کو از سرِ نو مرتب کرنے کے کام میں مصروف ہے۔ اس سے پہلے ’’مسلمان اور تحریک آزادیِ ہند‘‘ اور ’’اسلامی ریاست‘‘ کے موضوعات پر جامع تالیفات پیش کی جا چکی ہیں۔ اب ہمیں خوشی ہے کہ ہم اسلام کے نظامِ معیشت پر ایک مجموعہ پیش کر رہے ہیں۔ اس سلسلے کی مزید کتابوں پر کام ہو رہا ہے اور ان شاء اللہ ایسے مجموعے برابر آتے رہیں گے۔
وَمَا تَوْفِیْقِیْ اِلَّا بِاللّٰہِ ۔

14 ؍ذی القعدہ1388ھ خورشید احمد
2 ؍ فروری 1969ء لیسٹر، انگلستان

شیئر کریں