اصلاح کی راہ میں یہ پہلا قدم ہے کہ اس صالح عنصر کو چھانٹ کر منظم کیا جائے۔ ہماری بدقسمی کی وجہ یہی ہے کہ ہمارے ہاں بدی تو منظم ہے، اور پوری باقاعدگی کے ساتھ اپنا کام کر رہی ہے، لیکن نیکی منظم نہیں ہے۔ نیک لوگ موجود ضرور ہیں، مگر منتشر ہیں، ان کے اندر کوئی رابطہ اور تعلق نہیں ہے، کوئی تعاون اور اشتراکِ عمل نہیں ہے، کوئی لائحہ عمل اور کوئی مشترک آواز نہیں ہے۔ اسی چیز نے اُنھیں بالکل بے اثر بنا دیا ہے۔ کبھی کوئی اللّٰہ کا بندہ، اپنے گرد وپیش کی برائیوں کو دیکھ کر چیخ اٹھتا ہے، مگر جب کسی طرف سے کوئی آواز اس کی تائید میں نہیں اٹھتی تو مایُوس ہو کر بیٹھ جاتا ہے۔ کبھی کوئی شخص حق اور انصاف کی بات علانیہ کہہ بیٹھتا ہے، مگر منظم بدی، زبردستی اس کا منہ بند کر دیتی ہے اور حق پسند لوگ، بس اپنی جگہ چپکے سے اسے داد دے کر رہ جاتے ہیں۔ کبھی کوئی شخص انسانیت کا خون ہوتے دیکھ کر، صبر نہیں کر سکتا اور اس پر احتجاج کرگزرتا ہے، مگر ظالم لوگ ہجوم کر کے اسے دبا لیتے ہیں اور اس کا حشر دیکھ کر، بہت سے ان لوگوں کی ہمتیں پست ہو جاتی ہیں، جن کے ضمیر میں ابھی کچھ زندگی باقی ہے۔
یہ حالت اب ختم ہونی چاہیے۔ اگر ہم یہ نہیں چاہتے کہ ہمارا ملک خدا کے عذاب میں مبتلا ہو اور اس عذاب میں نیک و بد سب گرفتار ہو جائیں تو ہمیں کوشش کرنی چاہیے کہ ہمارے اندر جو صالح عناصر، اس اخلاقی وبا سے بچے رہ گئے ہیں، وہ اب مجتمع اور منظم ہوں اور اجتماعی طاقت سے اس بڑھتے ہوئے فتنے کا مقابلہ کریں جو تیزی کے ساتھ، ہمیں تباہی کی طرف لے جا رہا ہے۔
آپ اس سے نہ گھبرائیں کہ یہ صالح عنصر اس وقت بظاہر بہت ہی مایُوس کن اقلیت میں ہے۔ یہی تھوڑے سے لوگ، اگر منظم ہو جائیں، اگر ان کا اپنا ذاتی اور اجتماعی رویہ خالص راستی، انصاف، حق پسندی اور خلوص و دیانت پر مضبوطی کے ساتھ قائم ہو، اور اگر وہ مسائلِ زندگی کا بہتر حل اور دنیا کے معاملات کو درست طریقے پر چلانے کے لیے، ایک اچھا پروگرام بھی رکھتے ہوں، تو یقین جانیے کہ اس منظم نیکی کے مقابلے میں، منظم بدی اپنے لشکروں کی کثرت اور اپنے گندے ہتھیاروں کی تیزی کے باوجود، شکست کھا کر رہے گی۔ انسانی فطرت شرپسند نہیں ہے، اسے دھوکا ضرور دیا جاسکتا ہے، اور ایک بڑی حد تک مسخ بھی کیا جا سکتا ہے، مگر اس کے اندر بھلائی کی قدر کا جو مادّہ خالق نے ودیعت کر دیا ہے، اسے بالکل معدوم نہیں کیا جا سکتا، انسانوں میں ایسے لوگ تھوڑے ہی ہوتے ہیں جو بدی ہی سے دل چسپی رکھتے ہوں اور اس کے علم بردار بن کر کھڑے ہوں، اور ایسے لوگ بھی کم ہوتے ہیں جنھیں نیکی سے عشق ہو اور اسے قائم کرنے کی جدوجہد کریں۔
ان دونوں گروہوں کے درمیان، عام انسان نیکی اور بدی کے ملے جلے رجحانات رکھتے ہیں۔ وہ نہ بدی کے گرویدہ ہوتے ہیں اور نہ نیکی ہی سے انھیں غیرمعمولی دل چسپی ہوتی ہے۔ ان کے کسی ایک طرف جھک جانے کا انحصار تمام تر اس پر ہوتا ہے کہ خیر اور شر کے علم برداروں میں سے، کون آگے بڑھ کر، انھیں اپنے راستے کی طرف کھینچتا ہے۔ اگر خیر کے علم بردار، سرے سے میدان ہی میں نہ آئیں اور ان کی طرف سے عوام الناس کو بھلائی کی راہ پر چلانے کی کوشش ہی نہ ہو، تو لا محالہ میدان علم بردارانِ شرہی کے ہاتھ رہے گا اور وہ عام انسانوں کو اپنی راہ پر کھینچ لے جائیں گے۔ لیکن اگر خیر کے علم بردار بھی میدان میں موجود ہوں، اور وہ اصلاح کی کوشش کا حق ٹھیک ٹھیک ادا کریں تو عوام الناس پر علم بردارانِ شرکا اثر زیادہ دیر تک قائم نہیں رہ سکتا، کیوں کہ ان دونوں کا مقابلہ، آخر کار اخلاق کے میدان میں ہوگا، اور اس میدان میں نیک انسانوں کو، بُرے انسان کبھی شکست نہیں دے سکتے۔ سچائی کے مقابلے میں جھوٹ، ایمان داری کے مقابلے میں بے ایمانی، اور پاک بازی کے مقابلے میں بدکرداری خواہ کتنا ہی زور لگائے، آخری جیت بہرحال سچائی، پاک بازی اور ایمان داری کی ہوگی۔ دُنیا اس قدر بے حس نہیں ہے کہ اچھے اخلاق کی مٹھاس اور بُرے اخلاق کی تلخی کو چکھ لینے کے بعد، آخر کار اس کا فیصلہ یہی ہو کہ مٹھاس سے تلخی زیادہ بہتر ہے۔