ایک مدت سے بعض حضرات نے یہ پروپیگنڈا شروع کر رکھا ہے کہ یتیم پوتے کا اپنے دادا کی میراث سے محروم ہونا قرآن کے خلاف ہے۔ چونکہ وراثت سے یتیم پوتے کی محرومی ایک ایسا مسئلہ ہے جس پر صحابۂ کرام کے دور سے لے کر آج تک تمام امت کے فقہا متفق رہے ہیں اور اس میں حنفی، شافعی، مالکی، حنبلی، ظاہری، اہلِ حدیث، شیعہ وغیرہ گروہوں کے علما میں کوئی اختلاف نہیں پایا جاتا۔ اس لیے اس پروپیگنڈے کے اثرات بڑے دوررس ہیں۔ اگر ایک دفعہ یہ مان لیا جائے کہ یہ مسئلہ قرآن کے خلاف ہے اور دوسری طرف یہ دیکھا جائے کہ اس میں فقہائے امت کے درمیان ایسا مکمل اتفاق ہے تو پھر کوئی شخص بھی اس نتیجے تک پہنچے بغیر نہیں رہ سکتا کہ فقہائے اسلام یا تو قرآن کی سمجھ نہیں رکھتے تھے، یا پھر وہ سب جان بوجھ کر قرآن کی خلاف ورزی پر متفق ہو گئے تھے۔
اس پروپیگنڈے سے متاثر ہو کر اب سے چند سال پہلے ۱؎ چودھری محمد اقبالچیمہ صاحب نے سابق پنجاب اسمبلی میں ایک مسودہ قانون پیش کیا تھا جس کا مقصد اسلامی قانونِ وراثت میں ترمیم کرنا تھا اور اس کی تائید لاہور ہائیکورٹ کے ججوں سے لے کر اضلاع کے ڈپٹی کمشنروں، ڈسٹرکٹ ججوں، سول ججوں، سرکاری محکموں کے اعلیٰ و ادنیٰ عہدے داروں، وکیلوں اور میونسپل کمشنروں کی ایک کثیر تعداد نے کی تھی۔ اس کے بعد سابق چیف جسٹس آف پاکستان میاں عبدالرشید صاحب کی صدارت میں عائلی کمیشن نے اپنی رپورٹ پیش کی اور اس نے بھی اسی ترمیم کے حق میں رائے دی۔ اب آپ کے اخبار میں بعض حضرات نے ازسرنو یہ مسئلہ چھیڑا ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ اس معاملے میں کوئی رائے زنی کرنے سے پہلے لوگ اس کی شرعی حیثیت کو اچھی طرح سمجھ لیں۔