Search
Close this search box.

فہرست موضوعات

عرضِ ناشر
اسلام کی ابتدا (بچوں کے پروگرام میں)
سرورِ عالم ﷺ
میلادُ النبیؐ
سرورِ عالم ﷺ کا اصلی کارنامہ
معراج کی رات
معراج کا پیغام
معراج کا سفرنامہ
شب برأت
روزہ اور ضبطِ نفس
عید قربان
قربانی
پاکستان کو ایک مذہبی ریاست ہونا چاہیے
زندگی بعد موت

نشری تقریریں

اس ویب سائٹ پر آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ اب آپ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمتہ اللہ علیہ کی کتابوں کو ’’پی ڈی ایف ‘‘ کے ساتھ ساتھ ’’یونی کوڈ ورژن‘‘ میں بھی پڑھ سکتے ہیں۔کتابوں کی دستیابی کے حوالے سے ہم ’’اسلامک پبلی کیشنز(پرائیوٹ) لمیٹڈ، لاہور‘‘، کے شکر گزار ہیں کہ اُنھوں نے اس کارِ خیر تک رسائی دی۔ اس صفحے پر آپ متعلقہ کتاب PDF اور Unicode میں ملاحظہ کیجیے۔

پاکستان کو ایک مذہبی ریاست ہونا چاہیے

(یہ ایک مباحثہ ہے جو مئی ۱۹۴۸ئ میں ریڈیو پاکستان لاہور سے نشر ہوا تھا۔ اس مباحثہ میں سائل کی حیثیت سے جناب وجیہ الدین صاحب بول رہے تھے اور مجیب کی حیثیت سے ابوالاعلیٰ مودودی)
س۔ اس بحث کو شروع کرنے سے پہلے غالبًا یہ جان لینا ضروری ہے کہ آپ کے ذہن میں مذہبی ریاست کا کیا تصور ہے؟
م۔ ظاہر بات ہے کہ ایک مسلمان جب مذہب کا لفظ بولے گا تو اسی کے ذہن میں اسلام ہی مراد ہوگا۔ میں جب کہتا ہوں کہ پاکستان کو ایک مذہبی ریاست ہونا چاہیے تو اس سے میرا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اسے ایک اسلامی ریاست ہونا چاہیے۔ یعنی ایک ایسی ریاست جو اخلاق، تہذیب، تمدن، معاشرت، قانون، سیاست اور معیشت کے ان اصولوں پر قائم ہو جو اسلام نے ہم کو دیے ہیں۔
س۔ آپ نے مذہبی ریاست کا جو مفہوم بیان فرمایا ہے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس ریاست کا سیاسی اقتدار ماہرین دینیات کے ایک مخصوص طبقے کے ہاتھ میں ہوگا۔ اس طبقہ کاکام یہ ہوگا کہ وہ سیاسی اور انتظامی امور کے بارے میں اسلامی نقطۂ نظر سے تحقیق و تفتیش کرے، ریاستی قوانین وضع کرے اور شرعی احکامات کی بنا پر ہر سیاسی گتھی کو سجھائے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس طبقے کی پشت پناہ کون لوگ ہوں گے؟ تو آپ جانتے ہی ہیں کہ اقتصادی لحاظ سے ہماری سماج مختلف طبقوں میں منقسم ہے۔ ہر طبقہ اس کوشش میں ہے کہ اپنے مقاصد کے حصول کے لیے مذہبی جواز تلاش کرے اور مذہبی نعروں کو استعمال میں لائے۔ ماہرین دینیات اس طبقات کش مکش سے بے نیاز اور غیر متعلق نہیں رہ سکتے۔ ان کے لیے لازم ہے کہ یا تو وہ عوامی طاقتوں کا ساتھ دیں، یا اپنے آپ کو سرمایہ دارا اور جاگیر دار طبقہ سے وابستہ کردیں۔ اس صورت میں قرآنی اصولوں سے جو بھی تفسیر پیش کی جائے گی وہ ان کے سیاسی رجحان کی آئینہ دار ہوگی۔ مختلف سیاسی خیالات رکھنے والے مفسروں میں اہم ترین مسائل پر شدید ترین اختلاف رائے پیدا ہو جائے گا۔ اقتصادی کشمکش ایک لامتناہی فقیہانہ بحث کی صورت اختیار کرلے گی۔ اور وہ مسائل جن کا مناسب حل ڈھونڈنا اس وقت اشد ضروری ہے جوں کے توں دھرے کے دھرے رہ جائیں گے۔
م۔جس طبقاتی کش مکش کی طرف آپ اشارہ فرما رہے ہیں وہ دراصل پیدا ہی اس لیے ہوئی ہے کہ مدتوں سے غیر اسلامی اثرات کے تحت رہتے رہتے ہمارا معاشرہ اخلاق کی اس روح سے اور انصاف کے ان اصولوں سے محروم ہوگیا ہے جو اسلام نے ہم کو دیے تھے۔ جس مادہ پرستی نے دنیا کے دوسرے معاشرے کو طبقات میں تقسیم کیا اور ان کے درمیان اغراض و مفاد کا تصادم پیدا کیا وہی بدقسمتی سے اب ہمارے معاشرے کو پھاڑنے اور باہم ٹکرا دینے کی دھمکیاں دے رہی ہے۔ ابھی ابھی ہم فرقہ ورانہ کشاکش کے ہولناک نتائج بھگت چکے ہیں اور اس سے لگے ہوئے زخم ابھی بھرے بھی نہیں ہیں۔ اب ہم اس کے لیے تیار نہیں ہیں کہ آپ اپنے آپ کو ان اجتماعی فلسفوں کے حوالہ کر دیں جو ہمارے اندر ایک دوسری جنگ۔ طبقاتی جنگ۔ برپا کر دیں اور ہمیں اس وقت تک امن کی صورت نہ دیکھنے دیں جب تک ہمارا کوئی ایک طبقہ دوسرے طبقوں کو ملیامیٹ نہ کر دے۔ دوسری قوموں نے تو ان اجتماعی فلسفوں کو شاید اس لیے قبول کرلیا کہ ان کے پاس اخلاق اور انصاف کے وہ اصول موجود نہ تھے جو طبقاتی خود غرضیوں کے نشوونما کو روک سکتے اور مختلف عناصر کو ایک عادل برادری میں جمع کر دیتے۔ لیکن ہم خوش قسمتی سے ایک ایسا نظام حیات رکھتے ہیں جو ہمیں اس خطرے سے بچا سکتا ہے۔ ضرورت صرف اس امر کی ہے کہ ہم اپنے اندر سے ان لوگوں کو ابھاریں جو اسلام کی روح کو پوری طرح سمجھتے ہوں اور طبقاتی تعصبات سے بالاتر ہو کر اسلام کے قوانین کی بے لاگ تعبیر کرسکتے ہوں۔ پھر یہ لوگ بالاتفاق، یا اکثریت کے ساتھ، جو تعبیر ہمارے سامنے پیش کریں اسے ہم سب مان لیں اور ہم میں سے کوئی طبقہ اپنے ہی مطلب کی تعبیر لینے پر اصرار نہ کرے۔ ایسے لوگوں کی پشت پناہی ساری قوم کو بحیثیت مجموعی کرنی چاہیے نہ کہ کسی ایک طبقے یا طبقوں کو ہمیں ان کے انتخاب میں صرف اس معیار کو ملحوظ رکھنا چاہیے کہ وہ بھروسے کے قابل سیرت رکھتے ہوں، اور اسلام کی صحیح تعبیر کے اہل ہوں۔ (وقت کی کمی کے باعث سائل کو اس شبہ کا تفصیلی جواب نہ دیا جاسکا کہ اسلامی ریاست کو چلانا کسی مخصوص ’’مذہبی طبقے‘‘ کاکام ہوگا۔ سائل نے یہ شبہ ’’مسیحی تھیاکریسی‘‘ اور ’’پاپائی نظام‘‘ اور ’’پریسٹ ہڈ‘‘ سے اخذ کیا تھا اور اس کا تفصیلی جواب ریڈیو کی مختصر گفتگو میں ممکن نہ تھا۔ یہاں اشارۃً صرف اتنا ہی بتانے پر اکتفا کیا گیا ہے کہ اسلامی ریاست کے چلانے والے لوگوں کو عوام الناس اپنے ووٹوں سے منتخب کریں گے اور یہ انتخاب ان کی سیرت اور قابلیت کے لحاظ سے ہوگا نہ کہ کسی ’’طبقہ‘‘ کی رکنیت کے لحاظ سے۔ اس مسلہ پر تفصیل کے لیے مصنف کی تالیف ’’اسلامی ریاست‘‘ حصہ اول مطبوعہ اسلامک پبلی کیشنز لمیٹڈ لاہور مطالعہ فرمائیے)
س۔ میری ناچیز رائے میں سیاسی نظام کے مرتب کرنے میں صرف خلوص اور ایمانداری ہی سے کام نہیں چل سکتا ہمارے سامنے اس وقت بہت سے پیچیدہ سیاسی اور معاشی مسائل ہیں جن پر سنجیدہ غور و فکر کی ضرورت ہے۔ ذرائع پیداوار کو قومی ملکیت قرار دیا جائے یا شخصی ملکیت؟ ریاست میں ایک ہی سیاسی پارٹی ہونی چاہیے یا ایک سے زیادہ سیاسی پارٹیوں کا ہونا جمہوریت کے لیے ضروری ہے؟ مزدوروں کو ہڑتال کا حق ہونا چاہیے یا نہیں؟ وغیرہ وغیرہ۔ آپ ان گتھیوں کو مذہبی پیشوائوں کے حوالہ کر دیجیے، آپ دیکھیں گے کہ وہ کسی فیصلہ کن نتیجے پر نہیں پہنچ سکتے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہی ہے کہ ریاست کی تعمیر کے لیے فقیہانہ تحقیق و تجسس اور مذہبی کتب کی چھان بین کے بجائے سیاسی تجزیے اور تاریخی شعور کی ضرورت ہے۔ اس سلسلہ میں دینیات کے ماہروں کی بہ نسبت سیاسیات اور اقتصادیات کے ماہرین ہماری بہتر رہنمائی کرسکتے ہیں۔
م۔ آپ جب ’’دینیات‘‘ کا لفظ بوتے ہیں تو شاید ’’دنیویات‘‘ کو اس سے خارج کر دیتے ہیں۔ اسی لیے آپ کو بجا طور پر یہ اندیشہ ہوا کہ اگر ہم نے اپنے سیاسی اور معاشی مسائل کا حل ان ’’ماہرین دینیات‘‘ کے حوالہ کر دیا جو دنیویات سے ناواقف ہیں تو ہمارا کوئی مسئلہ بھی حل نہ ہوسکے گا۔ لیکن آپ ذرا اس پہلو پر بھی غور فرمائیں کہ اگر ہم نے اپنے تمدن، اپنی سیاست اور اپنی معیشت کے مسائل ان ’’ماہرین دنیویات‘‘ کے حوالہ کیے جو مغربی نظریات و عملیات سے واقف ہیں اور اسلامی تعلیمات سے کوئی مس نہیں رکھتے تو ہم کہاں پہنچیں گے۔ آپ کہتے ہیں کہ یہ لوگ ماہرین دینیات کی بہ نسبت ہماری بہتر رہنمائی کرسکیں گے لیکن مجھے اندیشہ ہے کہ یہ رہنمائی ہمیں اسی منزل پر لے جائے گی جس پر آج دنیا کی بڑی بڑی قومیں پہنچ چکی ہیں، یعنی گھر کے اندر طبقاتی خود غرضیوں کی کشاکش اور گھر کے باہر بین الاقوامی خود غرضیوں کی کھینچ تان، کیا اس سے بہتر یہ نہ ہوگا کہ ہم اپنی قوم میں ان لوگوں کو تلاش کریں جو دین اور دنیا، دونوں کو اچھی طرح جانتے ہوں، جن کی نگاہ قرآن و حدیث کی تعلیمات پر اور سیاسیات و معاشیات وغیرہ کے مسائل پر یکساں ہو، اور وہ سر جوڑ کر ہماری گتھیوںں کا ایسا حل پیش کریں جو ہماری قومی زندگی کو ساری دنیا کے لیے قابل تقلید نمونہ بنا دے۔(وقت کی کمی کے سبب سے ان اقتصادی مسائل پر روشنی نہیں ڈالی جاسکتی جنہیں سائل نے اپنے سوال میں چھیڑا تھا۔ ان مسائل پر تفصیلی گفتگو کے لیے ملاحظہ ہو۔ مصنف کی کتاب ’’سود‘‘ اور ’’انسان کا معاشی مسئلہ اور اس کا اسلامی حل‘‘ مطبوعہ اسلامک پبلی کیشنز لمیٹڈ، لاہور)
س۔ ریاست پاکستان کو اسلامی شریعت کے مطابق تنظیم دینے اور شرعی احکامات کا موجودہ حالات پر اطلاق کرنے میں ہمیں ایک اور مشکل پیش آئے گی۔ ہم بسا اوقات مذہبی احکامات کی روح کو فراموش کر دیتے ہیں اور ان کی لفظی حیثیت ہمارے پیش نظر رہتی ہے۔ اس طرح وسائل اور مقاصد ایک دوسرے سے خلط ملط ہو کر رہ جاتے ہیں۔ سود ہی کو لیجیے۔ سود کو ناجائز قرار دینے کا مقصد یہی تھا کہ اقتصادی استحصال کو روکا جائے۔ اسی طرح اجارہ، احتکار اور چور بازاری کی مخالفت کی گئی۔ لیکن جائز تجارت کو روا رکھا گیا، کیونکہ اس زمانے میں سرمایہ داری نظام ابھی طفولیت کی حالت میں تھا اور صنعتی سرمایہ کی طرح ظلم و استبداد کا آلہ نہ تھا۔ آج حالات بدل چکے ہیں۔ آج بیرونی تجارت کا مفہوم یہ ہے کہ سامراجی نظام کو تقویت دی جائے اور دوسری قوموں کو اقتصادی اور سیاسی طور پر محکوم بنایا جائے۔ جائز اور ناجائز تجارت کا فرق مٹ چکا ہے۔ لیکن ہمارے علمائ جب اقتصادیات پر فتویٰ لگاتے ہیں تو وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ موجودہ اقتصادی نظام میں مہاجنی سود کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ غربت اور بدحالی اس شے کی پیداوار ہے جسے وہ جائز قرار دیتے ہیں، یعنی صنعتی سرمایہ داری اور بینکنگ۔
م۔ یہ خرابی جس کا آپ سے ذکر فرما رہے ہیں ہر اس جگہ پیدا ہو جاتی ہے۔ جہاں قانون کے منشا اور اس کی روح کو چھوڑ کر صرف اس کے الفاظ لے لیے جاتے ہیں۔ کہیں یہ خرابی علم اور بصیرت کی کمی کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے اور کہیں اس وجہ سے کہ لوگ اپنی اغراض کے لیے قانون کی روح سے بغاوت کرنا چاہتے ہیں مگر ظاہر داری کو قائم رکھنے کے لیے قانون کی شکل بدلنے سے احتراز کرتے ہیں۔ ہمیں اس خرابی سے اگر کوئی چیز بچا سکتی ہے تو وہ صرف یہ کہ عام مسلمانوں میں اسلام کا شعور اور اس کی واقعی پیروی کا ارادہ موجود ہو۔ یہ چیز جب موجود ہوگی تو وہ اسلامی قوانین کی تعبیر کے لیے اپنے اندر سے انہی لوگوں کو منتخب کریں گے جو قرآن و سنت کے محض الفاظ ہی نہ جانتے ہوں بلکہ ان کی روح کو بھی سمجھتے ہوں۔ ۱؎
س۔ شریعت کے مفسرین اور شارحین میں سیاسی اختلافات کے علاوہ جو خالصتہً مذہبی اختلافات ہیں۔ اس کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟ کیا آپ کی نظر میں یہ اختلافات کے سیاسی اور سماجی نظام کا تصور قائم کرنے میں رکاٹ نہ ڈالیں گے؟
م۔ ان اختلافات کی نوعیت وہی کچھ ہے جو ہمارے دوسرے اختلافات کی ہے۔ اور انہیں بھی ہم اسی طرح حل کرسکتے ہیں جس طرح دوسرے اختلافات کو حل کیا کرتے ہیں۔ کوئی معاشرہ جو انسانوں پر مشتمل ہو، ایسا نہیں ہوسکتا جس میں زندگی کے مختلف مسائل کے متعلق مختلف نظریے نہ پائے جاتے ہوں لیکن ان اختلافات کو کہیں بھی ایسی رکاوٹ بننے کی کی اجازت نہیں دی جاتی کہ وہ زندگی کی گاڑی کو آگے چلنے ہی نہ دیں۔ اختلافات کو حل کرنے کا جمہوری طریقہ یہ ہے کہ ریاست کا نظام اس نقطۂ نظر کے مطابق چلایا جائے جس کو اکثریت قبول کرتی ہو، اور قلیل التعداد گروہوں کے نقطۂ نظر کی زیادہ سے زیادہ اتنی رعایت کی جائے جس کی اصول میں گنجائش ہو۔ نیز اقلیت کی حیثیت سے ان کے حقوق کا منصفانہ تحفظ کر دیا جائے۔ ہم کوشش کریں گے کہ پاکستان کی ریاست اسلام کے ان وسیع ترین اصولوں پر قائم ہو جن پر مسلمانوں کے درمیان زیادہ سے زیادہ اتفاق پایا جاتا ہے۔ تاہم کچھ ایسے گروہ باقی رہ سکتے ہیں جو اس وسیع ترین اصولوں میں بھی اکثریت کے ساتھ متفق نہ ہوں۔ اس صورت میں ہم کو وہی جمہوری طریقہ اختیار کرنا پڑے گا جس کا ابھی میں ذکر کر چکا ہوں ورنہ یہ بالکل ایک عجیب بات ہوگی کہ ہم سب غیر اسلام پر اس لیے اتفاق کرلیں کہ اسلام پر ہم متفق نہ ہوسکے۔
س۔ مسلمانوں کے اندرونی اختلافات کے علاوہ ریاست پاکستان میں اقلیتوں کا مسئلہ بھی قابل غور ہے۔ آپ کس طرح ان کو اس بات پر راضی کرسکتے ہیں کہ وہ مسلمانوں کی مذہبی ریاست کا قیام گوارا کرلیں اور اس کے وفادار ہیں؟
م۔ اس گتھی کا حل بھی وہی ہے جو مسلمانوں کے اندرونی اختلافات کا ہے جمہوری طریقہ پر ایک ملک کا نظام انہی اصولوں کے مطابق بنتا اور چلتا ہے جو اکثریت کی رائے میں صحیح ہوں۔ اقلیت یہ مطالبہ ضرور کرسکتی ہے کہ اس کے نقطۂ نظر پر بھی غور کیا جائے، نیز یہ کہ اس کے حقوق شہریت اور اس کے پرسنل لا کو محفوظ رکھا جائے۔ لیکن ازروئے انصاف وہ یہ مطالبہ نہیں کرسکتی کہ اکثریت اس کی خاطر اپنی رائے بدل دے۔ اس ملک کی اکثریت ایمانداری کے ساتھ یہ رائے رکھتی ہے کہ اسلام کے اصولوں کی پیروی میں پاکستان کے باشندوں کی فلاح ہے۔ اقلیت اس سے اپنے حقوق کا تحفظ مانگ سکتی ہے، مگر یہ کہنے کا اسے حق نہیں ہے کہ اکثریت اسلام کے بجائے کچھ دوسرے اصولوں میں اپنی فلاح تلاش کرے۔ رہا وفاداری کا سوال تو حقیقت یہ ہے کہ وفاداری کا تعلق کسی ریاست کے مذہبی یا غیر مذہبی ہونے سے نہیں ہے، بلکہ وہ انصاف شرافت اور فیاضی پر منحصر ہے جو اکثریت کی طرف سے اقلیت کے ساتھ برتی جائے۔ آپ اقلیت کو محض اس ریاکاری سے مطمئن نہیں کرسکتے کہ دیکھو ہم نے تمہاری خاطر اپنے مذہب تک کو چھوڑ دیا اور ایک غیر مذہبی ریاست بنالی۔ اقلیت تو یہ دیکھے گی کہ آپ اس کے ساتھ انصاف کرتے ہیں یا نہیں؟ آپ کا برتائو تعصب اور تنگ دلی پر مبنی ہے یا رواداری اور فیاضی پر؟ یہی تجربہ دراصل فیصلہ کرے گا کہ اقلیت کو اس ریاست میں وفادار بن کر رہنا ہے یا بیزار بن کر۔
س۔ میری رائے میں ہر ملک کا سیاسی نظام اس کے باشندوں کے رسم و رواج، اخلاق، عادات و خصائل اور اعتقادات و توہمات کا پر تو ہوتا ہے۔ ریاستی نظام بجائے خود کسی فلسفے یا مذہب کا حامل نہیں ہوسکتا۔ اگر اسے ایسا بنانے کی کوشش کی جائے تو وہ ایک مصنوعی اور عارضی کوشش ہوگی۔ قدیم یونان کی شہری ریاست افلاطون کے تخیل کی پیداوار نہیں تھی بلکہ اس انداز فکر اور فلسفہ زندگی کی پیداوار تھی جو یونان کے باشندوں میں مشترک تھا۔ اسی طرح اگر ہم اسلامی ریاست کی تعمیر چاہتے ہیں تو ہمیں چاہے کہ پاکستان کے باشندوں میں صحیح اسلامی سپرٹ پیدا کریں اور انہیں دین کی اصلی اقدار سے روشناس کرائیں۔ جب یہ اقدار مضبوط ہو جائیں گی اور ہمارے قومی کیرکٹر میں اسلامی تصورات پوری طرح سرایت کر جائیں گے، اس وقت ہمارا سیاسی نظام خود بخود اسلامی رنگ اختیار کرلے گا۔ ہم اس وقت تک اسلامی ریاست کی داغ بیل نہیں ڈال سکتے جب تک ہماری روحانی، شخصی اور سماجی زندگی میں اسلامی روایات پوری تابندگی سے جلوہ گر نہ ہوں۔ میری نظر میں وہ وقت ابھی دور ہے جب ہم مکمل طور پر اسلامی تصورات کو قبول کریں گے اس لیے اسلامی ریاست کو قائم کرنےکی تمام کوششیں پیش از وقت ہیں ہماری بنیادیں ابھی اتنی استوار نہیں ہیں کہ ہم ان پر ایک عمارت کھڑی کرسکیں۔
م۔ آپ نے سچ فرمایا کہ ایک ملک کا سیاسی نظام اس کے باشندوں کی اخلاقی اور ذہنی حالت کا پر تو ہوا کرتا ہے۔ اب اگر پاکستان کے باشندے اسلام کی طرف ایک پر زور میلان رکھتے ہیں اور ان کے اندر اسلام کے راستے پر آگے بڑھنے کی خواہش موجود ہے تو کیوں نہ ان کی قومی ریاست ان کے اس میلان اور اس خواہش کا پرتو ہو؟ آپ کا یہ ارشاد بھی بالکل درست ہے کہ اگر ہم پاکستان کو ایک اسلامی ریاست بنانا چاہتے ہیں تو ہمیں پاکستان کے باشندوں میں اسلامی شعور، اسلامی ذہنیت اور اسلامی اخلاق پیدا کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ مگر میں نہیں سمجھا کہ اس کوشش میں حصہ لینے سے آپ خود ریاست کو کیوں مستثنیٰ رکھنا چاہتے ہیں۔ ۱۵۔ اگست ۷۴ئ؁ سے پہلے کی صورت حال تو یہ تھی کہ ہمارے اوپر ایک غیر مسلم اقتدار مسلط تھا، اس جہ سے ہم اسلامی خطوط پر اپنی ملت کی تعمیر میں ریاست اور اس کی طاقتوں اور اس کے ذرائع سے کوئی مدد نہیں پارہے تھے، بلکہ درحقیقت اس وقت ریاست کا پورا ارادہ اپنے زور سے ہمیں ایک دوسری طرف کھینچے لیے جارہا تھا اور ہم انتہائی ناسازگار حالات میں اسلامی زندگی کی تعمیر کے لیے جدوجہد کر رہے تھے۔ اب جو سیاسی انقلاب ۱۵ اگست کو رونما ہوا ہے اس کے بعد ہمارے سامنے یہ سوال پیدا ہوگیا ہے کہ آیا اب ہماری قومی ریاست اسلامی زندگی کی تعمیر میں وہ حصہ لے گی جو ایک معمار کا حصہ ہوتا ہے؟ یا وہ طرز عمل اختیار کرے گی جو ایک بے نیاز غیر جانبدار کا ہوا کرتا ہے؟ یا اب بھی وہی پچھلی صورت حال برقرار رہے گی کہ ہمیں حکومت کی مدد کے بغیر ہی نہیں بلکہ اس کی مزاحمت کے باوجود اسلامی زندگی کی تعمیر کاکام کرنا ہوگا؟ اس وقت چونکہ پاکستان کا آئندہ نظام زیر تشکیل ہے اس لیے ہم چاہتے ہیں کہ ایسی ریاست بن جائے جو اسلامی زندگی کی معمار بن سکے۔ ہماری یہ خواہش اگر پوری ہوگئی تو ریاست کے وسیع ذرائع اور طاقتوں کو استعمال کرکے پاکستان کے باشندوں میں ذہنی اور اخلاقی انقلاب برپا کرنا بہت زیادہ آسان ہو جائے گا۔ پھر جس نسبت سے ہمارا معاشرہ بدلتا جائے گا اسی نسبت سے ہماری ریاست بھی ایک مکمل اسلامی ریاست بنتی چلی جائے گی۔
۱۸، مئی ۱۹۴۸ئ؁

شیئر کریں