بعض لوگوں کو یہ غلط فہمی بھی ہے کہ اسلام میں زکوٰۃ اور خراج کے سوا کوئی ٹیکس نہیں ہے۔ حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے واضح طور پر فرمایا ہے کہ اِنَّ فِی الْمَالِ حقًّا سِویٰ الزَّکٰوۃِ۔ ’’لوگوں کے مال میں زکوٰۃ کے علاوہ بھی ایک حق ہے۔‘‘ دراصل جن ٹیکسوں کو شریعت میں ناروا قرار دیا گیا ہے وہ قیصروں اور کسرائوں اور ان کے امراء کے لگائے ہوئے وہ ٹیکس تھے جنھیں بادشاہ اور امیر کی ذاتی ملک بنا لیا جاتا تھا اور جن کی آمد و خرچ کا حساب دینے کے وہ ذمہ دار نہ تھے ۔ رہے وہ ٹیکس جو شوریٰ کے طریقے پر چلنے والی حکومت لوگوں کی مرضی اور مشورے سے لگائے، جن کی آمدنی پبلک کے خزانے میں جمع ہو، جن کو خرچ بھی لوگوں کے مشورے سے کیا جائے، اور جن کا حساب دینے کی حکومت ذمہ دار ہو ۔ تو ایسے ٹیکس عائد کرنے پر شریعت میں قطعاً کوئی پابندی نہیں ہے۔ اگر معاشرے میں اسلامی حکومت کے قیام سے پہلے کوئی بے جا اونچ نیچ پیدا ہو چکی ہو، یا حرام طریقوں سے کمائی ہوئی دولت بعض طبقوں نے بے تحاشا فراہم کرلی ہو، تو ایک اسلامی حکومت ضبطی جائیداد کے طریقے اختیار کرنے کے بجائے ٹیکس عائد کر کے اس بیماری کا مداوا کرسکتی ہے اور دوسرے اسلامی قوانین کی مدد سے دولت کے اس ارتکاز کو ختم کرسکتی ہے۔ ضبطی جائیداد کا طریقہ استعمال کرنے کے لیے حکمرانوں کو ایسے جابرانہ اختیارات دینا ناگزیر ہو جاتا ہے جنھیں پا کر وہ کسی حد پر روکے نہیں جاسکتے اور ایک ظلم کی جگہ اس سے بدتر ظلم قائم ہو جاتا ہے۔