مرزبوم کے اِشتِراک کی حقیقت اس سے زیادہ موہوم ہے، انسان جس جگہ پیدا ہوتا ہے اس کا رقبہ یقینًا ایک گز مربع سے زیادہ نہیں ہوتا۔ اس رقبہ کو اگر وہ اپنا وطن قرار دے تو شاید وہ کسی ملک کو اپنا وطن نہیں کَہ سکتا۔ لیکن وہ اس چھوٹے سے رقبہ کے گرد میلوں اور کوسوں اور بسااوقات سینکڑوں اور ہزاروں میل تک ایک سرحدی خط کھینچ دیتا ہے اور کہتا ہے کہ وہاں تک میرا وطن ہے اور اس سے باہر جو کچھ ہے اس سے میرا کوئی تعلق نہیں۔ یہ محض اس کی نظر کی تنگی ہے، ورنہ کوئی چیز اسے تمام روئے زمین کو اپنا وطن کہنے سے مانع نہیں ہے۔ جس دلیل کی بنا پر وہ پھیل کر پورا کرئہ ارضی بھی بن سکتا ہے۔ اگر آدمی اپنے زاویۂ نظر کو تنگ نہ کرے تو وہ دیکھ سکتا ہے کہ یہ دریا اور پہاڑ اور سمندر وغیرہ جن کواس نے محض اپنے خیال میں حدودِ فاصل قرار دے کر ایک زمین اور دوسری زمین کے درمیان فرق کیا ہے، سب کے سب ایک ہی زمین کے اجزاء ہیں۔ پھر کس بنا پر اس نے دریائوں اور پہاڑوں اور سمندروں کو یہ حق دے دیا کہ وہ اسے ایک خاص خطہ میں قید کردیں؟ وہ کیوں نہیں کہتا کہ میں زمین کا باشندہ ہوں، ساراکرئہ زمین میرا وطن ہے، جتنے انسان ربع مسکون میں آباد ہیں، میرے ہم وطن ہیں۔ اس پورے سیارے پر مَیں وہی پیدائشی حقوق رکھتا ہوں جو اس گزبھر زمین پر مجھے حاصل ہیں جہاں مَیں پیدا ہوا ہوں؟