کسی ملک میں نیشنلزم پیدا ہونے کے لیے ضروری ہے کہ وہاں پہلے سے ایک قومیت موجود ہو یا اگر وہ پہلے سے موجود نہیں ہے تو اب وجود میں آئے کیونکہ جہاں قومیت ہی سرے سے موجود نہ ہو وہاں قوم پرستی کسی طرح پیدا نہیں ہوسکتی۔ قوم پرستی تو قومیت کے استعمال ہی کا دوسرا نام ہے۔ جب شعلہ ہی موجود نہ ہوگا تو اشتعال کیسے ہوگا؟
اب دیکھنا چاہیے کہ قوم پرستی کا شعلہ بھڑکنے کے لیے کس قسم کی قومیت درکار ہے۔
قومیت کی ایک قسم وہ ہے جسے سیاسی قومیت (Political Nationality) کہتے ہیں، یعنی جو لوگ ایک سیاسی نظام سے وابستہ ہوں وہ محض اس وحدت سیاسی کے لحاظ سے ایک قوم سمجھے جاتے ہیں۔ اس نوع کی قومیت کے لیے یہ ضروری نہیں ہے کہ جو لوگ اس میں شریک ہوں ان کے جذبات و حسیات ان کے خیالات و نظریات ان کے اَخلاقی خصائص ان کی روایات ان کی زبان اور لٹریچر اور ان کے طرزِ زندگی میں کسی قسم کی یکسانی پائی جائے۔ ان تمام حیثیات سے بالکل مختلف ہونے کے باوجود ان کی ایک سیاسی قومیت ہوتی ہے اور اس وقت تک رہتی ہے جب تک کہ وہ ایک سیاسی نظام سے وابستہ رہیں۔ اگر ان کے مختلف گروہ آپس میں باہم متضاد ہوں اور وہ ایک دوسرے کے خلاف عملاً جدوجہد کر رہے ہوں تب بھی ان کی سیاسی قومیت ایک ہی رہتی ہے… قومیت کا لفظ ایسی وحدت کے لیے بولا ضرور جاتا ہے مگر ظاہر ہے کہ یہ وہ قومیت نہیں ہے جس کی بنیاد پر کہیں قوم پرستی پیدا ہوسکتی ہو۔
دوسری قسم کی قومیت وہ ہے جسے تہذیبی قومیت (Cultural Nationality) کہا جاتا ہے۔ یہ قومیت صرف ان لوگوں میں پائی جاتی ہے جن کا مذہب ایک ہو، جن کے خیالات و نظریات اور جذبات و حسیات یکساں ہوں جن میں ایک ہی طرح کے اَخلاقی اوصاف پائے جاتے ہوں، جو زندگی کے تمام اہم معاملات میں ایک مشترک زاویۂ نگاہ رکھتے ہوں اور اسی زاویۂ نگاہ کے اثر سے ان کی زندگی کے تہذیبی و تمدُّنی مظاہر میں بھی یک رنگی پیدا ہوگئی ہو، جو پسندیدگی اور حُرمت و حلت اور تقدیس و استکراہ کے مشترک معیار رکھتے ہوں جو ایک دوسرے کے احساسات کو سمجھتے ہوں جن میں آپس کی شادی بیاہ اور مشترک معاشرت کی وجہ سے خونی اور قلبی رشتے پیدا ہوگئے ہوں جنھیں ایک قسم کی تاریخی روایات حرکت میں لاسکتی ہوں، مختصر یہ کہ جو ذہنی، روحانی، اَخلاقی اور تمدُّنی و معاشرتی حیثیت سے ایک گروہ، ایک جماعت، ایک وحدت بن گئے ہوں… قوم پرستی اگر پیدا ہوسکتی ہے تو صرف اسی قومیت کی بنیاد پر ہوسکتی ہے جن لوگوں میں یہ قومیت پائی جاتی ہے۔ صرف انھی کے درمیان ایک مشترک نیشنل ٹائپ اور ایک مشترک نیشنل آئیڈیا کا نشوونما ہوتا ہے۔ اسی نیشنل ٹائپ کے عشق اور نیشنل آئیڈیا کے استحکام سے نیشنلزم کا آغاز ہوتا ہے۔ یہی چیز آگے بڑھ کر وہ قومی خودی (Nationalself) پیدا کردیتی ہے جس میں فرد اپنی انفرادی خودی کو جذب کرنے کے لیے تیار ہوجاتا ہے۔ پھر جب قومی خودی کے ارتقاء میں کوئی واقعی یا خیالی چیز مانع ہوتی ہے تو اس کو دفع کرنے کے لیے وہ جذبہ مشتعل ہوتا ہے جس کا نام نیشنلزم ہے۔