سرسری نظر میں جو شخص نیشنلزم کے معنی اور اس کی حقیقت پر غور کرے گا اس سے یہ بات چھپی نہیں رہ سکتی کہ اسلام اور نیشنلزم، دونوں اسپرٹ اور اپنے مقصد کے لحاظ سے ایک دوسرے کی ضد ہیں۔ اسلام کا خطاب انسان من حیث الانسان سے ہے۔ وہ سارے انسانوں کے لیے ایک اعتقادی و اَخلاقی بنیاد پر عدل اور تقویٰ کا ایک اجتماعی نظام پیش کرتا ہے اور سب کو اس کی طرف بلاتا ہے۔ پھر جواس نظام کو قبول کرلےاسے مساویانہ حقوق کے ساتھ اپنے دائرے میں لے لیتا ہے۔ اس کی عبادات میں، اس کی معیشت میں، اس کی سیاست میں، اس کی معاشرت میں، اس کے قانونی حقوق اور فرائض میں غرض اس کی کسی چیز میں بھی ان لوگوں کے درمیان کسی قسم کی قومی یا نسلی یا جغرافی یا طبقاتی تفریقات کی گنجائش نہیں جو اسلام کے مسلک کی پیروی اختیار کرلیں۔ اس کا منتہائے نظر ایک ایسی جہانی ریاست (world state) ہے جس میں نسلی اور قومی تعصبات کی زنجیریں توڑ کر تمام انسانوں کو مساوی حقوق اور مساوی مواقع، ترقی کے ساتھ ایک تمدنی و سیاسی نظام میں حصہ دار بنایا جائے اور مخالفانہ مقابلہ کی جگہ دوستانہ تعاون پیدا کیا جائے تاکہ لوگ ایک دوسرے کی مادی خوش حالی اور روحانی ترقی میں مددگار ہوں۔ اسلام انسانی فلاح کے لیے جو اصول اور جو نظامِ حیات پیش کرتا ہے وہ عام انسانوں کو اپیل ہی اس وقت کرے گا جب کہ ان کے اندر جاہلیت کے تعصبات نہ ہوں، اور وہ اپنی قومی روایات کی وابستگی سے، نسلی تفاخر کے جذبات سے، خونی اور خاکی رشتوں کی محبت سے پاک ہوکر محض انسان ہونے کی حیثیت سے یہ جانچنے کے لیے تیار ہوں کہ حق کیا ہے، عدل و انصاف اور راستی کس چیز میں ہے، ایک طبقہ یا ایک قوم یا ایک ملک کی نہیں بلکہ مجموعی حیثیت سے انسان کی فلاح کا راستہ کون سا ہے؟
برعکس اس کے نیشنلزم انسان اور انسان کے درمیان اس کی قومیت کے لحاظ سے تمیز کرتا ہے۔ نیشنلزم کے معنی ہی یہ ہیں کہ ہرقوم کا نیشنلسٹ اپنی قومیت کو دوسری تمام قومیتوں پر ترجیح دے۔ اگر وہ جفاکار قوم پرست (Aggressiven Nationalist) نہ ہو تب بھی قوم پرستی کا کم سے کم تقاضا یہ ہے کہ وہ تمدنی، معاشی، سیاسی اور قانونی حیثیت سے ’’قو می‘‘ اور ’’غیرقومی‘‘ میں فرق کرے۔ قومی مفاد کے لیے معاشی امتیازات کی دیواریں کھڑی کرے۔ جن تاریخی روایات اور روایتی تعصبات پر اس کی قومیت قائم ہے ان کی سختی کے ساتھ حفاظت کرے اور اپنے اندر قومی تفاخر کے جذبات پرورش کرے۔ وہ دوسری قومیت کے لوگوں کو مساوات کے اصول پر زندگی کے کسی شعبہ میں بھی اپنے ساتھ شریک نہ کرے گا جہاں اس کی قوم دوسروں کے مقابلہ میں زیادہ فوائد و منافع سے متمتع ہو رہی ہو، یا ہوسکتی ہو، وہاں عدل و انصاف کے لیے اس کا دل اندھا ہوجائے گا۔ اس کا منتہائے نظر جہانی ریاست کے بجائے قومی ریاست (National State) ہوگا، اور اگر وہ کوئی جہانی نظریہ اختیار کرے گا بھی تو اس کی صورت لازماً امپریلزم یا قیصریت کی صورت ہوگی، کیوں کہ اس کے اسٹیٹ میں دوسری قومیتوں کے لوگ کسی طرح برابر کے حصہ دار کی حیثیت سے داخل نہیں ہوسکتے، بلکہ صرف غلام کی حیثیت ہی سے داخل ہوسکتے ہیں۔
ان دونوں مسلکوں کے اصول، مقاصد اور روح کا یہ محض ایک سرسری سا خاکہ ہے جس کو دیکھ کر بآسانی اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ یہ دونوں مسلک ایک دوسرے کی ضد ہیں۔ جہاں نیشنلزم ہے وہاں اسلام کبھی پھل پھول نہیں سکتا، اور جہاں اسلام ہے وہاں نیشنلزم کے لیے کوئی جگہ نہیں۔ نیشنلزم کی ترقی کے معنی یہ ہیں کہ نیشنلزم جڑ بنیاد سے اُکھاڑ دیا جائے۔ اب یہ ظاہر ہے کہ ایک شخص ایک وقت میں ان دونوں میں سے کسی ایک ہی کی ترقی کا حامی ہوسکتا ہے۔ یہ کسی طرح ممکن نہیں کہ وہ بیک وقت دونوں کشتیوں پر سوار رہ سکے۔ ایک مسلک کی پیروی کا دعویٰ کرنا اور پھر ساتھ ہی اس کے بالکل مخالف مسلک کی حمایت و وکالت کرنا صاف طور پر نظر کے الجھائو اور ذہن کی پراگندگی کا پتہ دیتا ہے، اور جو لوگ ایسی باتیں کرتے ہیں ان کے متعلق مجبوراً ہمیں یہ رائے قائم کرنی پڑتی ہے کہ وہ یا تو اسلام کو نہیں سمجھتے، یا نیشنلزم کو، یا دونوں سے ناواقف ہیں۔