Search
Close this search box.

فہرست موضوعات

عرضِ ناشر
قرار داد
ضمیمہ
تقریر
نکتۂ اوّل
نکتۂ دوم
نکتۂ سوم
نکتۂ چہارم
نکتۂ پنجم
نکتۂششم
نکتۂ ہفتم
نکتۂ ہشتم
نکتۂ نہم ودہم

تحریک اسلامی کا آئندہ لائحہ عمل

اس ویب سائٹ پر آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ اب آپ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمتہ اللہ علیہ کی کتابوں کو ’’پی ڈی ایف ‘‘ کے ساتھ ساتھ ’’یونی کوڈ ورژن‘‘ میں بھی پڑھ سکتے ہیں۔کتابوں کی دستیابی کے حوالے سے ہم ’’اسلامک پبلی کیشنز(پرائیوٹ) لمیٹڈ، لاہور‘‘، کے شکر گزار ہیں کہ اُنھوں نے اس کارِ خیر تک رسائی دی۔ اس صفحے پر آپ متعلقہ کتاب PDF اور Unicode میں ملاحظہ کیجیے۔

نکتۂ ہفتم

اس کے بعد مجھے قرارداد کے ساتویں نکتے پر بحث کرنی ہے جس کا ماحصل یہ ہے کہ اس دس سال کی جدوجہد سے جو نتائج حاصل ہوئے ہیں۔ ان کے بعد لائحہِ عمل کے کسی جز کو ساقط یا معطل یا مؤخر کرنے کا کوئی سوال پیدا نہیں ہوتا۔ دستور میں دینی نظام کے جو بنیادی اصول اس قدر طویل کش مکش کے بعد منوائے گئے ہیں اب اصل کام انھیں ملک کے نظام میں عملاً نافذ کرانا ہے اور ان کا نفاذ بہرحال قیادت کی تبدیلی پر منحصر ہے۔ اس موقع پرایک صالح قیادت صرف اسی طرح بروئے کار لائی جا سکتی ہے کہ ہم اپنے لائحہ عمل کے چاروں اجزا پر بیک وقت کام کریں اور توازن کے ساتھ ان چاروں گوشوں میں کام کرتے ہوئے اس طرح آگے بڑھیں کہ افکار کی تعمیر وتطہیر، صالح افراد کی تنظیم اور معاشرے کی اصلاح کا جتنا جتنا کام ہوتا جائے اسی نسبت سے ملک کے سیاسی نظام میں دین کے حامی عنصر کا نفوذ واثر بھی بڑھتا جائے اور سیاسی نظام میں حامی دین عنصر کا نفوذواثر جتنا جتنا بڑھتا جائے اسی قدر زیادہ قوت کے ساتھ تطہیر وتعمیر افکار اور تنظیم عناصر صالحہ اور اصلاح معاشرہ کا کام انجام دیا جائے۔ اس مرحلے پر لائحہِ عمل کے کسی جزو کو ساقط کرنا کیا معنی، مؤخر کرنا بھی قابلِ تصور نہیں ہے۔
بحث کو مختصر کرنے کے لیے ابتدا ہی میں یہ واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ جہاں تک لائحہِ عمل کے پہلے تین اجزا کا تعلق ہے جماعت میں کسی ایک شخص کا بھی یہ خیال نہیں ہے کہ ان میں سے کسی کو ساقط یا معطّل یا مؤخر کیا جائے اس لیے اس پر گفتگو کرنے کی سرے سے کوئی حاجت نہیں ہے۔ البتہ بعض لوگ جماعت میں ایسے پائے جاتے ہیں، جن کی خواہش یہ ہے کہ ایک اچھی خاصی طویل مدت کے لیے اس کے چوتھے جز (زمامِ کار کی تبدیلی) کو چھوڑ کر صرف پہلے تین اجزا پر کام کیا جائے۔ بلکہ بسا اوقات ان میں سے بعض حضرات کے طرزِ بحث سے تو یوں مترشح ہوتا ہے کہ ان کے نزدیک اس چوتھے جز پر سرے سے کام کرنے کی ضرورت ہی نہیں ہے، صرف پہلے تین اجزا پر ہی کام کرکے معاشرے کو اس طرح تیار کرنا چاہیے کہ نظامِ حکومت میں تغیر بالکل ایک طبعی نتیجے کے طور پر خود بخود ہوجائے۔ لہٰذا ہمیں اپنی بحث اسی نقطہِ نظر کی تنقیح وتنقید پر مرکوز رکھنی چاہیے۔ ہمیں دیکھنا ہے کہ بجائے خود یہ نقطہِ نظر کہاں تک معقول ہے اور اپنی تحریک کے اس مرحلہ پر اگر ہم اپنے پروگرام کے سیاسی حصے کو ساقط یا معطّل یا مؤخر کر دیں تو اس کے نتائج کیا ہوں گے۔
’’خود بخود تبدیلی‘‘ کا نظریہ
اس سلسلے میں پہلی بات میں یہ عرض کروں گا کہ نظامِ سیاسی میں خود بخود تغیر ہو جانے اور قیادت کے آپ سے آپ بدل جانے کا عجیب وغریب تخیل تو میری فہم سے بالکل ہی بالاتر ہے۔ معاملہ اگر بخت واتفاق کا ہو تو آدمی ہر حادثے کے ظہور کو ممکن مان سکتا ہے۔ لیکن جہاں معاملہ مطلوب نتائج کے حصول کا ہو، میری ناقص فہم میں کسی نتیجۂ مطلوب کا بھی خود بخود برآمد ہوجانا ممکن نہیں ہے جب تک کہ انسان بالا رادہ اس کے لیے کوشش نہ کرے اور خاص طور پر ان تدابیر کو استعمال نہ کرے جو اس مخصوص نتیجے کے لیے عقل اور فطرت اور دنیا کے تجربات کی رو سے ضروری ہیں۔ آپ اگر کسی قلعہ کو مسخر کرنا چاہتے ہوں تو بلاشبہ قلعہ شکن آلات فراہم کرنا، حملہ آور فوجوں کو تیار کرنا، لوگوں میں اس کی تسخیر کی خواہش پیدا کر دینا، سب کچھ اس کے لیے ضروری ہے۔ لیکن یہ خیال کرنا کہ اس کام کے یہ مقدمات جب جمع ہو جائیں گے تو قلعہ خود ٹوٹ جائے گا یا قلعہ پر جو لوگ قابض ہیں وہ خود ایک روز آ کر اس کی کنجیاں حوالے کر دیں گے، محض تخیل کی بلند پردازی ہے۔ قلعہ تو جب بھی مسخر ہو گا اسی طرح ہو گا کہ جو لوازم اور مقدمات اس کی تسخیر کے لیے آپ نے فراہم کیے ہیں ان کوعملاً اس کام میں استعمال بھی کریں۔ جو خواہش آپ نے اس کو مسخر کرنے کے لیے لوگوں میںپیدا کی ہے اسے واقعی تسخیر کے راستے پر لگائیں بھی۔ جو آلات آپ نے قلعہ کے سامنے لا کر جمع کر دئیے ہیں ان سے فی الواقع قلعہ شکنی کا کام بھی لیں۔ اورجو فوجیں آپ نے تیار کی ہیں، انھیں لے کر حملہ آور بھی ہوں اور اہلِ قلعہ سے زور آزمائی بھی کریں۔ یہ کام اگر سرے سے آپ کی اسکیم ہی میں نہ ہو، بلکہ پہلے ہی سے دنیا کو یہ معلوم ہو کہ آپ ’’تیاریاں‘‘ کرنے اور ’’خواہشات‘‘ ابھار دینے سے آگے کچھ کرنے کا ارادہ نہیں رکھتے اور قلعہ پر حملہ آور ہونا آپ کے پروگرام ہی سے خارج ہے، تو میں نہیں سمجھتا کہ وہ سادہ لوح حریف آپ کو دنیا میں کہاں ملیں گے جو کسی وقت قلعہ خود بخود چھوڑ بھاگنے پر تیار ہو جائیں گے۔ بلکہ میرے علم میں تو ایسی سیدھی سادھی آبادی بھی دنیا میں کسی جگہ نہیں پائی جاتی جو ان خالی خولی تیاریوں کے کام میں سنجیدگی کے ساتھ آپ سے تعاون کرے گی اور آپ کے ابھارے کوئی خواہش اس کے اندر تسخیر قلعہ کے لیے ابھر سکے گی۔
بعض لوگوں کو یہ غلط فہمی ہے کہ تقسیم سے پہلے اس خود بخود تبدیلی کا کوئی نسخہ جماعتِ اِسلامی کے پاس تھا جسے تقسیم کے بعد یہ جماعت گم کر بیٹھی ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ جس چیز کو وہ اس نوعیت کا نسخہ سمجھ بیٹھے ہیں اس میں تو نظامِ باطل کے خلاف کش مکش اورفاسد قیادت کو ہٹانے کی جدوجہد کا جزو پوری طرح شامل تھا۔ اس تخیل کا کوئی نشان اس میں نہیں پایا جاتا کہ اس جز کے بغیر نسخے کے دوسرے چند اجزا ہی استعمال کرنے سے نظامِ باطل خود بخود جگہ چھوڑ دے گا اور اس کو چلانے والی قیادت آپ سے آپ مسند اقتدار سے ہٹ جائے گی۔
لائحۂ عمل کے سیاسی جز کو معطّل کرنے کے نتائج
اس نظریے کو خارج از بحث کر دینے کے بعد زیادہ سے زیادہ جو تجویز قابل غور قرار پا سکتی وہ یہ ہے کہ ہم کسی معین یا غیر معین مدت کے لیے اپنے لائحہ عمل کے سیاسی جز، یعنی تبدیلی قیادت کی براہ راست کوشش کو معطل یا مؤخر کر دیں۔ لیکن ایسا کوئی فیصلہ کرنے سے پہلے ہمیں یہ اچھی طرح دیکھ لینا چاہیے کہ اس کے نتائج کیا ہو سکتے ہیں اور اس کی فی الواقع کوئی ضرورت بھی ہے یا نہیں۔
میرے نزدیک اس کا اوّلین نتیجہ یہ ہو گا کہ ہمارے اس فیصلے کو سنتے ہی ملک کے وہ سب عوام اور خواص جو جماعتِ اِسلامی سے اصلاح احوال کی کچھ امیدیں رکھتے ہیں، یک لخت مایوس ہوجائیں گے۔ سیاسی میدان سے پسپا ہونے کے بعد ان کی نگاہ میں یہ صرف ایک تبلیغی قسم کی جماعت بن کر رہ جائے گی اور ایسی کسی جماعت کو عوام تو درکنار، خواص بھی کچھ زیادہ قابل اعتنا نہیں سمجھتے جو ان کو صرف اصلاح کے وعظ سنائے مگر آج جن مسائل سے وہ عملاً دوچار ہیں ان میں نہ دخل دے اور نہ ان کے حل کی ذمہ داری لے کر اٹھے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس کام کو جتنی مدت کے لیے آپ ملتوی کریں گے، اتنی ہی مدت کے لیے لوگ بھی آپ کی باتوں کی طرف سنجیدگی کے ساتھ توجہ کرنا ملتوی کر دیں گے۔ بلکہ بعید نہیں کہ وہ آپ کے اس فیصلے کا یہ اثر لیں کہ یہ کوئی مراقی جماعت ہے جس پرکبھی ایک دورہ پڑتا ہے تو میدان میں آ کھڑی ہوتی ہے اور کبھی کوئی دوسرا دورہ پڑ جاتا ہے تو یک لخت پسپا ہو جاتی ہے۔ اس صورت میں مشکل ہی سے پھر کبھی عوام کا اعتماد آپ پر جم سکے گا۔
دوسرا نتیجہ اس فیصلے کا یہ ہو گا کہ خود جماعت کے ارکان اور متفقین کی بہت بڑی تعداد بد دل ہو جائے گی۔ میرا اندازہ ہے کہ اس طرح کا فیصلہ صرف ایک مخصوص مذاق کے دو تین فی صد آدمی ہی کو مطمئن کر سکتا ہے، باقی وہ عظیم اکثریت جو اس عزم وارادے کے ساتھ اس جماعت سے وابستہ ہوئی ہے کہ حق وباطل کی اس کش مکش کو آخری فیصلے کی حد تک پہنچا کر ہی دم لینا ہے، اس کو بددلی میں مبتلا ہونے سے ہم کسی طرح نہ بچا سکیں گے۔{ FR 7714 }
تیسرا نتیجہ اس کا یہ ہو گا کہ اس ملک میں حامیِ اِسلام محاذ کم زور پڑ جائے گا۔ یہ بات کسی سے چھپی ہوئی نہیں ہے کہ اس محاذ پر کتنی اور کس کس قسم کی طاقتیں موجودہ ہیں، ان میں سے ہر ایک کا حال بلحاظ فکر وفہم، بلحاظ نظم، بلحاظ صلاحیتِ عمل، بلحاظ عزم وثبات واستقامت کیا ہے اور ان کے درمیان جماعتِ اِسلامی کا مقام کیا ہے؟ اب اگر یہ جماعت سیاسی میدان میں موجودہ قیادت کے راستے سے ہٹ جائے تو اس امر کا اندازہ کرنے کے لیے کسی بہت بڑی قوتِ فکر کی حاجت نہیں ہے کہ اس سے بحیثیت مجموعی حامیِ اِسلام اور مخالفِ اِسلام قوتوں کے توازن پر کیسا شدید اثر پڑے گا۔
اس کا چوتھا نتیجہ جو تیسرے نتیجے کے ساتھ لازم وملزوم کی حیثیت رکھتا ہے، یہ ہو گا کہ مخالف اِسلام طاقتیں فورًا ہمت پکڑ جائیں گی۔ آپ سب اس بات کو جانتے ہیں کہ اب تک کی کش مکش نے زیادہ سے زیادہ ان کو تھوڑا سا پسپا ہی کیا ہے‘ شکست نہیں دی ہے۔ حکومت کی مشینری پر انھی کا قبضہ ہے۔ پریس اور نشرواشاعت کے ذرائع پر ان کی گرفت مضبوط ہے۔ معاشی زندگی پر بھی وہی چھائی ہوئی ہیں۔ رائے دہندوں کو دھوکے اور دھونس اور دھاندلی سے استعمال کرنے اور دھن سے خریدنے پر وہ پوری طرح قادر ہیں۔ ایک نیا اِسلام گھڑنے کے لیے وہ مختلف اشخاص اور اداروں کی ہمت افرائی کیے جا رہی ہیں۔ اور مخلوط انتخاب کے ذریعہ سے انھوں نے دستور کے اِسلامی گوشے میں نقب لگا دی ہے۔ ایک طویل کش مکش کے بعد آخر کار جو کچھ بھی مفید چیزیں اِسلامی اغراض کے لیے دستورِ مملکت میں شامل کرائی گئی ہیں ان کے کار آمد ہونے کا انحصار اب اس پر ہے کہ رہنما اصولوں پر عمل ہو، قانونی کمیشن ٹھیک کام کرے اور انتخابات کے ذریعے سے ایسے لوگ اسمبلیوں اور پارلیمنٹ میں جائیں جو بے دینی کے لیے کم از کم کھلی چھٹی تو نہ رہنے دیں۔ یہ تینوں باتیں سخت جدوجہد اور موجودہ سیاسی قیادت پر پیہم دبائو چاہتی ہیں۔ اگر جماعتِ اِسلامی اس میدان سے ہٹ جائے اور اِسلام کا حامی محاذ کم زور پڑ جائے تو اب تک کے سارے کیے دھرے پر پانی پھر جائے گا اور دستور کا اِسلامی حصہ محض ایک کاغذ کا پرزہ رہ جائے گا۔ بلکہ عجیب نہیں کہ وہ سرے سے حذف ہی کر دیا جائے۔ اس کے بعد بے دین قیادت خوب کھل کھیلے گی اور جماعت کی طرف سے عوام کی سرد مہری دیکھ کر وہ اس امر کی ہر ممکن کوشش کرے گی کہ یہ جماعت پھر اس مقام پر واپس نہ آ سکے جہاں سے وہ خود ایک مرتبہ پیچھے ہٹ چکی ہے۔ اس وقت اگر جماعت یہ چاہے بھی کہ اِسلامی نظام کے حق میں کوئی تحریک اٹھا کر اس رو کا رخ پھیرے تو اس میں مشکل ہی سے وہ کام یاب ہو سکے گی۔ کیوں کہ عوام کو اپنے تدبر اور معاملہ فہمی کا یہ نمونہ دکھا چکنے کے بعد ہمارا منہ کیا ہو گا کہ پھر ان کے سامنے اپیل کرنے کے لیے جائیں۔
علاوہ بریں میں جتنا بھی غور کر سکا ہوں میری سمجھ میں تو اب تک یہ بات آ نہیں سکی ہے کہ آخر اس کی مصلحت وضرورت کیا ہے۔ دعوت وتبلیغ اور اصلاح معاشرہ کی کوششوں کا حاصل کیا ہو گا اگر ساتھ ساتھ اسی کے متوازی یہ کوشش بھی نہ ہوتی رہے کہ غیر اِسلامی نظام کی حامی طاقتوں کو پیچھے دھکیل کر اِسلامی نظام کی حامی طاقتیں امر ونہی کے اختیارات پر تسلط حاصل کریں۔ اس کوشش کے نہ کرنے کا فائدہ کیا ہے اور اس کے کرنے کا نقصان کیا ہے؟ پھر یہ بات بھی میں نہیں سمجھ سکا ہوں کہ زمامِ کار کی تبدیلی کی خاطر سیاسی جدوجہد کے میدان میں اترنے کے لیے آپ اصلاح معاشرہ کے کتنے کام کی مقدار بطورِ شرط مقرر کریں گے اور کس پیمانے سے ناپیں گے کہ اس مقدار میں کام ہو چکا ہے یا نہیں ہوا؟
سیاسی جز کو معطّل کرنے کے دلائل ووجوہ ٗکا جائزہ
جہاں تک میں معلوم کر سکا ہوں، وہ وجوہ جن کی بِنا پر بعض ذہنوں میں لائحۂ عمل کے سیاسی جز کو معطل یا مؤخر کرنے کا تخیل پیدا ہوا ہے، صرف تین ہیں اور میں چاہتا ہوں کہ آپ ان کا بھی اچھی طرح جائزہ لے کر دیکھ لیں کہ آیا وہ ایسی کسی تجویز کے لیے واقعی معقول وجوہ ہیں۔
پہلی وجہ
پہلی اور سب سے بڑی، بلکہ اصلی وجہ جو مختلف مواقع پر میں نے سنی ہے، یہ ہے کہ ان کے نزدیک جماعت کی دینی واَخلاقی حالت گر گئی ہے۔ اس لیے ضرورت ہے کہ پہلے سیاسی جدوجہد سے ہٹ کر کارکنوں کے اَخلاق بنائے جائیں، پھر اس میدان میں واپس آیا جائے۔
اس کے متعلق یہ عرض کروں گا کہ اگر ساری جماعت بحیثیت مجموعی بگڑ گئی ہے تو اسے توڑ دیجئے، کیوں کہ ہم بگاڑ کو سنوارنے کے لیے اٹھے تھے، بگڑی ہوئی جماعتوں میں ایک اور جماعت کا اضافہ کرنے کے لیے نہیں اٹھے تھے۔ لیکن اگر پورے مجموعے پر یہ ہمہ گیر حکم محض مبالغہ ہے اور امر واقعی صرف اس قدر ہے کہ جماعت میں کچھ افراد معیار سے گرے ہوئے پائے جاتے ہیں، تو اس کا علاج یہ نہیں ہے کہ سارا قافلہ ان چند افراد کی خاطر رک کر کھڑا ہو جائے اور جب تک وہ درست نہ ہو جائیں، آگے کا سفر ملتوی رہے۔ بلکہ اسکا صحیح علاج یہ ہے کہ جماعت کے معروف طریقے کے مطابق ایسے ناکارہ لوگوں کو یا تو درست کیجئے یا پھر جماعت سے خارج کر دیجئے، مگر قافلہ کی راہ ایک لمحہ کے لیے بھی کھوٹی نہ کیجئے۔ جماعتِ اِسلامی کی تاریخ آپ کے سامنے ہے۔ یہ جماعت آخر کب اس طریقے پر عامل رہی تھی کہ جو لوگ ایک دفعہ اس کے نظام میں آ گئے ہوں وہ خواہ معیار پر قائم رہیں یا اس سے گر جائیں، ان کو ہر حال میں اپنے سینے سے چمٹائے رکھا جائے اور ناکارہ لوگوں کو نکالنے کے بجائے جماعت اپنے پروگرام ان کی وجہ سے بدل دیا کرے؟ اس نے تو اول روز سے اپنے ہاں تنقید اور محاسبہ کا طریقہ اختیار کیا تھا، تاکہ ہمیشہ کارکنوں کی حالت کا جائزہ لے کر دیکھا جاتا رہے کہ وہ کم از کم معیار جو رکنیت کے لیے مطلوب ہے، ان میں پایا جاتا ہے یا نہیں، پھر جسے بھی معیار سے گرتے دیکھا جائے اس کے تمام رفقا اسے سنبھالنے کی فکر کریں اور اگر وہ نہ سنبھلے تو پھر بادلِ نخواستہ اسے رخصت کر دیا جائے۔ اس قاعدے کے مطابق ابتدا سے جماعت میں داخلے کا سلسلہ جس طرح چلتا رہا ہے اسی طرح اخراج کا سلسلہ بھی جاری رہا ہے، حتّٰی کہ ۴۴۔۴۵؁ء میں ایک سال کے اندر تین سو ارکان کا اخراج تک عمل میں آ چکا ہے۔{ FR 7715 } یہ قاعدہ آج بھی آپ کی جماعت میں موجود ہے اور آپ اس پر عمل کرکے جماعت کو ایسے تمام عناصر سے خالی کر سکتے ہیں جن کی دینی واَخلاقی حالت گر گئی ہو۔ ایسے لوگ اگر آپ کے اندر آج پائے جا رہے ہیں تو اس کی وجہ یہ ہے کہ آپ نے اپنی جماعت کے اس معروف قاعدے پر عمل کرنے میں کوتاہی کی ہے۔ اب یہ کیسی عجیب بات ہے کہ اسے تازہ کرنے اور اس پر ٹھیک ٹھیک عملدرآمد کرنے کے بجائے ہمارے سامنے الٹی یہ تجویز لائی جاتی ہے کہ جماعت ان لوگوں کو اپنے اندر رکھنے کی خاطر اس پروگرام میں ردّوبدل کر ڈالے جو اس کے نصب العین کا لازمی تقاضا ہے۔
پھر کہتا ہوں کہ اگر اس پروگرام کے سیاسی جز کومعطّل کرنا اس لیے ناگزیر ہو گیا ہے کہ جماعت میں کچھ عناصر دینی واَخلاقی حیثیت سے گر گئے ہیں تو اس سے زیادہ ناگزیر یہ ہے کہ دعوت وتبلیغ اور اصلاحِ معاشرہ اور توسیعِ جماعت کے کام کو بھی معطّل کر دیا جائے، کیوں کہ گری ہوئی دینی واَخلاقی حالت کے ساتھ دعوتِ الی اللّٰہ کیسی اور معاشرے کی اصلاح کے کیا معنی اور صالح افراد کی تلاش وتنظیم کا کیا موقع؟ اس دلیل سے تو جماعت کا پروگرام اب صرف اپنے موجودہ ارکان کی تربیت تک محدود رہنا چاہیے اور یہ طے ہو جانا چاہیے کہ جب تک سارے ارکان پورے معیاری رکن نہ ہو جائیں، پبلک میں جا کر کوئی دعوتی یا اصلاحی یا سیاسی کام نہ کیا جائے۔ نیز یہ بھی طے ہو جانا چاہیے کہ جب بھی ارکان کی حالت کا جائزہ لینے کے بعد یہ پتہ چلے کہ تربیت کی ساری کوششوں کے باوجود پھر کچھ لوگ جماعت میں دینی واَخلاقی حیثیت سے گرے ہوئے پائے جاتے ہیں تو پھر اسی طرح سارے پروگرام معطّل کرکے جماعت تربیت گاہوں کی طرف پلٹ جایا کریگی۔ اس کے بعد یہ سوال خارج از بحث فرما دیجیے کہ یہ جماعت کبھی کوئی کام کر بھی سکے گی یا نہیں۔ میرے علم میں ایسا کوئی طریق تربیت اب تک نہیں آیا ہے جو معیارِ مطلوب کے آدمی تیار کرنے کی سو فی صدی ضمانت دیتا ہو۔ اس کی آپ جتنی چاہیں کوشش کر دیکھیں، ہر جائزہ آپ کو یہی رپورٹ دے گا کہ آپ کے درمیان ایک ناقابلِ اطمینان عنصر موجود ہے۔ بلکہ بحیثیت مجموعی پوری جماعت کے متعلق بھی ہر پہلو سے کامل اطمینان کی رپورٹ شاید آپ کبھی نہ پا سکیں گے۔ اب اگر یہ بات آپ ایک دفعہ طے کر لیں کہ ایسے جائزوں کا نتیجہ ہمیشہ آپ کے پروگراموں کو معطل کرنے ہی کی صورت میں نکلنا چاہیے تو میرے نزدیک اس کے بعد عقلمندی یہ ہے کہ آپ نظامِ زندگی کے انقلاب کی داستان لپیٹ کر رکھ دیں اور خانقاہیں بنانے کی تجویزیں سوچیں۔ اس کروفر کے ساتھ آپ اجتماعی زندگی میں کبھی کوئی مؤثر کام نہیں کر سکتے۔
یہ تو ہے اس طرز فکر کا ایک کم زور پہلو۔ دوسرا اس سے بھی زیادہ کم زور پہلو یہ ہے کہ اس تجویز میں اَخلاق بنانے اور مردانِ کار تیار کرنے کا ایک ایسا تصوّر کام کر رہا ہے جو بنیادی طور پر غلط ہے اور میرے لیے یہ بات سخت حیرانی ہی کی نہیں، پریشانی کی موجب بھی ہے کہ سالہا سال سے ہم سیرت واَخلاق کی تیاری کے جس تصوّر کی اصلاح کے لیے کوشش کر رہے ہیں وہ ہمارے دائرے میں کیسے راہ پا گیا۔ یہ کہنا کہ جماعتِ اِسلامی سیاسی جدوجہد کے میدان سے ہٹ کر پہلے کارکنوں کا اَخلاق بنائے پھر اس میدان میں قدم رکھے، اپنے پیچھے اَخلاق کی تیاری کا یہ تصوّر رکھتا ہے کہ ایک کام کے لیے جس قسم کے اَخلاق کی ضرورت ہے وہ اس کام میں پڑے بغیر کہیں باہر سے تیار کر کے لائے جا سکتے ہیں۔ حالانکہ یہ تصوّر اتنا ہی غلط ہے جتنا یہ خیال غلط ہے کہ کوئی آدمی پانی میں اترے بغیر بھی تیراک ہو سکتا ہے۔ عقل اس کو غلط کہتی ہے۔ بارہا کے تجربات اس کو غلط ثابت کر چکے ہیں۔ ہمارا شب وروز کا مشاہدہ اس کی تردید کر رہا ہے۔ یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہے کہ ہر کام کے لیے جس قسم کے اَخلاق مطلوب ہوتے ہیں وہ اسی کام میں پڑ کر بنتے ہیں۔ دعوت وتبلیغ کے لیے جو اَخلاق درکار ہیں وہ دعوت وتبلیغ ہی میں بنیں گے اور تجارت کے لیے جو اخلاق درکار ہیں وہ دکان اور منڈی ہی میں تیار ہونگے۔ حجروں میں بیٹھ کر آپ دس برس بھی مشق وتمرین کر لیں، دعوت وتجارت کے میدان میں قدم رکھتے ہی آپ کو محسوس ہو گا کہ یہاں جن آزمائشوں سے سابقہ ہے ان کے مقابلے میں اَخلاقی حیثیت سے آپ بالکل مبتدی کے مقام پر ہیں۔ ایسا ہی معاملہ سیاست اور انتخابات کا بھی ہے۔ اس کام کی اَخلاقی مشکلات اور اس میں اترنے کے خطرات ونقصانات کو دیکھ کر آپ یہ فیصلہ کرنا چاہیں تو کر لیجیے کہ ہمیں اس میدان سے ہمیشہ کے لیے ہٹ جانا ہے۔ مگر یہ محض ایک خام خیالی ہے کہ آپ کا ارادہ تو اس میدان میں واپس آنے ہی کا ہو، لیکن آج آپ اس لیے ہٹ جائیں کہ چند سال تک آپ کہیں وہ اَخلاق تیار کرتے رہیں گے جو سیاسی کام اور انتخابات میں حصہ لینے کے لیے درکار ہیں۔
میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ جتنے سال بھی آپ چاہیں اس میدان سے باہر تیاری کرتے رہیں۔ آخر کار جب آپ پلٹ کر ادھر آئیں گے تو اپنے آپ کو آج کی حالت سے کچھ بھی بہتر نہ پائیں گے۔ یہاں جو اَخلاقی قوت درکار ہے وہ باہر کسی جگہ سے بنا کر نہیں لائی جا سکتی۔ اس کا نشوونما اسی میدان میں شیطانی قوتوں سے نبرد آزمائی کرکے ہو سکتا ہے۔ اس کے ارتقا کی صورت صرف یہ ہے کہ آپ اپنے کارکنوں کو ایک نصب العین اور ایک ضابطہ اَخلاق دے کر سیاسی جدوجہد کے عرصہ کار زار میں لائیں اور پھر سخت سے سخت نازک مواقع پر انھیں اس نصب العین اور ضابطہ اَخلاق سے ہٹنے نہ دیں۔ انھیں انتخابی معرکے میں ان پارٹیوں کا مقابلہ کرنے کے لیے آگے بڑھائیں جو اَخلاق ودیانت کے سارے اصولوں کو توڑ کر بازی جیتنے کی کوشش کرتی ہیں اور پھر اس امر کی پوری نگرانی کرتی ہیں کہ انتخابی جنگ کی انتہائی گہما گہمی میں بھی آپ کے کارکن اَخلاق کے کسی ضابطے اور دیانت کی کسی حد کو توڑنے نہ پائیں۔ ان آزمائشوں میں جن لوگوں سے کسی لغزش کا صدور ہو، ان پر گرفت کیجئے، جو قابلِ اصلاح ہوں ان کی اصلاح کی کوشش کیجئے اوردیکھیے کہ بعد کی آزمائشوں میں وہ کیسے ثابت ہوتے ہیں اور جن کی حالت ناقابلِ اصلاح پائی جائے انھیں ہٹا کر پھینک دیجئے۔ یہ عملی تربیت اسی تربیت گاہ میں مل سکتی ہے۔ باہر کہاں آپ یہ تربیت دیں گے اور کیسے آپ کو معلوم ہو گا کہ وہ اَخلاق جو اس کام کے لیے مطلوب ہیں، تیار ہوئے یا نہیں؟
جماعتِ اِسلامی کے لیے یہ کوئی نیا طریقِ تربیت نہیں ہے جو آج پہلی مرتبہ اس کے سامنے پیش کیا جا رہا ہو، بلکہ ۱۹۵۱ء کے انتخابات میں وہ اس کو آزما چکی ہے اور اس کے نتائج کا جائزہ بھی آپ کی مجلسِ شُورٰی نے لے کر جو تبصرہ ایک طویل قرارداد کی شکل میں جماعت کے انتخابی کام پرکیا تھا اس کے یہ فقرے ملاحظہ ہوں:
’’اس انتخابی جدوجہد کے دوران میں عام پبلک میں سے سترہ سو (۱۷۰۰) ایسے نئے آدمی اٹھ کھڑے ہوئے جنھوں نے ہمارے کارکنوں کا پوری طرح سے ہاتھ بٹایا اور بغیر کسی ذاتی غرض یا لالچ کے ان تمام اَخلاقی پابندیوں کے ساتھ جو ہم نے اپنے کارکنوں پر عائد کر رکھی تھیں، پوری طرح جان لڑا کر کام کیا‘‘۔
’’باوجودیکہ پنجاب کے اتنے وسیع رقبوں میں جماعت کے تین چار ہزار کارکنوں نے اتنے وسیع پیمانے پر انتخابی جدوجہد کی اور اس میں مخالف جماعتوں اور امیدواروں کی شدید بداَخلاقیوں اور بے ضابطگیوں کا ان کو مقابلہ کرنا پڑا، تاہم پولنگ کے انتہائی بحرانی زمانے میں بھی جماعت کے کارکنوں نے بحیثیت مجموعی اَخلاقی طہارت وضابطہ وقانون کی پابندی کا ایسا بے نظیر نمونہ پیش کیا جس کا اعتراف حکومت کے عمال اور مخالف پارٹیوں کے کارکنوں تک کو کرنا پڑا۔ الیکشن کے پورے کام کا جائزہ لینے پر معلوم ہوا کہ دو چار ہفتوں کے سوا پورے پنجاب میں کہیں جماعت کے کارکنوں سے کسی اَخلاقی کم زوری، یا قانون وضابطہ کے خلاف ورزی کا ارتکاب نہیں ہوا اور ان دو چار حلقوں میں بھی جماعت کے کارکن بحیثیت مجموعی اس میں ملوث نہیں ہوئے بلکہ چند منفرد کارکنوں… اور زیادہ تر نئے کارکنوں… سے اس کا صدور ہوا۔‘‘
’’خصوصیّت کے ساتھ جو چیز ہمارے لیے قابلِ اطمینان ہے وہ یہ ہے کہ اس انتخابی جدوجہد میں جتنی خواتین نے پنچایتی نمائندوں کے لیے کام کیا، انھوں نے ہر جگہ شرعی پردے کے تمام حدود کی پوری طرح پابندی کی، درآنحالیکہ ایک آدھ پولنگ اسٹیشن کے سوا پورے پنجاب کا کوئی پولنگ اسٹیشن ایسا نہیں تھا جہاں زنانہ پولنگ کے وقت حکومت اور سیاسی پارٹیوں اور مخالف امیدواروں نے پردے کے حدود کا کچھ بھی لحاظ کیا ہو۔‘‘
’’جماعت کے کارکن پہلی مرتبہ انتخاب کے میدان میں اترے تھے۔ اکثر وبیشتر کو پہلے سے انتخاب کا کوئی تجربہ نہ تھا۔ اور اَخلاقی قیود اور قانون وضابطہ کی پوری پابندی کے ساتھ الیکشن لڑنے کا تو موجودہ جمہوریت کی تاریخ میں شاید یہ پہلا تجربہ تھا۔‘‘{ FR 7716 }
’’آیندہ ہر انتخاب کے موقع پر یہ بات نہ صرف کارکنانِ جماعت پر، بلکہ جماعت کی حمایت میں جو لوگ کام کریں ان پر بھی اچھی طرح واضح کر دی جائے کہ جماعتِ اِسلامی انتخاب میں کوئی نشست جیتنے کی بہ نسبت زیادہ اور بدرجہا زیادہ اہمیت اس امر کودیتی ہے کہ انتخابات کو بداَخلاقیوں اور بے ضابطگیوں سے پاک کیا جائے اور انتخابی جنگ میں اَخلاقی حدود اور قانون وضابطے کی پوری پوری پابندی کا نمونہ پیش کیا جائے۔ کیوں کہ سیاست کو صداقت اور دیانت پر قائم کرنا جماعتِ اِسلامی کے بنیادی مقاصد میں سے ایک ہے اور اس مقصد کو ہم کسی بڑے سے بڑے وقتی فائدے پر بھی قربان کرنے کے لیے تیارنہیں ہیں۔ اس بِنا پر مجلسِ شُورٰی نے یہ بھی فیصلہ کیا ہے کہ آیندہ کسی ایسے رکن جماعت کو ہرگز معاف نہ کیا جائے جو کبھی انتخابی جدوجہد میں اَخلاق اور ضابطے کی حدود سے تجاوز کرے اور جماعت سے باہر کے جن لوگوں سے اس طرح کی حرکات کا صدور ہو آیندہ کے لیے ان کا تعاون قبول کرنے سے انکار کر دیا جائے۔‘‘{ FR 7717 }
یہ ہے وہ طریقِ تربیت جس کا آپ پہلے تجربہ کر چکے ہیں اور یہ ہیں اس کے نتائج جو آپ کی مرکزی مجلسِ شُورٰی کے ۱۷، آدمیوں نے پورے انتخابی کام کا جائزہ لینے کے بعد ایک باقاعدہ قرارداد کی شکل میں بیان کیے ہیں۔ میں پوچھتا ہوں، کیا یہ نتائج واقعی ایسے دل شکن اورمایوس کن ہیں کہ انھیں دیکھ کر آپ اس طریقے کو ناکام کَہ سکیں؟ اور کیا آپ سیاست اور انتخابات کے معرکے میں اترنے کے لیے یہ شرط لگانا چاہتے ہیں کہ تین چار ہزار آدمی اگر آپ میدان میں لائیں تو ان میں سے ایک کا کام بھی معیار سے گِرا ہوا نہ پایا جا سکے؟ اور کونسا دوسرا طریقہ آپ تجویز کرتے ہیں جو اس میدان سے باہر آدمی تیار کرتا ہو اور پھر اس امر کی ضمانت دے کر انھیں میدان میں لا سکتا ہو کہ ہزار میں ایک آدمی بھی عملی تجربے میں ناقص نہ نکلے گا؟
اس طرز فکر کا ایک کم زور پہلواور بھی ہے جسے نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ جو حضرات یہ بات کہتے ہیں کہ اس وقت سیاست کے میدان سے ہٹ جائیے اور پھر چند سال اَخلاق بنانے میں صرف کرکے پوری تیاری کے ساتھ واپس آئیے، انھوں نے غالباً یہ فرض کر لیا ہے کہ ہم خلا میں کام کر رہے ہیںاور یہاں یہ بالکل آسان ہے کہ ہم جب چاہیں ایک جگہ سے ہٹ جائیں اور پھر جب چاہیں اسی جگہ آن کھڑے ہوں۔ حالانکہ امرِ واقعی جس سے ہم دوچار ہیں وہ یہ ہے کہ دس برس سے ہم سخت مزاحمتوں کے مقابلے میں اپنے نصب العین کی طرف بڑھنے کی کوشش کر رہے ہیں، بہت سی طاقتیں ہیں جن سے ایک ایک قدم پر کش مکش کرتے ہوئے ہم اپنے موجودہ مقام پر پہنچے ہیں اور وہ مخالف طاقتیں ہر وقت ہم کو ہٹانے اور دور پھینک دینے کے لیے زور لگا رہی ہیں۔ یہ کوئی خالی میدان نہیں ہے جس میں ہم ٹہلتے ہوئے آئے ہوں اور پھر ٹہلتے ہوئے ہی واپس آ سکتے ہوں۔ یہ تو مقابلے اور کش مکش کا میدان ہے جس میں ایک قدم بھی پیچھے ہٹ جائیے تو کھوئی ہوئی جگہ پر پلٹ کر آنا آسان نہیں ہوتا۔ اس لیے یہاں سے عام پسپائی کا فیصلہ محض خیالات کی چند لہروں سے متاثر ہو کر رواداری میں نہیں کیا جا سکتا۔ ایسا کوئی فیصلہ کرنے سے پہلے اوّل تو ہمیں یہ معلوم ہونا چاہیے کہ سیاسی میدان میں کام کرنے سے وہ کونسا نقصانِ عظیم ہماری تحریک کو پہنچا ہے جس کے مقابلے میں یہ پورا میدان مخالف دین اور مخربِ اَخلاق طاقتوں کے لیے خالی چھوڑ دینا کم تر درجے کا نقصان سمجھا جا سکے اور اس نقصان کو گوارا کرنا ہمارے لیے ناگزیر ہو چکا ہے۔ دوسری یہ بات ہمارے سامنے واضح ہونی چاہیے کہ یہاں سے ہٹ کر ہم پھر یہاں واپس آ بھی سکیں گے؟ اس لیے کہ جو چند سال ہم اَخلاقی تیاریوں میں صرف کریں گے، ان میں مخالف طاقتیں بے کار نہیں بیٹھی رہیں گی ، بلکہ یہی چند برس وہ اپنی جڑیں مضبوط کرنے اور آپ کی واپسی کا دروازہ بند کرنے میں صرف کریں گی اور ان کی کوشش یہ ہو گی کہ اس ملک میں دینی نظام کے لیے جدوجہد کرنے کے مواقع حتی الامکان بالکل ختم کر دیے جائیں۔ ان دو سوالات کا کوئی اطمینان بخش جواب جب تک نہ ملے، سیاسی میدان سے پسپائی کی کوئی تجویز ہمارے لیے لائق غور بھی نہیں ہو سکتی، کجا کہ آنکھیں بند کرکے اسے صرف اس لیے قبول کر لیا جائے کہ جماعت کی اَخلاقی حالت گر جانے کا ایک خطرہ ہمارے سامنے پیش کر دیا گیا ہے جو بجائے خود واقع کے اعتبار سے بھی نہایت مبالغہ آمیز ہے۔

دوسری و جہ
دوسری وجہ اس تجویز کے حق میں یہ پیش کی جاتی ہے کہ ہمارے پاس وہ لوگ تیار نہیں ہیں جو نظامِ حکومت کو اِسلامی طرز پر چلانے کے لائق ہوں۔ اس حالت میں اگر محض سیاسی جدوجہد سے قیادت میں کوئی تبدیلی ہو بھی جائے تو آخر وہ لوگ ہم کہاں سے لائیں گے جو ریاست کے مختلف شعبوں کی صورت گری وراہ نُمائی اِسلامی اصولوں کے مطابق کر سکیں؟ اس لیے ہمیں پہلے وہ تدابیر اختیار کرنی چاہییں جن سے ہر شعبہِ زندگی کے لیے موزوں معماروں اور لیڈروں کی ایک کھیپ تیار ہو جائے۔ پھر تبدیلی قیادت کی جدوجہد باموقع بھی ہو گی اور نتیجہ خیز بھی۔
یہ استدلال خود ظاہر کر رہا ہے کہ اس سارے معاملے کو بڑے ہی سطحی انداز میں سوچا گیا ہے۔ اس کی پشت پر کئی غلط مفروضے کام کر رہے ہیں۔ جن لوگوں کے ذہن میں یہ استدلال پیدا ہوا ہے انھوں نے یہ فرض کر لیا ہے کہ یہاں صرف تبدیلی قیادت کے لیے ایک سیاسی جدوجہد ہی کی جا رہی ہے، اس کے ساتھ کوئی تحریک، ذہنی وفکری اور اَخلاقی تبدیلی کے لیے کام کرنے والی نہیں ہے۔ انھوں نے یہ بھی فرض کر لیا ہے کہ سیاسی جدوجہد سے انقلابِ قیادت اچانک رونما ہو جائے گا اور یکبارگی یہ سوال عملاً ہمارے سامنے آ کھڑا ہو گا کہ زمامِ کار تو اِسلامی نظام کے حامیوں کے ہاتھ میں آ گئی ہے، اب اس نظام کے مطابق تعمیر نو کے لیے آدمی کہاں سے لائے جائیں۔ اس کے ساتھ انھوں نے ایک تیسری بات یہ بھی فرض کر لی ہے کہ نظامِ زندگی کی تبدیلی کے لیے جو تحریک کسی ملک میں کام کر رہی ہو اسے پہلے کہیں الگ بیٹھ کر اپنے نظامِ مطلوب کے لیے آدمی تیار کرنے چاہییں اور جب اس کے پاس مختلف شعبوں کو چلانے کے لیے ڈائریکٹروں، مدبروں، سپہ سالاروں اور دوسرے ماہرین کی ایک کافی تعداد تیار ہو جائے تب اسے نظامِ مملکت کا چارج لینے کے لیے آگے بڑھنا چاہیے۔ یہ تین مفروضے جب تک صحیح نہ ہوں، ان پر تعمیر کردہ استدلال صحیح نہیں ہو سکتا اور میں سمجھتا ہوں کہ جو شخص تھوڑے سے غور وفکر سے بھی کام لے گا وہ محسوس کرے گا کہ یہ تینوں ہی مفروضے غلط ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ اچانک تبدیلی تو خفیہ سازشی تحریکوں اور مسلح انقلاب کے ذریعہ سے بھی کم ہی رونما ہوتی ہے، کجا کہ جمہوری طریقوں سے رونما ہو جائے۔ اصول اور نظریات کی بنیاد پر نظامِ زندگی کی تبدیلی کے لیے جو تحریکیں جمہوری اور آئینی طریقوں سے جدوجہد کرتی ہیں ان کے نتیجے میں ہر تبدیلی بتدریج اور رفتہ رفتہ ہوتی ہے اور کبھی یکبارگی یہ سوال ان کے لیے پیدا نہیں ہوتا کہ نظام تو بدل گیا ہے مگر اس کے چلانے والے آدمی موجود نہیں ہیں۔ واقعات کی دنیا میں صورتِ معاملہ اس کے بالکل برعکس ہوتی ہے۔ یعنی نظام بدلتا ہی اس وقت ہے جبکہ آبادی کے ایک بہت بڑے حصے کی رائے، ذہنیت، طرز ِفکر اور معیارِ پسند وناپسند میں تغیر رونما ہو جاتا ہے اور یہ تغیر آپ سے آپ اس بات کی ضمانت ہوتا ہے کہ اسی آبادی میں سے، جس نے یہ تغیر قبول کیا ہے، نئے نظام کو چلانے والے آدمی فراہم ہوجائیں گے۔
اس تغیر کی رفتار بہت سست ہوتی ہے جبکہ اس کے لیے کوشش کرنے والی تحریک زندگی کے بھڑکتے ہوئے مسائل ومعاملات میں دخل دینے اور مخالف تحریکوں اور طاقتوں کے ساتھ زور آزمائی کرنے سے گریز کرے۔ کیوں کہ اس صورت میں تھوڑے لوگ ہی اس کو مجرد اس کے خیالات اور اس کی ٹھنڈی ٹھنڈی تعمیری کوششوں کی بنا پر قابل اعتنا سمجھتے ہیں۔ لیکن جب وہ اپنے نظریات کی تبلیغ ودعوت کے ساتھ آگے بڑھ کر ہر عملی مسئلے میں دخل دیتی ہے، اس میں اپنا نقطہ نظر دلائل کے ساتھ پیش کرتی ہے، مخالف قوتوں کی فکر وعمل پر مدلّل تنقید کرتی ہے اور عملاً ان کے مقابلہ میں کش مکش شروع کر دیتی ہے، تو روز بروز آبادی کا زیادہ سے زیادہ حصہ اس کی طرف متوجہ ہوتا چلا جاتا ہے اور اگر اس کی تنقید اور تعمیری فکر اور سیرت وکردارمیں کوئی جان ہوتی ہے تو ہر شعبہِ زندگی میں کام کرنے والے لوگ اس کے ہم خیال بنتے چلے جاتے ہیں۔ کش مکش اور خصوصاً جبکہ وہ زندگی کے عملی مسائل پر ہو، لمبی چوڑی کتابوں کے بغیر خود لوگوں کو یہ سمجھا دیتی ہے کہ آپ جس چیز کو توڑنا چاہتے ہیں اس میں کیا خرابی ہے اور جو کچھ بنانا چاہتے ہیں وہ کیا ہے اور کن اصول ونظریات پر مبنی ہے۔ اس کا کم از کم ایک واضح خلاصہ ہر اس شخص کا ذہن اخذ کر لیتا ہے جو ماحول میں سانس لے رہا ہو اور کش مکش جتنی بڑھتی جاتی ہے اتنے ہی زیادہ لوگ اس سے متاثر ہو کر اپنی اپنی استعداد کے مطابق تبدیلی قبول کرتے چلے جاتے ہیں۔
اس طرح کی ایک تحریک کو کبھی اس کی ضرورت پیش نہیں آتی کہ کہیں باہر سے آدمی تیار کرکے لائے۔ وہ اپنی تبلیغ اور اپنی جدوجہد کی تاثیر سے بنے بنائے آدمیوں کو تبدیل (Convert) کرکے اپنا ہم خیال وہم نوا بنا لیتی ہے اور اس کی یہ تبلیغ اور جدوجہد چوں کہ کسی خلا میں نہیں ہوتی بلکہ اسی معاشرے میں ہوتی ہے، اس لیے کوئی شعبہِ حیات ایسا نہیں رہ جاتا جس میں کام کرنے والے لوگ اس کے پھیلائے ہوئے اثرات سے کم وبیش متأثر نہ ہوتے ہوں۔ یہ متاثرین اس وقت کام آتے ہیں جب تحریک کی تدریجی ترقی سے ایک وقت عملاً قیادت تبدیل ہو جاتی ہے۔
پھر یہ خیال بھی غلط ہے کہ کسی نظام کو چلانے والے لوگ کہیں الگ سے تیارکر کے لائے جا سکتے ہیں۔ یہ چیز کسی کارخانے میں ڈھلنے والی یا کسی معمل (لیبارٹری) میں تیار ہونے والی نہیں ہے۔ برسوں کے تجربے اور عملی کام سے اس طرح کے لوگ تیار ہوا کرتے ہیں۔ اس سوال کو تھوڑی دیر کے لیے جانے دیجیے کہ آپ وہ وسائل کہاں سے فراہم کریں گے جن سے اعلیٰ درجے کے مدبرین ومنتظمینِ مملکت تیار کرنے والے ادارے قائم کر سکیں۔ اس کو ممکن تسلیم کرکے بھی یہ سوال باقی رہ جاتا ہے کہ ان اداروں میں تعلیم وتربیت پائے ہوئے لوگ کیا پہلا ہی قدم ہر شعبے اور محکمے کی مسندِ صدارت پر رکھنے کے قابل ہوں گے؟
مزید برآں ہمارا ملک جس جمہوری طرز پر چل رہا ہے، اس میں نظامِ زندگی کی تبدیلی لانے کے لیے بہرحال یہ ناگزیر ہے کہ ہمارے ارکان اور متفقین کی ایک کثیر تعداد عملاً اس جمہوری طرزِ حکومت کی پوری مشینری سے واقف ہو اور اس کے کام چلانے میں مہارت پیدا کرے۔ یہ واقفیت اور مہارت کہیں باہر سے حاصل کرکے نہیں لائی جاسکتی، اسی کام میں پڑ کر بتدریج پیدا کی جا سکتی ہے۔ انتخابی کام کے تجربہ کار خود انتخابات ہی میں تیار ہوں گے۔ پارلیمنٹرین، پارلیمنٹ میں جا کر ہی بنیں گے۔ حکومت کے مختلف شعبوں میں بصیرت اسی وقت پیدا ہو گی جبکہ ایوانِ ریاست میں جا کر آپ کے کارکنوں کو براہِ راست ملک داری کے مسائل ومعاملات سے دوچار ہونے کا موقع ملے۔ اس کام کو جتنی مدت بھی آپ چاہیں ملتوی کر لیں، بہرحال جب بھی آپ اس طرح آئیں گے بسم اللّٰہ ہی سے آپ کو آغاز کرنا پڑے گا۔ کوئی وقت ایسا نہیں ہو سکتا کہ آپ ساری مہارتیں اور بصیرتیں کہیں سے پیدا کئے ہوئے آئیں اور آتے ہی بس مملکت کا چارج لے لیں۔
اب رہ جاتا ہے یہ مفروضہ کہ یہاں محض سیاسی جدوجہد ہی سے قیادت کی تبدیلی چاہی جا رہی ہے اور اس کے ساتھ کوئی متوازی کوشش ذہنی وفکری اور اَخلاقی تبدیلی کے لیے نہیں ہو رہی ہے، تو اس کے متعلق میں صرف اتنا ہی کہوں گا کہ خلافِ حقیقت باتوں پر استدلال کی عمارت اٹھانا اس نقطہِ نظر کی کم زوری کا پہلا نشان ہے، جس کے حق میں استدلال کا یہ طریقہ اختیار کیا جائے۔ آخر کون آدمی، جو جماعتِ اِسلامی کے حالات سے واقف ہے، انصاف کے ساتھ یہ کَہ سکتا ہے کہ ہم آج تک محض سیاسی جدوجہد کے ذریعہ سے تبدیلی قیادت کے لیے کوشاں رہے ہیں؟ اور کون ہمارے اس چار نکاتی لائحۂـ عمل کو، جو اس وقت زیر ِبحث ہے، یہ معنی پہنا سکتا ہے کہ آیندہ کے لیے ہم ایسا کوئی نقشہ کار بنا رہے ہیں؟ ہمارا تو سارا منصوبہ یہی ہے کہ ایک طرف منظم طریقے سے وسیع پیمانے پر ذہنی وفکری اور اَخلاقی تبدیلی لانے کی کوشش کی جائے، دوسری طرف قیادت بدلنے کے لیے سیاسی میدان میں لادینی نظام کی ان طاقتوں کے خلاف کش مکش کی جائے جو اس وقت زمامِ کار پر قابض ہیں یا آیندہ قابض ہونا چاہتی ہیں۔ اور یہ منصوبہ ہم نے اختیار ہی یہ سمجھتے ہوئے کیا ہے کہ اس طرح جس تدریج کے ساتھ زمامِ کار تبدیل ہو گی اسی کے مطابق ساتھ کے ساتھ نئے نظام کے چلانے والے بھی تیار اور فراہم ہوتے چلے جائیں گے۔ اب اگر کوئی شخص اس منصوبے سے سیاسی جدوجہد کے عنصر کو نکالنا چاہتا ہو تو اسے سیدھی طرح یہ بتانا چاہیے کہ وہ کیسے اور کہاں وہ مردان کار تیار کرے گا جن کی تیاری وفراہمی اس کی رائے میں سیاسی جدوجہد شروع کرنے کے لیے شرط مقدم ہے۔ یہ سیدھی راہ چھوڑ کر ایک بالکل خلافِ واقعہ مفروضے کا سہارا لینا کسی طرح درست نہیں ہے۔
تیسری وجہ
ایک اور وجہ اس تجویز کے لیے یہ بیان کی جاتی ہے کہ ابھی تو ہم نے علمی میدان میں اس درجے اور پیمانے کا کوئی کام کیا ہی نہیں ہے جو فکری ونظری قیادت بدلنے کے لیے کافی ہو سکے۔ اور فکری ونظری قیادت بدلے بغیر سیاسی قیادت بدلنا نہ تو ممکن ہی ہے اور نہ مفید۔ اس لیے ہمیں سیاسی قیادت کی تبدیلی کاخیال چھوڑ کر اپنی پوری قوت علمی کام پر صرف کرنی چاہیے۔ آخر کار جب ہم علوم وفنون کی وہ ساری بنیادیں ڈھا دیں گے جو موجودہ لادینی تہذیب کی اساس بنی ہوئی ہیں اور اس سے خود بخود ایک انقلاب رونما ہو گا جو سیاست سمیت ہر شعبہِ زندگی میں قیادت کو تبدیل کر دے گا۔
یہ دراصل ایک دوسری ہی نوعیت کا نقشہِ کار ہے جسے اگر اختیار کرنا ہو تو آپ کو اپنی تحریک کے لائحہ عمل سے اس کا صرف چوتھا جز ہی خارج نہیں کرنا ہو گا، بلکہ باقی تینوں اجزا کو بھی ختم کر دینا ہو گا۔ کیوں کہ اس نقشے کی رو سے تو دعوتِ عام، تنظیم افراد صالح اور اصلاحِ معاشرہ کا کام بھی قبل از وقت اور محض لاحاصل ہے۔ یہی نہیں، بلکہ پچھلے پندرہ بیس سال میں ہم اپنے نصب العین کے لیے جو کچھ بھی کرتے رہے ہیں وہ سب فضول تھا اور محض ناسمجھی کی وجہ سے ہم ایک غلط راستے پر پڑ گئے تھے۔ اس کے بجائے جو کچھ ہمیں کرنا چاہتے تھا اور جو کچھ اب کرنا چاہیے وہ یہ ہے کہ ایک عظیم الشان اکیڈیمی قائم کریں جو علوم کی تحقیق وتنقید اور تدوینِ جدید کا کام شروع کرے، پھر جب یہ اکیڈیمی اپنے نتائجِ عمل سے ہم کو اس حد تک مسلح کر دے کہ ہم ایک یونی ورسٹی قائم کر سکیں تو ہمیں دوسرا قدم اس کی تاسیس کا اٹھانا چاہیے۔ اس کے بعد جو کچھ کرنا ہو گا اسے ابھی سے سوچنے کی کوئی حاجت نہیں، کیوں کہ ۶۰۔۷۰ برس تک کے لیے تو یہ پروگرام ہمارے پاس موجود ہی ہے! رہی یہ بات کہ ایک نظام کی گود میں بیٹھ کر دوسرے نظام کے لیے یہ انقلاب انگیز تعمیری ادارے کہاں اور کن وسائل سے قائم ہوں گے اور غالب نظام کا ہمہ گیر استیلا ان کو کام کرنے کا موقع کس حد تک دے گا اور خود اس نظام غالب کے اپنے وسیع وعمیق علمی وفکری اثرات اس مدت میں کس پیمانے پر اپنا کام کر چکے ہوں گے، تو یہ دو سوالات ہیں جو اس عالمِ خیال میں سرے سے پیدا ہی نہیں ہوتے جہاں بیٹھ کر یہ نقشہ کار سوچا گیا ہے۔
دراصل یہ محض ایک سرسری تخیل ہے جسے اچھی طرح سمجھے بغیر اور پھر غور وفکر کی زحمت اٹھائے بغیر ناپختہ حالت میں پیش کر دیا گیا ہے۔ میں چند الفاظ میں اس پر تنقید کرکے بتائوں گا کہ اس میں خامی کیا ہے’ اور جس چیز کی ضرورت کا اس میں اظہار کیا جا رہا ہے وہ ہماری تحریک میں پہلے ہی کس طریقے سے پوری ہو رہی ہے۔
اس میں یہ فرض کیا گیا ہے کہ کسی نظریہ حیات کے مطابق سیاسی انقلاب رونما ہونے کی واحد صورت یہ ہے کہ اس سے پہلے اس نظریّے کے مطابق فکری انقلاب رونما ہو جائے۔ حالانکہ ایسا ہونا کچھ ضروری نہیں ہے۔ خود ہمارے ملک میں انگریزوں نے آ کر پہلے خالص سیاسی تدبیروں سے اقتدار پر قبضہ کیا، پھر اسی ملک کے ذرائع ووسائل سے کام لے کر اپنے نظریہِ حیات کے مطابق افکار، اَخلاق، اطوار، تہذیب، تمدن، ہر چیز کی دنیا بدل ڈالی۔ یہاں یہ فکری وتہذیبی انقلاب سیاسی انقلاب کی علّت نہیں بلکہ اس کا نتیجہ تھا۔ اِسلام کی اپنی تاریخ بتاتی ہے کہ نبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے ابتداً صرف ایک مٹھی بھر جماعت، اِسلامی طرزِ فکر کی حامل تیار کی تھی۔ اس کے بعد سیاسی انقلاب فکری واَخلاقی انقلاب کے ساتھ اس طرح متوازی چلتا رہا کہ دونوں کی تکمیل ایک ساتھ واقع ہوئی۔ وہاں ان دونوں قسم کی مساعی کو ہم ایک دوسرے کا ایسا مددگار پاتے ہیں کہ ہمارے لیے یہ فیصلہ کرنا مشکل ہو جاتا ہے کہ آیا سیاسی انقلاب، فکری واَخلاقی انقلاب کا نتیجہ تھا یا فکری واَخلاقی انقلاب، سیاسی انقلاب کا نتیجہ۔ اس لیے یہ بات ایک کلیہ کے طور پر نہیں کہی جا سکتی کہ سیاسی انقلاب کے لیے فکری انقلاب لازماً ایک شرط مقدّم ہے۔ درحقیقت جس چیز کو شرط مقدم کہا جا سکتا ہے وہ صرف یہ ہے کہ ایک ایسا منظم گروہ موجود ہو یا پیدا ہو جائے جو ایک فکر کا حامل بھی ہو اور اس فکر کو عملی جامہ پہنانے کی صلاحیت بھی رکھتا ہو۔ ایسا گروہ جب وجود میں آ جائے تو پھر یہ امر حالات اور مواقع پر منحصر ہے کہ وہ اپنے مقصود کی طرف کس راستے سے بڑھے۔ اگر سیاسی تغیر ممکن ہو تو کوئی وجہ نہیں کہ محض ایک خیالی نظریہ کی بنا پر وہ اس امکان سے فائدہ اٹھانے میں تامل کرے۔ وہ ایسا کر سکتا ہے کہ اقتدار اور وسائل کو اپنے ہاتھ میں لینے کے بعد پورے نظامِ زندگی کو اپنے نقطہِ نظر کے رخ پر موڑنے کی ویسی ہی کوشش کرے جیسی انگریز یہاں بڑی کام یابی کے ساتھ کرکے دکھا چکے ہیں اور انبیائے کرام میں بھی اس طریق کار کی مثال حضرت یوسف علیہ السلام کی حیاتِ طیبہ میں ملتی ہے اسی طرح وہ یہ بھی کر سکتا ہے کہ فکری انقلاب اور سیاسی تغیر کی ایک ساتھ کوشش کرے، یعنی جس قدر فکری طاقت دعوت پھیلانے سے حاصل ہو اسے سیاسی تغیر کے لیے استعمال کرے اور جتنی طاقت سیاسی تغیر کی سعی وجہد سے حاصل ہو اس سے فکری انقلاب کو اور زیادہ وسیع وعمیق کرنے کی کوشش کرتا چلا جائے۔ یہ وہ طریقِ کار ہے جو ہجرت کے بعد نبی a نے اختیار فرمایا۔
دوسری ایک غلط بات اس خیالی نقشہِ کار میں یہ فرض کی گئی ہے کہ فکری انقلاب برپا کرنے کا بس ایک ہی طریقہ ہے اور وہ یہ ہے کہ ہم تحقیق وتدوینِ علوم کے ادارے قائم کرکے اپنے نظریہ حیات کے مطابق ایک پورا نظام فکر تفصیلاً مرتب کر دیں، پھر اپنے تعلیمی ادارے قائم کرکے ایک کثیر تعداد ایسے لوگوں کی پیدا کریں جو اس نظامِ فکر کے مطابق ذہنی تربیت پائے ہوئے ہوں۔ حالانکہ اس مقصد کے حصول کا یہی ایک طریقہ نہیں ہے۔ اس کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ ہم جس نظام کو بدلنا چاہتے ہیں اس کی خرابیاں اور جس نظام کو لانا چاہتے ہیں اس کے امتیازی خدوخال مجمل مگر واضح اور مدلل وموثر طریقے سے پیش کرکے ایک عملی جدوجہد کا آغاز کر دیں۔ پھر زندگی کے تمام اہم مسائل، جو وقتاً فوقتاً ملک کو درپیش ہوں، بروقت دخل دے کر اپنے نقطۂ نظر کی ترجمانی کریں اور اسی بنیاد پر مخالف نظریات کے مقابلے میں اپنے نظریّے کو غالب کرنے کی کوشش کرتے چلے جائیں، یہاں تک کہ یہ کش مکش اس قدر عام، اس قدر سنجیدہ اور اس قدر نمایاں ہو جائے کہ معاشرے کا کوئی طبقہ اس کی طرف توجہ کئے بغیر نہ رہ سکے۔ اس طریقے سے لازماً ایک عام فکری حرکت رونما ہو گی جس سے معاشرے کے دوسرے طبقات کی طرح اہل علم، اہل قلم، اصحاب درس وتدریس اور زیر تعلیم نوجوان بھی متاثر ہوں گے۔ یہ حرکت جہاں کچھ لوگوں کو ہماری مخالفت پر ابھارے گی، کچھ دوسرے لوگوں کا زاویہ فکر ونظر ہماری موافقت میں بھی تبدیل کرے گی۔ اور یہی بدلے ہوئے ذہن آخر کار خود اپنی افتاد طبع سے وہ علمی اور تعلیمی خدمت انجام دینا شروع کر دیں گے جس کی ضرورت ظاہر کی جا رہی ہے۔ ان میں سے جو جس شعبہ علم سے متعلق ہو گا اور جس پوزیشن میں بھی کام کر رہا ہو گا، وہاں اس کی قابلیتیں اسی سمت میں کام کریں گی جس پر ایک ابتدائی فکری حرکت اسے موڑ چکی ہو گی، اس کے بعد جب یہ کش مکش اور زیادہ ترقی کرکے ملک کے سیاسی نظام میں تغیر پیدا کرنا شروع کر دے گی تو ہمیں اپنے ادارے الگ قائم کرنے کی حاجت نہ رہے گی۔ یہی محکمہ تعلیم یہی مدرسے، یہی کالج، یہی یونی ورسٹیاں اور مختلف قسم کی تربیتوں کے یہی سرکاری ادارے جو آج موجودہیں وہ کام کرنے لگیں گے جس کے لیے ایک ادارہِ تحقیقات اور ایک درس گاہ کی ضرورت ظاہر کی جا رہی ہے۔
اب یہ کہنے کی حاجت نہیں کہ ہم کئی سال سے اسی دوسرے طریقے پر فکری انقلاب لانے کی کوشش کر رہے ہیں اور ہماری یہ کوشش ایک طرف عمومی اصلاح اور دوسری طرف سیاسی تغیر کی جدوجہد کے ساتھ ساتھ متوازی چل رہی ہے۔ اگر عملاً یہ ممکن ہوتا اور اس کے لیے ذرائع ووسائل بہم پہنچتے تو ہم ضرور ایک نہیں، متعدد تحقیقی اور تعلیمی ادارے اب تک قائم کر چکے ہوتے۔ آج بھی اس کے مواقع ہمیں مل جائیں تو ہم یہ کام کرنے میں ایک لمحہ کے لیے بھی تامّل نہ کریں۔ کیوں کہ یہ کام ہماری اسکیم میں شامل ہے اور اس کی ضرورت اور اس کے فائدے سے ہم نہ کبھی غافل تھے، نہ اب غافل ہیں۔ لیکن ہمارے نزدیک یہ کام اسی صورت میں مفید ہے جبکہ یہ اس ہمہ گیر اصلاح وتغیر کی جدوجہد کے ساتھ چلے جس میں ہم کئی سال سے منہمک ہیں۔ اس کو روک کر صرف ایک علمی کام ہی پر اپنی مساعی کو مرکوز کر دینا ہماری نگاہ میں ایک بڑی نادانی کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔ اس کا نتیجہ اگر کچھ ہو سکتا ہے تو وہ صرف یہ کہ جو کچھ ہم نے اب تک کیا ہے وہ بھی ضائع ہو اور جو کچھ ہم آگے بنانا چاہیں وہ بھی شاید نہ بنا سکیں۔
یہ ہے ان وجوہ ودلائل کی کل کائنات جو تحریک اِسلامی کے لائحہ عمل میں سے اس کے سیاسی جز کو خارج یا سردست ملتوی رکھنے کے حق میں اب تک مجھے معلوم ہو سکے ہیں۔ ان کے سوا اگر اور بھی کچھ وجوہ ہوں تو ہم سب ضرور ان کو معلوم کرنا چاہیں گے اور ٹھنڈے دل سے ان پر غور کریں گے۔ لیکن یہ وجوہ جن پر ابھی میں نے آپ کے سامنے تبصرہ کیا ہے، ایسی کسی تجویز کے لیے میرے نزدیک کسی پہلو سے بھی کافی نہیں ہیں۔ بہرحال آخری فیضلہ اجتماع ارکان کے اختیار میں ہے کہ وہ انھیں کافی تسلیم کرتا ہے یا نہیں۔
……٭٭٭……

شیئر کریں