اس بحث کے بعد قرار داد کے آٹھویں نکتے پر کچھ زیادہ گفتگو کرنے کی حاجت نہیں رہتی جس میں دو باتوں پر یکساں زور دیا گیا ہے۔ ایک یہ کہ لائحہِ عمل کے ان چاروں اجزا پر توازن کے ساتھ کام کرنا ضروری ہے۔ دوسرے یہ کہ توازن قائم نہ رہنے کو کسی حالت میں اس امرکے لیے دلیل نہ بنایا جا سکے گا کہ ان اجزا میں سے کسی جز کو ساقط یا مؤخر کر دیا جائے۔
توازن کی اہمیت
ان میں سے پہلی بات کے متعلق صرف یہ کہنا کافی ہے کہ یہ لائحہ عمل جس اسکیم پر مبنی ہے اس کی کام یابی کا سارا انحصار ہی اس کے توازن پر ہے۔ اس کا ہر جز دوسرے اجزا کا مددگار ہے، اس سے تقویت پاتا ہے اور اس کو تقویت بخشتا ہے۔ آپ کسی جز کو ساقط یا معطّل کریں گے تو ساری اسکیم خراب ہو جائے گی۔ اور اس کے اجزا کے درمیان توازن برقرار نہ رکھیں گے تب بھی یہ اسکیم خراب ہو کر رہے گی۔ کام یابی کی صورت صرف یہ ہے کہ ایک طرف دعوت وتبلیغ جاری رکھئے تاکہ ملک کی آبادی زیادہ سے زیادہ آپ کی ہم خیال ہوتی چلی جائے۔ دوسری طرف ہم خیال بننے والوں کو منظم اور تیار کرتے جائیے تاکہ آپ کی طاقت اسی نسبت سے بڑھتی جائے جس نسبت سے آپ کی دعوت وسیع ہو۔ تیسری طرف معاشرے کی اصلاح وتعمیر کے لیے اپنی کوششوں کا دائرہ اتنا ہی بڑھاتے چلے جائیے جتنی آپ کی طاقت بڑھے۔ تاکہ معاشرہ اس نظامِ صالح کو لانے اور سہارنے کے لیے زیادہ سے زیادہ تیار ہوجائے جسے آپ لانا چاہتے ہیں۔ اور ان تینوں کاموں کے ساتھ ساتھ ملک کے نظام میں عملاً تغیر لانے کے آئینی ذرائع سے بھی پورا پورا کام لینے کی کوشش کیجئے تاکہ ان تغیرات کو لانے اور سہارنے کے لیے آپ نے معاشرے کو جس حد تک تیار کیا ہو اس کے مطابق واقعی تغیر رونما ہو سکے۔ ان چاروں کاموں کی مساوی اہمیت آپ کی نگاہ میں ہونی چاہیے۔ ان میں سے کسی کو کسی پر ترجیح دینے کا غلط خیال آپ کے ذہن میں پیدا نہ ہونا چاہیے۔
ان میں سے کسی کے بارے میں غلو کرنے سے آپ کو برہیز کرنا چاہیے۔ آپ کے اندر یہ حکمت موجود ہونی چاہیے کہ اپنی قوتِ عمل کو زیادہ سے زیادہ صحیح تناسب کے ساتھ ان چاروں کاموں پر تقسیم کریں۔ اور آپ کو وقتاً فوقتاً یہ جائزہ لیتے رہنا چاہیے کہ ہم کہیں ایک کام کی طرف اس قدر زیادہ تو نہیں جھک پڑے ہیں کہ دوسرا کام رک گیا ہو، یا کم زور پڑ گیا ہو۔ اسی حکمت اور متوازن فکر اور متناسب عمل سے آپ اس نصب العین تک پہنچ سکتے ہیں جسے آپ نے اپنا مقصدِ حیات بنایا ہے۔
عدم توازن کے دعوے کو لائحہِ عمل کی تبدیلی کے لیے دلیل نہیں بنایا جا سکتا
اب رہی دوسری بات جو اس نکتے میں کہی گئی ہے، تو اسے سمجھنے کے لیے کچھ بہت زیادہ غور و فکر کی بھی حاجت نہیں ہے۔ ایک سیدھی اور صاف بات ہے جسے سیدھے اور صاف طریقے سے ہر صاحب عقل آدمی آسانی کے ساتھ سمجھ سکتا ہے۔ توازن ایک عقلی چیز ہے، کوئی مادی چیز نہیں ہے جسے ناپ تول کر فیصلہ کیا جا سکے کہ وہ برقرار رہا یا نہ رہا۔ ایک شخص جماعت کے حالات اور کام کو دیکھ کر یہ اندازہ کر سکتا ہے کہ وہ برقرار نہیں رہا ہے۔ دوسرا شخص یہی سب کچھ دیکھ کر رائے قائم کر سکتا ہے کہ وہ پوری طرح برقرارہے، یا اس سے زیادہ نہیں بگڑا ہے جتنا اجتماعی کاموں میں اس کا بگڑ جانا ایک فطری امر ہے۔ ایسی ایک چیز کو، جس کا مدار اندازوں پر ہو اور جس میں مختلف لوگوں کے اندازے مختلف ہو سکتے ہیں، اس حد تک اہمیت دینا صحیح نہیں ہو سکتا کہ جماعت میں ہر وقت اس کی بنیاد پر لائحہ عمل کی شکست وریخت کا دروازہ کھلا رہے اور آئے دن اس کے بدلنے اور نئے سرے سے بنانے کی بحثیں اٹھتی رہیں۔ تاہم اگر توازن کے متعلق ناپ تول کر کوئی ایسا فیصلہ کرنا ممکن بھی ہو جس میں دو رایوں کی گنجائش نہ رہے، تب بھی ایک قسم کے عدم توازن کو دوسری قسم کا عدم توازن پیدا کرنے کے لیے دلیل نہیں بنایا جا سکتا۔ زیادہ سے زیادہ جو کچھ اس بنیاد پر کہا جا سکتا ہے وہ بس یہی ہے کہ اگر توازن بگڑ گیا ہے تو اس کو پھر سے قائم کرنے کی کوشش کی جائے، نہ یہ کہ اگر اب تک ایک رخ پر توازن بگڑا رہا ہے تو اب اسے دوسرے رخ پر بگاڑ دیا جائے۔
اس معاملے کو آپ ایک مثال سے بآسانی سمجھ سکتے ہیں۔ فرض کیجئے کہ ایک نسخہ ہے جس میں چار اجزا مساوی الوزن رکھے گئے ہیں۔ کچھ مدت کے بعد آپ پر منکشف ہوتا ہے کہ آپ ایک جز کی مقدار بہت زیادہ استعمال کرتے رہے ہیں اور بقیہ تین اجزا کا تناسب آپ کے زیر استعمال مرکب میں کم ہو گیا ہے۔ اب کوئی اناڑی طبیب ہی ہو گا جو آپ کو یہ مشورہ دے گا کہ آیندہ چھ مہینے تک آپ صرف وہی تین اجزا استعمال کرتے رہیں جو مقررہ مقدار سے کم استعمال ہوئے ہیں اور چوتھے جز کو سرے سے ساقط کر دیں۔
توازن کی بحث میں ایک بڑی غلط فہمی
اس توازن کی بحث میں غلط فہمی کی ایک اور وجہ بھی ہے جسے نگاہ میں رکھنا ضروری ہے۔ عموماً جب کوئی صاحب یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ جماعت کے کام میں لائحہ ِعمل کے چاروں اجزا کا توازن قائم نہیں رہا ہے تو ان کی گفتگو سے صاف محسوس ہوتا ہے کہ ان کے نزدیک اس کے ہر جز پر عمل صرف وہی ہے جو اس خاص جز کے نام سے کیا جائے۔ مثلاً دعوت کا کام وہ صرف اس کوشمار کریں گے جس پر ’’دعوت‘‘ کا عنوان لگا ہوا ہو اور اصلاح معاشرہ کا کام ان کے خیال میں صرف وہ ہو گا جو اس مخصوص نام کے ساتھ کیا گیا ہو۔ رہے وہ کام جن پر ’’سیاست‘‘ کا عنوان چسپاں ہو تو وہ اسے ’’سیاسی کام‘‘ کے خانے میں ڈال دیں گے اور یہ تسلیم نہ کریں گے کہ اس عنوان کے تحت دعوت، توسیعِ نظام اور اصلاحِ معاشرہ کا بھی کوئی کام ہوا ہے۔ اس طرح بعض لوگوں نے مختلف عنوانات کے خانوں میں جماعت کے کام کو تقسیم کر رکھا ہے اور زیادہ تر یہی چیز ان کے اس دعوے کی بنیاد ہے کہ جماعت کا سیاسی کام اس کے دوسرے کاموں سے بہت بڑھ گیا ہے۔ حالانکہ ہم جو اپنے لائحہِ عمل میں چار عنوانوں پر کام کو تقسیم کرکے بیان کرتے ہیں تو وہ صرف یہ سمجھانے کے لیے ہے کہ زندگی کے کن کن گوشوں میں ہمیں کن مقاصد کے لیے سعی کرنی ہے، اس کا یہ مطلب کبھی نہیں ہوتا اور نہیں ہو سکتا کہ عملاً بھی یہ الگ الگ کام ہوں گے۔ واقعہ کے اعتبار سے تو ان میں سے ہر کام ایسا ہے جس میں آپ سے آپ بقیہ سارے کام بھی شامل ہوتے ہیں۔ جب آپ دعوت کا کام کریں گے تو وہ مذہبی واعظوں کے طرز پر صرف دعوت ہی نہ ہو گی بلکہ توسیعِ دعوت نظام اور اصلاحِ معاشرہ کا مقصد بھی اس کے ساتھ خود بخود پورا ہو گا اور یہی آپ کا کام، سیاسی پارٹیوں کے طرز پر محض سیاسی کام ہی نہ ہو گا، بلکہ اس کا افتتاح ہی دعوت دین سے کیا جائے گا اور اس کے اندر لازماً توسیعِ دعوت اور اصلاحِ معاشرہ کے عناصر بھی شامل ہوں گے۔
مثال کے طور پر اسی انتخابی کام کو لیجیے جو ۵۱ء میں ہم نے کیا تھا۔ اس کے متعلق اگر کوئی شخص یہ سمجھتا ہے کہ وہ صرف سیاسی کام تھا تو یہ اس کی اپنی سمجھ کا قصور ہے۔ ورنہ حقیقت یہ ہے کہ اس انتخابی مہم میں دعوت دین پھیلانے کا کام جتنے وسیع پیمانے پر کیا گیا تھا اس کی کوئی دوسر ی مثال پیش نہیں کی جا سکتی۔ اس وقت جو منشور شائع کیا گیا تھا اسے پڑھ کر دیکھ لیجیے۔ اگر اس پر دعوت کا اطلاق نہ ہوتا ہو تو میں نہیں سمجھتا کہ پھر کس چیز پر اس نام کا اطلاق ہو سکتا ہے۔ اور اس وقت جو تقریریں کی گئی تھیں ان کے مضامین پر بھی غور کر لیجیے۔ آخر ان میں سے کونسی تقریر دین کی بنیادی دعوت سے خالی تھی؟ اسی طرح اس وقت انتخابی مہم کی بدولت نظامِ جماعت کی توسیع کا جو کام ہوا وہی تو آخر کار دور درازکے دیہاتی علاقوں تک میں مستقل حلقائے متفقین کی تنظیم کا ذریعہ بنا۔ پھر اصلاحِ معاشرہ کا اس سے بڑا کام اور کیا ہو سکتا ہے کہ اس انتخابی مہم میں سابق پنجاب کی ڈیڑھ ہزار بستیوں کے پچاس ہزار باشندوں کو اس بنیاد پر منظم کر لیا گیا کہ وہ اِسلامی نظام کے قیام کا مقصد سامنے رکھ کر اپنی نمائندگی کے لیے نیک آدمی تلاش کریں، تقریباً ۱۷ سو بالکل نئے کارکن انھی بستیوں میں سے نکال لیے گئے جنھوں نے اَخلاق اور ضابطے کی پوری پابندیوں کے ساتھ ایک خالص اصولی اور مقصدی سعی انتخاب میں بے غرضانہ جانفشانی سے کی اور کم از کم ڈیڑھ لاکھ آدمیوں کو اس بات پر آمادہ کر لیا گیا کہ حکومت کے دبائو، زمین داروں کے دبائو، برادری کے تعصّب اور روپے کے لالچ سے آزاد ہو کر خالص اصول کی خاطر اچھے آدمیوں کے حق میں رائے دیں۔
معاملے کے اس پہلو کو نگاہ میں رکھا جائے تو ان لوگوں کی رائے اور بھی زیادہ کم وزن رہ جاتی ہے جو توازن وعدم توازن کے سوال پر لائحہ عمل کی شکست وریخت کا دروازہ مستقلاً کھلا رکھنا چاہتے ہیں۔
……٭٭٭……