Search
Close this search box.

فہرست موضوعات

عرضِ ناشر
قرار داد
ضمیمہ
تقریر
نکتۂ اوّل
نکتۂ دوم
نکتۂ سوم
نکتۂ چہارم
نکتۂ پنجم
نکتۂششم
نکتۂ ہفتم
نکتۂ ہشتم
نکتۂ نہم ودہم

تحریک اسلامی کا آئندہ لائحہ عمل

اس ویب سائٹ پر آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ اب آپ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمتہ اللہ علیہ کی کتابوں کو ’’پی ڈی ایف ‘‘ کے ساتھ ساتھ ’’یونی کوڈ ورژن‘‘ میں بھی پڑھ سکتے ہیں۔کتابوں کی دستیابی کے حوالے سے ہم ’’اسلامک پبلی کیشنز(پرائیوٹ) لمیٹڈ، لاہور‘‘، کے شکر گزار ہیں کہ اُنھوں نے اس کارِ خیر تک رسائی دی۔ اس صفحے پر آپ متعلقہ کتاب PDF اور Unicode میں ملاحظہ کیجیے۔

نکتۂ چہارم

قرارداد کے چوتھے حصے میں یہ تجویز کیا گیا ہے کہ لائحۂ عمل کے پہلے تین اجزاء کے لیے فی الحال وہ پروگرام کافی ہے جو اس قرارداد کے ساتھ بطور ضمیمہ شامل کیا جا رہا ہے۔ دوسرے الفاظ میں اس کو یوں سمجھئے کہ جو ذرائع و وسائل اس وقت ہمیں میسر ہیں انھیں دیکھتے ہوئے ہم سرِدست اس قدر کام اپنے ذمّہ لے رہے ہیں جسے انجام دینے کی ان وسائل کے ساتھ ہم توقع رکھتے ہیں۔ اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ اگر اللّٰہ تعالیٰ ہمارے وسائل میں اضافہ کر دے تب بھی ہم اتنے ہی کام پر اکتفا کریں گے، یا موجودہ وسائل کے ساتھ اگر کوئی مزید خدمت بھی ہمارے لیے ممکن ہوئی جو اس پروگرام میںدرج نہیں ہے تو ہم اس سے منہ موڑ لیں گے۔
پروگرام کی تشریح
اب میں اس پروگرام کا تجزیہ کرکے بتائوں گا کہ لائحۂ عمل کے لیے اس میں کیا کچھ رکھا گیا ہے اور اس کا منشا پورا کرنے کے لیے آپ کو کیا کچھ کرنا ہے۔
علمی وفکری میدان میں کام کا پروگرام
ہمارے لائحۂ عمل کا پہلا جز تطہیرِ افکار وتعمیر افکار ہے۔ یہ بجائے خود اتنا وسیع میدانِ کار ہے جس میں اگر ساری جماعت اپنے اوقات کا ایک ایک لمحہ اور اپنے وسائل کا ایک ایک پیسہ بھی صرف کر ڈالے تو اس کے کسی ایک گوشے کا بھی احاطہ نہیں کر سکتی۔ لیکن ہمیں بہرحال اپنی ساری طاقت ایک ہی میدان میں صرف نہیں کر دینی ہے بلکہ توازن کے ساتھ وہ سارے کام کرنے ہیں جو ہمارے نصب العین کی طرف پیش قدمی کرنے کے لیے ضروری ہیں۔ اس لیے علمی وفکری میدان کے مختلف گوشوں میں ہم نے صرف اہم ضروریات کو سامنے رکھ کر ۱۹۵۸ء کے اختتام تک کے لیے کام کا ایک منصوبہ بنایا ہے جو پانچ بڑے بڑے شعبوں پر مشتمل ہے۔
۱۔ شعبہ تعلیم
اس میں تین کام ہم نے اپنے ذمّے لیے ہیں (۱) علوم دینی کی تعلیم کا ایسا انتظام جس سے جدید زمانے کی ضرورت کے مطابق علما تیار ہو سکیں۔ (۲) ابتدائی تعلیم کے ایسے مدارس کا قیام جس میں دینی تعلیم کا انتظام بھی ہو اور اَخلاقی تربیت کا بھی۔ (۳)تعلیمِ بالغاں کے ایسے مراکز کا قیام جہاں اَن پڑھ عوام کو خواندہ بنانے کے ساتھ انھیں دین سے بھی واقف کرایا جائے اور اپنے طبقے کے دوسرے لوگوں کی اصلاح کا جذبہ بھی ان میں بیدار کیا جائے۔
۲۔ شعبہ ِتراجم
اس میں سابق کاموں کو جاری رکھتے ہوئے چار خاص کاموں کا منصوبہ بنایا گیا ہے۔ (۱)انگریزی زبان میں جماعت کے لٹریچر کا ترجمہ۔ (۲) بنگلہ زبان میں چند ایسی کتابوں کا ترجمہ جن کی مشرقی پاکستان میں فوری ضرورت ہے۔ (۳) ایک بنگلہ پرچے کی اشاعت (۴) اردو زبان میں اِسلام کے متعلق ضروری کتابوں کے ترجمے کرانے کے لیے ایک ادارے کا قیام۔
۳۔ شعبہ ِنشر افکار
اس میں دارالمطالعوں کی توسیع کا پروگرام رکھا گیا ہے۔
۴۔ شعبہ ِتحقیقاتِ علمی
اس میں ایک ایسے ادارے کا قیام تجویز کیا گیا ہے جو عمدہ ذہنی استعداد رکھنے والے نوجوانوں کو علمی تحقیقات کے لیے تیار کرے۔ اور جب تک ایسے ادارے کا قیام ممکن نہ ہو، اس وقت تک کے لیے کم از کم یہ پروگرام بنایا گیا ہے کہ جماعت کے کارکنوں میں جو لوگ اچھی صلاحیتیں رکھتے ہیں انھیں دوسری سرگرمیوں سے فارغ کر کے مختلف شعبوں میں علمی کام پر لگایا جائے۔

۵۔ شعبہ ِخواتین
اس میں ایک ایسے ادارے کا قیام تجویز کیا گیا ہے جو عورتوں کے لیے لٹریچر بھی تیار کرے اور تعلیم وتربیت کی خدمت بھی انجام دے۔
توسیع جماعت اور اندرونی اصلاح کا پروگرام
لائحۂ عمل کا دوسرا جز صالح افراد کی تلاش، تنظیم اور تربیت ہے۔ یہ کام دراصل نظامِ جماعت کی توسیع واستحکام کا کام ہے جسے ابتدا سے جماعت کرتی چلی آ رہی ہے اور آج ہماری جتنی کچھ بھی طاقت ہے اسی کام کی بدولت ہے۔ اب اس کے لیے جو پروگرام بنایا گیا ہے وہ دو حصوں پر مشتمل ہے۔
پہلا حصہ توسیعِ جماعت کا ہے جس میں ۱۹۵۸ء کے اختتام تک متفقین کی تعداد مشرقی پاکستان میں دس ہزار اور مغربی پاکستان میں ۴۰ ہزار تک پہنچانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ غور سے دیکھیے تو معلوم ہو گا کہ یہ محض توسیعِ جماعت ہی کا کام نہیں ہے بلکہ توسیعِ دعوت اورنشرِ افکار اور اصلاح معاشرہ کا کام بھی ہے۔ اس لیے کہ جب تک آپ لاکھوں آدمیوں تک اپنا پیغام نہ پہنچائیں گے، ہزاروں آدمیوں کو متفق بنا کر جماعت سے منسلک نہ کر سکیں گے اور جتنے آدمیوں کو آپ متفق بنائیں گے اتنے ہی اس معاشرے میں دعوتِ اِسلامی سے ذ ہنی واَخلاقی طور پر متاثر ہونے والے پیدا کر لیں گے اور سب نہیں تو ان میں سے ایک کثیر تعداد ایسی بھی نکل آئے گی جو اصلاحِ عمومی کی خدمت کے لیے کارکن بن سکے گی۔
دوسرا حصہ جماعت کی اندرونی اصلاح اور کارکنوں کی تربیت سے متعلق ہے۔ اس حصے میں ہم نے اپنے تجربات کی بِنا پر ان اسباب کو ٹھیک ٹھیک مشخص کیا ہے جو جماعت میں خرابیوں کی پیدائش کے موجب ہوتے ہیں اور ان کا علاج تجویز کر دیا ہے۔ ہمارے نزدیک جماعت کے اندر خرابی پیدا ہونے کے چار بڑے سبب ہیں۔
اوّل یہ کہ کارکنوں کے درمیان نزاعات رونما ہوں اور انھیں بروقت رفع نہ کیا جائے۔
دوم یہ کہ کسی مقام یا علاقے میں کسی وجہ سے جماعت کا کام بگڑ رہا ہو، یا سست پڑ رہا ہو اور اس کی طرف فورًا توجہ نہ کی جائے۔
سوم یہ کہ ارکانِ جماعت کی اَخلاقی ودینی حالت، ان کے معاملات اور نظمِ جماعت میں ان کے طرزِ عمل کا محاسبہ نہ ہوتا رہے، قابل اصلاح لوگوں کی اصلاح کے لیے کوشش نہ کی جائے، اورناقابلِ اصلاح لوگوں کو جماعت سے خارج کرنے میں بے جا تساہل برتا جائے۔
چہارم یہ کہ جماعت کے کارکنوں کی تربیت کا مناسب انتظام نہ ہو اور وہ اس عقیدے اور فکر اور جذبے سے غافل ہوتے چلے جائیں جو تحریک اِسلامی کے خادموں کو حرکت میں لانے والی اصل قوت محرکہ ہے۔
ہم نے جماعت کی اندرونی اصلاح کا جو پروگرام بنایا ہے وہ انھی چار اسباب کے علاج پر مرکوز کیا گیا ہے۔
جماعتِ اِسلامی نے ارکان کی کمیت کو کبھی اہمیت نہیں دی ہے۔ اس کی نگاہ ہمیشہ ارکان کی کیفیت پر رہی ہے۔ وہ اس بات کی قائل ہے کہ خام آدمیوں کی ایک بھیڑ جمع کر لینے سے کچھ حاصل نہیں۔ ہمارے پاس چاہے مٹھی بھر آدمی ہوں، لیکن اگر وہ سیرتِ صالحہ اور جذبہ ِصادق رکھتے ہوں، نظم میں مضبوط اور عمل میں سرگرم ہوں اور آپس میں بنیانِ مرصوص کی طرح جڑے ہوئے ہوں تو وہ اٹھ کر وقت کے سیلاب کا منہ موڑ سکتے ہیں اور واقعات کی رفتار کو اپنے عقیدے کے مطابق بدل جانے پر مجبور کر سکتے ہیں۔
ہم اس بات کے بھی کبھی قائل نہیں رہے کہ اگر ہمارے ساتھ دوچار یا دس بیس فی صدی بے کار آدمی آ گئے ہوں، یا اب بے کار ہو گئے ہوں تو ہم ان کی خاطر اپنی راہ کھوٹی کریں اور بیٹھ کر اپنے لائحہ عمل پر نظر ثانی شروع کر دیں۔ ہم پہلے بھی سینکڑوں بے کار ساتھیوں کو چھانٹ کر پھینک چکے ہیں اور اب بھی یہی کریں گے۔ ہمارا نقطہِ نظر یہ ہے کہ قافلے کو اپنے نصب العین کی طرف مسلسل پیش قدمی جاری رکھنی چاہیے۔ جو ساتھ چل سکتا ہو وہ چلے اور جو نہ چل سکتا ہو وہ الگ ہو جائے۔ یا خود الگ نہ ہو تو الگ کر دیا جائے۔ درماندگانِ راہ کو سنبھالنے اور آگے لے چلنے کی کوشش تو ہم ضرور کریں گے، مگر ان کی خاطر اپنی راہ کھوٹی نہ کریں گے اور نہ کوئی ایسا قدم اٹھانے سے باز رہیں گے جو ہمارے مقصد کے لیے ضروری ہو۔
عوامی اصلاح وتربیت کے لیے کام کا پروگرام
ہمارے لائحہ عمل کا تیسرا جز اجتماعی اصلاح کی سعی ہے۔ یہ کام بھی جماعت ہر دور میں اپنی قوت واستعداد کے مطابق کرتی رہی ہے اور جیسے جیسے ہمارے وسائل بڑھتے گئے ہیں، ہم اس کا دائرہ وسیع کرتے چلے گئے ہیں۔ اب اپنی موجودہ طاقت اور وسائل کو دیکھتے ہوئے ہم محسوس کرتے ہیں کہ معاشرے کی ہمہ گیر اصلاح کا ایک پروگرام لے کر ہم چل سکتے ہیں۔ اس پروگرام میں ہم نے ان کاموں کا ذکر نہیں کیا ہے جو پہلے سے ہمارے مستقل شعبوں کی شکل میں ہو رہے ہیں، مثلاً خدمتِ خلق اور شعبہ محنت کاراں وغیرہ۔ بلکہ اس میں صرف عمومی اصلاح کے کاموں کا ذکر کیا گیا ہے۔ پہلے یہ کام متفرق طور پر تھوڑے بہت کہیں کہیں ہو رہے تھے۔ اب ہم چاہتے ہیں کہ جماعت ایک منظم طریقے سے، باقاعدہ ایک مہم کے طور پر ایک منصوبہ بنا کر انھیں چلائے اور جن جن علاقوں میں اس کو کارکن اور ذرائع میسر آتے جائیں، وہاں ایک ترتیب کے ساتھ انھیں آگے بڑھاتی چلی جائے۔ اب ہر علاقے کی جماعتِ اِسلامی کو ان کاموں کا حساب اپنے کارکنوں سے لینا اور اپنے اوپر کے نظم کو دینا ہو گا۔ اب انھیں خود بھی یہ دیکھنا ہو گا اور بالائی نظم کو بھی یہ دکھانا پڑے گا کہ کن کن بستیوں میں اس سلسلے کا کیا کام ہو رہا ہے اور کس تدریج وترتیب کے ساتھ وہ دوسری بستیوں کی طرف پھیل رہا ہے۔
اس پروگرام میں سرِدست حیات اجتماعی کے مختلف گوشوں کے لیے کام کا جو نقشہ بنایا گیا ہے وہ یہ ہے۔
۱۔ مذہبی گوشے میں کارکنان جماعت کو یہ کام کرنے ہوں گے۔
(۱) عوام الناس کو اطاعتِ خدا اور رسول کی طرف بلانا، ان میں آخرت کی باز پرس کا احساس بیدار کرنا، انھیں نیکی اور بھلائی کی تلقین کرنا اور انھیں اِسلام کی حقیقت سمجھانا۔
(۲)عام لوگوں کو ان ضروری احکامِ دینی سے باخبر کرنا جن کا جاننا مسلمان کی سی زندگی بسر کرنے کے لیے ناگزیر ہے۔
(۳)مساجد کی حالت درست کرنا اور ان کے لیے مسلم معاشرے میں مرکزی اہمیت پیدا کرنا۔
(۴)مذہبی جھگڑوں کو روکنا اور لوگوں کو اس کش مکش کے نقصانات کا احساس دلانا۔
۲۔ اَخلاقی گوشے میں ہمارے کارکنوں کو تین کاموں پر اپنی قوت صرف کرنی ہو گی:
(۱) غنڈہ گردی کا انسداد۔
(۲) ہر قسم کے فواحش کا انسداد۔
(۳) رشوت وخیانت کی روک تھام۔
ان اغراض کے لیے ہم صرف اَخلاقی تلقین ہی پراکتفا کرنا نہیں چاہتے بلکہ معاشرے کے شریف عناصر کو ان برائیوں کے مقابلے میں منظم کرکے ان کے خلاف عملی جدوجہد بھی کرنا چاہتے ہیں۔
۳۔ معاشی گوشے میں ہم کوشش کریں گے کہ تین طرح کی خدمات انجام دی جائیں۔
(۱) توخذ من اغنیاء ھم فترد علیٰ فقراء ھم کے شرعی اصول پر بستیوں کے غریبوں، محتاجوں اور معذوروں کی باقاعدہ اعانت کا انتظام اور اس کے لیے انھی بستیوں کے ذی استطاعت لوگوں سے مدد لینا۔
(۲)سرکاری محکموں اور اداروں سے عام لوگوں کی شکایات رفع کرانا اور داد رسی حاصل کرنے کے معاملے میں جس حد تک ممکن ہو ان کی مدد کرنا۔
(۳)بستیوں کے لوگوں میں اپنی مدد آپ کرنے کا جذبہ پیدا کرنا تاکہ وہ خود ہی مل جل کر اپنی بستیوں کی صفائی اور راستوں کی درستی اور حفظانِ صحت کا انتظام کر لیا کریں۔
۴۔ تعلیمی گوشے میں ہماری کوشش یہ ہو گی۔
(۱) بستیوں اور محلوں میں دارالمطالعے کھولنا۔
(۲) تعلیم بالغاں کے مراکز قائم کرنا۔
(۳) جہاں جہاں بستیوں کے لوگ مالی ذرائع فراہم کرنے پر تیار ہوں وہاں ایسے پرائمری اسکول قائم کرنا جن میں سرکاری نصاب پڑھانے کے ساتھ دینی تعلیم وتربیت کا انتظام بھی ہو۔
اس تفصیلی تجزیہ سے یہ بات اچھی طرح واضح ہو جاتی ہے کہ اس پروگرام میں لائحہ عمل کے ابتدائی تین اجزا میں سے ہر ایک کا حق ادا کرنے کی پوری کوشش کی گئی ہے۔ ہمارے موجودہ وسائل کے لحاظ سے یہ پروگرام نہ بہت ہلکا ہے نہ بہت بھاری۔ اسی لیے قرارداد میں اسے ’’کافی‘‘ تعبیر کیا گیا ہے۔ تاہم اگر کوئی اورکام بھی ایسا ہو جو ہمارے نصب العین کے لیے زمین ہموارکرنے، یا اس کی طرف پیش قدمی کرنے کے لیے ضروری ہو اور ہمارے وسائل اس کے متحمل ہوں، تو ہم ہر وقت اس پروگرام میں اس کا اضافہ کر سکتے ہیں۔
ہو سکتا ہے کہ اس پروگرام کی تفصیلات دیکھ کر بعض لوگوں پر یہ اثر بھی پڑے کہ یہ تو ایک بڑا لمبا چوڑاپروگرام بنا کر رکھ دیا گیا ہے جس پر عمل درآمد ہونا مشکل ہے۔ ایسا تاثر اگر کسی کا ہے تو درحقیقت یہ ایک سطحی تاثر ہے۔ اس کی مثال ایسی ہے کہ جیسے کوئی شخص کھانا پکانے کے عمل کی جزئیات وتفصیلات کاغذ پر پڑھ کر یا کسی کی زبان سے سن کر ہول کھا جائے اور سمجھے کہ بھلا اتنے کام کون نمٹا سکتا ہے۔ حالانکہ کام کرنے والے ہاتھ روزانہ دو دو اور تین تین مرتبہ ان سارے کاموں کو نمٹاتے رہتے ہیں اور اپنے ایک ایک عمل میں ان بہت سی تفصیلات کو سمیٹتے چلے جاتے ہیں جو کاغذ پر بکھری ہوئی بہت نظر آتی ہیں۔
……٭٭٭……

شیئر کریں