Search
Close this search box.

فہرست موضوعات

عرضِ ناشر
قرار داد
ضمیمہ
تقریر
نکتۂ اوّل
نکتۂ دوم
نکتۂ سوم
نکتۂ چہارم
نکتۂ پنجم
نکتۂششم
نکتۂ ہفتم
نکتۂ ہشتم
نکتۂ نہم ودہم

تحریک اسلامی کا آئندہ لائحہ عمل

اس ویب سائٹ پر آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ اب آپ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمتہ اللہ علیہ کی کتابوں کو ’’پی ڈی ایف ‘‘ کے ساتھ ساتھ ’’یونی کوڈ ورژن‘‘ میں بھی پڑھ سکتے ہیں۔کتابوں کی دستیابی کے حوالے سے ہم ’’اسلامک پبلی کیشنز(پرائیوٹ) لمیٹڈ، لاہور‘‘، کے شکر گزار ہیں کہ اُنھوں نے اس کارِ خیر تک رسائی دی۔ اس صفحے پر آپ متعلقہ کتاب PDF اور Unicode میں ملاحظہ کیجیے۔

نکتۂ نہم ودہم

اب مجھے اس قرار داد کے صرف آخری دو نکات پر بحث کرنی ہے جن میں کہا گیا ہے کہ ہم انتخابات سے بے تعلق بہرحال نہیں رہ سکتے، خواہ ان میں بلاواسطہ حصہ لیں یا بالواسطہ یا دونوں طرح، البتہ یہ امر کہ ہمیں کس وقت، کس طرح، یا کس کس طرح ان میں حصہ لینا ہے، جماعت کی مرکزی مجلسِ شُورٰی پر چھوڑ دینا چاہیے تاکہ وہ ہر انتخاب کے موقع پر حالات کا جائزہ لے کر اس کا فیصلہ کرے۔
تبدیلی قیادت کا واحد راستہ، انتخابات
اس معاملے میں صحیح رائے قائم کرنے کے یے تین حقیقتیں واضح طور پر آپ کی نگاہ میں رہنی چاہئیں:
پہلی یہ کہ آپ اس ملک میں اِسلامی نظامِ زندگی عملاً قائم کرنا چاہتے ہیں اور اس کے لیے قیادت کی تبدیلی ناگزیر ہے۔
دوسری یہ کہ آپ جس ملک میں کام کر رہے ہیں وہاں ایک آئینی وجمہوری نظام قائم ہے اور اس نظام میں قیادت کی تبدیلی کا ایک ہی آئینی راستہ ہے… انتخابات
تیسری یہ کہ ایک آئینی وجمہوری نظام میں رہتے ہوئے تبدیلیِ قیادت کے لیے کوئی غیر آئینی راستہ اختیار کرنا شرعاً آپ کے لیے جائز نہیں ہے اور اسی بِنا پر آپ کی جماعت کے دستور نے آپ کو اس امر کا پابند کیا ہے کہ آپ اپنے پیش نظر اصلاح وانقلاب کے لیے آئین وجمہوری طریقوں ہی سے کام کریں۔
ان تین حقیقتوں کو ملا کر جب آپ غور کریں گے تو بالکل منطقی طور پر ان سے وہی نتیجہ نکلے گا جو قرارداد میں بیان کیا گیا ہے۔ آپ انتخابات میں آج حصہ لیں یا دس، بیس، پچاس برس بعد بہرحال، اگر آپ کو یہاں کبھی اِسلامی نظام زندگی قائم کرنا ہے تو راستہ آپ کو انتخابات ہی کا اختیار کرنا پڑے گا۔
انتخابات عام میں حصہ لینے کے ہر موقع سے فائدہ اٹھانا ضروری ہے
اس کے ساتھ اگر یہ حقیقت بھی آپ کی نگاہ میں رہے کہ جس ملک میں آئینی وجمہوری نظام کار فرما ہو اور جہاں مختلف نظریات ومقاصد کے لیے کام کرنے والی طاقتیں بھی اپنا کام کر رہی ہوں اور جہاں پہلے سے ایک طرز خاص کی قیادت اپنی جڑیں جمائے ہوئے ہو، وہاں ایک نئی قیادت کا ابھرنا کبھی یک لخت نہیں ہو سکتا بلکہ وہاں یہ تبدیلی لازماً بتدریج ہی ہو گی، تو آپ کو یہ ماننے میں کوئی تامل نہ رہے گا کہ اس تدریجی عمل کو آج ہی سے شروع ہونا چاہیے۔ اس کی ابتدا آپ آج سے کریں تو دس بیس سال میں آخری منزل آپ کے سامنے ہو گی۔ دس بیس سال بعد کریں تو اس کی تکمیل کے لیے آپ کو دس بیس ہی سال اور انتظار کرنا پڑے گا۔ یہ امید کرنا غلط ہے کہ کسی وقت بھی آپ اس پوزیشن میں ہوں گے کہ انتخابات کے میدان میں اترتے ہی آپ کا پہلا قدم آخری منزل پر پڑے۔ لہٰذا دانش مندی کا تقاضا یہی ہے کہ جو کام آپ کو کسی نہ کسی وقت کرنا ہے اور اپنے نصب العین تک پہنچنے کے لیے جسے کئے بغیر چارہ نہیں ہے، اسے آپ پہلا موقع ملتے ہی شروع کر دیں اور ہر بعد کے موقع پر اپنے پچھلے کام سے فائدہ اٹھا کر آگے بڑھنے کی کوشش کریں۔
وجوہ اختلاف اور ان کی کم زوریاں
اس کے جواب میں جو باتیں کہی جاتی ہیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ موجودہ بگڑے ہوئے معاشرے میں انتخابات کے ذریعہ سے تبدیلیِ قیادت کی کوشش کرنا گھوڑے کے آگے گاڑی باندھنا ہے۔ آپ کو پہلے معاشرے کی اصلاح کرنی چاہیے تاکہ اس میں صالح نظام کی پیاس اورصالح لوگوں کی طلب اور ان کو تلاش کرنے کی صلاحیت پیدا ہو جائے، اس کے بعد ہی یہ ممکن ہو گا کہ انتخابات میں ایسے لوگ کام یاب ہوں جو اِسلامی نظامِ زندگی برپا کرنے کی اہلیّت بھی رکھتے ہوں اور برسر اقتدار آ کر وہ اس مقصد کے لیے عملاً کچھ کر بھی سکیں۔ ورنہ اگر معاشرہ یہی رہے جس کے بگاڑ کا حال کسی سے پوشیدہ نہیں، تو محض انتخابات کے ذریعہ سے ایک صالح قیادت کا ابھر آنا کسی طرح ممکن نہیں ہے۔ اس لیے صحیح ترتیبِ کار یہ ہے کہ ہم ایک مدت تک انتخابات کے میدان میں اترنے سے پرہیز کریں اور اپنی تمام مساعی صرف اصلاحِ معاشرہ کے لیے وقف رکھیں۔ پھر جب یہ اطمینان ہو جائے کہ معاشرے میں ایک صالح قیادت کی مانگ اور اسے ابھارنے کی صلاحیت پیدا ہو چکی ہے، تب انتخابات میں حصہ لیں، کیوں کہ وہی اس کا صحیح وقت ہو گا۔
بظاہر یہ بات بڑی وزنی معلوم ہوتی ہے۔ لیکن اس کا تجزیہ کرکے دیکھیے تو معلوم ہوتا کہ اس کی ساری بنیاد چند غلط مفروضات پر رکھی گئی ہے اور پھر ان مفروضات سے ایک غلط نتیجہ نکال کر جو ترتیب ِکار تجویز کی گئی ہے وہ عقلی اور عملی دونوں پہلوئوں سے نہایت خام ہے۔
غلط مفروضات
پہلی غلط بات جو اس میں فرض کی گئی ہے، یہ ہے کہ یہاں کوئی شخص اصلاحِ معاشرہ کا کام چھوڑ کر صرف انتخابات کے ذریعہ سے تبدیلی قیادت کی کوشش کرنا چاہتا ہے۔ حالانکہ یہ بات امرِ واقعہ کے خلاف ہے۔ ہم جس لائحۂِ عمل پر برسوں سے کام کر رہے ہیں اور اب اس پورے کام کی جو اسکیم آپ کے سامنے رکھی گئی ہے، اس کے چار میں سے تین اجزا اصلاح معاشرہ ہی کی تدابیر پر مشتمل ہیں۔ یہ ہمارا دائمی پروگرام ہے جس پر ہمیں سال کے تین سو پینسٹھ دن کام کرنا ہے، خواہ انتخابات ہوں یا نہ ہوں۔ اس لیے یہاں اصل بحث یہ نہیں ہے کہ آیا تبدیلیِ قیادت کے لیے اصلاح معاشرہ کا کام کیا جائے یا صرف انتخابات لڑے جائیں۔ بلکہ بحث دراصل یہ ہے کہ آیا اصلاح معاشرہ کی یہ ساری کوشش جاری رکھنے کے ساتھ انتخابات میں بھی حصہ لیا جائے یا نہیں۔ ہماری اسکیم یہ ہے کہ یہ دونوں کام ایک ساتھ ہونے چاہئیں۔ اب جو شخص یہ رائے رکھتا ہو کہ ان میں سے صرف ایک کام ہونا چاہیے اور دوسرا نہ ہونا چاہیے، وہ اپنی اس رائے کے حق میں معقول دلیل لائے۔ اسے بتانا چاہیے کہ صرف اصلاح معاشرہ ہی کے کام پرکیوں اکتفا کیا جائے اور انتخابات کے موقع پر اس کام کے نتائج کا فائدہ اٹھانے سے کیوں گریز کیا جائے؟
معاشرے کے بنائو اور بگاڑ سے انتخابات کا گہرا تعلق
دوسری غلط بات اس میں یہ فرض کی گئی ہے کہ انتخاب صرف ووٹ لینے اور دینے کا کام ہے، معاشرے کے بنائو اور بگاڑ سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔ حالانکہ دراصل معاشرے کو بنانے اور بگاڑنے میں اس کا بہت بڑا حصہ ہے اور کوئی ایسا شخص جو ’’اصلاحِ معاشرہ‘‘ کا محض لفظ ہی نہیں بلکہ اس کے معنی بھی جانتا ہو، ان اثرات کو نظر انداز نہیں کر سکتا جو انتخابات میں رائے دہندگی بالغاں کا اصول رائج ہو، وہاں تو ووٹر اور معاشرہ درحقیقت ایک ہی چیز کیے دو نام ہیں، کیوں کہ معاشرے کا ہر بالغ شخص اس میں ووٹر ہوتا ہے، ان ووٹروں سے اگر روپے کے عوض ووٹ خریدے جائیں، یا طرح طرح کے دبائو ڈال کر، یا لالچ دے کر ان کے ووٹ حاصل کیے جائیں تو اس کے معنی یہ ہیں کہ آپ کے گرد وپیش ایک ضمیر فروش، لالچی اور دبو معاشرہ تیار ہو رہا ہے اور ساتھ کے ساتھ اسی معاشرے میں ان دلالوں، غنڈوں اور بدکردار طالبین اقتدار کی تربیت بھی ہو رہی ہے جو اپنی قوم کی ان اَخلاقی کم زوریوں سے ناجائز فائدہ اٹھانے والے ہوں۔ دوسری طرف اگر ان ووٹروں سے برادریوں اور قبیلوں اور صوبوںکے نام پر بھی ووٹ لیے جائیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ کے معاشرے کو تنگ نظر، جاہلانہ تعصب اور افتراق وانتشار کی تربیت بھی دی جا رہی ہے اور اس کے ساتھ آپ ہی کی قوم کے کچھ ذہین اوربااثر عناصر کو یہ تعلیم مل رہی ہے کہ اپنی ذاتی ترقی کے لیے وہ ہتھکنڈے استعمال کریں۔ تیسری طرف اگر ان ووٹروں سے روٹی اور کپڑے کے نام پر، معاشی مفادات کے نام پر، یا کچھ دوسرے لادینی اصولوں اور نظریات کی تبلیغ کرکے بھی ووٹ لیے جائیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ کے پورے معاشرے کو، اس کے ایک ایک بالغ مرد اور عورت کو، مادہ پرستی، دنیا پرستی اور لادینی نظریہ حیات کے حق میں رائے دینے کے لیے بھی تیار کیا جا رہا ہے۔
انتخابات میں یہ تینوں قسم کے عناصر معاشرے کے اندر سے اپنا اپنا حصہ لیں گے اور انتخابات کا نتیجہ ٹھیک ٹھیک ناپ تول کر آپ کو بتا دے گا کہ ان میں سے ہر ایک نے اس کو کس قدر بگاڑنے میں کام یابی حاصل کی ہے۔ ان عناصر کو اس تخریب معاشرہ کے لیے کھلی چھٹی دے دینا اور یہ کہنا کہ ہم تو انتخابات کو چھوڑ کر صرف اصلاح معاشرہ کریں گے، آخر کیا معنی رکھتا ہے؟
ووٹروں کو صحیح انتخابات کے لیے تیار کرنا اصلاح معاشرہ کا سب سے بڑا کام ہے
پھر اصلاح معاشرہ سے اگر آپ کی مراد معاشرے کو اِسلامی نظامِ زندگی قائم کرنے کے لیے تیار کرنا ہے تو ووٹر کو صحیح انتخابات کے لیے تیار کرنا اس کے دائرہ ِعمل سے خارج کیسے ہو سکتا ہے؟ اور یہ کام کئے بغیرکس طرح ممکن ہے کہ آپ کا معاشرہ کبھی فاسد قیادتوں کو ہٹا کر کوئی صالح قیادت برپا کرنے کے قابل ہو سکے؟ آپ کو اس کے لیے ووٹر کی اَخلاقی قدریں بدلنی ہوں گی، اسے اِسلامی نظام سے روشناس کرانا ہو گا۔ اس میں اِسلامی نظام کی طلب پیدا کرنی ہو گی۔ اس کو صالح اور غیر صالح کی تمیز دینی ہو گی۔ اس کو یہ احساس دلانا ہو گا کہ اس ملک کی بھلائی اور برائی کا ذمّہ دار براہِ راست وہ خود ہے۔ اس میں اتنی اَخلاقی طاقت اور سمجھ بوجھ پیدا کرنی ہو گی کہ نہ دھن کے عوض اپنا ووٹ بیچے، نہ دھونس میں آ کر اپنے ضمیر کے خلاف کسی کو ووٹ دے، نہ دھوکا دینے والوں کے دھوکے میں آئے اور نہ دھاندلیوں سے بد دل ہو کر گھر بیٹھ رہے۔ یہی کام تو ہم انتخابات میں حصہ لے کر کرنا چاہتے ہیں{ FR 7718 } کیا کوئی صاحبِ عقل آدمی یہ کَہ سکتا ہے کہ یہ اصلاحِ معاشرہ کا کام نہیں ہے؟ اور کیا کسی دانش مند کا یہ خیال ہے کہ اپنے ملک کے ووٹروں کو اس حیثیت سے تیار کیے بغیر یہاں کبھی انقلابِ قیادت ہو سکے گا؟
انتخابات سے الگ رہ کر آپ معاشرے کی اصلاح کے لیے جو تدبیریں اختیار کریں گے وہ لوگوں کے عقائد، طرزِ فکر، اَخلاق، عادات اور معاملات کو دوسرے تمام پہلوئوں سے تو ضرور سنوار سکیں گے، مگر ان کے ذہن اور اَخلاق کا یہ خاص پہلو کہ وہ اپنے ملک کی زمام اقتدار کس کو سونپنا پسند کرتے ہیں اور فاسد قیادتوں کے مقابلے میں صالح قیادت کو اوپر لانے کے لیے کتنے عزم وجزم سے کام لیتے ہیں، اس کی اصلاح وتربیت انتخابات کے سوا کسی دوسرے ذریعہ سے نہیں کی جا سکتی اور ظاہر ہے کہ انقلابِ قیادت کے معاملے میں فیصلہ کن چیز افرادِ معاشرہ کے ذہن واَخلاق کا یہی پہلو ہے۔
انتخابات اصلاح معاشرہ کا صرف ذریعہ ہی نہیں، اس کا پیمانہ بھی ہیں
تیسری ایک غلط بات اس تجویز میں اور بھی فرض کی گئی ہے اور وہ یہ ہے کہ ہم انتخابات سے الگ اصلاح معاشرہ کا کام کرتے ہوئے کسی خاص مرحلے پر پہنچ کر بآسانی یہ معلوم کر لیں گے کہ اب ہمارے معاشرے میں صالح قیادت برپا کرنے کی خواہش اور صلاحیت پیدا ہو چکی ہے اور اس علم کی بنا پر ہم اطمینان کے ساتھ یہ فیصلہ بھی کر سکیں گے کہ انتخابات میں حصہ لینے کا صحیح وقت آ گیا ہے۔
میرے نزدیک یہ محض ایک خوش فہمی ہے جو معاملات کو نہایت سطحی نظر سے دیکھنے کی وجہ سے بعض لوگوں کو لاحق ہو گئی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ لوگوں کا نمازی، پرہیز گار، صحیح العقیدہ اور اصلاح پسند ہو جانا اور چیز ہے اور ان کا عملاً اس ارادے میں مضبوط ہو جانا کہ فیصلے کے وقت ہر تعصب، ہر لالچ، ہر خوف اور ہر فریب سے غیر متاثر رہ کر اپنا وزن اِسلامی نظام کے پلڑے میں ڈالیں گے، بالکل ہی ایک دوسری چیزہے۔ پہلی نوعیت کی عام اصلاح آپ جتنی چاہیں اور جتنے بڑے پیمانے پر چاہیں کرتے رہیں، مگر یہ بات کہ فی الواقع کتنے لوگوں نے اس فیصلہ کن حد تک اصلاح قبول کی ہے، صرف فیصلے کے وقت ہی معلوم ہو سکتی ہے اور وہ فیصلے کا وقت انتخابات کے موقع پر ہی آتا ہے۔ یہ وہ پیمانہ ہے جو ہر چند سال کے بعد معاشرے کے ذہن واَخلاق کی حقیقی حالت اور اس کی بھلائی اور برائی کا ایک ایک پہلو ناپ کر دکھا دیتا ہے۔ یہ ایک مردم شماری ہے جو گن کر بنا دیتی ہے کہ آپ کے معاشرے میں کتنے ووٹ بیچنے والے ہیں، کتنے دبائو میں آنے والے ہیں، کتنے فریب کھانے والے ہیں، کتنے تعصبات میں مبتلا ہیں، کتنے غیر اِسلامی نظریات سے متاثر ہوئے ہیں، کس قدر دھاندلیاں یہاں چلتی ہیں اور ان سب کے درمیان کتنے لوگوں کو آپ واقعی اِسلامی نظام کی حمایت کے لیے تیار کرنے میںکام یاب ہوئے ہیں۔ اس میزان کا سامنا کئے بغیر آخر کس ذریعے سے آپ یہ معلوم کریں گے کہ چند سال تک آپ نے معاشرے کی اصلاح کے لیے جو محنت کی ہے اس سے حقیقت میں کتنی اصلاح ہوئی اور کتنی ابھی کرنی باقی ہے۔{ FR 7719 }
انتخابات سے الگ رہنے کے نتائج
ان غلط مفروضات پر جس تجویز کی بِنا رکھی گئی ہے، اب ذرا خود اس کا جائزہ لے کر دیکھیے کہ اگر ہم اس پر عمل کریں تو اس کے نتائج کیا ہوں گے۔
انتخابات کے موقع پر اگر ہم خودمیدانِ مقابلہ میں آ کر ووٹر کی عملی راہ نُمائی نہ کریں تو ہماری محض تبلیغ اور اَخلاقی تلقین اس کے لیے بے معنی ہو گی۔ اس کے سامنے تو اس وقت یہ عملی سوال درپیش ہو گا اور یہی سوال وہ ہمارے سامنے بھی رکھے گا کہ ’’میں ووٹ استعمال کروں یا نہ کروں اور کروں تو کس کے حق میں؟‘‘ اس کے جواب میں ہمارا صرف یہ کَہ کر رہ جانا کہ تم ایمان داری کے ساتھ صالح آدمی کو ووٹ دو اور غیر صالح کو نہ دو، اس کے سوال کا درحقیقت کوئی جواب نہ ہو گا۔ وہ تو یہ کہے گا کہ کوئی صالح آدمی ہے تو اسے سامنے لائو۔ یا جو لوگ انتخاب کے لیے کھڑے ہوئے ہیں ان میں سے کسی کا بتائو کہ میں اس کو ووٹ دوں۔ اگر ہم اس کے مسئلے کو حل نہیں کرتے تو وہ ہم سے مایوس ہوجائے گا۔ وہ سمجھ لے گا کہ یہ اس وقت میرے کسی کام نہیں آ سکے۔ ہماری تبلیغ وتلقین اس پر بے اثر ہو گی اور بالعموم اس کا ووٹ غلط جگہ ہی استعمال ہو گا۔ یا حد سے حد اگر اس تبلیغ کا کوئی اثر اس نے قبول کیا بھی تو وہ اس شکل میں ہو گا کہ وہ سرے سے کہیں ووٹ ہی نہ دے گا، یعنی محض ایک منفی اثر۔ جو طاقت مثبت طور پر ایک صحیح مقصد کے لیے استعمال کی جا سکتی تھی وہ صرف رائیگاں چلی جائے گی اور انتخاب پر کچھ بھی اثر انداز نہ ہو گی۔
یہ معاملہ تو عام ووٹر کے ساتھ پیش آئے گا۔ رہے جماعتِ اِسلامی کے ارکان، متفقین، متاثرین اور وہ لوگ جو راہ نُمائی کے لیے اس کی طرف دیکھتے ہیں، تو یقینا ان کی بہت بڑی اکثریت کو انتخابات میں اپنا ووٹ استعمال کرنے سے احتراز ہی کرنا پڑے گا، کیوں کہ اس ملک کے طول وعرض میں کم ہی مقامات ایسے ہوں گے جہاں کسی شخص کو ووٹ دینے کا فیصلہ ہم کر سکیں۔
اب ذرا حساب لگا کر دیکھیے کہ جماعتِ اِسلامی کے اپنے حلقہ اثر کے ووٹ پورے پاکستان میں کس قدر ہیں اور عوام میں اپنی تبلیغ اور جدوجہد سے وہ کتنے ووٹروں کو بالفعل متاثر کر سکتی ہے۔ آپ کسی مبالغہ کے بغیر یہ تسلیم کریں گے کہ مجموعی طور پر یہ تعداد کئی لاکھ تک پہنچتی ہے{ FR 7720 } اس چیز کو نگاہ میں رکھ کر آپ خود اندازہ کیجئے کہ یہ منفی پالیسی اختیارکرکے ہم کتنی بڑی طاقت ضائع کریں گے۔ یہ وزن ہے جو خیر کے پلڑے میں ڈالا جا سکتا ہے اور جسے کسی شر کا پلڑا ہلکا کرنے کے لیے بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔ آخرکیا معقول وجہ ہے کہ ہم اس کو یوںضائع کریں۔
اس پالیسی کا نقصان صرف یہی نہ ہو گا کہ ہم خیر کے لیے کام آنے والی ایک طاقت کو معطّل کریں گے، بلکہ درحقیقت یہ پالیسی متعدّد وجوہ سے شر کے لیے مثبت طور پر مددگار ہو گی۔
اس کی بدولت انتخابات کا یہ نتیجہ تو بہرحال سارے ملک کے سامنے آئے گا کہ یہاں غیر اِسلامی نظریات سے متاثر ہونے والے، یا تعصبات اور خوف اور لالچ کے زیر اثر رائے دینے والے کتنے ہیں۔ لیکن یہ بات مبہم ہی رہے گی کہ اس آبادی میں کتنے لوگ اِسلامی نظامِ زندگی کے حامی ہیں اور اس کی خاطر ایمان داری کے ساتھ اپنا ووٹ دے سکتے ہیں۔ یہ چیز بگاڑ کی طاقتوں کے لیے حوصلہ افزا اور اصلاح کی کوشش کرنے والوں کے لیے ہمت شکن ہو گی اور عام طور پر پبلک کے نفسیات پر بھی اس کا تباہ کن اثر پڑے گا۔
اس سے عام لوگوں میں مایوسی پیدا ہو جائے گی کہ موجودہ قیادت سے نجات کی کوئی صورت نہیں ہے، اس لیے وہ دل چھوڑ کر اس کے آگے ہتھیار ڈال دیں گے۔
لوگ اس بات سے بھی مایوس ہو جائیں گے کہ یہاں اِسلامی نظامِ زندگی قائم کرنے کے لیے عملاًکچھ کیا جا سکتا ہے۔ وہ دیکھیں گے کہ جو لوگ اسی کام کا بیڑا اٹھا کر نکلے تھے وہ فیصلے کے وقت پیچھے ہٹ گئے۔ اس سے یقینا عام ذہن یہی اثر لے گا کہ اِسلامی نظام کی باتیں محض وعظوں کے لیے ہیں، کرکے دکھا دینے والا کوئی نہیں ہے۔
…میدان میں صرف وہ عناصر رہ جائیں گے جو معاشرے کے ذہن اور اَخلاق کو بگاڑنے والے اور فاسد قیادتوں کو بروئے کار لانے کی کوششیں کرنے والے ہیں۔ یہ لوگ اس ملک کی پوری بالغ آبادی میں اپنی فکری اور اَخلاقی گمراہیاں پھیلائیں گے اور ایک ایک ووٹر تک اپنے ناپاک اثرات پہنچا دیں گے۔ جواب میں کوئی طاقت ایسی نہ ہو گی جو اس زہر کا مداوا کر سکے۔ جماعتِ اِسلامی، انتخابات میں محض بھلائی کا وعظ کہنے کے لیے خواہ کتنا ہی بڑا پروگرام بنائے‘ میدانِ مقابلہ میں اترے بغیر فطرتاً یہ کسی طرح ممکن نہ ہو گا کہ کارکن ہر ووٹر تک پہنچیں اور ہر انتخابی حلقے میں برائی کے بالمقابل بھلائی کا عملی مظاہرہ کر سکیں۔
…ووٹر کوعملاً صرف فاسد ومفسد عناصر ہی سے سابقہ ہو گا۔ اس کے سامنے ان کا کوئی بدل سرے سے ہو گا ہی نہیں کہ وہ اس کے سوا کسی اور کو ووٹ دینے کی سوچ سکے۔ جو شخص بھی اپنا ووٹ استعمال کرے گا اس کا ووٹ لامحالہ انھی میں سے کسی کو جائے گا۔ اور جو نہ کرے گا اس کا وزن کسی پلڑے میں پڑے گا ہی نہیں کہ اس کا کوئی اچھا یا بُرا اثر مرتب ہو۔
…اس طرح ہم یہاں غیر اِسلامی اور غیر اَخلاقی طاقتوں کو چھا جانے کا کھلا موقع دے دیں گے۔ وہ ایوان حکومت کے اندر بھی اس طرح چھائیں گی کہ کوئی دینی عنصر ان کو اور ان کی باتوں کو چیلنج کرنے والا نہ ہو گا۔ اور باہر پبلک کے ذہن پر بھی مسلّط ہو جائیں گی، کیوں کہ اِسلامی نظام زندگی کی حمایت کرنے والا عنصر اس کو عملاً مایوس کر چکا ہو گا۔
یہ ہیں اس پالیسی کے لازمی نتائج جن سے ہم کسی طرح نہیں بچ سکتے، اب جو شخص ہم سے یہ کہنا چاہتا ہو کہ ہمیں پھر بھی انتخابات سے الگ ہی رہنا چاہیے؟ اسے یہ بتانا ہو گا کہ انتخابات میں حصہ لینے کے وہ کون سے نقصانات ہیں اور الگ رہنے کے وقت کون سے فوائد ہیں جنھیں وہ ان نتائج کے مقابلے میں زیادہ وزنی ثابت کر سکتا ہو۔
کچھ اور وجوہِ اختلاف
اس سلسلے میں جو باتیں مجھے اس خیال کے حامیوں سے سننے کا موقع ملا ہے ان میں زیادہ سے زیادہ قابل لحاظ باتیں صرف تین ہیں۔
ایک یہ کہ انتخابات میں حصہ لے کر جماعت کے اَخلاق کا ستیاناس ہو جائے گا۔ وہ بے لگام سیاسی کھلاڑیوں کے مقابلے میں کش مکش کرنے کے لیے آگے بڑھے گی تو انھی کی سی باتیں کرنے لگے گی اور انھی کے سے کھیل کھیلنے لگے گی۔
دوسرے یہ کہ جہاں انتخابات میں وہ ہتھکنڈے استعمال کئے جاتے ہوں جو پنجاب، سرحد اور بہاول پور کے انتخابات میں استعمال کیے گئے تھے، اورجہاں عوام الناس صرف غفلت ہی کے شکار نہ ہوں بلکہ اپنی مختلف کم زوریوں کی بِنا پر ان کی بڑی اکثریت ووٹ کا حق غلط جگہ استعمال کرتی ہو، وہاں کام یابی کے امکانات بہت کم ہیں اورناکامی کا نتیجہ یقینا انتہائی دل شکن ہو گا۔
تیسرے یہ کہ اگر مرکزی اور صوبائی اسمبلیوں میں چند نشستیں حاصل کر بھی لی گئیں تو اس کا حاصل کیا ہو گا؟
اَخلاقی دیوالہ کا خدشہ
پہلی بات کا جواب یہ ہے کہ جماعتِ اِسلامی آج تک برائیوں کے مقابلے میں کش مکش کرکے بھلائی کو نشوونما دینے کی قائل رہی ہے اور اس کے اندر اچھے یا برے، جو کچھ بھی اَخلاق بنے ہیں، اسی نظریّے پرکام کرنے سے بنے ہیں۔ اب اگرکش مکش اور مقابلے سے ہٹ کر گوشوں میں اَخلاق بنانے کا نظریہ اختیار کرنا ہو، تو جماعت کے لوگوں کو سوچ سمجھ کر اس کا فیصلہ کرنا چاہیے۔ میرا اپنا نقطہ نظر جسے تفصیل کے ساتھ بیان کر چکا ہوں، یہ ہے کہ میدانِ مقابلہ سے ہٹ کر جواَخلاق گوشوں میں بنائے جائیں گے وہ کبھی کار زار میں کام آنے کے قابل نہ ہوں گے۔
پھر یہ سوال بھی غور طلب ہے کہ اگر پندرہ سولہ سال کی اَخلاقی تنظیم کے باوجود جماعتِ اِسلامی کے اَخلاق ایسے ہی بودے ہیں کہ سیاسی کھلاڑیوں کے مقابلے میں آتے ہی یہ بھی وہی سب کچھ کرنے لگے گی جو وہ کرتے ہیں، تو آگے کیا امید کی جا سکتی ہے کہ ہم کبھی اس فیصلہ کن معرکے میں قابل اطمینان سیرت وکردار لے کر آ سکیں گے؟ اس کے لیے آپ کتنی مدت تجویز کرتے ہیں؟ حصول اطمینان کی کیا صورت اور اس کا کیا معیار آپ کے سامنے ہے؟ اس سیرت وکردار کو پیدا کرنے کے لیے وہ کونسا کورس آپ کی نگاہ میں ہے جو آپ عملی آزمائشوں کا سامنا کئے بغیر آپ کے کارکنوں میں یہ چیز قابل اطمینان حد تک پیدا کر دے گا؟ اور اگر ساری کوششوں کے بعد پہلی آزمائش پیش آتے ہی یہ بات کھلے کہ آپ سو فیصدی معیاری آدمی فراہم کرنے میں ناکام ہوئے ہیں تو آپ کا کیا ارادہ ہے؟ ان سیاسی کھلاڑیوں کو نظامِ زندگی کی فرمانروائی سے ہٹانے کے لیے آگے بڑھیں گے یا پھر میدان ان کے ہاتھ چھوڑ کر تربیت گاہوں کی طرف پلٹ جائیں گے؟ میرا خیال یہ ہے کہ اس وہمی پن اور چھوئی موئی کی سی ذہنیت اور اس غیر عملی طرزِ فکر کے ساتھ آپ اس معرکے میں کبھی نہ اتر سکیں گے۔ اس لیے لامحالہ آپ کو دو باتوں میں سے ایک کا فیصلہ کرنا ہو گا۔ یا تو سوچنے کا یہ انداز بدلئے، یا پھر اس خیال کو چھوڑیے کہ یہاں اِسلامی نظام زندگی کو عملاً قائم کرنے کے لیے آپ کو کچھ کرنا ہے۔ کیوں کہ یہ کام جب بھی آپ کرنا چاہیں گے، لازماً انھی سیاسی کھلاڑیوں کے مقابلے میں آ کر انتخابی جنگ آپ کو لڑنی پڑے گی اور اس جنگ کے میدان میں اترنے کا جب بھی آپ ارادہ کریں گے، یہ خدشہ آپ کو ضرور لاحق ہو گا کہ جماعت کہیں اپنا سارا اَخلاقی سرمایہ اس میں نہ لٹا بیٹھے۔
اس موقع پر آپ مجھ سے پوچھ سکتے ہیں کہ تم اس خدشے کو وہمی پن، چھوئی موئی کی سی ذہنیت اور غیر عملی انداز فکر سے کیوں تعبیر کرتے ہو؟ میں عرض کروں گا کہ میرے پاس اس کے معقول وجوہ ہیں۔
جماعتِ اِسلامی آج گہوارے سے نکل کر نئی نئی میدان عمل میں نہیں آئی کہ ہم من حیث الجماعت اس کی قوت وضعف اور اس کے حسن وقبح کا کوئی اندازہ نہ کر سکتے ہوں۔ دس سال سے وہ پاکستان میں ان طاقتوں سے عملاً نبرد آزما ہے جو سارے اَخلاقی حدود کو بالائے طاق رکھ کر اس کا راستہ روکتی رہی ہیں اور اس مدت میں وہ ان اکثر وبیشتر آزمائشوں سے گزر چکی ہے جو کسی انسانی گروہ کو پیش آ سکتی ہیں۔ اس کے خلاف جھوٹ کے طوفان بھی اٹھے ہیں۔ اس پر فتووں کی مار بھی پڑی ہے۔ اسے گالیوں سے بھی نوازا گیا ہے۔ اس کو طرح طرح کی سازشوں سے بھی سابقہ پیش آیا ہے۔ اس کی راہ میں قدرتی اور مصنوعی دونوں قسم کی رکاوٹوں کے پہاڑ حائل ہوئے ہیں۔ اس کی تاریخ میں کئی مرتبہ سخت اشتعال انگیز مواقع بھی آئے ہیں۔ وہ لالچ سے بھی آزمائی گئی ہے اور خوف سے بھی۔ اس کو سیاسی پارٹیوں سے ملنے کا بھی اتفاق ہو چکا ہے اور لڑنے کا بھی۔ اس کو انتہائی دل شکن اور مایوس کن حالات کا بھی بارہا سامنا کرنا پڑا ہے۔ اور سیاسی جوڑ توڑ کی اس فضا میں، جو برسوں سے اس ملک میں طاری ہے، ہر وقت ایسے مواقع بھی موجود رہے ہیں کہ اگر اس کی اجتماعی سیرت میں ذرا سا جھول بھی ہوتا تو وہ اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھو سکتی تھی جس میں دوسرے بہت سے لوگ آج غوطے لگا رہے ہیں۔ میں پوچھتا ہوں، کیا دس سال کے اس مسلسل امتحان نے جماعت کو واقعی اتنا ہی کم زور ثابت کیا ہے جتنا اسے فرض کیا جا رہا ہے۔
پھر انتخابات بھی اس کے لیے کوئی نئی چیز نہیں ہیں۔ وہ اس سے پہلے اس امتحان سے بھی گزر چکی ہے۔ اس کے کارکنوں نے جعلی ووٹوں کی ایسی بوچھاڑ کا سامنا کیا ہے، وہ دھاندلیاں دیکھی ہیں، ضمیر بیچنے اور خریدنے کی وہ گرم بازاری دیکھی ہے، سیاسی کھلاڑیوں کے درمیان وہ سودے بازیاں دیکھی ہیں اور جھوٹ کے ان طوفانوں کا مقابلہ کیا ہے، جن کی نظیر اس ملک میں، بلکہ شاید کسی دوسرے ملک میں بھی نہیں دیکھی گئی۔ ان کو بغیر کسی سابق تجربے کے پہلی مرتبہ اس نوعیت کی انتخابی جنگ میں جھونکا گیا تھا اور ذرائع کی انتہائی قلت کے ساتھ انھیں حکومت کی پیدا کردہ مشکلات سے بھی سابقہ تھا، برادریوں کے تعصبات بھی ان کی راہ روک رہے تھے اور بعض مذہبی طبقوں نے بھی انھیں تنگ کرنے میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھی تھی۔ کیا کوئی بندہِ خدا انصاف کے ساتھ یہ کَہ سکتا ہے کہ جماعت اس امتحان میں اَخلاقی حیثیت سے دیوالیہ ہی ثابت ہوئی تھی؟
یہاں سوال رائے اور اندازوں کا نہیں، واقعہ اور حقیقت کا ہے۔ اور سوال بعض افراد کے شخصی کرداد کا بھی نہیں، جماعت کے مجموعی کردار کا ہے۔ کیا کوئی شخص جماعت کے دامن پر اس پورے دس سال کی تاریخ میں کوئی اَخلاقی داغ دکھا سکتا ہے؟ اگر نہیں دکھا سکتا تو پھر ماننا پڑے گا کہ اس وقت اِسلام اور جاہلیت کے معرکے میں قدم آگے بڑھانے کے لیے جو کم از کم اَخلاقی طاقت کافی ہے اور جیسی کچھ قابل اعتماد اَخلاقی طاقت اس بگڑے ہوئے معاشرے کے اندر سے فراہم ہو سکتی ہے، وہ تو ہمارے پاس موجود ہے۔ اس کو لے کر ہم آگے بڑھ سکتے ہیں۔ اجتماعی کوشش سے اسی جدوجہد کے دوران میں مزید اَخلاقی طاقت پیدا کی جا سکتی ہے۔ تجربات اور آزمائشوں سے جو کم زوریاں سامنے آئیں انھیں رفع کرنے کی تدبیریں بھی عمل میں لائی جا سکتی ہیں۔ معیار سے گر جانے والوں کو سنبھالا بھی جا سکتا ہے اور بدرجہ آخر نکالا بھی جا سکتا ہے۔ ان ساری باتوں کو نظر انداز کرکے جو لوگ کچھ خیال خطرے ہمارے سامنے رکھتے ہیں، کچھ انفرادی واقعات کوجوڑ جاڑ کر جماعت کی مجموعی حالت کا ایک بھیانک نقشہ ہمارے سامنے کھینچتے ہیں اور کام کرنے کے لیے شرط کے طور پر ایسے اَخلاقی معیار کا مطالبہ کرتے ہیں جس کو وہ خود متعین بھی نہیں کر سکتے، ان کے متعلق آخر میں اس کے سِوا اور کیا کَہ سکتا ہوں کہ وہ غیر عملی انداز فکر میں مبتلا ہیں، ان کے تخیلات کی دنیا واقعات کی دنیا سے باہر کہیں واقع ہے اور ان کی طرح اگر مختلف افراد کی انفرادی کم زوریوں کو ہم جماعت کی مجموعی کم زوری ٹھیرا کر پوری جماعت کو ناقابل کار سمجھنے لگیں تو ایسا وقت آنے کی کبھی امید نہیں کی جا سکتی کہ یہ جماعت کیا، کوئی انسانی جماعت بھی قابلِ کار قرار پا سکے۔ پھر تو بہتر یہی ہے کہ ٹھنڈے دل سے اس دنیا کو فساق وفجار کے سپرد کیجئے اور صرف وعظ وتبلیغ کرکے اپنے دل کو تسلی دے لیجیے کہ یہاں اقامتِ دین کا فریضہ بس اسی حد تک انجام دیا جا سکتا ہے۔
ناکامی کا خطرہ
اب دوسری وجہ کو لیجیے۔ اس میں استدلال کی بنیاد یہ ہے کہ سیاسی گروہ اور اصحابِ اقدار جو انتخابی ہتھکنڈے استعمال کرتے ہیں ان کے مقابلے میں کام یاب ہونا بہت مشکل ہے اور مزید مشکل یہ ہے کہ عوام الناس غافل بھی ہیں اور ان کی بڑی اکثریت جان بوجھ کر بھی غلط جگہ ووٹ دیتی ہے۔ اس حالت میں اگر ہم انتخابات میں حصہ لیں گے تو زیادہ تر امکان اس امر کا ہے کہ ناکام ہوں گے۔ اور اس ناکامی کا لازمی نتیجہ یہ ہو گا کہ کارکن بد دل ہوں گے، تحریک اِسلامی سے دل چسپی رکھنے والوں میں مایوسی پھیلے گی اور پبلک میں بھی اس تحریک کی ہوا اکھڑ جائے گی۔ لہٰذا ہمیں انتخابات سے الگ رہ کر وہ حالات پیدا کرنے چاہییں جن میں کام یابی اگر یقینی نہ ہو تو کم از کم کسی بڑی ناکامی کا خطرہ تو نہ ہو۔
میں تسلیم کرتا ہوں کہ ان حالات میں واقعی کام یابی کے امکانات بہت کم ہیں۔ یہ بھی مانتا ہوں کہ ناکامی کااثر پبلک کے ذہن پر بھی برابر پڑتا ہے، تحریک کے حامی بھی دل شکستہ ہوتے ہیں اور خود ہمارے کارکنوں میں بھی اس سے کچھ نہ کچھ بددلی ضرور پیدا ہوتی ہے۔ مگر اس کے باوجود میں یہ تسلیم نہیں کرتا کہ انتخابات سے الگ رہنے کے لیے یہ کوئی صحیح اور معقول وجہ ہے۔ کیوں کہ ناکامی کے جو اسباب بیان کئے جا رہے ہیں ان میں سے کسی سبب کو بھی انتخابات میں حصہ لیے بغیر دور نہیں کیا جا سکتا۔ الگ رہنے سے یہ اسباب گھٹیں کے نہیں بلکہ اور زیادہ بڑھتے چلے جائیں گے۔ ان کے علاج کی صورت اگرکوئی ہے تو یہی کہ ہم پے درپے اس معرکہ میں گھس کر ان کا مقابلہ کرتے رہیں اور ان کا زور توڑتے چلے جائیں۔
آپ خود غور کرکے دیکھیں۔ یہ انتخابی ہتھکنڈے جو سیاسی پارٹیاں استعمال کرتی ہیں اور جن کے استعمال میں زمامِ کار کے موجودہ مالک طاق بھی ہیں اور بے باک بھی، کیا آپ سمجھتے ہیں کہ یہ خود بخود متروک ہو جائیں گے؟ کیا آپ کا خیال یہ ہے کہ رفتہ رفتہ یہ لوگ آپ ہی اتنے نیک ہو جائیں گے کہ ان ہتھکنڈوں کے استعمال سے انھیں شرم آنے لگے گی؟ اور کیا آپ زمام کار کی تبدیلی کے لیے اس ساعت سعید کا انتظار کرنا چاہتے ہیں جب مقابلہ صرف شریف آدمیوں سے رہ جائے اور برے لوگ میدان سے ہٹ جائیں؟ اگر یہ آپ کی امیدیں ہیں اور یہ وہ شرطیں ہیں جن کے پورا ہونے پر ہی آپ قیادت بدلنے کے اس واحد آئینی وسیلہ سے کام لے سکتے ہیں، تو میں نہیں سمجھتا کہ کبھی آپ کی یہ امیدیں اور یہ شرطیں پوری ہوں گی اور آپ اس کارِ خیر کے لیے آگے بڑھ سکیں گے۔ تبدیلیِ قیادت کے لیے آپ واقعی کچھ کرنا چاہتے ہیں تو اس کی صورت صرف یہ ہے کہ اس گندے کھیل میں پاکیزگی کے ساتھ آئیے۔ تمام برے ہتھکنڈوں کا مقابلہ صحیح طریقوں سے کیجئے۔ جعلی ووٹ کے مقابلے میں اصل ووٹ لائیے۔ دھن سے ووٹ خریدنے والوں کے مقابلے میں اصول اور مقصد کی خاطر ووٹ دینے والے لا کر دکھائیے۔ دھوکے اور فریب اور جھوٹ سے کام لینے والوں کے مقابلے میں سچائی اور راستبازی کا مظاہرہ کیجئے۔ دھونس اور زبردستی سے ووٹ لینے والوں کے مقابلے میں ایسے ووٹر پیش کیجئے جو بے خوف ہو کر اپنے ضمیر کے مطابق ووٹ دیں۔ دھاندلیوں کے مقابلے میں ٹھیٹھ ایمان داری برت کر دکھائیے۔ ایک دفعہ نہیں، دس دفعہ ناکامی ہو تو ہو۔ آپ کوئی تبدیلی یہاں لا سکتے ہیں تو اسی طریقے سے لا سکتے ہیں۔ اسی طرح آخر کار وہ وقت آئے گا جبکہ سارے ہتھکنڈوں کے باوجود غلط کار لوگ شکست کھا جائیں گے۔ اسی طرح یہاں کے انتخابی نظام کی برائیاں بے نقاب ہوں گی۔ اسی طرح ان برائیوں کے خلاف عام نفرت اور بیزاری پیدا کی جا سکے گی۔ اسی طرح انتخاب کے طریقوں کی اصلاح کا راستہ کھلے گا۔
پھر جس پبلک کی غفلت، بے حسی اور اَخلاقی کم زوریوں کا آپ رونا روتے ہیں، اس کی اصلاح بھی آپ کے اسی عمل سے ہو سکے گی۔ اسی سے اس کا ضمیر بیدار ہو گا۔ اس سے لوگوں کو یہ امید بندھے گی کہ یہاں بھلے طریقوں سے بھی کام کیا جا سکتا ہے۔ اس سے لوگوں کا خوف بھی دور ہو گا، ووٹ فروشی کا مرض بھی کم ہوتا جائے گا اور رائے عام کی اتنی تربیت بھی ہوتی چلی جائے گی کہ ہمارے عام ووٹر اغراض اور تعصبات کی بنا پر ووٹ دینے کے بجائے اصول اور نظریات کی بنا پر بے لاگ طریقے سے ووٹ دینے کے قابل ہو جائیں گے۔
بِلاشبہ یہ ایک دشوار گزار گھاٹی ہے، اس میں ٹھوکریں لگیں گی، ناکامیاں ہوں گی، کم زور دل کے لوگ دل شکستہ بھی ہوں گے، تحریک سے دل چسپی رکھنے والوں میں سے بھی بہت سے لوگ مایوسی سے دوچار ہوں گے اور ظاہر میں پبلک کا بھی ایک اچھا خاص حصہ اِن ابتدائی ناکامیوں کا غلط مطلب لے گا۔ لیکن منزل مقصود تک پہنچنے کا کوئی راستہ اس گھاٹی کے سوا نہیں ہے۔ اور مجھے اس میں اتنی بڑی ناکامی کا خطرہ بھی نہیں ہے جس کا ہوا ہمیں دکھایا جاتا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ ہم ساری ناجائز تدبیروں کے مقابلے میں، اسی غافل اور کم زور پبلک کے اندر سے، ٹھیٹھ اصولی طریق کار برت کر، چند لاکھ ووٹ ضرور لے کر دکھا دیں گے اور یہ چیز ان شاء اللّٰہ اس ملک کے تمام اصلاح پسند اور دین پسند طبقوں میں یاس کے بجائے امید کی شمع روشن کر دے گی۔ پھر میں یہ بھی توقع رکھتا ہوں کہ ایک انتخاب میں ایسے ووٹوں کا جو تناسب ہو گا وہ بعد کے انتخابات میں گھٹے گا نہیں، بلکہ ان شاء اللّٰہ العزیز برابر بڑھتا ہی چلا جائے گا، یہاں تک کہ آخر کار میزان کا رخ پلٹ کر رہے گا۔
صرف چند نشستوں کا حاصل؟
رہی یہ بات کہ اس وقت اگر صوبائی اور مرکزی اسمبلیوں میں چند نشستیں حاصل کر بھی لی گئیں تو ان کا حاصل کیا ہو گا، تو میں عرض کروں گا کہ اس سے کچھ نہیں‘بہت کچھ حاصل ہو گا۔
اس وقت جماعتِ اِسلامی صرف پبلک میں کام کر رہی ہے۔ جو بااختیار ادارے ملک کے نظام کو چلانے کی اصل طاقت رکھتے ہیں، ان میں اس کا کوئی حصہ نہیں ہے۔ اسی لیے وہ اپنے تمام اَخلاقی اور ذہنی اثرات کے باوجود یہاں کے حالات پر براہِ راست اثر انداز نہیں ہو سکتی۔ انتخابات میں چند نشستیں حاصل کر لینے کے بعد یہ پوزیشن بدلنی شروع ہو جائے گی۔ ایک مرتبہ آپ اس ملک کی سیاسی تصویر میں جگہ پا لیں، پھر آپ کو خود معلوم ہو جائے گا کہ آپ کی بات کا وزن کتنا بڑھ گیا ہے۔
اب تک آپ صرف پبلک میں اپنی آواز اٹھاتے رہیں ہیں۔ ایوان حکومت میں، جو فیصلے کی جگہ ہے، آپ کی کوئی آواز نہیں ہے۔ وہاں پہنچ کر آپ کی آواز دونوں جگہ بلند ہو گی اور ان لوگوں سے زیادہ وزنی ہو گی جن کی آواز صرف ایوانِ حکومت ہی میں ہے، یا باہر کچھ ہے بھی تو پبلک کی کوئی قابلِ لحاظ تائید اس کو حاصل نہیں ہے۔
وہاں ایک ایسے گروہ کی موجودگی جو اربابِ اقتدار اور تمام سیاسی پارٹیوں کے سامنے ہر موقع پر کلمہ حق کہے، صاف صاف اور بے لاگ طریقے سے غلط چیزوں پر تنقید کرے، دلیل کے ساتھ صحیح بات پیش کرے اور اِسلام کے مطابق جو اصلاحات اس ملک کے نظام اور قوانین میں ہونی چاہییں ان کو معقول تجویزوں اور مسودہ ہائے قوانین کی شکل میں مرتّب کرکے قبول یا رد کرنے کے لیے رکھ دے، درحقیقت ایک بڑے انقلاب کا پیش خیمہ ہو گی۔ اس کی قوت کا اندازہ آپ صرف ان لوگوں کی تعداد کے لحاظ سے نہ لگائیے جو اس گروہ میں شامل ہوں گے۔ اس کا اندازہ اس سے لگائیے کہ جب حق بات کَہ دی جائے گی تو رو در رو اسے جھٹلانا اور جب اِسلام کا مطالبہ ایک قرارداد یا مسودہِ قانون کی صورت میں رکھ دیا جائے گا تو اسے رد کر دینا کس قدر مشکل ہو گا اور رد کرنے والوں کی پوزیشن کیا بنے گی۔
پھر وہ گروہ جو ایوانِ حکومت میں پہنچ کر ایک خالص اصولی پارٹی کی حیثیت سے کام کرے، کسی سیاسی جوڑ توڑ میں حصہ نہ لے، کسی سے سودے بازی نہ کرے، کسی عہدہ ومنصب کے لیے ضمیر نہ بیچے، اربابِ اقتدار سے کوئی ناجائز فائدہ حاصل کرنے کی کوشش نہ کرے اور جس کے ممبروں کو توڑنا پہاڑ توڑنے سے زیادہ مشکل ثابت ہو، اس کا وجود اس ملک کی سیاسی زندگی میں ایک ایسا وزن اور وقار پیدا کرے گا جو کسی بڑی سے بڑی پارٹی کو بھی حاصل نہ ہو گا، اس کے وزن کا اندازہ بھی آپ صرف ان ووٹوں کی تعداد کے لحاظ سے نہیں لگا سکتے جو اسمبلیوں میں بالفعل اس گروہ کو حاصل ہوں گے۔ اس کی رائے دہی کی طاقت خواہ کتنی ہی کم ہو، اس کا اَخلاقی اثر اسمبلیوں کے باہر بھی بہت زیادہ ہو گا اور ان کے اندر بھی۔ درحقیقت وہ اپنے عمل سے اس ملک میں ان تمام لوگوں کی امیدوں کا مرجع بن جائے گا جو یہاں کی سیاسی پارٹیوں کا کردار دیکھ دیکھ کر مایوس ہو رہے ہیں اور دوسرے انتخابات عام کی نوبت آنے تک آپ خود دیکھ لیں گے کہ اس سے جماعتِ اِسلامی کے اثر اور قوت میں کتنا اضافہ ہو گیا ہے۔
یہ خیال کرنا بھی درست نہیں ہے کہ یہ گروہ جتنی تعداد میں اندر جائے گا، وہی اس کی تعداد اسمبلی کی عمر تمام ہونے تک رہے گی۔ میں اس کے برعکس یہ توقع رکھتا ہوں کہ وہاں اس کی تعداد برابر بڑھتی چلی جائے گی۔ ا س کی وجہ یہ ہے کہ اسمبلیوں میں جو لوگ دوسرے مختلف راستوں سے پہنچتے ہیں وہ سب بالکل بے ضمیر ہی نہیں ہوتے۔ ان میں ایک اچھی خاصی تعداد ایسے لوگوں کی ہوتی ہے جن کے اندر کہیں نہ کہیں ضمیر نام کی ایک چیز بھی دبی چھپی موجود ہوتی ہے۔ وہ وہاں کے گندے کھیل دیکھ دیکھ کر وقتاً فوقتاً سخت بیزاری کی کیفیت میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ مگر نہ خود کوئی پارٹی بنانے کی ہمت رکھتے ہیں، نہ کوئی ایسی پارٹی موجود ہوتی ہے جس کا دامن ان گندگیوں سے پاک ہو اور وہ اس سے جا ملیں۔ اگر ایک بااصول اور ایمان دار گروہ وہاں کام کرنے کے لیے پہنچ جائے اور اپنے عمل سے اپنا اعتماد قائم کر دے، تو یہ ہمیشہ ممکن رہے گا کہ جب کبھی کسی ایم ایل اے کا ضمیر جاگ اٹھے، تو وہ اس گروہ سے آ ملے۔
آخری بات اس سلسلے میں یہ بھی سمجھ لیجیے کہ پارلیمنٹری نظام میں ایک پارٹی کی طاقت صرف اس کے ممبروں کی تعداد کے مطابق ہی نہیں ہوا کرتی۔ متعدد پارٹیوں کے ایوان میں بارہا ایسا ہوتا ہے کہ توازنِ قوت ایک قلیل التعداد گروہ کے ہاتھ میں آ جاتا ہے۔ ابن الوقت اور غرض پرست گروہ ایسے مواقع کو سودے بازی کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ لیکن اگر کوئی ایسا منظم گروہ وہاں موجود ہو جو اپنے سامنے ایک بلند مقصد رکھتا ہو اور صرف اپنے مقصد ہی کی خاطر اختلاف اور اتفاق کر سکتا ہو، تو وہ قلیل التعداد ہونے کے باوجود بڑی بڑی پارٹیوں سے اپنی بات منوا سکتا ہے اور اس کی متعدد مثالیں آپ خود اپنے ملک میں دیکھ چکے ہیں۔ پاکستان میں اس وقت سیاسی پارٹیوں کے جو رنگ ڈھنگ ہیں اور اسمبلیوں میں پہنچ کر وہ جس طرح آپس میں اقتدار کے لیے کش مکش اور ایک دوسرے کے خلاف جوڑ توڑ کرتی ہیں، اس کو دیکھتے ہوئے میں سمجھتا ہوں کہ مضبوط سیرت رکھنے والے چند آدمیوں کا ایک چھوٹا سا بلاک بھی اگر ان کے درمیان موجود ہو تو وہی ان سب پر حکمرانی کر سکتا ہے۔
’’بالواسطہ‘‘ اور ’’بلاواسطہ‘‘
اس بحث سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ قرارداد میں انتخابات کے متعلق جو پالیسی تجویز کی گئی ہے، وہ بالکل درست ہے‘ اور اپنے لائحۂ ِعمل کے سیاسی پہلو کی تکمیل کے لیے ہمیں لازماً اسی پالیسی پر عمل کرنا چاہیے۔
اس کے بعد صرف اس امر کی تشریح باقی رہ جاتی ہے کہ انتخابات میں بلاواسطہ کے ساتھ بالواسطہ حصہ لینے کا مطلب کیا ہے اور وہ کیا مصالح ہیں جن کی بنا پر یہ دوسرا طریقہ بھی اس پالیسی میں شامل کیا گیا ہے۔
جہاں تک بالواسطہ کے مفہوم کا تعلق ہے، اس میں بجائے خود کوئی پیچیدگی نہیں ہے۔ اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ ہم براہِ راست اپنے اہتمام سے کچھ لوگوں کو بھیجنے کے ساتھ ایسے عناصر کو بھی کام یاب کرانے کی کوشش کریں گے جو اِسلامی نظام کے مقصد میں ہم سے متفق ہیں اور جن سے ہم یہ امید رکھتے ہیں کہ وہ اس کے قیام کی کوشش میں مددگار بن سکیں گے۔ لیکن اصل پیچیدگی ان مصالح کو سمجھنے میں پیش آتی ہے جن کی بنا پر ہم اپنی پالیسی میں اس چیز کو شامل کر رہے ہیں۔ اس کو سمجھنے کے لیے ہمیں ان حالات پر ایک نگاہ ڈالنی چاہیے جن میں ہم کو یہ دشوار گزار گھاٹی طے کرنی ہے۔
حالات کا ایک رخ یہ ہے کہ نئے دستور کی رو سے سارے ملک کی صوبائی اورمرکزی اسمبلیوں کی ۹۰۰ سے کچھ زیادہ نشستیں ہیں، جن پر بیک وقت انتخابی مقابلہ درپیش ہو گا۔ہمارے پاس اس وقت اتنے ذرائع موجود نہیں ہیں کہ ہم ان تمام نشستوں پر، یا ان کی اکثریت پر بلاواسطہ مقابلہ کر سکیں۔ صرف اس کے مصارف ہی کا آپ اندازہ کریں تو آپ کی سمجھ میں آ جائے گا کہ یہ کام ہمارے لیے کس قدر مشکل ہے۔
دوسرا رخ یہ ہے کہ جماعت کے اثرات سارے ملک میں یکساں نہیں ہیں۔ کچھ حلقے ایسے ہیں جن میں ہم اتنی طاقت رکھتے ہیں کہ براہِ راست خود اپنے انتخابی نظام کے تجویز کردہ آدمیوں کو کام یاب کرا لینا ہمارے لیے ممکن ہے۔ لیکن بہت سے حلقے ایسے بھی ہیں جن میں ہماری طاقت اس پیمانے کی تو نہیں ہے، البتہ اتنی ضرور ہے کہ ہماری تائید کسی اچھے اور مفید آدمی کی کام یابی کے لیے اور ہماری مخالفت کسی برے آدمی کو روکنے کے لیے مؤثر ہو سکتی ہے۔ ایسے حلقوں میں اپنی اس طاقت کو معطّل رکھنا اور اسے کسی مصرف میں نہ لانا کوئی دانش مندی نہیں ہے۔
تیسرا رخ یہ ہے کہ ہمارے ملک میں جماعتِ اِسلامی سے باہر بھی ایسے گروہ اور افرا د موجود ہیں جو لادینی کے مخالف اور دینی نظام کے حامی ہیں۔ ہماری پہلے بھی یہ خواہش اور کوشش رہی ہے اور اب بھی یہ ہونی چاہیے کہ لادینی کی حامی طاقتوں کے مقابلہ میں ان تمام عناصر کے درمیان اتفاق اور باہمی تعاون ہو اور ان کی قوتیں ایک دوسرے کی مزاحمت میں صرف ہو کر مخالف دین عناصر کے لیے مددگار نہ بنیں۔ یہی کوشش ہمیں آیندہ انتخابات میں بھی کرنی ہے تاکہ آیندہ اسمبلیوں میں اِسلامی نقطہ نظر کی وکالت کرنے کے لیے ہماری پارلیمنٹری پارٹی تنہا نہ ہو بلکہ ایک اچھی خاصی تعداد دوسرے ایسے لوگوں کی بھی موجود رہے جو اس خدمت میں اس کا ساتھ دینے والے ہوں۔ اس لیے ہم دل سے یہ چاہیں گے کہ جن حلقوں میں ہم براہ راست انتخابی مقابلہ نہیں کر رہے ہیں وہاں ہماری طاقت بے کار ضائع ہونے کے بجائے کسی حامیِ دین گروہ یا فرد کے حق میں استعمال ہو۔ بلکہ ہم اس حد تک بھی جائیں گے کہ جہاں ایسا کوئی گروہ یا فرد نہیں اٹھ رہا ہے وہاں کسی نیک اور موزوں آدمی کو خود اٹھنے کا مشورہ دیں اور اپنی تائید سے اس کو کام یاب کرانے کی کوشش کریں، بشرطیکہ اس کے اپنے اثرات بھی اس کے حلقے میں کافی ہوں اور اس کی انتخابی جدوجہد کا سارا بار ہم پر نہ آ پڑے۔
حالات کے ان تینوں پہلوئوں کو نگاہ میں رکھ کر جب آپ غور کریں گے تو آپ کو پوری طرح اطمینان ہو جائے گا کہ اس قرارداد کی تجویز کردہ انتخابی پالیسی میں بلاواسطہ کے ساتھ بالواسطہ کی گنجائش ٹھیک رکھی گئی ہے۔ یہ دراصل ایک خلا تھا جو ہماری سابق پالیسی میں پایا جاتا تھا۔ تجربے اور حالات کے مشاہدے نے ہم کو یہ احساس دلایا کہ اس کو بھرنا حکمت کا تقاضا ہے۔ میرے نزدیک کوئی گروہ اسی زمانے میں نہیں، کسی زمانے میں بھی جاہلیت سے لڑ کر اِسلامی نظام زندگی قائم کرنے کے قابل نہیں ہو سکتا جب تک کہ وہ تجربات سے سبق سیکھ کر اور حالات کو سمجھ کر اپنی پالیسیوں میں ایسا ردّوبدل نہ کرتا رہے جس کی حدودِ شرع کے اندر گنجائش ہو۔ آپ کو اگر فی الواقع یہ کام کرنا ہے اور صرف تبلیغ کا فرض انجام دے کر نہیں رہ جانا ہے تو اپنے اوپر ان پابندیوں کو کافی سمجھئے جو خدا اور رسول کی شریعت نے آپ پرعائد کی ہیں اور اپنی طرف سے کچھ زائد پابندیاں عائد نہ کر لیجیے۔ شریعت پالیسی کے جن تغیرات کی وسعت عطا کرتی ہو اور عملی ضروریات جن کی متقاضی بھی ہوں، ان سے صرف اس بنا پر اجتناب کرنا کہ پہلے ہم اس سے مختلف کوئی پالیسی بنا چکے ہیں، ایک بے جا جمود ہے۔ اس جمود کو اختیار کرکے آپ ’’اصول پرستی‘‘ کا فخر کرنا چاہیں تو کر لیں، مگر یہ حصول مقصد کی راہ میں چٹان بن کر کھڑا ہو جائے گا اور اس چٹان کو کھڑا کرنے کے آپ خود ذمّہ دار ہوں گے، کیوں کہ اللّٰہ اور اس کے رسول نے اسے کھڑا نہیں کیا ہے۔
وسیع پالیسی کی ضرورت
قرارداد صرف یہ چاہتی ہے کہ اجتماع وسیع بنیادوں پر ایک پالیسی بنا کر جماعت کو دے دے جس میں حالات اور ضروریات کے مطابق کام کرنے کی کافی گنجائش ہو۔ اس کے بعد یہ چیز اپنی مجلسِ شُورٰی پر چھوڑ دیجیے کہ وہ موقع ومحل کا لحاظ کرکے ان حدود کے اندر جس طریقے سے مناسب سمجھے کام کرنے کا فیصلہ کرے۔ آپ کو قطعی طور پر جو فیصلہ دینا ہے وہ صرف یہ ہے کہ جماعت اس ملک کے انتخابات سے بے تعلق نہیں رہے گی، تاکہ اس معاملے میں تذبذب ختم ہو اور جماعت کے اندر ان بحثوں کا دروازہ بند ہو جائے جو سیاسی کام کرنے یا نہ کرنے اورانتخابات میں حصہ لینے یا نہ لینے کے متعلق چھڑ گئی ہیں اور کارکنوں کے ذہن پراگندہ کئے دے رہی ہیں۔ رہی یہ بات کہ آپ انتخابات میں کس طرح حصہ لیں، تو اس کے لیے ایک وسیع پالیسی بنا کر مجلسِ شُورٰی کو دے دیجیے اور اس کی تفصیلات اس اجتماع عام میں طے کرکے اپنے ہاتھ نہ باندھ لیجیے، کیوں کہ جتنے جزئیات کا فیصلہ کرکے آپ چلے جائیں گے انھیں بدلنے کی اگر کبھی ضرورت پیش آ گئی تو پھر اجتماع عام ہی بلانا پڑے گا اور آپ جانتے ہیں کہ بات بات پر اتنا بڑا اجتماع منعقد کرنا کوئی آسان کام نہیں ہے۔
خاتمہ ِ کلام
رفقائے عزیز! میں نے اپنی عادت کے خلاف اور اپنی قوت برداشت سے بڑھ کر، اس قرارداد پر چھ گھنٹے کی یہ لمبی تقریر اس لیے کی ہے کہ آپ جو فیصلہ بھی کریں خوب سوچ سمجھ کر اور ہر پہلو پر نگاہ رکھ کر کریں۔ یہ قرارداد آپ کے آج تک کے پورے کام کے متعلق بھی ایک فیصلہ دے رہی ہے اور آیندہ کے لیے وہ لائحہِ عمل بھی طے کر رہی ہے جس پر آپ کو ایک مدت دراز تک کام کرنا ہو گا۔ اس کو قبول یا رد کرنے سے پہلے آپ کو ا س کے ہر نکتے اور ہر مضمون کے متعلق پوری بصیرت حاصل ہونی چاہیے۔
مجھے اس کی تشریح کرتے ہوئے بہت سی ایسی تفصیلات میں بھی جانا پڑا ہے جنھیں ایک شخص بادی النظر میں غیر ضروری قرار دے سکتا ہے۔ لیکن، جیسا کہ میں اپنی تقریر کے آغاز میں اشارہ کر چکا ہوں، میرے نزدیک یہ جماعت کی ایک تعلیمی ضرورت تھی جسے پورا کرنے کی میں نے کوشش کی ہے۔ جماعت میں اب ایسے لوگوں کی تعداد کم رہ گئی ہے جو اس تحریک کی ابتدا سے آج تک کے تمام مراحل سے خود گزرے ہیں اور ہر چیز کی ’’شانِ نزول‘‘ سے براہِ راست واقف ہیں۔ کثیر تعداد ایسے رفقا کی ہے جو بیچ کے مختلف مراحل میں آئے ہیں اور پہلے کے مرحلے ان کے لیے صرف تاریخ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ پھر آگے وہ لوگ آنے والے ہیں جن کے لیے یہ سب کچھ تاریخ ہو گا۔ ان کو یہ سمجھنے میں کہ آج تک مختلف مواقع پر ہم کیا کچھ کرتے رہے ہیں اور کیوں کرتے رہے ہیں، مشکلات پیش آ سکتی ہیں، بلکہ فی الواقع پیش آ رہی ہیں اور اچھی خاصی الجھنوں کی موجب بن رہی ہیں۔ یہ الجھنیں ان کے اطمینان ہی میں خلل انداز نہیں ہوتیں بلکہ اپنے مستقبل کا صحیح رخ متعین کرنے میں بھی ان کے لیے مشکلات پیدا کرتی ہیں اور آگے اور زیادہ پیدا کریں گی۔ مجھ پر تمام دوسرے رفقا سے بڑھ کر یہ فرض عائد ہوتا تھا کہ میں ان مشکلات کو رفع کرنے کی کوشش کروں۔ اس لیے کہ اس تحریک کے آغاز سے آج تک میں ہی اس کی ہنمائی کرتا رہا ہوں اور ہر مرحلے میں ایک ایک قدم جو اٹھایا گیا ہے اس کی مصلحت اور ضرورت اور اس کے حالات سے اچھی طرح واقف ہوں۔ میں نے اس کام کو اندھا دھند نہیں چلایا ہے بلکہ شب وروز کے غور وفکر کے بعد ایک ایک قدم خوب سوچ سمجھ کر اٹھاتا رہا ہوں۔ میرے ذمّے جماعت کا یہ قرض تھا کہ پچھلے سارے کام کا پورا حساب کھول کر اس کے سامنے رکھ دوں۔ مگر اس قرض کو ادا کرنے کے لیے یہ باربار چھ چھ گھنٹے کی تقریریں نہیں کر سکتا تھا۔ اب پوری جماعت سامنے موجود ہے۔ میں اللّٰہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ جس مقصد کے لیے میں نے یہ محنت کی ہے وہ پورا ہو اور میری اس تقریر سے جماعت کے کارکنوں کو اپنی تحریک کے سمجھنے میں وہ مدد ملے جو اطمینان وبصیرت کے ساتھ کام کرنے کے لیے درکار ہے۔
واخر دعوانا ان الحمد للّٰہ رب العلمینo
……٭٭٭……

شیئر کریں