Search
Close this search box.

فہرست موضوعات

عرضِ ناشر
قرار داد
ضمیمہ
تقریر
نکتۂ اوّل
نکتۂ دوم
نکتۂ سوم
نکتۂ چہارم
نکتۂ پنجم
نکتۂششم
نکتۂ ہفتم
نکتۂ ہشتم
نکتۂ نہم ودہم

تحریک اسلامی کا آئندہ لائحہ عمل

اس ویب سائٹ پر آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ اب آپ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمتہ اللہ علیہ کی کتابوں کو ’’پی ڈی ایف ‘‘ کے ساتھ ساتھ ’’یونی کوڈ ورژن‘‘ میں بھی پڑھ سکتے ہیں۔کتابوں کی دستیابی کے حوالے سے ہم ’’اسلامک پبلی کیشنز(پرائیوٹ) لمیٹڈ، لاہور‘‘، کے شکر گزار ہیں کہ اُنھوں نے اس کارِ خیر تک رسائی دی۔ اس صفحے پر آپ متعلقہ کتاب PDF اور Unicode میں ملاحظہ کیجیے۔

نکتۂ دوم

اب ہمیں قرارداد کے دوسرے نکتے پر غور کرنا ہے جس میں یہ تجویز کیا گیا ہے کہ جماعت کا آیندہ لائحہ عمل وہی رہنا چاہیے جو نومبر ۵۱ء کے اجتماع کراچی میں پیش کیا گیا تھا، کیوں کہ وہ بالکل صحیح توازن کے ساتھ مقصد تحریک کے تمام نظری اور عملی تقاضوں کو پورا کرتا ہے۔
قبل اس کے کہ قرارداد کے اس جزو کے متعلق آپ کوئی رائے قائم کریں، آپ کو دیکھنا چاہیے کہ وہ لائحہ عمل تھا کیا۔ ۱۹۵۱ء کے اجتماع میں اس کو کسی قرارداد کی شکل میں پیش نہیں کیا گیا تھا، بلکہ امیرِ جماعت نے اسے اپنی اس تقریر میں بیان کیا تھا جو ’’مسلمانوں کا ماضی وحال اور مستقبل کا لائحہ عمل‘‘ کے عنوان سے ایک مستقل پمفلٹ کی صورت میں شائع ہوئی ہے۔
۱۹۵۱ء کا چار نکاتی لائحہ عمل
اس پمفلٹ کے آخری حصے میں لائحہ عمل کے چار اجزا جس تشریح کے ساتھ بیان کئے گئے تھے میں اس کے ضروری اقتباسات آپ کے سامنے پیش کرتا ہوں،
۱۔ تطہیرِ افکار وتعمیرِ افکار
’’ہم کئی سال سے اس کوشش میں لگے ہوئے ہیں اور ہماری اس کوشش کا سلسلہ برابر جاری ہے کہ ایک طرف غیر اِسلامی قدامت کے جنگل کو صاف کرکے اصلی اور حقیقی اِسلام کی شاہراہِ مستقیم کو نمایاں کیا جائے، دوسری طرف مغربی علوم وفنون اور نظامِ تہذیب پر تنقید کرکے بتایا جائے کہ اس میں کیا کچھ غلط اور قابلِ ترک ہے اور کیا کچھ صحیح اور قابل اخذ، تیسری طرف وضاحت کے ساتھ یہ دکھایا جائے کہ اِسلام کے اصولوں کو زمانہ حال کے مسائل ومعاملات پر منطبق کرکے ایک صالح تمدن کی تعمیر کس طرح ہو سکتی ہے اور اس میں ایک ایک شعبہ ِزندگی کا نقشہ کیا ہو گا۔ اس طریقہ سے ہم خیالات کو بدلنے اور ان کی تبدیلی سے زندگیوں کا رخ پھیرنے اور ذہنوں کو تعمیر نو کے لیے فکری غذا بہم پہنچانے کی کوشش کر رہے ہیں‘‘۔
۲۔ صالح افراد کی تلاش، تنظیم اور تربیت
’’ہم ان آبادیوں میں ان مردوں اور عورتوں کو ڈھونڈ رہے ہیں جو پرانی اور نئی خرابیوں سے پاک ہوں، یا اب پاک ہونے کے لیے تیار ہوں۔ جن کے اندر اصلاح کا جذبہ موجود ہو۔ جو حق کو حق مان کر اس کے لیے وقت، مال اور محنت کی کچھ قربانی کرنے پر بھی آمادہ ہوں۔ خواہ وہ نئے تعلیم یافتہ ہوں یا پرانے۔ خواہ وہ عوام میں سے ہوں یا خواص میں سے۔ خواہ وہ غریب ہوں یا امیر یا متوسط۔ ایسے لوگ جہاں کہیں بھی ہیں، ہم انھیں گوشہِ عافیت سے نکال کر میدان سعی وعمل میں لانا چاہتے ہیں۔ اگر وہ ہمارے مقصد، طریقِ کار اور نظامِ جماعت کو قبول کر لیں تو انھیں اپنی جماعت کا رکن بنا لیتے ہیں۔ اور اگر وہ رکنیت کی شرائط پوری کیے بغیر صرف تائید واتفاق پر اکتفا کریں تو انھیں اپنے حلقہِ متفقین میں شامل ہونے کی دعوت دیتے ہیں۔ اس سے ہمارا مقصد یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں جو ایک بچا کھچا صالح عنصر موجود ہے، مگر منتشر ہونے کی وجہ سے یا جزوی اصلاح کی پراگندہ کوششیں کرنے کی وجہ سے کوئی مفید نتیجہ پیدا نہیں کر رہا ہے، اسے چھانٹ چھانٹ کر ایک مرکز پر جمع کیا جائے اور ایک حکیمانہ پروگرام کے مطابق اس کو اصلاح وتعمیر کی منظم سعی میں لگایا جائے۔ ہم صرف اس تنظیم ہی پر قناعت نہیں کر رہے ہیں بلکہ ساتھ ساتھ ان منظم ہونے والوں کی ذ ہنی واَخلاقی تربیت کا بھی انتظام کر رہے ہیں تاکہ ان کی فکر زیادہ سے زیادہ سلجھی ہوئی اور ان کی سیرت زیادہ سے زیادہ پاکیزہ، مضبوط اور قابل اعتماد ہو۔ہمارے پیش نظر ابتداسے یہ حقیقت ہے کہ اِسلامی نظام محض کاغذی نقشوں اور زبانی دعوئوں کے بل پر قائم نہیں ہو سکتا۔ اس کے قیام اور نفاذ کا سارا انحصار اس پر ہے کہ آیا اس کی پشت پر تعمیری صلاحیتیں اور صالح انفرادی سیرتیں موجود ہیں یا نہیں۔ کاغذی نقشوں کی خامی تو اللّٰہ کی توفیق سے علم اور تجربہ ہر وقت رفع کر سکتا ہے، لیکن صلاحیت اور صالحیت کا فقدان سرے سے کوئی عمارت اٹھا ہی نہیں سکتا اور اٹھا بھی لے تو سہار نہیں سکتا۔‘‘
۳۔ اجتماعی اصلاح کی سعی
’’اس میں سوسائٹی کے ہر طبقے کی اس کے حالات کے لحاظ سے اصلاح شامل ہے۔ اور اس کا دائرہ اتنا ہی وسیع ہو سکتا ہے جتنے ہمارے ذرائع وسیع ہوں۔ ہم اپنے ارکان، کارکن اور متفقین کو ان کی صلاحیتوں کے لحاظ سے حلقوں میں تقسیم کرتے ہیں اور ہر ایک کے سپرد وہ کام کرتے ہیں جس کے لیے وہ اہل تر ہو… یہ سب اگرچہ اپنے الگ حلقہائے کار رکھتے ہیں، مگر سب کے سامنے ایک مقصد اور ایک اسکیم ہے جس کی طرف وہ قوم کے سارے طبقوں کو گھیر کر لانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ان کا متعین نصب العین یہ ہے کہ اس ذہنی، اَخلاقی اور عملی انار کی کو ختم کیا جائے جو پرانے جمودی اور نئے انفعالی رجحانات کی وجہ سے ساری قوم میں پھیلی ہوئی ہے اور عوام سے لے کر خواص تک سب میں صحیح اِسلامی فکر، اِسلامی سیرت اور سچے مسلمانوں کی سی عملی زندگی پیدا کی جائے… اس عمومی اصلاح کے پورے لائحہ عمل کا بنیادی اصول یہ ہے کہ جو شخص جس حلقے اور طبقے میں بھی کام کرے، مسلسل اور منظم طریقے سے کرے اور اپنی سعی کو ایک نتیجے تک پہنچائے بغیر نہ چھوڑے۔ ہم اس کے قائل نہیں ہیں کہ ہوا کے پرندوں اور آندھی کے جھکڑوں کی طرح بیج پھینکتے چلے جائیں۔ اس کے برعکس ہم کسان کی طرح کام کرنا چاہتے ہیں جو ایک متعین رقبے کو لیتا ہے، پھرزمین کی تیاری سے لے کر فصل کی کٹائی تک مسلسل کام کرکے اپنی محنتوں کو ایک نتیجے تک پہنچا کر دم لیتا ہے۔ پہلے طریقے سے جنگل پیدا ہوتے ہیں اور دوسرے طریقے سے باقاعدہ کھیتیاں تیار ہوا کرتی ہیں۔‘‘
۴۔ نظامِ حکومت کی اصلاح
’’ہم یہ سمجھتے ہیں کہ زندگی کے موجودہ بگاڑ کو درست کرنے کی کوئی تدبیر بھی کام یاب نہیں ہو سکتی، جب تک کہ اصلاح کی دوسری کوششوں کے ساتھ ساتھ نظام حکومت کو درست کرنے کی کوشش بھی نہ کی جائے۔ اس لیے کہ تعلیم اور قانون اور نظم ونسق اور تقسیم رزق کی طاقتوں کے بل پر جو بگاڑ اپنے اثرات پھیلا رہا ہو، اس کے مقابلے میں بنائو اور سنوار کی وہ تدبیریں جو صرف وعظ اور تلقین اور تبلیغ کے ذرائع پر منحصر ہوں‘کبھی کارگر نہیں ہو سکتیں۔ لہٰذا اگر ہم فی الواقع اپنے ملک کے نظامِ زندگی کو فسق وضلالت کی راہ سے ہٹا کر دینِ حق کی صراطِ مستقیم پر چلانا چاہتے ہیں تو ہمارے لیے ناگزیر ہے کہ بگاڑ کو مسند اقتدار سے ہٹانے اور بنائو کو اس کی جگہ متمکن کرنے کی براہِ راست کوشش کریں۔ ظاہر ہے کہ اگر اہل خیر وصلاح کے ہاتھ میں اقتدار ہو تو وہ تعلیم اور قانون اور نظم ونسق کی پالیسی کو تبدیل کرکے چند سال کے اندر وہ کچھ کر ڈالیں گے جو غیر سیاسی تدبیروں سے ایک صدی میں بھی نہیں ہو سکتا‘‘۔
’’یہ تبدیلی کس طرح ہو سکتی ہے؟ ایک جمہوری نظام میں اس کا راستہ صرف ایک ہے اور وہ ہے انتخابی جدوجہد۔ رائے عام کی تربیت کی جائے۔ عوام الناس کے معیار انتخاب کو بدلا جائے۔ انتخاب کے طریقوں کی اصلاح کی جائے اور پھر ایسے صالح لوگوں کو اقتدار کے مقام پر پہنچایا جائے جو ملک کے نظام کو خالص اِسلام کی بنیادوں پر تعمیر کرنے کا ارادہ بھی رکھتے ہوں اور قابلیت بھی‘‘۔
’’ہمیں اطمینان ہے کہ ہم اس طریقے سے مسلسل کام کرکے اپنے ملک کی پبلک کو بتدریج چند سال کے اندر کافی تربیت دے سکیں گے اور ہر نئے انتخاب کے موقع پر خود بخود پیمائش ہوتی چلی جائے گی کہ اس تربیت کے اثرات کو پبلک نے کس حد تک قبول کیا۔ ہو سکتا ہے کہ نظامِ حکومت کی واقعی تبدیلی میں ۲۵ سال صرف ہو جائیں، یا اس سے بھی زیادہ۔ مگر ہم سمجھتے ہیں کہ تبدیلی کا صحیح راستہ یہی ہے‘ اور جو تبدیلی اس طریقے سے ہو گی وہ ان شاء اللّٰہ پائدار اور مستحکم ہو گی۔‘‘
لائحہ عمل کی اہم خصوصیات
یہ تھا وہ لائحہ عمل جو ۱۹۵۱ء کے اجتماع میں پیش کیا گیا تھا۔ اس کے ہر جز کی تشریح میں جو کچھ اس وقت کہا گیا تھا، اس سے خود یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ وہ کوئی نیا لائحہ عمل نہ تھا جو پہلی مرتبہ ۱۹۵۱ء ہی میں پیش کیا گیا ہو، بلکہ دراصل وہ پہلے سے جماعت کا لائحہ عمل چلا آ رہا تھا اور اس تقریر میں اسے صرف ایک ترتیب کے ساتھ بیان کر دیا گیا تھا تاکہ جماعت کے کارکن اور عام سامعین اس اسکیم کو سمجھ سکیں جس پر جماعتِ اِسلامی برسوں سے کام کر رہی تھی۔
اس لائحۂ عمل کو اگر آپ اس نصب العین کے ساتھ ملا کر دیکھیں جس کی تشریح ابھی میں آپ کے سامنے کر چکا ہوں تو آپ بیک نظر محسوس کر لیں گے کہ یہ لائحۂ عمل اس نصب العین کافطری تقاضا کرتا ہے، ہر ایک دوسرے سے تقویت پاتا ہے اور جس کو بھی ساقط کر دیا جائے اس کے سقوط سے ساری اسکیم خراب ہو جاتی ہے۔ جماعت کے نصب العین کا حصول اگر ممکن ہے تو ان چاروں اجزا پر بیک وقت متوازی کام اور متوازن طریقے پر کام کرنے ہی سے ممکن ہے۔ آپ اس کے جس جز کو بھی الگ کر دیں گے، باقی اجزا کا کام نہ صرف کم زور اور بے اثر ہو جائے گا، بلکہ اپنے نصب العین کے لیے آپ کی جدوجہد ہی لاحاصل ہو کر رہ جائے گی۔
اس کا پہلا جز اِسلام کی خالص دعوت کو نکھار کر پیش کرتا ہے، اس کی قبولیت کے لیے عوام اور خواص کو تیار کرتا ہے اور اس کی کام یابی کے لیے ذہنی فضا ہموار کرتا ہے، یہ اس تحریک کا اولین بنیادی کام ہے جس کے بغیر آگے کے کسی کام کا تصور نہیں کیا جا سکتا۔
اس کا دوسرا جز دعوت قبول کرنے والوں کو منظم کرتا ہے اور ان کی قوتوں کو دعوت کی توسیع میں اور اس کی کام یابی کے لیے جدوجہد کرنے میں استعمال کرتا ہے۔ یہ جز پہلے جز کا لازمی تقاضا ہے۔ دعوت دینے کے ساتھ ساتھ اگر آپ دعوت قبول کرنے والوں کو منظم نہ کرتے جائیں اور انھیں دعوت کے مقاصد کی تحصیل کے لیے تیار نہ کرتے رہیں اور انھیں عملاً اس کام میں لگاتے نہ چلے جائیں تو دعوت بجائے خود بے معنی ہو جاتی ہے۔ یہی کام تو اس مشینری کو تیار کرتا ہے جو دعوت کو کام یاب بنانے کے لیے درکار ہے۔ آخر دعوت کا حاصل کیا ہے اگر آپ صرف پکارتے رہیں اور ان لوگوں کو جو آپ کی پکار پر لبیک کَہ کر آئیں، اکٹھا کرکے کسی کام پر نہ لگائیں۔
اس کا تیسرا جز معاشرے کو اِسلامی نظامِ زندگی کے لیے عملی اور اَخلاقی حیثیت سے تیار کرنا ہے۔ حقیقت کے اعتبار سے یہ کوئی الگ کام نہیں ہے جسے اس پروگرام میں شامل کرنے یا نہ کرنے کا کوئی سوال پیدا ہو سکے۔ دراصل یہ اسی کام کی تفصیل ہے جو لائحۂ عمل کے دوسرے جز میں بیان کیا گیا ہے۔ آپ دعوت قبول کرنے والوں کو منظم کرکے اور تربیت دے کر جس کام میں لگائیں گے اور معاشرے کی اصلاح کا جتنا کام آپ کریں گے، آپ کی دعوت وسیع ہو گی اور آپ کی تنظیم کے لیے مزید کارکن ملیں گے اور آپ کی دعوت وتنظیم جتنی وسیع ہو گی اتنا ہی معاشرے کی اصلاح کا دائرہ پھیلتا جائے گا اور اِسلامی نظامِ زندگی کے لیے زمین ہموار ہوتی چلی جائے گی۔ اس طرح یہ دونوں اجزا بالکل ایک دوسرے کے لیے لازم وملزوم ہیں۔ آپ کسی حال میں اس بات کا تصور تک نہیں کر سکتے کہ ان میں سے ایک آپ کے لائحۂ عمل میں شامل ہو اور دوسرا نہ ہو۔
اب چوتھے جز کو لیجیے۔ یہ چاہتا ہے کہ جیسے جیسے آپ کی دعوت مقبول ہو اور اس کے قبول کرنے والوں کی تنظیم قوت پکڑتی جائے اور معاشرہ اس کے لیے تیار ہوتا جائے، اسی نسبت سے آپ اِسلامی نظامِ زندگی کو عملاً برسراقتدار لانے اور جاہلیت کی پشت پناہ طاقتوں کو پیچھے دھکیلنے کی کوشش کرتے چلے جائیں۔ اپنے اصل نصب العین کو نگاہ میں رکھ کر اگرآپ اس لائحہ عمل کے پہلے تین اجزا پر غورکریں گے تو یہ چوتھا جز ان تینوں کاایسا فطری تقاضا نظر آئے گا کہ اگر یہ آپ کے پروگرام میں شامل نہ ہو تو وہ تینوں سراسر بے معنی ہو جائیں گے۔ آخر آپ دعوت کس چیز کی دیتے ہیں؟ اسی چیز کی نا کہ اِسلامِ نظامی زندگی قائم ہو۔ اس دعوت کے قبول کرنے والوں کو منظم کرنے اور حرکت میں لانے سے آپ کا مقصد کیا ہے؟ یہی نا کہ وہ اِسلامی نظامِ زندگی کے قیام کی جدوجہد کریں۔ معاشرے کو آپ کس غرض کے لیے تیار کرتے ہیں؟ اس کے سوا اور اس کی غرض کیا ہے کہ اِسلامی نظامِ زندگی کے لیے زمین ہموار ہو۔ اب خود سوچیے کہ یہ سارے کام کرنے کا فائدہ کیا ہے اگر آپ ان کاموں سے حاصل ہونے والے نتائج کو اصل مقصد کی طرف پیش قدمی کرنے کے لیے ساتھ ساتھ استعمال نہ کرتے چلے جائیں۔ آپ کا اصل مقصد آخر کار جس کام کے ذریعہ سے حاصل ہوتا ہے وہ یہی چوتھا کام ہی تو ہے۔ یہ آپ کے پروگرام میں شامل نہ ہو تو پہلے تین کام ایک سعی بے حاصل کے سوا کچھ نہ ہوں گے اور انھیں کرکے آپ زیادہ سے زیادہ بس مبلغوں کی ایک جماعت بن کر رہ جائیں گے جن کی پہلے بھی اس ملک میں کوئی کمی نہ تھی۔ اس طرح کی تبلیغ وتلقین اور اصلاحِ اَخلاق کی کوششوں سے جاہلیت کا سیلاب نہ پہلے رکا تھا نہ اب رک سکتا ہے۔
اس تجزیہ وتشریح سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ جس نتیجہ مطلو ب کے لیے جماعتِ اِسلامی کی یہ ساری اسکیم بنائی گئی تھی وہ لائحہ عمل کے ان چاروں اجزا پر بیک وقت کام کرنے کا تقاضا کرتا ہے۔ اگر وہ نتیجہ فی الواقع آپ کو مطلوب ہے تو پھر اس پورے مرکب ہی پر آ پ کو ایک ساتھ کام کرنا ہو گا۔ اس کے اجزا کا باہمی ربط توڑ کر، یا اس میں کمی وبیشی کرکے، یا ان میں سے بعض کو مقدم اور بعض کو موخر کرکے آپ اپنی تحریک کی ناکامی کے سوا اور کچھ حاصل نہ کریں گے۔
……٭٭٭…

شیئر کریں