یہ قرارداد سب سے پہلے جماعت کے گزشتہ پندرہ سال کے کام کے متعلق اس اطمینان کا اظہار کرتی ہے کہ وہ ان تمام امکانی لغزشوں اور کوتاہیوں کے باوجود، جو بہرحال انسانی کام میں رہ ہی جاتی ہیں، ٹھیک اسی نصب العین کی راہ پر تھا جو اوّل روز سے جماعت کے پیش نظر رہا ہے اور انھی اصولوں کے مطابق تھا جن کی پابندی کا یہ جماعت ہمیشہ اقرار واعلان کرتی رہی ہے۔
قرارداد کا آغاز اس مضمون سے کیوں کیا گیا ہے؟ اس کے کئی وجوہ ہیں۔ اس کی پہلی وجہ تو وہی ہے جس کا قرار داد کے الفاظ میں اظہار کیا گیا ہے۔ یعنی یہ کہ ہم آگے چلنے سے پہلے اس فضل خاص پر اللّٰہ تعالیٰ کا شکر بجا لائیں کہ اس عام اور ہمہ گیر اَخلاقی انحطاط اور ذ ہنی انتشار کے ماحول میں جس کے اندر ہمیں کام کرنا پڑا ہے اور ان پے درپے آزمائشوں کے باوجود جن سے ہم کو اس پندرہ سال کی مدت میں گزرنا پڑا ہے، ہم اپنے نصب العین کی راہ پر ثابت قدم رہے ہیں اور ہم نے اپنے عمل سے اپنے آپ کو ایک بااصول جماعت ثابت کیا ہے۔ یہ بات ہم فخر کے طور پر نہیں بلکہ تحدیث نعمت کے طور پر کَہ رہے ہیں، اس بنا پر کَہ رہے ہیں کہ شکر ِنعمت ہم پر واجب ہے اور اس غرض کے لیے کَہ رہے ہیں کہ اللّٰہ تعالیٰ ہم کو مزید ہدایت اور توفیق سے نوازے۔
دوسری وجہ یہ ہے کہ ایک محرک ومتحرک جماعت کو جس طرح ہمیشہ یہ دیکھتے رہنے کی ضرورت ہے کہ اس کے کام اور نظام میں خامیاں کیا ہیں جن کی اسے اصلاح کرنی ہے، اسی طرح اپنے اطمینان کی ضرورت بھی ہے کہ وہ واقعی اپنے مقصد ہی کی طرف بڑھ رہی ہے اور اپنے اصولوں پر قائم ہے۔ اس معاملے میں اگر کوئی شک اس کے دل میں پڑ جائے اور دس پندرہ برس ایک راہ پر چلنے کے بعد وہ ٹھیر کر یہ سوچنے لگے کہ کہیں ہم غلط راہ پر تو نہیں پڑ گئے ہیں، تو یہ ایک سخت حوصلہ شکن اور پریشان کن صورت حال ہو گی جو اس کی قوت عمل کو سرد اور اپنے اجتماعی فہم اور کردار پر اس کے اعتماد کو متزلزل کر دے گی۔ اس کے بعد وہ آگے بھی اطمینان کے ساتھ کوئی قدم نہ اٹھا سکے گی، کیوں کہ پھر تو اسے اپنے اوپر یہ بھروسا رہے گا ہی نہیں کہ وہ اپنے نصب العین کا اور اس کی طرف بڑھنے کی صحیح سمت کا کوئی شعور رکھتی بھی ہے یا نہیں اور اس میں اپنے اصولوں پر جمنے کی طاقت بھی ہے یا نہیں۔
آپ میرا مدعا سمجھنے میں غلطی نہ کریں۔ میرا مدعا یہ نہیں ہے کہ ہم غلط بھی جا رہے ہوں تو ضرور اپنے آپ کو صحیح سمجھتے رہیں تاکہ ہمارا حوصلہ برقرار رہے۔ اس کے برعکس میرا مدعا یہ ہے کہ ہمیں پوری بصیرت کے ساتھ اپنے نصب العین اور اس کی طرف پیش قدمی کی راہ کو سمجھ کر دیکھنا چاہیے کہ ہم ٹھیک اسی کی طرف جا رہے ہیں یا نہیں اور ان تمام اصولوں کو، جن کا آج تک ہم اقرار واعلان کرتے رہے ہیں، سامنے رکھ کر دیکھنا چاہیے کہ ہم من حیث الجماعت ان کی ٹھیک ٹھیک پابندی کی ہے یا نہیں۔ پھر اگر بے لاگ احتساب سے ہم کو یقین ہو جائے کہ ان اعتبارات سے ہم غلط رو اور غلط کار نہیں ہیں تو ہمیں اللّٰہ کا شکر ادا کرتے ہوئے اس پر مطمئن ہو کر آگے بڑھنا چاہیے اور اس کے بعد کسی شک کو اپنے دل میں راہ نہ دینی چاہیے۔ غلطی کو غلطی مان لینا تو ضرور ایک خوبی ہے، مگر صحیح کو خواہ مخواہ غلط مان لینا، یا ہر ٹوکنے والے کی ٹوک پر شک میں پڑ جانا کوئی خوبی نہیں ہے۔ اس حماقت میں ہم اسی وقت مبتلا ہو سکتے ہیں جب کہ یا تو ہم اتنے بلید الذہن ہوں کہ اپنے مقصد اور اپنے کام کو سمجھنا اور جانچنا ہمارے لیے مشکل ہو جائے، یا پھر ہم اس اَخلاقی کم زوری کے شکار ہو چکے ہوں کہ جب بھی کوئی ہمیں ٹوکے ہم ضرور انکسار کی نمائش کرتے ہوئے اعترافِ قصور کرنا شروع کر دیں، خواہ ٹوکنے والا اپنے ہی قصور فہم کی وجہ سے صحیح کو غلط کَہ رہا ہو۔
جماعتِ اِسلامی کا نصب العین کیا تھا؟
آئیے اب ہم دیکھیں کہ ہمارا وہ نصب العین تھا کیا جس کے لیے ہم کام کرنے اٹھے تھے۔ اب سے پندرہ برس پہلے جماعتِ اِسلامی کی تشکیل کا تخیل جس بنیاد پر پیدا ہوا تھا وہ یہ تھی کہ اس وقت مسلمانوں میں جو تحریکیں اور جماعتیں کام کر رہی تھیں وہ اِسلام کے نصب العین کو یا تو سمجھتی ہی نہیں تھیں، یا اس کو سمجھنے اور اپنا حقیقی مقصود کہنے کے باوجود ان راستوں پر چل رہی تھیں جو کسی طرح بھی اس تک پہنچانے والے نہ ہو سکتے تھے۔ اس غلطی کو ۱۹۳۹ء سے ۱۹۴۱ء تک مسلسل اور پے دَرپے ان مضامین میں واضح کیا گیا جو بعد میں ’’مسلمان اور موجودہ سیاسی کش مکش‘‘ حصہ سوم کے نام سے شائع ہوئے اور انھیں مضامین میں یہ بھی پوری وضاحت کے ساتھ بتایا گیا کہ اِسلام کا اصلی نصب العین ہے کیا اور اس کی طرف بڑھنے کا صحیح راستہ کونسا ہے۔ یہی مضامین تھے جنھوں نے بالاخر ۴۱ء میں چند انسانوں کو جماعتِ اِسلامی کے نام سے ایک جماعت بنانے کے لیے اکٹھا کر دیا تاکہ وہ اس نصب العین کے لیے اس خاص طریقے پر کام کریں۔ لہٰذا اس جماعت کے مبدائے تخلیق کو سمجھنے کے لیے سب سے پہلے ہمیں ان مضامین کی طرف رجوع کرنا چاہیے، کیوں کہ وہ اس کی پیدائش کے اصل محرک ہیں۔ ان میں اِسلام کا نصب العین قرآن مجید کی اس آیت سے اخذ کیا گیا تھا۔
ہُوَالَّذِيْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْہُدٰي وَدِيْنِ الْحَقِّ لِيُظْہِرَہٗ عَلَي الدِّيْنِ كُلِّہٖ۰ۙ وَلَوْ كَرِہَ الْمُشْرِكُوْنَ o (التوبہ۹:۳۳)
وہی ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا تاکہ اس کو پوری جنسِ دین پر غالب کر دے خواہ یہ کام مشرکوں کو کتنا ہی ناگوار گزرے۔
پھر اس کی تشریح یوں کی گئی تھی:
’’الھُدٰی سے مراد دنیا میں زندگی بسر کرنے کا صحیح طریقہ ہے (یعنی یہ کہ) انفرادی برتائو، خاندانی نظام، سوسائٹی کی ترکیب، معاشی معاملات، ملکی انتظام، سیاسی حکمت عملی، بین الاقوامی تعلقات، غرض زندگی کے تمام پہلوئوں میں انسان کے لیے صحیح رویہ کیا ہونا چاہیے۔‘‘
’’دین حق یہ ہے کہ انسان دوسرے انسانوں کی، خود اپنے نفس کی اور تمام مخلوقات کی بندگی واطاعت چھوڑ کر صرف اللّٰہ کے اقتدارِ اعلیٰ کو تسلیم کرے اور اسی کی بندگی واطاعت کرے۔‘‘
’’پوری جنس دین سے مراد یہ ہے کہ انسان انفرادی یا اجتماعی طور پر جن جن صورتوں سے کسی کی اطاعت کر رہا ہے وہ سب جنس دین کی مختلف انواع ہیں۔ بیٹے کا والدین کی اطاعت کرنا، بیوی کا شوہر کی اطاعت کرنا، نوکر کا آقا کی اطاعت کرنا۔ ماتحت کا افسر کی اطاعت کرنا، رعیت کا حکومت کی اطاعت کرنا، پیروئوں کا پیشوائوں اور لیڈروں کی اطاعت کرنا، یہ اور ایسی دوسری بے شمار اطاعتیں بحیثیت مجموعی ایک نظام اطاعت بناتی ہیں (جسے اس آیت میں الدین یا جنس دین کہا گیا ہے)‘‘
’’اللّٰہ کی طرف سے رسول کے آنے کا مقصد یہ ہے کہ یہ پورا نظام اطاعت اپنے تمام اجزا سمیت ایک بڑی اطاعت اور ایک بڑے قانون کے تحت ہوجائے۔ تمام اطاعتیں اللّٰہ کی اطاعت کے تابع ہوں۔ ان سب کو منضبط کرنے والا ایک اللّٰہ ہی کا قانون ہو۔ اور اس بڑی اطاعت اور اس ضابطہِ قانون کی حدود سے باہر کوئی اطاعت باقی نہ رہ جائے۔‘‘
’’شرک کرنے والے وہ سب لوگ ہیں جو اپنی انفرادی واجتماعی زندگی میں اللّٰہ کی اطاعت کے ساتھ دوسری مستقل بالذات (یعنی خدا کی اطاعت سے آزاد) اطاعتیں شریک کرتے ہیں… اللّٰہ کے رسول پر یہ فرض عائد کیا گیا ہے کہ ایسے لوگوں کی مزاحمت کے باوجود اپنے مشن کو پورا کرے۔
حصولِ نصب العین کا راستہ
یہ تھا وہ نصب العین جسے پیش کرکے جماعتِ اِسلامی کے قیام کی دعوت دی گئی تھی۔ اور اس تک پہنچنے کا راستہ جو پیش کیا گیا تھا وہ یہ تھا:
’’اس نصب العین کی طرف پیش قدمی کرنے کے لیے راہ راست وہی ہے جو اللّٰہ کے رسولؐ نے اختیار کی، یعنی یہ کہ لوگوں کو الہدیٰ اور دین حق کی طرف دعوت دی جائے۔ پھر جو لوگ اس دعوت کو قبول کرکے اپنی بندگی واطاعت اللّٰہ کے لیے خالص کر دیں، دوسری اطاعتوں کو اللّٰہ کی اطاعت کے ساتھ شریک کرنا چھوڑ دیں اور خدا کے قانون کو اپنی زندگی کا قانون بنا لیں، ان کا ایک مضبوط جتھا بنایا جائے۔ پھر یہ جتھا تمام ان اَخلاقی، علمی اور مادّی ذرائع سے جو اس کے امکان میں ہوں، دینِ حق کو قائم کرنے کے لیے، جہاد کبیر کرے۔ یہاں تک کہ اللّٰہ کے سوا دوسری اطاعتیں جن جن طاقتوں کے بل پر قائم ہیں ان سب کا زور ٹوٹ جائے اور پورے نظام اطاعت پر وہی الہدٰی اور دین حق غالب آ جائے۔‘‘
’’اس راہِ راست کا ہر جز قابل غور ہے۔ پہلا جز یہ ہے کہ انسان کو بالعموم اللّٰہ کی حاکمیت واقتدارِ اعلیٰ تسلیم کرنے اور اس کے بھیجے ہوئے قانون کو اپنی زندگی کا قانون بنانے کی دعوت دی جائے۔ یہ دعوت عام ہونی چاہیے‘ ہر وقت جاری رہنی چاہیے اور اس کے ساتھ دوسری غیر متعلق باتوں کی آمیزش نہ ہونی چاہیے۔ قوموں اور نسلوں اور ملکوں کے باہمی جھگڑے، خود اپنے سیاسی اور معاشی مفادات کی بحثیں، غیر الٰہی نظامات میں سے ایک کو دوسرے پر ترجیح دینا، یا کسی ایسے نظام فاسد کی خود غرضانہ حمایت کرنا، یا کسی نظام فاسد میں اپنی جگہ بنانے کی کوشش کرنا، یہ سب چیزیں نہ صرف یہ کہ الہدیٰ اور دینِ حق کے ساتھ میل نہیں کھاتیں بلکہ صریح طور پر اس کے منافی اور اس کے لیے مضرت رساں ہیں۔ پس جب کسی شخص یا گروہ کو دعوت حق کی خدمت انجام دینی ہو تو اسے ان تمام جھگڑوں اور بحثوں سے الگ ہو جانا چاہیے اور اپنی دعوت کے ساتھ کسی دوسرے غیر متعلق اور بے جوڑ قضیے کو شامل نہ کرنا چاہیے۔
’’دوسرا جز یہ ہے کہ جتھا صرف ان لوگوں کا بنایا جائے جو اس دعوت کو جان کر اور سمجھ کر قبول کریں، جو بندگی واطاعت کو فی الواقع اللّٰہ کے لیے خالص کر دیں، جو دوسری اطاعتوں کو اللّٰہ کی اطاعت کے ساتھ شریک کرنا چھوڑ دیں اور حقیقت میں اللّٰہ کے قانون کو اپنا قانونِ زندگی بنا لیں۔ رہے دوسرے لوگ جو اس طرزِ خیال یا طرزِ زندگی کے محض معترف ہوں، یا اس سے ہم دردی رکھتے ہوں تو وہ مجاہدہ کرنے والے جتھے کے لیڈر کیا معنی، رکن بھی نہیں بن سکتے۔ اس میں شک نہیں کہ جو جس درجے میں بھی اس کا ہم درد یا بیرونی معاون بن جائے، بسا غنیمت ہے، مگر ارکان اور ہم دردوں کے درمیان جو حقیقی فرق وامتیاز ہے اسے کسی حال میں بھی نظر انداز نہ کرنا چاہیے‘‘۔
’’تیسرا جز یہ ہے کہ براہِ راست غیر الٰہی نظامِ اطاعت پر حملہ کیا جائے۔ تمام کوششوں کا مقصود صرف اس ایک بات کو بنایا جائے کہ اللّٰہ کی حاکمیت قائم ہو اور اس کے سوا کسی دوسری چیز کو مقصود بنا کر اس کے پیچھے قوتیں ضائع نہ کی جائیں۔‘‘{ FR 7691 }
یہ طریق کارِ تھا جس پر اِسلامی نصب العین کے لیے کام کرنے کی دعوت دی گئی تھی اور اسی دعوت پر آخر کار یہ جماعت وجود میں آئی۔ ’’مسلمان اور موجودہ سیاسی کش مکش‘‘ حصہ سوم کے آخر میں جو دستور جماعت درج ہے اس کا دیباچہ ملاحظہ فرمائیے۔ اس میں کہا گیا ہے کہ ’’اِسلام کا مقصد زندگی کے فاسد نظام کو بالکل بدل دینا ہے۔ یہ کلی واساسی تغیر صرف اسی طریقے پر ممکن ہے جو انبیا علیہم السلام نے اختیار کیا تھا۔ مسلمانوں میں اب تک جو کچھ ہوتا رہا ہے اور جو کچھ اب ہو رہا ہے وہ نہ اس مقصد کے لیے ہے اور نہ اس طریقے پر ہے۔ لہٰذا اب ایک ایسی جماعت کی ضرورت ہے جو صحیح معنوں میں اِسلامی جماعت ہو اور اِسلامی نصب العین کے لیے اِسلامی طریقے پر کام کرے۔ اسی بنا پر شعبان ۱۳۶۰ (اگست ۴۱ھ) میں ان لوگوں کا اجتماع منعقد کیا گیا جو صحیح اِسلامی اصول پر کام کرنے کے خواہشمند ہیں اور باہمی مشورے سے ’’جماعت اِسلامی‘‘ کی بنا ڈالی گئی۔‘‘
دستورِ جماعت میں نصب العین کی تشریح
تشکیل جماعت کے ساتھ پہلے ہی اجتماع میں جو دستور وضع کیا گیا اس میں جماعت کا نصب العین اور اس کی تمام سعی وجہد کا مقصود یہ قرار دیا گیا ہے کہ ’’دنیا میں حکومتِ الٰہیہ کا قیام اور آخرت میں رضائے الٰہی کا حصول‘‘ پھر حکومت الہیہ کی تشریح ان الفاظ میں کی گئی کہ اس سے مراد اللّٰہ کی تکوینی حکومت نہیں بلکہ اس کی شرعی حکومت ہے، یعنی اس قانون کی حکومت جو رسولوں کے واسطے سے آتا ہے، جس کا تعلق عقائد، اَخلاق، معاشرت، تمدن اور سیاست وغیرہ سے ہے۔ اور مومن کی زندگی کا مشن یہ بیان کیا گیا کہ ’’جس طرح خدا کا قانونِ تکوینی تمام کائنات میں نافذ ہے اسی طرح خدا کا قانون شرعی بھی عالم انسانی میں نافذ ہو۔‘‘ نیز یہ بھی صراحت کر دی کہ یہ کام فی الاصل تو نصیحت، فہمائش، ترغیب اور تبلیغ ہی سے کرنے کا ہے، لیکن جو لوگ ملک خدا کے ناجائز مالک بن بیٹھتے ہیں وہ عموماً اپنی خداوندی سے محض نصیحتوں کی بنا پر دست بردار نہیں ہو جایا کرتے، اس لیے مجبورًا مومن کو جنگ کرنی پڑتی ہے تاکہ حکومت الٰہیہ کے قیام میں جو چیز سدِّ راہ ہو اسے راستے سے ہٹا دے۔‘‘ { FR 7692 }
یہ دستور ۱۱ سال تک جماعتِ اِسلامی کا دستور رہا پھر اگست ۱۹۵۲ء میں جماعتِ اِسلامی پاکستان نے اپنے لیے جو نیا دستور بنایا، اس کی دفعہ ۴ میں وہی نصب العین ان الفاظ میں درج کیا گیا:
’’عملاً اقامت دین (یعنی حکومت الٰہیہ، یا اِسلامی نظام زندگی کا قیام اورحقیقتاً رضائے الٰہی اور فلاحِ اخروی کا حصول۔‘‘
اور اس کی تشریح میں وہی مضمون جو سابق دستور میں تھا، یوں ادا کیا گیا:
’’اقامتِ دین سے مقصود دین کے کسی خاص حصے کی اقامت نہیں ہے بلکہ پورے دین کی اقامت ہے، خواہ اس کا تعلق انفرادی زندگی سے ہو یا اجتماعی زندگی سے، نماز ،روزے اور حج وزکوٰۃ سے ہو یا معیشت ومعاشرت اور تمدن وسیاست سے۔ اِسلام کا کوئی حصہ بھی غیر ضروری نہیں ہے۔ پورے کا پورا اِسلام ضروری ہے۔ ایک مومن کو اسے بطور خود اپنی زندگی میں قائم کرنا چاہیے۔ اور جس حصے کا قیام اجتماعی جدوجہد کے بغیر نہیں ہو سکتا‘‘ اہل ایمان کو مل کر اس کے لیے جماعتی نظم اور سعی کا اہتمام کرنا چاہیے۔‘‘
’’اگرچہ مومن کا اصل مقصد زندگی رضائے الٰہی کا حصول اور آخرت کی فلاح ہے، مگر اس مقصد کا حصول اس کے بغیر ممکن نہیں ہے کہ دنیا میں خدا کے دین کو قائم کرنے کی کوشش کی جائے۔ اس لیے مومن کا عملی نصب العین اقامتِ دین ا ور حقیقی نصب العین وہ رضائے الٰہی ہے جو اقامتِ دین کی سعی کے نتیجے میں حاصل ہو گی۔‘‘
منشور جماعت میں نصب العین کی تشریح
دستور کے بعد ایک جماعت کی اہم ترین دستاویز اس کا منشور ہوتا ہے۔ ۱۹۵۱ء میں صوبائی انتخابات کے موقع پر جماعتِ اِسلامی نے اپنا جو منشور شائع کیاتھا اس کے پہلے ہی صفحہ پر وہ اپنے مقصدِ وجود کواس طرح پیش کرتی ہے:
’’یہ جماعت ان محدود معنوں میں کوئی سیاسی یا مذہبی یا اصلاحی جماعت نہیں ہے جن میں عام طور پر یہ الفاظ بولے جاتے ہیں، بلکہ وسیع معنوں میں ایک اصولی جماعت ہے جو پوری انسانی زندگی کے لیے ایک جامع اور عالم گیر نظریہ حیات پر یقین رکھتی ہے اور اپنے اس نظریہ کو انسانی عقائد وافکار میں، اَخلاق اور عادات میں، علوم وفنون میں، ادب اور آرٹ میں، تمدن وتہذیب میں، مذہب اور معاشرت میں، معاشی معاملات میں، سیاست اور نظم مملکت میں اور بین الاقوامی تعلقات وروابط میں عملاً نافذ کرنا چاہتی ہے۔ اس جماعت کے نزدیک دنیا کے بگاڑ کا حقیقی سبب خدا کی اطاعت سے انحراف، آخرت کی جوابدہی سے بے نیازی اور انبیا علیہم السلام کی راہ نُمائی سے روگردانی ہے … یہ جماعت نوعِ انسانی کے لیے فلاح کی صرف ایک ہی صورت دیکھتی ہے اور وہ یہ ہے کہ انسانی زندگی کا پورا نظام اپنے تمام شعبوں اور گوشوں سمیت خدائے واحد کی بندگی واطاعت کے اصول پر قائم ہو، اس بندگی واطاعت کے لیے انبیا علیہم السلام کی اس راہ نُمائی کو سند مانا جائے جو آج اپنی صحیح وکامل صورت میں صرف سیدنا محمدa کی تعلیم ہی میں موجود ہے اور افراد کی سیرتوں سے لے کر قوموں کے اجتماعی طرزِ عمل تک ہر چیز کو اس اَخلاقی رویے پر قائم کیا جائے جس کی بنیاد آخرت کی جواب دہی کے احساس پر رکھی گئی ہو۔‘‘
اجتماعاتِ عام میں نصب العین کی توضیحات
دستور اور منشور کے بعد تیسری اہم ترین سند وہ تصریحات ہیں جو ارکانِ جماعت کے عام اجتماعات میں کی جاتی ہیں، خواہ وہ کسی جماعتی قرارداد کی صورت میں ہوں یا خطبہِ امارت کی شکل میں۔ کیوں کہ ایسے مواقع پر امیرِ جماعت جوکچھ کہتا ہے وہ کسی شخص کی ذاتی رائے نہیں ہوتی بلکہ پوری جماعت اسے سند قبول عطا کرتی ہے۔ میں آپ کے سامنے جماعت کی رودادوں سے نصب العین کی وہ توضیحات پیش کروں گا جو پے درپے اجتماعات عام میں کی گئی ہیں۔
اگست ۱۹۴۱ء کا اولین اجتماع جس سے اس جماعت کے وجود کا آغاز ہوا، اس میں مقصدِ سعی یہ بیان کیا گیا تھا کہ ’’دین کو ایک تحریک کی صورت میں جاری کیا جائے۔‘‘ اور اس کی تشریح یہ کی گئی تھی کہ’’ہماری زندگی میں دین داری محض ایک انفرادی رویے کی صورت میں جامد وساکن ہو کر نہ رہ جائے بلکہ ہم اجتماعی صورت میں نظامِ دینی کو عملاً نافذ وقائم کرنے اور مانع ومزاحم طاقتوں کو اس کے راستے سے ہٹانے کے لیے جدوجہد بھی کریں۔‘‘ آگے چل کر اسی سلسلے میں کہا گیا تھا:۔
’’یہ بات ہر اس شخص کو جو جماعتِ اِسلامی میں آئے، اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ جو کام اس جماعت کے پیشِ نظر ہے وہ کوئی ہلکا اور آسان کام نہیں ہے۔ اسے دنیا کے پورے نظام زندگی کو بدلنا ہے۔ اسے دنیا کے اَخلاق، سیاست، تمدن، معیشت، معاشرت ہر چیز کو بدل ڈالنا ہے۔ دنیا میں جو نظام حیات خدا سے بغاوت پر قائم ہے اسے بدل کر خدا کی اطاعت پر قائم کرنا ہے اور اس کام میں تمام شیطانی طاقتوں سے اس کی جنگ ہے۔ ‘‘ { FR 7693 }
۴۵ء کے اجتماع دارالاِسلام میں ’’دعوتِ اِسلامی اور ا س کے طریقِ کار‘‘ کے عنوان پر ایک مفصّل تقریرکی گئی تھی۔ ا س میں جماعتِ اِسلامی کا مقصد یہ بیان ہوا تھا:
’’ہمارے پیشِ نظر صرف ایک سیاسی نظام کا قیام نہیں ہے بلکہ ہم چاہتے ہیں کہ پوری انسانی زندگی… انفرادی اور اجتماعی… میں وہ ہمہ گیر انقلاب رونما ہو جو اِسلام رونما کرنا چاہتا ہے، جس کے لیے اللّٰہ نے اپنے انبیا کو معبوث کیا تھا اور جس کی دعوت دینے اور جدوجہد کرنے کے لیے ہمیشہ انبیا علیہم السلام کی امامت و راہ نُمائی میں امت مسلمہ کے نام سے ایک گروہ بنتا رہا ہے۔‘‘
پھر اس دعوت کا خلاصہ حسبِ ذیل تین نکات کی شکل میں پیش کیا گیا تھا:
۱۔ یہ کہ ہم بندگانِ خدا کو بالعموم اور جو پہلے سے مسلمان ہیں انھیں بالخصوص اللّٰہ کی بندگی کی دعوت دیتے ہیں۔
۲۔ یہ کہ جو شخص بھی اِسلام قبول کر لے، یا اس کو ماننے کا دعوٰی اور اظہار کرے، اس کو ہم دعوت دیتے ہیں کہ وہ اپنی زندگی سے منافقت اورتناقض کو خارج کرے اور جب وہ مسلمان ہے یا بنا ہے تو مخلص مسلمان بنے اور اِسلام کے رنگ میں رنگ کر یک رنگ ہو جائے۔
۳۔ یہ کہ زندگی کا نظام جو آج باطل پرستوں اور فساق وفجار کی راہ نُمائی میں چل رہا ہے اور معاملات دنیا کی زمامِ کار جو خدا کے باغیوں کے ہاتھ میں آ گئی ہے، ہم دعوت دیتے ہیں کہ اسے بدلا جائے اور راہ نُمائی وامامت، نظری اور عملی دونوں حیثیتوں سے مومنین صالحین کے ہاتھوں میں منتقل ہو۔
اس کے بعد ان تینوں نکات کی تشریح کی گئی تھی۔ اللّٰہ کی بندگی، جس کی طرف دعوت دینا جماعت کااوّلین کام بتایاگیا تھا، اس کا مطلب ان الفاظ میں بیان کیا گیا تھا:
’’انسان خدا کو پورے معنی میں الٰہ اور رب، معبود اور حاکم، آقا اور مالک، راہِ نما اور قانون ساز، محاسب اور مجازی (جزا دینے والا) تسلیم کرے اور اپنی پوری زندگی کو خواہ وہ شخصی ہو یا اجتماعی، اَخلاقی ہو یا مذہبی، تمدنی وسیاسی اور معاشی ہو یا علمی ونظری، اسی ایک خدا کی بندگی میں سپرد کر دے… بندگیِ حق کے اس مفہوم کا تقاضا یہ ہے کہ ہم سچے دل سے یہ چاہیں کہ جو طریقِ زندگی، جو قانونِ حیات، جو اصولِ تمدن واَخلاق، جو ضابطہ ومعاشرت وسیاست، جو نظامِ فکر و عمل اللّٰہ تعالیٰ نے اپنے انبیا کے واسطے سے ہمیں دیا ہے، ہماری زندگی کا پورا کاروبار اسی کی پیروی میں چلے اور ہم ایک لمحے کے لیے بھی اپنی زندگی کے کسی چھوٹے سے چھوٹے شعبے کے اندر بھی، اس نظام حق کے خلاف کسی دوسرے نظام کے تسلط کو برداشت کرنے کے لیے تیار نہ ہوں۔‘‘
منافقت جسے زندگی سے خارج کرنا جماعتِ اِسلامی کی دعوت کا دوسرا نکتہ قرار دیا گیا تھا، اس کی تشریح یہ کی گئی تھی:
’’منافقانہ رویے سے ہماری مراد یہ ہے کہ آدمی جس دین کی پیروی کا دعوٰی کرے، اس کے بالکل برخلاف نظامِ زندگی کواپنے اوپر حاوی ومسلّط پا کر راضی اور مطمئن رہے، اس کو بدل کر اپنے دین کو اس کی جگہ قائم کرنے کی کوئی سعی نہ کرے، بلکہ اس کے برعکس اسی فاسقانہ وباغیانہ نظامِ زندگی کو اپنے لیے سازگار بنانے اور اس میں اپنے لیے آرام کی جگہ پیدا کرنے کی فکر کرتا رہے، یا اگر اس کو بدلنے کی کوشش بھی کرے تو اس کی غرض یہ نہ ہو کہ اس فاسقانہ نظامِ زندگی کی جگہ دین حق قائم ہو، بلکہ صرف یہ کوشش کرے کہ ایک فاسقانہ نظامِ زندگی کی جگہ دوسرا فاسقانہ نظام اسکی جگہ قائم ہو جائے… ہمارا ایک نظامِ زندگی پر ایمان رکھنا اور دوسرے نظامِ زندگی میں راضی رہنا بالکل ایک دوسرے کی ضد ہیں۔ مخلصانہ ایمان کا اولین تقاضا ہے کہ جس طریق زندگی پر ہم ایمان رکھتے ہیں اسی کو ہم اپنا قانونِ حیات دیکھنا چاہیں… ایمان تو اس میں کسی چھوٹی سے چھوٹی رکاوٹ کو بھی برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں ہو سکتا، کجا کہ پورا کا پورا دین کسی دوسرے نظامِ زندگی کا تابع مہمل بن کر رہ گیا ہو، دین کے کچھ اجزا پر عمل ہوتا بھی ہو تو صرف اس وجہ سے کہ غالب نظامِ زندگی نے اس کو بے ضرر سمجھ کر رعایتًا باقی رکھا ہو اور ان رعایات کے ماسِوا ساری زندگی کے معاملات دین کی بنیادوں سے ہٹ کر غالب نظامِ زندگی کی بنیادوں پر چل رہے ہوں اور پھر بھی ایمان اپنی جگہ نہ صرف خوش اور مطمئن ہو، بلکہ جو کچھ بھی سوچے، اِسی غلبہ ِکفر کو اصولِ موضوعہ کے طور پر تسلیم کرکے سوچے! اس قسم کا ایمان چاہے فقہی اعتبار سے معتبر ہو، لیکن دینی لحاظ سے تو اس میں اور نفاق میں کوئی فرق نہیں ہے۔‘‘
اس کے بعد تیسرے نکتے، یعنی انقلابِ امامت، یا انقلابِ قیادت کی توضیح کرتے ہوئے کہا گیا تھا:
’’ہمارا اپنے آپ کو بندگی رب کے حوالے کر دینا اور اس حوالگی وسپردگی میں ہمارا منافق نہ ہونا بلکہ مخلص ہونا اور پھر ہمارا اپنی زندگی کو تناقضات سے پاک کرکے مسلم حنیف بننے کی کوشش کرنا لازمی طور پر اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ ہم اس نظامِ زندگی میں انقلاب چاہیں جو آج کفر ودہریت، فسق وفجور اور بداَخلاقی کی بنیادوں پر چل رہا ہے اور جس کے نقشے بنانے والے مفکرین اور جس کا انتظام کرنے والے مدبّرین سب کے سب خدا سے پھرے ہوئے اور اس کی شرائع کے قیود سے نکلے ہوئے لوگ ہیں۔ جب تک زمامِ کار ان لوگوں کے ہاتھ میں رہے گی، جب تک علوم وفنون، آرٹ اور ادب، تعلیم وتدریس، نشرواشاعت، قانون سازی اور تنفیذِ قانون، مالیات، صنعت وحرفت اور تجارت، انتظامِ ملکی اور تعلقات بین الاقوامی ہر چیز کی باگ ڈور یہ سنبھالے رہیں گے، کسی شخص کے لیے دنیا میں مسلمان کی حیثیت سے زندگی بسر کرنا اور خدا کی بندگی کو اپنا ضابطہِ حیات بنا کر رہنا نہ صرف عملاً محال ہے، بلکہ اپنی آیندہ نسلوں کو اعتقاداً بھی اِسلام کا پیرو چھوڑ جانا غیرممکن ہے‘‘۔
’’اس کے علاوہ صحیح معنوں میں جو شخص بندہ رب ہو اس پر منجملہ دوسرے فرائض کے ایک اہم ترین فرض یہ بھی تو عائد ہوتا ہے کہ وہ خدا کی رضا کے مطابق دنیا کے انتظام کو فساد سے پاک اورصلاح پر قائم کرے۔ اور ظاہر بات ہے کہ یہ مقصد اس وقت تک پورا نہیں ہو سکتا جب تک زمامِ کار صالحین کے ہاتھ میں نہ ہو۔ فساق وفجار اور خدا کے باغی اور شیطان کے مطیع، دنیا کے امام وپیشوا اور منتظم بھی رہیں اور پھر دنیا میں ظلم وفساد اور بداَخلاقی وگمراہی کا دور دورہ بھی نہ ہو، یہ عقل اورفطرت کے خلاف ہے اور آج تجربہ ومشاہدہ سے کالشمس فی النہار یہ ثابت ہو چکا ہے کہ ایسا ہونا غیر ممکن ہے‘‘۔
پھر جماعتِ اِسلامی کی تنظیم کا مدعا اس طرح بیان کیا گیا تھا:
’’ہماری دعوت صرف اسی حد تک نہیں ہے کہ دنیا کی زمامِ کار فساق وفجار کے ہاتھوں سے نکلے اور مومنین صالحین کے ہاتھوں میں آئے، بلکہ ایجاباً ہماری دعوت یہ ہے کہ اہلِ خیر وصلاح کا ایک ایسا گروہ منظم کیا جائے جو نہ صرف اپنے ایمان میں پختہ، نہ صرف اپنے اِسلام میں مخلص ویک رنگ، نہ صرف اپنے اَخلاق میں صالح وپاکیزہ ہو، بلکہ اس کے ساتھ ان تمام اوصاف اور قابلیتوں سے بھی آراستہ ہو جو دنیا کی کارگاہ حیات کو بہترین طریقے پر چلانے کے لیے ضروری ہیں۔ اور صرف آراستہ ہی نہ ہو بلکہ موجودہ کار فرمائوں اور کارکنوں سے ان اوصاف اور قابلیتوں میں اپنے آپ کو فائق تر ثابت کر دے۔‘‘{ FR 7694 }
۴۵ء کے اسی اجتماع میں ایک دوسری تقریر بھی کی گئی تھی جو روداد جماعت حصہ سوم میں درج ہے اور ’’تحریک اِسلامی کی اَخلاقی بنیادیں‘‘ کے نام سے الگ بھی شائع ہو چکی ہے۔ اس میں کہا گیا تھا کہ:
’’ہماری جدوجہد کا آخری مقصود انقلاب امامت ہے، یعنی دنیا میں ہم جس انتہائی منزل تک پہنچنا چاہتے ہیں وہ یہ ہے کہ فساق وفجار کی امامت وقیادت ختم ہو کر امامت صالحہ کا نظام قائم ہو اور اس سعی وجہد کو ہم رضائے الٰہی کے حصول کا ذریعہ سمجھتے ہیں… دراصل فساق وفجار کی قیادت ہی نوعِ انسانی کے مصائب کی جڑ ہے اور انسان کی بھلائی کا سارا انحصار صرف اس بات پر ہے کہ دنیا کے معاملات کی سربراہ کاری صالح لوگوں کے ہاتھوں میں ہو… اگر کوئی شخص دنیا کی اصلاح چاہتا ہو اور فساد کو صلاح سے، اضطراب کو امن سے‘ بد اَخلاقیوں کو اَخلاق صالحہ سے اور برائیوں کو بھلائیوں سے بدلنے کا خواہش مند ہو تو اس کے لیے محض نیکیوں کا وعظ اور خدا پرستی کی تلقین اور حسنِ اَخلاق کی ترغیب ہی کافی نہیں ہے بلکہ اس کا فرض ہے کہ نوعِ انسانی میں جتنے صالح عناصر اس کو مل سکیں انھیں ملا کر وہ اجتماعی قوت بہم پہنچائے جس سے تمدن کی زمامِ کار فاسقوں سے چھینی جا سکے اور امامت کے نظام میں تغیر کیا جا سکے۔‘‘
’’انسانی معاملات کے بنائو اور بگاڑ کا آخری فیصلہ جس مسئلے پر منحصر ہے وہ یہ سوال ہے کہ معاملاتِ انسانی کی زمامِ کار کس کے ہاتھ میں ہے۔ جس طرح گاڑی ہمیشہ اسی سمت میں چلا کرتی ہے جس میں ڈرائیور اس کو لے جانا چاہتا ہو اور دوسرے لوگ جو گاڑی میں بیٹھے ہوں خواستہ وناخواستہ اسی سمت میں جانے پر مجبور ہو جاتے ہیں جدھر گاڑی جا رہی ہو، اسی طرح انسانی تمدن کی گاڑی بھی اسی سمت پر سفر کیا کرتی ہے جس سمت وہ لوگ جانا چاہتے ہیں جن کے ہاتھ میں تمدن کی باگیں ہوتیں ہیں۔ ظاہر ہے کہ زمین کے سارے ذرائع جن کے قابو میں ہوں، قوت واقتدار جن کے ہاتھ میں ہو، عام انسانوں کی زندگی جن کے دامن سے وابستہ ہو، خیالات وافکار اور نظریات کو بنانے اور ڈھالنے کے وسائل جن کے قبضے میں ہوں، انفرادی سیرتوں کی تعمیر، اجتماعی نظام کی تشکیل اور اَخلاقی قدروں کی تعیین جن کے اختیار میں ہو، ان کی راہ نُمائی وفرماں روائی کے تحت رہتے ہوئے انسانیت بحیثیت مجموعی اس راہ پر چلنے سے کسی طرح باز نہیں رہ سکتی جس پر وہ اسے چلانا چاہتے ہوں۔ یہ راہ نُما وفرماں روا اگر خدا پرست اور صالح لوگ ہوں تو لامحالہ زندگی کا سارا نظام خدا پرستی اور خیر وصلاح پر چلے گا، برے لوگ بھی اچھے بننے پر مجبور ہوں گے، بھلائیوں کو نشوونما ہو گا اور برائیاں اگر مٹیں گی نہیں تو پروان بھی نہ چڑھ سکیں گی۔ لیکن اگر راہ نُمائی وقیادت اور فرماں روائی کا یہ اقتدار ان لوگوں کے ہاتھوں میں ہو جو خدا سے برگشتہ اور فسق وفجور میں سرگشتہ ہوں تو آپ سے آپ سارا نظامِ زندگی خدا سے بغاوت اور ظلم وبداَخلاقی پر چلے گا۔ خیالات ونظریات، علوم و آداب، سیاست ومعیشت، تہذیب ومعاشرت، اَخلاق ومعاملات، عدل وقانون، سب کے سب بحیثیت مجموعی بگڑ جائیں گے۔ برائیاں خوب نشوونما پائیں گی اور بھلائیوں کو زمین اپنے اندر جگہ دینے سے اور پانی انھیں غذا دینے سے انکار کر دیں گے اور خدا کی زمین ظلم وجور سے لبریز ہو کر رہے گی ایسے نظام میں برائی کی راہ چلنا۔ آسان اور بھلائی کی راہ چلنا کیا معنی، اس پر قائم رہنا بھی مشکل ہو جاتا ہے۔‘‘
اس کے بعد خود اسی ملک کی تاریخ کو مثال میں پیش کرکے بتایا گیا تھا کہ ’’جب انگریزوں کے ہاتھ میں زمامِ کار چلی گئی تو کس طرح ایک صدی کے اندر انھوں نے پورے ملک کے اَخلاق، اذہان، نفسیات، معاملات اور نظام تمدن کو بدل کر رکھ دیا۔ خیالات ونظریات بدلے، مذاق اور مزاج بدلے، سوچنے کے انداز اور دیکھنے کے زاویے بدلے، تہذیب واَخلاق کے معیار اور قدر وقیمت کے پیمانے بدلے، زندگی کے طور طریقے اور معاملات کے ڈھنگ بدلے، غرض کوئی چیز ایسی نہ رہ گئی جو بدل نہ گئی ہو اور ان کے مقابلے میں وہ لوگ روز بروز پسپا، عاجز اور شکست خوردہ ہوتے چلے گئے جن کے ہاتھ میں زمامِ کار نہ تھی۔ حتّٰی کہ مقدس ترین مذہبی پیشوائوں کی نسل سے وہ لوگ اٹھنے لگے جنھیں خدا کے وجود اور وحی ورسالت کے امکان اورآخرت کے وقوع میں شک لاحق ہو گیا اور انھوں نے اپنے آپ ہی کو نہیں، اپنی بیویوں اور بیٹیوں کو بھی اس تہذیب کے رنگ میں رنگ لیا جو اقتدار کے سرچشموں پر قابض ہو چکی تھی‘‘۔
اِسی سلسلے میں یہ بھی واضح کیا گیا تھا کہ ’’دین کا مقصود لوگوں سے اللّٰہ کی اطاعت کرنا اور برائیوں کو مٹا کر بھلائیاں پھیلانا ہے اور یہ مقصد ایسی حالت میں کبھی پورا نہیں ہو سکتا جب کہ نوعِ انسانی کی قیادت وراہ نُمائی اور معاملات انسانی کی سربراہ کاری آئمہ کفر وضلال کے ہاتھوں میں ہو اور دین حق کے پیرومحض ان کے ماتحت رہ کر ان کی دی ہوئی رعایتوں اور گنجائشوں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے یاد خدا کرتے رہیں۔ اس لیے اِسلام کے نقطہِ نظر سے امامتِ صالحہ کا قیام مرکزی اور مقصدی اہمیت رکھتا ہے۔ جو شخص اس دین پر ایمان لایا ہو اس کا کام صرف اتنے ہی پر ختم نہیں ہو جاتا کہ اپنی زندگی کو حتی الامکان اِسلام کے سانچے میں ڈھالنے کی کوشش کرے، بلکہ عین اس کے ایمان کا تقاضا یہ ہے کہ وہ اپنی تمام سعی وجہد کو اس ایک مقصد پر مرکوز کر دے کہ زمام کار کفار وفساق کے ہاتھ سے نکل کر صالحین کے ہاتھوں میں منتقل ہو اور وہ نظامِ حق قائم ہو جو اللّٰہ تعالیٰ کی رضا کے مطابق دنیا کے انتظام کو درست کر دے‘‘۔
یہی نصب العین ، قریب قریب اسی تشریح کے ساتھ مئی ۱۹۴۷ء کے اجتماع دارالاِسلام کی اس تقریر میں پیش کیا تھا جو ’’جماعتِ اِسلامی کی دعوت‘‘ کے نام سے شائع ہوئی ہے۔ اس میں جماعتِ اِسلامی کا مدعا واضح کرتے ہوئے بتایا گیا تھا کہ ’’موجودہ تہذیب، جس پر آج دنیا کا پورا فکری، اَخلاقی، تمدنی، سیاسی اور معاشی نظام چل رہا ہے، دراصل تین بنیادی اصولوں پر قائم ہے: لادینی، قوم پرستی اور جمہوریت، جماعتِ اِسلامی جس مقصد کے لیے کام کر رہی ہے وہ یہ نہیں ہے کہ سارا نظامِ زندگی چلتا تو رہے انھی بنیادوں پر، مگر اس کے چلانے والے ہاتھ انگریز کے ہاتھ نہ رہیں بلکہ ہندوستانی یا مسلمان قوم کے ہاتھ ہو جائیں۔ اس کے برعکس جماعتِ اِسلامی یہ چاہتی ہے کہ اس پورے نظامِ زندگی کو ان بنیادوں سے اکھاڑ کر تین دوسری بنیادوں پر قائم کیا جائے: لادینی کے مقابلے میں خدا کی بندگی واطاعت، قوم پرستی کے مقابلے میں انسانیت اور جمہور کی حاکمیت کے مقابلے میں خدا کی حاکمیت اور جمہور کی خلافت، نیز یہ جماعت، نظام زندگی کو چلانے والے ہاتھ بدلنا تو ضرور چاہتی ہے، مگر مغربی ہاتھوں کے بجائے مشرقی ہاتھ نہیں، غیر ملکی ہاتھوں کے مقابلے میں ملکی ہاتھ بھی نہیں، بلکہ فاسق ہاتھوں کے مقابلے میں صالح ہاتھ۔ وہ چاہتی ہے کہ اس پورے نظام تمدن کی کارفرمائی اور اس کا انتظام ان لوگوں کے سپرد ہو جو خدا سے ڈرنے والے، اس کی اطاعت کرنے والے اور ہر کام میں اس کی رضا چاہنے والے ہوں، یہ نصب العین بیان کرنے کے بعد مسلمانوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا گیا تھا:
’’موجودہ زمانے کی بے دین قومی جمہوریت تمھارے دین وایمان کے قطعاً خلاف ہے۔ تم اس کے آگے سرتسلیم خم کرو گے تو قرآن سے پیٹھ پھیرو گے۔ اس کے قیام وبقا میں حصہ لو گے تو اپنے رسول سے غداری کرو گے۔ اس کا جھنڈا اڑانے کے لیے اٹھو گے تو اپنے خدا کے خلاف عَلمِ بغاوت بلند کرو گے۔ جس اِسلام کے نام پر تم اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہو اس کی روح اس ناپاک نظام کی روح سے، اس کے بنیادی اصول اس کے بنیادی اصولوں سے اور اس کا ہر جز اس کے ہر جز سے برسر جنگ ہے۔ اِسلام اور یہ نظام کہیں ایک دوسرے سے مصالحت نہیں کرتے۔ جہاں یہ نظام برسر اقتدار ہو گا وہاں اِسلام نقش برآب رہے گا اور جہاں اِسلام برسر اقتدار ہو گا وہاں اس نظام کے لیے کوئی جگہ نہ ہو گی۔ تم اگر واقعی اسی اِسلام پر ایمان رکھتے ہو جسے قرآن اور محمدa لائے تھے تو تمھارا فرض ہے کہ جہاں بھی تم ہو اس قوم پرستانہ لادینی جمہوریت کی مزاحمت کرو اور اس کے مقابلے خدا پرستانہ انسانی خلافت قائم کرنے کے لیے جدوجہد کرو۔ خصوصیّت کے ساتھ جہاں تک بحیثیت ایک قوم کے برسر اقتدار ہو وہاں تو اگر تمھارے ہاتھوں سے اِسلام کے اصلی نظام کے بجائے یہ کافرانہ نظام بنے اورچلے توحیف ہے تمھاری اس مسلمانی پر جس کا نام لینے میں تم اتنے بلند آہنگ اور جس کا کام کرنے سے تم اس قدر بیزار ہو۔‘‘
اس تقریر کا خاتمہ اس اعلان پر ہوا تھا اور یاد رکھیے کہ یہ اعلان امیرِ جماعت نے ارکان جماعت کے اجتماعِ عام میں کیا اور ارکان نے اس کو قبول کیا تھا کہ:
’’اب یہ بات تقریباً طے شدہ ہے کہ ملک تقسیم ہو جائے گا۔ ایک حصہ مسلمان اکثریت کے سپرد کیا جائے گا اور دوسرا حصہ غیر مسلم اکثریت کے زیر اثر ہو گا۔ پہلے حصے میں ہم کوشش کریں گے کہ رائے عام کو ہموار کرکے اس دستور وقانون پر ریاست کی بنیاد رکھیں جسے ہم مسلمان خدائی دستور وقانون مانتے ہیں۔‘‘
رفقائے عزیز! یہ تھا وہ نصب العین جو اوّل روز سے جماعتِ اِسلامی کے سامنے رکھا گیا تھا اور بار بار مختلف مواقع پر دہرایا جاتا رہا ہے۔ میں نے اس کو اتنی شرح و بسط کے ساتھ جماعت کے مستند ماخذ اور ہر دور کے ماخذ سے اس لیے نقل کیا ہے کہ آپ کے سامنے اس مقصد کی پوری تصویر اپنے تمام گوشوں سمیت آ جائے جس کے حصول کی جدوجہد کرنے کے لیے آپ اٹھے تھے۔ اب یہ آپ کا اپنا کام ہے کہ اس تصویر کو نگاہ میں رکھ کر اپنی جماعت کے پچھلے پانزدہ سالہ کام کو دیکھیں اور یہ رائے قائم کریں کہ آیا یہ کام اسی مقصد اور اسی نصب العین کی راہ میں تھا یا کسی اور چیز کی راہ میں۔ میں پوری دیانت کے ساتھ یہ رائے رکھتا ہوں کہ جماعتِ اِسلامی من حیث الجماعت اپنے نصب العین کے صحیح اور مکمل شعور سے کبھی غافل نہیں ہوئی ہے اور اس نے آج تک ایک ایک قدم، خوب سوچ سمجھ کر ٹھیک اپنی منزلِ مقصود کی سمت میں اٹھایا ہے۔ وہ صاف ذہن کے ساتھ سمجھتی رہی ہے کہ اس کا مطلوب ومقصود کیا ہے اور کھلی آنکھوں کے ساتھ دیکھتی رہی ہے کہ حالات وواقعات کے جنگل میں سے اس کی منزلِ مقصود کی طرف جانے والا راستہ کون سا ہے۔ اس کا حال ان لوگوں کا سا نہیں رہا ہے جن کا ذہن اپنے مقصد کے فہم ہی میں الجھا ہوا ہوتا ہے۔ اور وہ تاریکی میں اٹکل سے کسی طرف کو چل پڑتے ہیں، پھر چلتے چلتے بار بار ٹھیر کر سوچنے لگتے ہیں کہ ہم ٹھیک بھی جا رہے ہیں یا نہیں۔ یہ جماعت آسانی کے ساتھ اس حالت میں مبتلا نہیں ہو سکتی کہ پندرہ سال ایک راستے پر چلنے کے بعد یکایک اسے یہ شبہ لاحق ہو جائے کہ ہم غلط سمت میں آ گئے اور اب ہمیں الٹے پائوں پھر کر کسی اور طرف چلنا چاہیے۔ اپنے عمل کی کوتاہیاں اور خامیاں تو وہ جانتی اور مانتی ہے اور ان کی تلافی کے لیے کوشش کرنا اپنا فرض سمجھتی ہے، لیکن اگر کوئی اسے اس بات کا قائل کرنا چاہے کہ وہ اپنے مقصد کے فہم ہی میں غلطی کر گئی ہے اور کسی غلط راستہ پر پڑ گئی ہے تو اسے مضبوط دلائل کے ساتھ اس کے فہم کی غلطی ثابت کرنی ہو گی اور یہ بھی دکھانا ہو گا کہ وہ صحیح راستہ کونسا تھا جسے چھوڑ کر جماعت غلط راستے پر آ نکلی۔
وہ اصول جن کے التزام کا عہد ہم نے کیا تھا
اب ایک نظر ان اصولوں پر بھی ڈال لیجیے جن کے التزام کا ہم نے اقرار واعلان کیا تھا۔ یہ اصول جماعت کے پرانے دستور میں عقیدہ، نصب العین اور نظامِ جماعت کے زیر عنوان درج تھے اور اب جدید دستور{ FR 7695 } میں انھیں عقیدہ، نصب العین، شرائطِ رکنیت کے تحت درج کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ جدید دستور کی دفعہ ۱۰ میں جماعت کا مستقل طریقِ کار یہ بیان کیا گیا ہے کہ:
۱۔ ’’وہ کسی امرکا فیصلہ کرنے یا کوئی قدم اٹھانے سے پہلے یہ دیکھے گی کہ خدا اور رسولaکی ہدایت کیا ہے۔ دوسری ساری باتوں کو ثانوی حیثیت سے صرف اس حد تک پیش نظر رکھے گی جہاں تک اِسلام میں اس کی گنجائش ہوگی۔
۲۔ اپنے مقصد اور نصب العین کے حصول کے لیے جماعت کبھی ایسے ذرائع اور طریقوں کو استعمال نہیں کرے گی جو صداقت اور دیانت کے خلاف ہوں، یا جن سے فساد فی الارض رونما ہو۔
۳۔ جماعت اپنے پیشِ نظر اصلاح اور انقلاب کے لیے جمہوری اور آئینی طریقوں سے کام کرے گی، یعنی یہ کہ تبلیغ وتلقین اور اشاعتِ افکار کے ذریعے سے ذہنوں اور سیرتوں کی اصلاح کی جائے جو جماعت کے پیش نظر ہیں۔
۴۔ جماعت اپنے نصب العین کے حصول کی جدوجہد خفیہ تحریکوں کے طرز پر نہیں کرے گی بلکہ کھلم کھلا اور علانیہ کرے گی۔ ‘‘{ FR 7696 }
ان اصولوں کو نگاہ میں رکھ کر آپ خود یکھیں کہ پچھلے پندرہ سال کے دوران میں جماعت ان کی پابند رہی ہے یا نہیں، انفرادی لغزشوں اور کوتاہیوں سے تو بہرحال کوئی جماعت بھی خالی نہیں ہو سکتی۔ لیکن مجھے یقین ہے کہ اجتماعی حیثیت سے جماعتِ اِسلامی ان اصولوں کی پوری پابندی کرتی رہی ہے اور یہ سراسر اللّٰہ کا فضل ہے کہ بے اصولی کے وہ انتہائی صبر آزما طوفان بھی جن کے درمیان اسے اس ملک میں برسوں کام کرنا پڑا ہے، اسے ایک بے اصول جماعت بنا دینے میں کبھی کام یاب نہیں ہو سکے ہیں۔ تدابیر کا ردّوبدل ایک دوسری چیز ہے جسے بعض لوگ غلطی سے اصول کا ردّوبدل قرار دے بیٹھتے ہیں۔ تدبیروں کا نام اصول نہیں ہے اور دنیا کی کوئی جماعت بھی ایک تدبیر کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے پکڑ کر نہیں بیٹھ سکتی۔ خصوصیت کے ساتھ جن لوگوں کو سخت مخالف ومزاحم ماحول میں سے اپنا راستہ نکالنا ہو، ان کے لیے تو یہ ناگزیر بھی ہے اور دانائی کا تقاضا بھی کہ اگر ایک وقت انھوں نے ایک تدبیر کو صحیح ومناسب پا کر اختیار کیا ہو اور دوسرے وقت وہ تدبیر موزوں اور کارگر نہ رہے تو وہ بِلا تامل اس کو کسی بہتر اور حالات کے لحاظ سے مناسب تر تدبیر سے بدل دیں۔ اس ردوبدل کو اس وقت تک اصول شکنی سے تعبیر نہیں کیا جا سکتا جب تک یہ ثابت نہ کر دیا جائے کہ جن اصولوں کی پابندی کا ہم نے عہد کیا تھا ان کے حدود اربعہ میں اس ردّوبدل کی، یا ہماری اختیار کردہ کسی تدبیر کی گنجائش نہ تھی۔
……٭٭٭……