Search
Close this search box.

فہرست موضوعات

عرضِ ناشر
قرار داد
ضمیمہ
تقریر
نکتۂ اوّل
نکتۂ دوم
نکتۂ سوم
نکتۂ چہارم
نکتۂ پنجم
نکتۂششم
نکتۂ ہفتم
نکتۂ ہشتم
نکتۂ نہم ودہم

تحریک اسلامی کا آئندہ لائحہ عمل

اس ویب سائٹ پر آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ اب آپ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمتہ اللہ علیہ کی کتابوں کو ’’پی ڈی ایف ‘‘ کے ساتھ ساتھ ’’یونی کوڈ ورژن‘‘ میں بھی پڑھ سکتے ہیں۔کتابوں کی دستیابی کے حوالے سے ہم ’’اسلامک پبلی کیشنز(پرائیوٹ) لمیٹڈ، لاہور‘‘، کے شکر گزار ہیں کہ اُنھوں نے اس کارِ خیر تک رسائی دی۔ اس صفحے پر آپ متعلقہ کتاب PDF اور Unicode میں ملاحظہ کیجیے۔

نکتۂششم

اب مجھے قرارداد کے چھٹے نکتے کی تشریح کرتے ہوئے آپ کو یہ بتانا ہے کہ تقسیم کے موقع پر اور اس کے فورًا بعد حالات میں کتنا عظیم اور بڑی حد تک غیر متوقع تغیر واقع ہو گیا، ان بدلے ہوئے حالات کے تقاضے قبل تقسیم کے حالات سے کس قدر مختلف تھے، اِسلامی تحریک کے نقطہِ نظر سے ان کے موافق اور مخالف پہلو کیا تھے، ان میں کام کرنے کے لیے کیا نئے مواقع ہمارے سامنے آئے اور کیا نئے ذرائع ہمیں بہم پہنچے، تقسیم سے پہلے ہمارے لیے آئینی ذرائع سے نظامِ حکومت کو بدلنے اور قیادت میں انقلاب لانے کے جو دروازے شرعی موانع کی وجہ سے بالکل بند تھے انھیں کھولنے کے کیا نئے امکانات پیدا ہو گئے اور اس پوری صورت حال کا بروقت اوربالکل ٹھیک اندازہ کرکے ہم نے اپنے سابق طریقِ کار میں جو تغیر کیا اس کی حقیقی نوعیت کیا تھی اور وہ کیوںنہ صرف صحیح اور نہ صرف ناگزیر تھا بلکہ اگر ہم ان حالات میں قبل تقسیم کے طریقے ہی پر کام کرتے رہتے تو اپنے مقصد کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا دیتے۔
تقسیم ہند کے وقت حالات کا تغیر اور اس کے تقاضے
جیسا کہ میں پہلے بیان کر آیا ہوں، پاکستان بننے سے پہلے ہم جن حالات میں کام کر رہے تھے وہ یہ تھے کہ ملک پر بیرونی کفار کی حکومت پوری طاقت کے ساتھ قائم تھی‘ملک میں وطنی قومیت کی بنیاد پر لادینی جمہوریت کا نظام مستقل بنیادوں پر جما ہوا تھا، ملک کی آبادی کا تین چوتھائی سے زیادہ حصہ غیر مسلموں پر مشتمل تھا اور اِسلام کے ماننے والے ایک چوتھائی سے بھی کم تھے، غیر مسلم اکثریت ایک زبردست قوم پرستانہ تحریک میں جذب ہوچکی تھی اور اس امید سے لبریز تھی کہ عنقریب وہی انگریزی اقتدار کی وارث ہو گی، مسلم اقلیت ایک جوابی قوم پرستانہ تحریک میں مستغرق تھی جس کا اوّلین ہدف یہ تھا کہ ملک تقسیم ہو اور اس کے مسلم اکثریت والے علاقے میں کسی نہ کسی طرح مسلمانوں کی ایک قومی ریاست قائم ہوجائے۔ اِسلامی انقلاب کے لیے ہماری اصولی تحریک عملاً اس وقت شروع ہوئی تھی جب کہ یہ دونوں قوم پرستانہ تحریکیں نہ صرف یہ کہ پورے میدان پر قابض ہو چکی تھیں بلکہ ایک سخت معرکے میں ایک دوسرے سے گتھ بھی چکی تھیں۔ ظاہر ہے کہ ان حالات میں ہمارے لیے اس کے سوا کوئی اور طریقِ کار ممکن ہی نہ تھا جس پر ہم اس زمانے میں کام کر رہے تھے۔
پاکستان کی ابتدائی سکیم، جسے کام یاب کرنے کے لیے اس وقت مسلم لیگ زور لگا رہی تھی، اس کا نقشہ یہ تھا کہ اس میں مسلم اکثریت کے علاقے تو ضرور شامل ہونے والے تھے، لیکن ان میں غیر مسلم اقلیت قریب قریب ۴۰ فیصدی تھی اور اس بھاری اقلیت کے ساتھ خود مسلمانوں کے فرنگیت زدہ گروہ اور مادی مفاد کے پرستار طبقوں سے بھی یہ عین متوقع تھا کہ وہ اِسلام کی راہ روکنے میں ایڑی چوٹی کا زور لگا دیں گے۔ اس لیے مشکل ہی سے اس وقت یہ امید کی جا سکتی تھی کہ تقسیم ملک واقع ہونے کی صورت میں اِسلامی تحریک کے نقطہ نظر سے ہندوستان اور پاکستان کے حالات ایک دوسرے سے کچھ زیادہ مختلف ہوں گے اور ہم پاکستان میں اس طریقِ کار سے آگے کوئی قدم بڑھا سکیں گے جو انگریزی دور کے متحدہ ہندوستان میں ہمارا تھا۔
لیکن جب تقسیم واقع ہوئی تو حالات میں پے درپے ایسے تغیرات رونما ہوئے جو پہلے کسی کے وہم وگمان میں بھی نہ تھے اور انھوں نے دیکھتے دیکھتے سارا نقشہ بدل کر رکھ دیا۔
صوبوں کی تقسیم اورتبادلہ آبادی
اولین تغیر یہ تھا کہ پنجاب اور بنگال اور آسام کی تقسیم عمل میں آئی جس کی وجہ سے پاکستان اپنی ابتدائی اسکیم کی بہ نسبت بہت بڑی مسلم اکثریت پر مشتمل ہو گیا۔
اس کے بعد عین تقسیم کے موقع پر اس سے بھی بڑا اور دورس تغیر یہ رونما ہوا کہ واقعۃً جبری تبادلہِ آبادی عمل میں آ گیا جس نے مغربی پاکستان کو ۹۸ فیصدی اور مشرقی پاکستان کو تقریباً ۸۰ فی صدی مسلم آبادی کا علاقہ بنا دیا۔
اس تغیر عظیم کا نتیجہ یہ ہوا کہ پاکستان کے نظامِ زندگی کی شکل کا تعیّن بالکل مسلمانوں کی رائے عام پر منحصر ہو گیا، درآں حالیکہ متحدہ ہندوستان میں وہ غیر مسلموں کی رائے پر منحصر تھا۔ اور اس فرق عظیم کے واقع ہو جانے کے بعد یہ ضروری ہو گیا کہ ہم اِسلامی نظامِ زندگی کے لیے اس غالب مسلم آبادی کے ملک میں کام کرنے کا ڈھنگ اس ڈھنگ سے مختلف اختیار کریں جو ہم کو غالب غیر مسلم آبادی کے ملک میں اس کام کے لیے اختیار کرنا پڑ رہا تھا۔ اگرچہ مسلمانوں کی اعتقادی اور اَخلاقی کم زوری کو نظر انداز کرکے محض ’’مسلمان‘‘ ہونے کے مفروضے پر ایک عمارت کھڑی کر دینا بڑی حماقت ہے، لیکن اس سے کچھ کم درجے کی حماقت یہ بھی نہیں ہے کہ اِسلام کے لیے ان کی عقیدت اور اس کے ساتھ ان کی جذباتی وابستگی اور اس کی طرف ان کے فطری میلان ورجحان کو نظر انداز کرکے آدمی ان کے درمیان اس طرح کام کرنے لگے جس طرح کسی منکرِ اِسلام یا مخالفِ اِسلام آبادی میں کیا جاتا ہے۔
کسی ملک میں ایک غالب مسلم آبادی کی موجودگی، اِسلامی نظام کے حق میں رائے عام تیار کرنے کے جو مواقع بہم پہنچاتی ہے، ان سے فائدہ نہ اٹھانا اورزمامِ کار کی تبدیلی کے لیے جدوجہد کے جو راستے اس میں کھل سکتے ہیں انھیں بند سمجھ لینا، کسی صاحبِ عقل آدمی کا کام نہیں ہو سکتا۔ کم از کم فائدہ جو اس چیز سے اٹھایا جا سکتا ہے وہ یہ ہے کہ جس دوران میں معاشرے کو ذہنی اور اَخلاقی حیثیت سے نظامِ حق اور امامت صالح کے لیے تیار کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہوں، عوامی جذبات کو ان کوششوں کی پشت پناہ بنائے رکھا جائے تاکہ قیادتِ فاسقہ انھیں روکنے اور برباد کرنے کے لیے کوئی طوفان نہ اٹھا سکے اور نظام باطل کی جڑیں جمنے نہ پائیں۔ لیکن اگر عقل سے کام لیا جائے تو اس کا یہ فائدہ بھی اٹھایا جا سکتا ہے کہ تعمیری مساعی اور عوامی تحریک، دونوں متوازی چلتی رہیں تاکہ عوامی تائید جتنی بڑھتی جائے اسی رفتار سے نظامِ باطل کو پیچھے ہٹانے اور نظامِ حق کو آگے بڑھانے کا تدریجی عمل جاری رکھا جا سکے اور بالآخر یہ دونوں قسم کی کوششیں ایک نتیجہ پر تمام ہوں۔
اس کی مثال بالکل ایسی ہے جیسے کسی مقام پر آپ ایک مسجد بنا رہے ہیں اور آپ کے پیش نظر یہ ہے کہ اس مسجد ہی کو پورے علاقے کا مرکز بنانا ہے لیکن ایک سیلاب کا خطرہ ہر وقت آپ کے سر پر منڈلا رہا ہے جو اس تعمیر کوکسی وقت بھی آ کر روک سکتا ہے بلکہ تباہ وبرباد بھی کر سکتا ہے۔ اب اگر آپ کے گردوپیش کوئی مسلم آبادی ایسی موجود ہے جوچاہے نماز نہ پڑھتی ہو، مگر مسجد کا احترام کرتی ہو اور تعمیرمسجد کے مقصد سے ہم دردی رکھتی ہو تو آپ اس سے اتنا فائدہ تواٹھا ہی سکتے ہیں کہ تھوڑا سا جذباتی اپیل کرکے اسے سیلاب کے آگے بند باندھنے پر آمادہ کر لیں۔ لیکن یہی اپیل اگر حکمت ودانش کے ساتھ ہو تو کوئی وجہ نہیں کہ تعمیر مسجد کی حفاظت کا جذبہ پیدا کرتے کرتے آپ اسی آبادی میں سے وہ لوگ بھی زیادہ سے زیادہ تعداد میں نہ نکالتے جائیں جو نماز بھی پڑھنے لگیں اور اس تعمیر کے کام میں معمار اور کاریگر بننے کے لیے بھی تیار ہو جائیں۔ اگر آپ کے پیش نظر یہی مقصد ہے کہ اس مسجد کو آخر کار پورے علاقے کا مرکز بنانا ہے تو جس روز تعمیر مسجد مکمل ہو گی اسی روز وہ علاقے کا مرکز بھی بنی ہوئی ہو گی۔ اس کے بجائے یہ تجویز غالباً معقول نہ ہو گی کہ پہلے آپ چند سال تعمیر مسجد میں صرف کریں۔ پھر اسے علاقے کا مرکز بنانے کے لیے نکلیں۔ ہو سکتا ہے کہ اس دوران میں سیلاب آپ کو تعمیر کرنے ہی نہ دے اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اس درمیانی مدّت میں گردوپیش کی آبادی کسی گرجا یا کسی مندر کی عقیدت میں گرفتار ہو چکی ہو۔
سابق لادینی دستور کا عارضی قرار پانا
دوسرا بنیادی تغیر یہ تھا کہ برطانوی پارلیمنٹ کے جس قانون (Indian Independence Act) نے ہندوستان وپاکستان کی طرف آزادی کے اختیارات منتقل کئے تھے اس کی رو سے انگریزی دور حکومت کا لادینی دستور آپ سے آپ عارضی قرار پا گیا اور ملک کے لیے ایک نئے دستور کا سوال پیدا ہو گیا۔
اس صورتِ حال کا تقاضا یہ تھا کہ ملک کا نیا دستور وطنی قومیت کا لادینی جمہوریت کے اصولوں پر نہ بننے دیا جائے اور اِسلامی اصولوں پر اس کی تاسیس کرانے کے لیے بلاتاخیر کام شروع کر دیا جائے۔ ایسا کرنا نہ صرف اس غرض کے لیے ضروری تھا کہ وہ شرعی موانع دور ہو جائیں جو انقلاب قیادت کے لیے آئینی طریقہ اختیار کرنے کی راہ میں ایک لادینی جمہوریت کا دستور حائل کر دیتا ہے۔ بلکہ یہ اس لیے اور بھی زیادہ ضروری تھا کہ غیر مسلموں کی لادینی قومی ریاست کی بہ نسبت مسلمانوں کی قومی لادینی ریاست اِسلام کی راہ میں جتنی بڑی اور خطرناک رکاوٹ بنتی ہے اس سے ہم خوب واقف تھے { FR 7705 } ۔ علاوہ بریں یہ کوئی عقل مندی نہ ہو سکتی تھی کہ جس وقت ایک نوخیز مملکت کے لیے نئے دستور کی تدوین اور حقیقتاً مستقبل کے نظامِ زندگی کی تلاش کا سوال درپیش ہو، اس وقت تو ہم لادینی دستور کی مخالفت اور کافرانہ نظام کی مزاحمت اور اِسلامی اصولوں پر نئی عمارت کی تعمیر کے لیے کوئی مؤثر جدوجہد نہ کریں اور جب لادینی نظام از سرنو یہاں خوب جڑ پکڑ لے اور صاف راستہ پا کر پوری تیزی کے ساتھ معاشرے کو فکر وعمل کے لحاظ سے کفروفسق کے سانچوں میں ڈھالنا شروع کر دے تو ہم اس کو بدلنے کی دعوت لے کر اٹھیں۔
اس معاملے کا ایک اور پہلو بھی ہے۔ اگر فی الواقع ہمارے پیشِ نظر یہی مقصد ہے کہ یہاں ایک اِسلامی ریاست قائم ہو، تو اس کے لیے اولین ضرورت بہرحال یہ ہو گی کہ ہم یہاں کے زیادہ سے زیادہ باشندوں کو اِسلامی ریاست کے نظریے سے واقف اور اس کا قائل اور اس کا طالب بنانے کی کوشش کریں۔ اس کی ایک شکل تو یہ ہے کہ ہماری ایک اکیڈمی ہو جو اِسلامی ریاست کے موضوع اور اس سے متعلق مسائل پر بہترین علمی کتابیں شائع کرے اور ہم سالہا سال کی کوشش سے علومِ سیاست واجتماع میں اپنے نظریّے کا سکہ جما دیں۔ دوسری شکل یہ ہے کہ جس وقت ہمارے ملک میں یہ سوال فیصلہ طلب ہو کہ ریاست کا نیا نظام کن بنیادوں پر تعمیر کیا جائے، اس وقت ہم میدان میں آ کر عوام اور خواص سب کے سامنے اپنا نظریہ پیش کریں اور ہر ایک کو اس کی استعداد کے مطابق اِسلامی ریاست کا محض تصوّر ہی نہ دیں بلکہ اسے اس کا قائل اور حامی اور طالب بنانے کی بھی کوشش کریں۔ میں سمجھتا ہوں کہ ان دونوں صورتوں کے درمیان جو شخص بھی موازنہ کرکے دیکھے گا اس کے لیے یہ ماننے کے سوا چارا نہ ہو گاکہ ہمارے مقصد کے لیے دوسرا طریقہ زیادہ کارگر ہے۔ آپ ہزار کتابیں لکھ کر بھی اتنا کام نہیں کر سکتے جتنا اس صورت میں کر سکتے ہیں کہ جس وقت کوئی اہم مسئلہ لوگوں کے سامنے درپیش ہو اس وقت میدان میں آ کر اس مسئلے میں انھیں صحیح راہ نُمائی دیں۔ ایسے مواقع پر چند جملے بڑی بڑی کتابوں سے زیادہ کام کرتے ہیں اور ذہنوں میں اچھی طرح جذب ہو جاتے ہیں۔
قومی زندگی کا خلا
تیسرا بڑا تغیر یہ تھا کہ مسلم قومی پرستی کی وہ تحریک جو تقسیم سے پہلے مسلمانوں کے ذہن پر غلبہ پائے ہوئے تھی، اپنی منزلِ مقصود، پاکستان کو پہنچ کر یک لخت ٹھنڈی پڑ گئی اور وہ کوئی ایسا ایجابی نظام اور پروگرام نہ لا سکی جو مسلم عوام کو تقسیم کے بعد بھی اس کے ساتھ وابستہ رکھتا۔ مزید برآں اس تحریک کی علمبردار جماعت نے تقسیم کے وقت اور اس کے بعد جس کردار کا مظاہرہ کیا اس نے چند مہینوں کے اندر اس کے وقار اور اَخلاقی اثر کے فلک بوس قصر کو زمین بوس کر دیا۔
اس وقت کوئی دوسری منظم تحریک ایسی موجود نہ تھی جو اس خالی میدان پر قبضہ کر سکتی۔ اس خلا نے یہ موقع خود بخود پیدا کر دیا کہ ایک ایسی اصولی تحریک آگے بڑھ کر عوام کے ذہن پر اپنا اثر قائم کرنے کی کوشش کرے جس کی تائید کے لیے مسلمانوں کے مذہبی عقائد، دینی جذبات، صدیوں کی روایات اور سلف سے خلف تک کا پیدا کیا ہوا بے شمار لٹریچر موجود تھا اور جو خود بھی تقسیم سے پہلے خیالات وسیع پیمانے پر پھیلا چکی تھی۔ ہم سخت نادان ہوتے اگر اس موقع کو ہاتھ سے کھو دیتے اور اپنے آپ کو قبل تقسیم ہی کی پوزیشن میں سمجھے بیٹھے رہتے۔
اس وقت عوام کے جذبات ہر رخ پر مڑ سکتے تھے اور موڑے جا سکتے تھے۔ اِسلامی نظام کے مطالبے کی طرف ان کے مڑنے کی سب سے زیادہ امکانات تھے، کیوں کہ وہ مذہباً اِسلام کے معتقد تھے اور انھوں نے نیک نیتی کے ساتھ پاکستان کے قیام کی جدوجہد اسی لیے کی تھی کہ یہاں اِسلامی حکومت قائم ہو۔ لیکن اگر اس رخ پر انھیں موڑنے کی کوشش نہ کی جاتی تو وہ انار کی کی طرف بھی مڑ سکتے تھے۔ پاکستان کے نئے حکمرانوں کی زیادتیوں نے اس کے لیے اچھے خاصے امکانات پیدا کر دئیے تھے۔ وہ اشتراکیت کی طرف بھی مڑ سکتے تھے۔ مہاجرین کی حالتِ زار، عام معاشی بدحالی، نظم ونسق کی خرابی اور ظالم طبقوں کی لوٹ کھسوٹ نے وہ خشک گھاس فراہم کر دی تھی جس میں یہ آگ خوب پھیل سکتی تھی اور ہماری سرحد سے متصل روس کی موجودگی یہاں وہی حالات پیدا کر سکتی تھی جو روس کے دوسرے طفیلی ملکوں میں آج آپ دیکھ رہے ہیں۔ وہ قوم پرستی کی طرف بھی مڑ سکتے تھے۔ ہندئوں اور سکھوں کے تازہ مظالم کی یاد نے، ہندوستان اور پاکستان کی کش مکش نے اور سب سے بڑھ کر کشمیر کے معاملے نے اس کے لیے میدان تیار کر رکھا تھا اور اگر اس چیز کوجڑ پکڑنے کا موقع مل جاتا تو یہاں ہر وہ شخص قومی غدار اورعوام کا دشمن (Peoples Enemy) قرار پا سکتا تھا جو لادینی قومی حکومت کی مرضی کے خلاف دینی نظام کے لیے آواز اٹھاتا۔ خود ہمارے مطالبہ نظامِ اِسلامی کو شکست دینے کے لیے مسئلہ کشمیر کے متعلق عوام کے جذباتی اشتعال کا رخ ہماری طرف موڑنے کی جو کوشش ۱۹۴۸ء میں کی گئی تھی وہ اتنی پرانی تاریخ کی بات نہیں ہے کہ آپ اسے بھول گئے ہوں۔ اس سے آپ یہ سبق لے سکتے ہیں کہ اگر عوام کے جذبات کو اِسلامی تحریک کی پشت پناہی کے لیے تیار کرنے میں ہم سے کچھ بھی تساہل ہو جاتا تو کچھ مدت کے بعد یہ سرزمین اس تحریک کے لیے کیسی شوریلی اور خارزار بن جانے والی تھی۔
اِسلامی ریاست کے ناقص تصوّرکا ظہور
اس وقت عوام کے ذہن میں یہ بات تازہ تھی کہ سات آٹھ سال سے جس پاکستان کے لیے ہم لڑتے رہے ہیں اور جس کی تعمیر لاکھوں مسلمانوں کے خون اور ہزاروں عورتوں کی عصمت اور اربوں روپے کے اموال واملاک کی قربانی پر ہوئی ہے، وہ اِسلام کے نام پر بنا ہے اور اسے اِسلامی ریاست بنانے ہی کا وعدہ ہم سے کیا گیا تھا۔ لیکن انھیں ٹھیک معلوم نہ تھا کہ اِسلامی ریاست چیز کیا ہے اور کیا اس کی خصوصیات ہوتی ہیں۔ عوام تو درکنار اچھے خاصے نامور علما تک اِسلامی ریاست کا بس یہ تصوّر رکھتے تھے کہ حکومت چاہے جیسی اور جس اصول پر بھی ہو، اس میں ایک شیخ الاِسلامی کا منصب قائم ہو جائے اور نکاح وطلاق کے مقدمات کا فیصلہ کرنے کے لیے قضائے شرعی کا انتظام کر دیا جائے۔ ہمارے مذہبی طبقوں کی طرف سے جو مطالبات اس وقت پیش ہونے شروع ہو گئے تھے وہ محض شراب کی بندش، قحبہ خانوں کے سدِّ باب، بیت المال کے قیام اور ایسے ہی چند جزئیات پر مشتمل تھے۔ اس اہم تاریخی موقع پر اِسلامی حکومت کے مطالبے کا اٹھنا تو ایک فطری امر تھا، حالات کا قدرتی تقاضا تھا اور کسی نہ کسی طرف سے اس کو اٹھنا ہی تھا، بلکہ وہ اٹھنا شروع ہو بھی چکا تھا۔ لیکن اس وقت اگر مسلمانوں کا عام ذہن اِسلامی حکومت کا مفہوم اور تصوّر وہی کچھ سمجھ لیتا جو مذہب کے نمائندوں کی طرف سے پیش کیا جا رہا تھا اور اسی پر مسلمانوں کے سارے مطالبات مرکوز ہو جاتے تو بعد میں کسی وقت اس کے بنیادی نظریے اور جامع اور ہمہ گیر تصوّر کو لوگوں کے ذہن نشین کرنا سخت مشکل ہو جاتا۔ اس نفسیاتی موقع کو ہاتھ سے کھو دینے کے بعد ہم مدتِ دراز تک اس قابل نہ ہو سکتے تھے کہ پاکستان کی آبادی کے عوام اور خواص کو وسیع پیمانے پر اِسلامی حکومت کے صحیح معنی سے آشنا کر سکتے اور اس کے محدود تصوّرات کو ان کے ذہن سے نکال کر اصل چیز کی طلب ان کے اندر پیدا کر سکتے۔
مسلم قوم کے افراد ہونے کی حیثیت سے ہمارا فرض
اس وقت ایک مسلمان قوم نئی نئی آزاد ہوئی تھی اور اسے یہ اختیارملا تھا کہ اپنے لیے ایک نظامِ زندگی کا خود انتخاب کرے اور اپنی حیاتِ قومی کے لیے مختلف ممکن راستوں میں سے کسی ایک راستے کو چن لے۔ تقسیم سے پہلے کافروں کی غلامی کے دور میں اور کافر آبادی کی اکثریت کے دبائو میں رہتے ہوئے اگر وہ انفرادی ایمان کے ساتھ اجتماعی کفر کی راہ پر چل رہی تھی تواس کے لیے کچھ نہ کچھ عذر کا موقع تھا۔ لیکن تقسیم کے بعد پوری طرح اپنی راہ کے انتخاب میں مختار ہو کر بھی اگر وہ اس راہ کو انتخاب کرتی یا اس پر راضی رہتی تو یہ اضطراری نہیں بلکہ اختیاری کفر ہوتا جس کے بعد انفرادی ایمان کی بھی خیر نہ تھی۔ یہ خدا کی طرف سے بڑی سخت اور نازک آزمائش کی گھڑی تھی۔ ہم اجنبی بھی ہوتے تو ہمارے ایمان کا یہ تقاضا تھا کہ آگے بڑھ کر اس مسلمان قوم کو اس آزمائش سے بخیریت نکالنے کی کوشش کریں لیکن ہم تو اجنبی بھی نہ تھے۔ اسی قوم کے فرد اور اس کی بھلائی اور برائی میں اس کے شریک حال تھے۔ ہم اگر اس فرض کو ادا کرنے کے لیے نہ اٹھتے تو کونسا دوسرا عمل ہمیں اس قصور پر خدا کی پکڑ سے بچانے والا ہو سکتا تھا؟ ہمارے مطالبہ دستور کا عوام اورخواص کی بھاری اکثریت نے جس طرح ساتھ دیا اور اِسلامی حکومت کے محدود تصوّر کو چھوڑ کر اس کے بنیادی نظریے اور جامع تصوّرکو جتنے جلدی اور جس قدر وسیع پیمانے پر لوگوں نے قبول کیا، یہ اس بات کا صریح ثبوت ہے کہ یہ قوم سیرت واَخلاق میں چاہے کتنی ہی کوتاہ ہو، اِسلام پر اعتقاد رکھنے میں منافق نہیں ہے۔ اور یہ اس بات کا ثبوت بھی ہے کہ یہ قوم اس آزمائش کے موقع پر خود ایک صحیح راہ نُمائی کی طالب تھی۔ اس کے بعد تو اس امر میں کسی شک کی گنجائش ہی نہیں رہتی کہ اس وقت ہمارا سب سے بڑا فرض عوام کو یہی راہ نُمائی دینا تھا۔ اس میں ہم کو تاہی برتتے تو سخت گنہگار ہوتے۔
نئی فاسق قیادت کا خطرہ
اس وقت پرانے ذی اقتدار گروہ (انگریز) کی جمی ہوئی طاقت اکھڑ چکی تھی اور خود مسلمانوں میں ایک نیاذی اقتدار طبقہ ابھر رہا تھا جس کی فرمانروائی ابھی جمی نہ تھی۔ یہ طبقہ اپنے رجحانات کے راستے پر ساری قوم اورمملکت کو لے کر جانا چاہتا تھا اور اس غرض کے لیے اس نے پاکستان بنتے ہی ایک طرف اِسلام کے بارے میں سخت انتشار خیال پیدا کر دینے کی مہم شروع کر دی تھی اور دوسری طرف تمام اختیارات اور طاقتوں اور وسائل سے کام لے کر قوم کو اس اَخلاقی بگاڑ کی راہ پر دھکیلنا شروع کر دیا تھا جس میں غرق ہو جانے کے بعد اس کے اندر اِسلام کی طرف پلٹنے کی مشکل ہی سے کوئی سکت باقی رہ سکتی تھی۔ اس حالت کا تقاضا یہ تھا کہ ابتدائی مرحلے ہی میں اس طبقے کی مزاحمت کے لیے ایک عوامی تحریک اٹھ کھڑی ہو جو فکری انتشار وپراگندگی کی اس مہم کا مداوا بھی کرے اور اس کے ساتھ اس فاسق وفاجر قیادت کا نفوذ واثر بھی کسی مضبوط بنیاد پر نہ جمنے دے۔ آج آپ پاکستان میں ان دونوں بیماریوں کو جس حال میں پا رہے ہیں وہ ان کوششوں کے باوجود ہے جو پچھلے دس سال میں ان کے مقابلے کے لیے کی گئی ہیں۔ اندازہ کیجئے کہ اگر یہ کوششیں نہ ہوتیں اور قبل تقسیم ہی کا طریقِ کار ٹھنڈا ٹھنڈا چلتا رہتا تو ذہنی پراگندگی کہاں تک پہنچتی اور فسق کیسی کچھ محفوظ اور تسلیم شدہ پوزیشن حاصل کر چکا ہوتا۔
برعظیم ہند میں اِسلام کے مستقبل کا مسئلہ
سب سے بڑی بات یہ ہے کہ اس وقت برِّعظیم ہند میں اِسلام کی ہزار سالہ تاریخ ایک فیصلہ کن لمحے سے دوچار تھی۔ صدیوں تک ہمارے اسلاف کرام نے اس سرزمین میں خدا کا کلمہ پھیلانے کی جو کوششیں کی تھیں ان کا سارا ماحصل اس نتیجے پر ختم ہوتا نظر آ رہا تھا کہ ہندوستان کے بہت بڑے حصے میں، جسے ہم خود پاکستان کی قیمت کے طور پر دے چکے تھے، اِسلام دوسروں کے مٹائے مٹے اور دو چھوٹے چھوٹے حصوں میں جنھیں ہم نے بھاری قیمت پرحاصل کیا تھا، وہ ہمارے اپنے فاسقین وفجار کے ہاتھوںمٹ جائے۔ اندلس کے بعد یہ دوسرا اور اس سے عظیم ترالمیہ تھا جو ۱۹۴۷ء میں ہمارے سامنے شروع ہو رہا تھا اور اس وقت کا سب سے بڑا مطالبہ یہ تھا کہ اس کو روکنے کے لیے جو کچھ بھی کیا جا سکتا ہے کیا جائے۔ میرے تاثرات اس وقت جو کچھ تھے انھیں میں نے اپنی ان تقریروں میں بار بار بیان کیا تھا جو مطالبہ نظامِ اِسلامی کے موضوع پر میں نے ۴۸ء کے آغاز میں مغربی پاکستان کے تمام مرکزی مقامات پر کی تھیں۔
’’ہمارے اسلاف نے ہندوستان میں جو اِسلام صدیوں کی لگاتار کوششوں سے پھیلایا تھا وہ اب آٹھ سو سال کے بعد پاکستان کے دو خطوں میں سکڑ کر رہ گیا ہے۔ اب اگر ہم نے ایک قدم بھی غلط سمت میں اٹھا دیا تو ہندوستان میں اِسلام کی ایک ہزار سال کی تاریخ پر پوری طرح پانی پھر جائے گا۔ اس برعظیم کے تین چوتھائی حصے سے تو اِسلام دوسروں کے مٹائے مٹ رہا ہے۔ یہاں یہ ہمارے اپنے مٹائے مٹے گا، اس لیے اب ہمیں اگلا قدم خوب سوچ سمجھ کر اٹھانا چاہیے۔ اب صرف ایک ٹھوکر ہی ہمارے اوراِسلام کے مٹنے میں حائل ہے۔ اگر ہم نے اس موقع پر ٹھوکر کھائی تو ہمارے اسلاف کے دینی کارنامے کی ساری تاریخ حرف غلط کی طرح مٹ جائے گی۔‘‘{ FR 7706 }
اور یہ ٹھوکر کھا جانے کا اندیشہ، جسے میں نے اس وقت بیان کیا تھا محض ایک خیالی اندیشہ نہ تھا، بلکہ وہ آثار علانیہ نظر آ رہے تھے جن کی بنا پر حقیقت میں یہ صحیح اور قوی اندیشہ تھا کہ اگر مسلمانوں کو اس سے بچانے کی کوشش نہ کی گئی تو یہ قوم یہ آخری ٹھوکر بھی کھا جائے گی۔ میں نے ’’جماعت اِسلامی‘‘ اس کا مقصد تاریخ اور لائحہ عمل‘‘ میں تفصیل کے ساتھ ان آثار کی نشان دہی کی ہے اور اس بحث کو ان فقروں پر ختم کیا ہے جن سے اس وقت صورت حال آپ کے سامنے آ سکتی ہے۔
’’جس روز تقسیم ملک کا اعلان ہوا، اسی وقت ہم نے سمجھ لیا کہ جیسی بُری یا بھلی تعمیری سعی بھی آج تک ہم کر سکتے ہیں، اب اسی پر اکتفا کرنا ہو گا اور اس قوم کو سنبھالنے کی فورًا کوشش کرنی پڑے گی جو کسی واضح نصب العین کے بغیر اور کسی اَخلاقی طاقت اور اجتماعی اصلاح کے بغیر یک لخت بااختیار ہو گئی ہے۔ اس فور ی اقدام کی ضرورت کا احساس ان حالات کو دیکھ کر اور بھی زیادہ شدید ہو گیا جو عین تقسیم کے وقت اس کے معاً بعد پیش آئے۔ ہندوستان کے بعض حصوں سے مسلمانوں کا خروج جس شان سے ہوا، پاکستان سے غیر مسلموں کی نکاسی جس طرح عمل میں آئی، غیر مسلموں کی چھوڑی ہوئی دولت کے ساتھ جو معاملہ کیا گیا اور مسلمان مہاجرین پاکستان میں جن حالات سے دوچار ہوئے، یہ سب کچھ ایک ایسا آئینہ تھا جس میں پوری قوم کی، اس کے عوام اور خواص کی، اس کے لیڈروں اور پیشوائوں کی، اس کے حکام اورعمال کی، اس کے اہل دین اور اہل دنیا کی، غرض سب ہی کی اَخلاقی اور اجتماعی تصویر بالکل برہنہ نظر آ گئی۔ پھر اختیارات ہاتھ میں لیتے ہی ہماری قوم کے قائدین نے، جواب قائد ہی نہیں، حاکم بھی تھے، ملک کے آیندہ نظام کے متعلق جیسی الجھی الجھی اور متضاد باتیں کرنی شروع کیں اور قوم جس طرح ابتدائی چند مہینوں میں ٹھنڈے دل سے انھیں سنتی رہی، اسے دیکھ کر صاف معلوم ہو گیا کہ اس وقت ایک بے شعور قوم کی باگیں ایک بے فکر گروہ کے ہاتھ میں ہیں، یہ وقت خاموش بیٹھ کر تعمیری کام میں لگے رہنے کا نہیں ہے، اب اگر ایک لمحہ بھی ضائع کیا گیا تو بعید نہیں کہ جو لوگ منزل کا تعین کیے بغیر بے سوچے سمجھے چل پڑے تھے وہ یکایک کسی غلط نظریے کو اس مملکت کی بنیاد بنا بیٹھیں اور پھر اِس فیصلے کو بدلوانا موجودہ حالت کی بہ نسبت ہزار گنی زیادہ قربانیوں کے بغیر ممکن نہ رہے‘‘ (صفحہ ۶۱‘۶۲)
تقسیم کے وقت جماعتِ اِسلامی کی پوزیشن
یہ تھے وہ حالات‘ اور ان کے تقاضے اور موافق ومخالف امکانات‘ جن سے ہمیں تقسیم کے بعد سابقہ پیش آیا۔ جماعتِ اِسلامی کو اس وقت کام کرتے ہوئے چھ سال ہو چکے تھے۔ ہمارے سامنے کام کا جو نقشہ تھا اس کے لحاظ سے ہم کسی عوامی تحریک کے آغاز سے پہلے یہ چاہتے تھے کہ ہمارے پاس ایسے کارکنوں کا ایک گروہ موجود ہو جو نظم وضبط کے اعتبار سے خوب پختہ اور سیرت واَخلاق کے اعتبار سے پوری طرح قابلِ اعتماد ہو، ذہنی صلاحیتوں کے اعتبار سے ہر میدان میں مخالف نظریات وافکار کو شکست دینے اور ایک نیا نظام تعمیر کرنے کے لائق ہو اور ان میں قیادت کی صلاحیتیں بھی اس حد تک پائی جاتی ہوں کہ ان میں کا ایک ایک آدمی ایک ایک علاقے کا لیڈر بن سکے اور عوام کو ایک سوچے سمجھے منصوبے کے مطابق باقاعدگی کے ساتھ ابھار سکے اور منظم طریقے سے ساتھ لے کر چل سکے۔ ان اعتبارات سے ہم ابھی اپنے اندر بہت کچھ کمی محسوس کرتے تھے اوراپنی جماعت کو تیار کرنے کے لیے مزید وقت کے طالب تھے۔ لیکن ہمارے سامنے اس وقت اصل سوال یہ نہیں تھا کہ ہم اس کمی کو پورا کریں یا نہ کریں، بلکہ اصل سوال یہ تھا کہ آیا ہم جماعتی حیثیت سے اس وقت حالات کے اس چیلنج کا جواب دینے کے قابل ہیں یا نہیں؟ دوسرے الفاظ میں اس وقت ہمارے سامنے معاملے کی نوعیت یہ نہ تھی کہ کام کے جو مواقع اور راہ کی رکاوٹیں دور کرنے کے جو امکانات اور مخالف حالات کی وجہ سے جو خطرات ہمارے لیے آج پیدا ہوئے ہیں وہ سب اس انتظار میں ٹھیرنے کے لیے تیار ہیں کہ ہم اپنی تیاریوں کی تکمیل کر کے میدان میں آئیں، بلکہ وقت یہ صورت حال لے کر ہمارے سامنے آیا تھا کہ ہر موقع ہاتھ سے جانے کے لیے اور ہر امکان ختم ہونے کے لیے اور ہر خطرہ واقع ہو جانے کے لیے پر تولے کھڑا ہے۔ لہٰذا اس وقت ہمیں فورًا اور بروقت یہ فیصلہ کرنا تھا کہ آیا ہم فی الحقیقت اس درجہ کم زور اور ناقابل کار ہیں کہ پیش آمدہ مواقع اور امکانات سے کوئی فائدہ نہیں اٹھا سکتے اور ان خطرات کو روکنے کے لیے بھی کچھ نہیں کر سکتے، جو علانیہ آتے نظر آ رہے ہیں اور اگر حقیقتہً ہماری طاقت ایسی گئی گزری نہیں ہے بلکہ سوال صرف مزید تکمیل کی سعی کا ہے تو آیا ہمارے مقصد کے لیے یہ زیادہ مفید ہے کہ ہم اس تکمیل کی سعی میں لگے رہیں اور تمام مواقع کھودیں، سارے امکانات ضائع کر دیں، ہر ممکن خطرے کو نازل ہو جانے دیں؟ یا یہ زیادہ بہتر ہے کہ جتنی اور جیسی کچھ طاقت بھی اللّٰہ نے ہمیں بخشی ہے اسے لے کر کام کرنے کے لیے اٹھ کھڑے ہوں اور تکمیل کی مساعی جہاں تک بھی ممکن ہو اس کے ساتھ ساتھ کرتے رہیں۔
پہلے سوال کا جواب اس وقت ہمارے نزدیک قطعی نفی میں تھا اور آج دس برس کے تجربات نے ثابت کر دیا ہے کہ اسے نفی میں ہی ہونا چاہیے تھا۔ واقعہ یہ ہے کہ جماعتِ اِسلامی اپنی طاقت اور اپنے ذرائع کے اعتبار سے ہرگز ایسی ناکارہ نہ تھی کہ اس وقت کے مواقع وامکانات سے فائدہ اٹھانے اور خطرات کے مقابلے میں اٹھنے کے قابل ہی نہ ہوتی۔{ FR 7725 } ایسی رائے اپنے متعلق ہم قائم کرتے تو سخت نادان ہوتے اور اس نادانی کا جو خمیازہ ہمیں بھگتنا پڑتا اس کا پورا اندازہ ممکن ہے کہ آج آپ نہ کر سکیں، کیوں کہ خدا کے فضل سے یہ نادانی ہم سے سرزد نہیں ہوئی، لیکن اس وقت کے حالات کا جو تجزیہ ابھی ابھی میں آپ کے سامنے پیش کر چکا ہوں اس سے آپ اس غلطی کے نتائج کا کچھ نہ کچھ تصور ضرور کر سکتے ہیں۔
دوسرے سوال کے بارے میں اس وقت ہمارے درمیان دورائیں نہ تھیں بلکہ پوری جماعت اس پر متفق اور مطمئن تھی کہ ہمیں اپنی موجودہ طاقت اور ذرائع ہی کو لے کر ایک لمحہ ضائع کیے بغیر پیش قدمی کر دینی چاہیے ورنہ ہمارے مقصد کو اتنا بڑا نقصان پہنچ جائے گا کہ ہم مزید تیاری کی کسی کوشش سے اس کی تلافی نہ کر سکیں گے بلکہ شاید کچھ مدت کے بعد وہ گوشے بھی نہ پا سکیں گے جن میں یہ تیاری کا کام کیا جا سکے۔ علاوہ بریں جماعت کے نزدیک اس وقت خود اس تیاری کا راستہ بھی یہی تھا کہ ہم خدا کے بھروسے پر آگے بڑھیں اور میدان عمل میں اتر کر براہِ راست اپنے نصب العین کے لیے جدوجہد شروع کر دیں۔ ہو سکتا ہے کہ آج اس باب میں ہمارے درمیان دورائیں ہو جائیں اور کوئی شخص اٹھ کر بے تکلف یہ کَہ دے کہ ہمیں اس وقت مزید تیاری ہی میں لگا رہنا چاہیے تھا۔ لیکن یہ معاملہ اب محض ایک تاریخی حکم لگانے کا ہے، فیصلے کی گھڑی سامنے دیکھ کر رائے قائم کرنے کا نہیں ہے اور یہ بات اب کسی کے بس میں بھی نہیں ہے کہ ایسے تاریخی احکام لگانے والوں کی آنکھوں کے سامنے وہ نتائج لا کر رکھ دے جو ان کی اس رائے پر عمل کرنے کی صورت میں رونما ہوتے۔
طریق کار میں تغیر اور اس کی حقیقی نوعیت
اس طرح حالات کا جائزہ لینے اور اپنی طاقت اور ذرائع کا اندازہ کرنے کے بعد ہم نے اِسلامی نظام کے مطالبے سے اپنی جدوجہد کا آغاز کیا اور یوں ہماری تحریک نے ایک نئے دور میں قدم رکھا۔ اس دور میں ہم نے جو کچھ کیا، اس کی تفصیل اور تاریخ بیان کرنے کی حاجت نہیں ہے، کیوں کہ وہ ہم سب کے سامنے ہے۔ البتہ جس بات کے سمجھنے کی ضرورت ہے وہ یہ ہے کہ وہ کیا تغیر تھا جو اس دور میں ہم نے اپنے سابق طریقِ کار میں کیا اور اس کی حقیقی نوعیت کیا تھی اور نئے حالات میں اس خاص نوعیت کا تغیر کیوں مناسب ترین تھا۔
تقسیم سے پہلے جس طریقِ کار پر ہم کام کر رہے تھے اس کی عملی صورتوں سے قطع نظر، اصولاً وہ اس نقشے پر مبنی تھا: ایک ایسی تحریک اٹھائی جائے جو اپنے بنیادی نظریے، اپنے مزاج، اپنی قیادت اور اپنے کارکنوں کی سیرت کے اعتبار سے صحیح معنوں میں اِسلامی ہو۔ یہ تحریک ایک طرف معاشرے کی ذہنیت اور اس کی اَخلاقی روح کو اِسلام کے مطابق بدلنے کی کوشش کرے، دوسری طرف ایسے اصحابِ فکر تیار کرے جو نظامِ باطل کی نظری بنیادوں کو توڑنے اور نظام حق کی بنیاد پر نئی عمارت اٹھانے کی صلاحیت رکھتے ہوں اور تیسری طرف نظامِ باطل کے خلاف عملاً کش مکش برپا کرکے اسے پیچھے دھکیلنے اور خود آگے بڑھنے کی سعی کرتی چلی جائے، یہاں تک کہ ان تین راستوں سے ایک ساتھ پیش قدمی کرتے ہوئے وہ منزل آ پہنچے جب معاشرے کی بدلی ہوئی آب وہوا میں نظامِ باطل کا چلنا مشکل ہو جائے، نظامِ حق کے لیے جگہ چھوڑ دینے پر وہ مجبور ہو اور اس نئے نظام کو سنبھالنے کے لیے موزوں آدمی بھی تیار پائے جائیں ۔{ FR 7707 }
اس طریق کار کے مطابق ہم اس طرح کی ایک تحریک اٹھا دینے میں کام یاب ہو گئے تھے جو ہمارے مقصد کے لیے مطلوب تھی۔ معاشرے کی ذہنیت بدلنے کے لیے کوششوں کا آغاز بھی ہم نے کر دیا تھا۔ لیکن متحدہ ہندوستان میں صرف مسلم معاشرے کی تبدیلی فیصلہ کن چیز نہ تھی، بلکہ آخری نتائج کا انحصار اس پر تھا کہ غیر مسلم معاشرے پر اِسلامی اثرات ڈالنے میں ہم کہاں تک کام یاب ہوتے ہیں۔ اصحاب فکر کی تیاری کے لیے ہم نے دو راستوں سے کوشش شروع کر دی تھی۔ ایک یہ کہ تعلیم یافتہ لوگوں کے طرزِ فکر کو تبدیل کرکے ان کی ذہنی صلاحیتوں کو اِسلامی نقطہ نظر کے مطابق تنقید وتعمیر کی راہ پر ڈالا جائے۔ دوسرے یہ کہ جو لوگ رائج الوقت نظام کے تحت تعلیم پا رہے ہیں ان کے اندر اِسلامی فکر پیدا کر دی جائے۔ تیسرا راستہ جو اس مقصد کے لیے ہم اختیار کرنا چاہتے تھے وہ یہ تھا کہ خود اپنا ایک نظامِ تعلیم وتربیت قائم کریں، مگر اس میں ہم کام یاب نہ ہو سکے تھے۔ اب رہی نظامِ باطل سے عملاً کش مکش، تو جیسا کہ میں آپ کو بتا چکا ہوں، اس کے لیے کوئی موقع ہمیں اس وقت حاصل نہ تھا، اس لیے ہم مناسب موقع کے انتظار میں تھے اور اس کی تیاری میں لگے ہوئے تھے۔
تقسیم کے بعد اس اصولی طریق کار میں درحقیقت کوئی بنیادی تغیر نہیں کیا گیا۔ ہماری تحریک کی اساس وہی رہی جو پہلے تھی۔ معاشرے کے ذہنیت اور اس کے اَخلاقی روح کو بدلنا اسی طرح ہمارے پروگرام کا ایک لازمی جزو رہا جس طرح پہلے تھا۔ اصحابِ فکر کی تیاری کے لیے بھی ہم انھی دو راستوں سے کام کرتے رہے جن سے پہلے کام کر رہے تھے۔ اور نظامِ باطل کے خلاف کش مکش جس کا اب ہم نے آغاز کیا وہ بھی نئی چیز نہ تھی بلکہ پہلے سے ہمارے طریق کار میں شامل تھی۔ اب جس چیز کو تغیر کہا جا سکتا ہے وہ صرف یہ ہے کہ ہم نے حالات کی تبدیلی کے ساتھ اس طریق کار پر عمل درآمد کی شکل تبدیل کر دی۔ اس تبدیلی کی تھوڑی سی تشریح میں آپ کے سامنے کروں گا جس سے آپ اس کی صحیح نوعیت اچھی طرح سمجھ جائیں گے۔
پہلی تبدیلی ہم نے اپنے اپیل کے طریقے میں کی، کیوں کہ اب ہم ایک ایسے ملک میں کام کر رہے تھے جس کی غالب آبادی، قریب قریب ۹۰ فی صد مسلمانوں پر مشتمل تھی اور جس میں نظام زندگی کے بننے اور بگڑنے کا انحصار مسلمانوں ہی کی عام خواہش پر تھا۔ ظاہر ہے کہ یہاں اپیل کا بعینہ وہ طریقہ موزوں نہ ہو سکتا تھا جو غالب غیر مسلم آبادی کے ملک میں اختیار کیا جا رہا تھا۔
دوسری تبدیلی ہم نے اپنے کام کے ڈھنگ میں کی۔ پہلے ہم مواقع کے فقدان کی وجہ سے دعوت، توسیع نظام جماعت اور اصلاحِ معاشرہ کا کام صرف چند متعین طریقوں سے بہت محدود پیمانے پر کر رہے تھے۔ اب موقع بہم پہنچتے ہی ہم نے یہ تینوں کام وسیع پیمانے پر کرنے شروع کر دئیے اور مطالبہ نظامِ اِسلامی کی جدوجہد کو ان کا وسیلہ بنایا۔ اس جدوجہد نے ہمارے لیے یہ راستہ کھول دیا کہ لاکھوں آدمیوں تک اپنی دعوت پہنچائیں، ان میں سے ہزاروں کو اپنی تحریک کے ساتھ رکن یا متفق یا ہم درد ومتاثر کی حیثیت سے وابستہ کر لیں اور معاشرے میں اِسلامی نظام کی حمایت اور اس کی طلب کا عام جذبہ پیدا کرتے چلے جائیں، جس کا لازمی نتیجہ غیر اِسلامی قدروں کے مقابلے میں اِسلامی قدروں کا فروغ ہے۔ لیکن اس تبدیلی کے معنی یہ نہیں ہیں کہ پہلے طریقے کو ہم نے بالکل ترک کرکے صرف اس دوسرے طریقے ہی پر اعتمادکر لیا۔ اس توسیعی کوشش کے ساتھ ہم اپنے سابق طریقے کے مطابق استحکام کی سعی بھی کرتے رہے ہیں۔ اور اس کی اہمیت وضرورت ہماری نگاہ میں علیٰ حالہٖ قائم ہے۔ البتہ جن نئے حالات کا مقابلہ کرنے کے لیے ہم کو تقسیم کے بعد اٹھنا پڑا تھا ان سے عہدہ برآ ہونا اس مستحکم توسیع کے ذریعہ سے ممکن نہ تھا جو دھیمی رفتار سے محدود پیمانے پر ہی ہو سکتی ہے۔ اور یہ بات صحیح بھی نہ تھی کہ بڑے پیمانے پر توسیع کے جو مواقع ہمیں حاصل ہوئے تھے انھیں ہم چھوڑ دیتے اور بجائے خود اس توسیع کے جو فوائد ہیں انھیں نظر انداز کر دیتے۔
تیسری تبدیلی ہم نے اپنی پیش قدمی کی رفتار میں کی۔ پہلے جس اسکیم پر ہم کام کر رہے تھے اس میں نظامِ باطل کی کارفرما طاقتوں سے براہ راست کش مکش کا مرحلہ بہت دیر میں آنا تھا اور اس مرحلے میں بھی ہم کو آہستگی کے ساتھ بتدریج داخل ہونا تھا۔ خود ہماری جماعتی مشینری بھی اس سکیم کے لحاظ سے کش مکش کے تدریجی ارتقاء ہی کے لیے تیار ہوئی تھی۔ لیکن نئے حالات سے سابقہ پیش آتے ہی ہم نے دفعۃً جدوجہد کے مرحلے میں قدم رکھ دیا اور یہ جدوجہد بھی آہستگی کے ساتھ بتدریج بڑھنے والی نہ تھی، بلکہ یک لخت ملک گیر ہو جانے والی اور مختلف محاذوں پر پھیل جانے والی تھی۔ ہمارا اندازہ تھا اور الحمد للہ کہ ہم اپنے اس اندازے میں غلط ثابت نہ ہوئے کہ ہماری جماعتی مشینری اس اچانک تبدیلی کو سہار لے جائے گی۔ دراصل وقت کی نزاکت کو سامنے رکھ کر اپنے مقصد عظیم کی خاطر ہم نے یہ ایک بڑا خطرہ محض اللّٰہ تعالیٰ کے بھروسے پر مول لیا تھا۔ اس میں اس امر کا پورا امکان تھا کہ ہمارا اندازہ غلط ثابت ہو اور یہ چھوٹی سی مشین، جو ابھی پایہ تکمیل کو بھی نہ پہنچی تھی۔ اتنے بڑے کام کا بار پڑ جانے پر کسی وقت بھی ٹوٹ پھوٹ جائے۔ لیکن جس خدا کے بھروسے پر ہم نے یہ خطرہ مول لیا تھا اس نے ہماری مدد فرمائی اور ضائع ہونے کے بجائے محض اس کے فضل سے یہ اتنی ہی قوت اور وسعت پکڑتی چلی گئی جتنا اس پر کام کا بار بڑھتا چلا گیا۔
دستورِ اِسلامی کا مطالبہ، ایک شاہ ضرب
چوتھی اور بڑی اہم تبدیلی، جسے دراصل تبدیلی کے بجائے اجتہاد کہنا زیادہ صحیح ہے، ہم نے اپنی پیش قدمی کے نقشے میں کی۔ اس کو میں تبدیلی کے بجائے اجتہاد کہنا اس لیے صحیح سمجھتا ہوں کہ ہمارے پاس ایسی کوئی اسکیم پہلے سے بنی ہوئی نہ تھی اور ہو بھی نہیں سکتی تھی کہ نظامِ باطل کے خلاف ہماری کش مکش کا نقطہ آغاز کیا ہو گا، پھر اس سے کش مکش کرتے ہوئے ہم کس راستے سے، یا کن کن راستوں سے اقامت ِحق کی جدوجہد میں پیش قدمی کریں گے اور اس پیش قدمی کے دوران میں مزاحم طاقتوں کو پیچھے ہٹانے کے لیے ہمیں کیا کچھ کرنا ہو گا۔ یہ سب کچھ بہرحال حالات پر منحصر تھا۔ کوئی بھی اس کے لیے پیشگی مفصّل نقشہ نہ بنا سکتا تھا اور نہ تمام حالات میں ایسے کسی نقشے پر لگی بندھی جدوجہد کی جا سکتی تھی۔ اگر ہم قبل تقسیم کے حالات میں ہوتے تو نہیں کَہ سکتے تھے کہ ہمارا نقطہ آغاز کیا ہوتا اور نقشہ جنگ کیا بنتا۔ اگر ہم تقسیم کے بعد ان حالات میں ہوتے جو آج بھارت میں ہیں تو نہیں کہا جا سکتا کہ کش مکش کا مرحلہ دس سال بعد بھی آتا یا نہ آتا اور آتا تو وہ کیسے شروع ہوتی۔ پاکستان قائم ہونے پر جو صورت حال رونما ہوئی اس کو دیکھ کر ہی یہ فیصلہ کیا جا سکتا تھا کہ جس جماعت کا مقصد نظامِ کفر وفسق کی جگہ نظام دینِ حق اور امامت فاجرہ کی جگہ امامت صالحہ کا قیام ہو، اسے اپنے مقصد کے لیے ان حالات میں کیا قدم اٹھانا چاہیے۔ ہم نے وقت کے تقاضوں کو سمجھ کر ٹھیک موقع پر یہ رائے قائم کی کہ کش مکش کا آغاز کرنے کے لیے اِسلامی دستور کے مطالبے سے زیادہ موزوں کوئی دوسری چیز نہیں ہے۔ اس ایک چیز کو جدوجہد کا مدار بنا کر ہم اس قابل ہوگئے کہ اپنے نصب العین کی طرف پیش قدمی کا راستہ بھی نکالیں، اُن تمام مواقع سے فائدہ بھی اٹھائیں جو ہماری تحریک کے حق میں مختلف اسباب سے اُس وقت پیدا ہو گئے تھے اور ان تمام خطرات کا مقابلہ بھی کریں جونئے ماحول میں ہمارے مقصد کے خلاف ابھر سکتے تھے اور ابھرنے شروع ہوئے۔ اس کے سوا جس دوسری چیز کوبھی ہم نقطہ آغاز بناتے وہ اس طرح ضرب کا کام نہ دے سکتا تھا۔
مطالبہ دستور کے متعلق ایک عجیب غلط فہمی
اس مطالبہ ِدستورِ اِسلامی پر آج دس سال کے بعد ہمارے بعض پرانے رفقا یہ اعتراض لے کر اٹھے ہیں کہ ہم نے اس طرح فطری طریقِ انقلاب کو چھوڑ کر مصنوعی طریقے سے ایک اِسلامی ریاست بنانے کی کوشش شروع کر دی۔ برسوں اس کام کے خود علمبردار رہنے کے بعد وہ اس کو ایسے عجیب وغریب معنی پہنا رہے ہیں جو کبھی نہ ان کی زبان سے سنے گئے تھے، نہ کسی کو یہ توقع تھی کہ جماعت کے حلقوں میں وہ سنے جائیں گے۔ ان کی تعبیر کے مطابق ہماری اس جدوجہد کا منشا بس یہ تھا کہ دستور ساز اسمبلی ہمارے بتائے ہوئے چند اِسلامی اصولوں پر ملک کا ایک دستور بنا دے اور جب وہ ایسا کر دے گی تو وہ مطلوب چیز وجود میں آ جائے گی جسے ہم اِسلامی ریاست وحکومت کہتے ہیں، خواہ معاشرہ اسی جاہلیت میں مبتلا رہے جس میں وہ پہلے مبتلا تھا۔ اس غلط تعبیر کی بنیاد پر وہ کہتے ہیں کہ ہم نے اس موقع پر نظامِ حکومت کی اصلاح کے لیے جو قدم اٹھایا وہ بالکل غلط سمت میں تھا اور طریقِ انقلاب کے بھی خلاف تھا جو ہم خود تقسیم سے پہلے بیان کیا کرتے تھے۔ اس طریقِ انقلاب کے مطابق تو نظامِ حکومت کی صحیح اور حقیقی تبدیلی صرف وہی ہو سکتی تھی جو معاشرے کی ذہنی واَخلاقی تبدیلی کے نتیجہ میں رونما ہو۔ لیکن اب ہم معاشرے کی تبدیلی کے بغیر ہی نظامِ حکومت محض ایک دستور ساز اسمبلی کے ذریعہ سے تبدیل کرانے پر آمادہ ہو گئے، حالانکہ یہ اسمبلی معاشرے کے بگاڑ کی نمائندہ تھی اور ان بگڑے ہوئے لوگوں کے ہاتھوں کسی اصلاح کا امکان نہ تھا، نہ اس امر کا کوئی امکان تھا کہ اس جمہوری نظام میں فاسد معاشرے سے صالح لوگ منتخب ہو کر آئیں اور اصلاح کا کوئی کام کر سکیں۔
یہ بعینہٖ وہی اعتراض ہے جس کا ہمیں مطالبہ نظامِ اِسلامی کے آغاز میں لادینی ریاست کے حامیوں کی طرف سے سابقہ پیش آیا تھا۔ ۱۹۴۸ء کے اوائل میں جب پہلی مرتبہ یہ آواز اٹھائی گئی کہ پاکستان کو ایک اِسلامی ریاست ہونا چاہیے، تو ان سب لوگوں نے جو اسے ایک لادینی ریاست دیکھنا اور بنانا چاہتے تھے، طرح طرح کے بہانوں اور اعتراضات سے اس آواز کو دبانے کی کوشش کی۔ مثلاً انھوں نے کہا کہ اگر یہاں اِسلامی قانون جاری ہو گا تو لاکھوں آدمیوں کے ہاتھ کٹ جائیں گے، اگر یہاں ہم اپنی مذہبی حکومت قائم کریں گے تو ہندوستان میں ہندو بھی اپنی مذہبی حکومت قائم کر دیں گے، اگر یہاں ہم نے ایک مذہبی حکومت قائم کی تو ہم دنیا بھر میں نکوبن جائیں گے۔ لیکن سب سے زیادہ زور دار بہانہ جو لوگ بنا کر لائے تھے، وہ یہ تھا کہ، پہلے معاشرہ تو اِسلامی ہو، پھر حکومت بھی آپ سے آپ اِسلامی ہو جائے گی، اس بگڑے ہوئے معاشرے میں تم اِسلامی حکومت کہاں قائم کرنے چلے ہو، اس موقع پر میں آپ کو وہ مکالمہ یاد دلائوں گا جو مئی ۴۸ء میں خود مجھ سے ریڈیو پر کیا گیا۔ اس میں لادینی نظریے کا استدلال یہ تھا۔
’’ہر ملک کا سیاسی نظام اس کے باشندوں کے رسم ورواج، اَخلاق، عادات، خصائل اور اعتقادات وتوہمات کا پرتو ہوتا ہے۔ ریاستی نظام بجائے خود کسی فلسفے یا مذہب کا حامل نہیں ہو سکتا۔ اگر اسے ایسا بنانے کی کوشش کی جائے تو وہ ایک مصنوعی اور عارضی کوشش ہو گی… اگر ہم اِسلامی ریاست کی تعمیر چاہتے ہیں تو ہمیں چاہیے کہ پاکستان کے باشندوں میں صحیح اِسلامی اسپرٹ پیدا کریں اور انھیں دین کی اصلی اقدار سے روشناس کرائیں۔ جب یہ اقدار مضبوط ہو جائیں گی اور ہمارے قومی کیرکٹر میں اِسلامی تصورات پوری طرح سرایت کرجائیں گے، اس وقت ہمارا سیاسی نظام خود بخود اِسلامی رنگ اختیار کرے گا۔ ہم اس وقت تک اِسلامی ریاست کی داغ بیل نہیں ڈال سکتے جب تک ہماری روحانی، شخصی اور سماجی زندگی میں اِسلامی روایات پوری تابندگی سے جلوہ گرنہ ہوں۔ میری نظر میں وہ وقت ابھی بہت دور ہے جب ہم مکمل اِسلامی تصورات قبول کر لیں گے۔ اس لیے اِسلامی ریاست کو قائم کرنے کی کوششیں پیش از وقت ہیں۔‘‘{ FR 7708 }
یہ وہ سب سے زیادہ دلفریب پھندا تھا جس میں ہمیں پھانسنے کی کوشش کی گئی تھی۔ ۴۰ء میں ان لوگوں کا استدلال یہ تھا کہ پہلے مسلمانوں کی ایک قومی ریاست قائم ہو جانے دو، پھر اسے اِسلامی ریاست میں تبدیل کرنے کی کوشش کر لینا۔ اس دلیل سے انھوں نے فطری انقلاب کے اس راستے کو قبول کرنے سے انکار کیا جس پر چل کر مسلمانوں کی قومی ریاست کا قیام اور اِسلامی ریاست کا قیام آپ سے آپ ایک ساتھ واقع ہوتا۔ اب جبکہ وہ قومی ریاست قائم ہو گئی تو ان کا دوسرا استدلال یہ تھا کہ اس وقت چوں کہ معاشرہ اِسلامی نہیں ہے، اس لیے یہاں ایک لادینی جمہوری ریاست ہی قائم ہونی چاہیے۔ تم اِسلامی ریاست چاہتے ہو تو معاشرے کو بدلنے کی کوشش کرو۔ جب وہ بدل جائے گا تو ریاست بھی بدل جائے گی۔ بالفاظ دیگر ان کا مطلب یہ تھا کہ اس قومی ریاست کو تو معاشرے کی تعمیر لادینی اصولوں پرکرنے دو اور تم اسی طرح اختیارات اور وسائل کے بغیر اِسلامی معاشرہ تیار کرتے رہو جس طرح قومی ریاست کے وجود میں آنے سے پہلے اجنبی تسلّط کے دَور میں کر رہے تھے۔ تعجب یہ ہے کہ اس وقت تو لادینی کے حامی ہمیں اس پھندے میں پھانسنا چاہتے تھے۔ مگر اب خود دینی نظام کے بعض حامی ہم سے کہتے ہیں کہ تم اس پھندے میں پھنس کیوں نہ گئے؟ تم اِسلامی دستور کا ایک مصنوعی مطالبہ لے کر کیوں کھڑے ہو گئے؟ تم نے یہاں ایک لادینی ریاست کیوں نہ قائم ہو جانے دی؟ تم کو تو اپنی ساری کوشش صرف ذہنی انقلاب اور اصلاحِ معاشرہ پر صرف کرنی چاہیے تھی۔ جب یہ کا م پایہ تکمیل کو پہنچ جاتا تو ریاست خود بخود اِسلامی ہو جاتی۔
اس معاملے میں ساری غلط فہمیوں کی بنیاد یہ ہے کہ یہ لوگ نہ تقسیم سے پہلے کی پوزیشن اچھی طرح سمجھتے ہیں ،نہ تقسیم کے بعد کی پوزیشن اور نہ یہی جانتے ہیں کہ ان دونوں زمانوں میں ہم نے جو کچھ کہا اور کیا اس کا حاصل اور مدعا کیا تھا۔
تقسیم سے پہلے ہم نے فطری انقلاب کا راستہ ایک ایسی مسلمان قوم کے سامنے پیش کیا تھا جو حکومت کے اختیارات نہیں رکھتی تھی، بلکہ حصولِ اختیار کے لیے کوشش کرنے اٹھ رہی تھی۔ نیز وہ اپنی منزلِ مقصود اِسلامی ریاست بتاتی تھی مگر غلط راستے سے اس کی طرف جانا چاہتی تھی۔ ہم نے اسے بتایا کہ اس منزل تک جانے کا فطری راستہ یہ ہے۔ اس راستے سے آگے بڑھو گے تو اختیارات کا حصول اور اِسلامی ریاست کا قیام، دونوں بیک وقت واقع ہوں گے، بالکل اسی طرح جیسے درخت کا بلوغ اور اس میں پھل آنا، دونوں ایک ساتھ طبیعی نتیجے کے طور پر واقع ہوتے ہیں۔ لیکن جیسا کہ آپ سب کو معلوم ہے اس وقت ہماری یہ تجویز مقبول نہ ہو سکی، مسلمان اپنی پوری اجتماعی طاقت صرف حصول اختیار کی کوشش پر صرف کرتے رہے اور بس ہم چند آدمی ہی اس فطری راستے سے انقلاب لانے کی سعی کے لیے رہ گئے۔
تقسیم کے بعد جس چیز سے ہم دوچار ہوئے وہ یہ تھی کہ وہی بے اختیار قوم، جسے ہم نے فطری انقلاب کا وہ راستہ دکھانا چاہا تھا، ایک مصنوعی انقلاب کے ذریعہ سے یک لخت بااختیار ہو گئی بغیر اس کے کہ اس کے سامنے کوئی واضح نصب العین ہوتا اور اس نصب العین کے مطابق سیاسی انقلاب کے ساتھ کوئی ذہنی، اَخلاقی اور اجتماعی انقلاب بھی رونما ہوا ہوتا۔ اب لامحالہ بااختیار ہو جانے کے بعد اس قوم کواپنے لیے ایک نظریہِ زندگی اختیارکرنا تھا جس پر وہ اپنی تعمیر نو کا آغاز کرتی، جس کے مطابق وہ اپنی تعمیر کے کام میں ملک کے وسائل اور حکومت کے اختیارات استعمال کرتی، جس کے لحاظ سے مردانِ کار تیار کرنے کے لیے وہ تعلیم وتربیت کا انتظام کرتی، جس کے نقشے پر وہ اپنی حیاتِ اجتماعی کی تشکیل اور معاملاتِ زندگی کی انجام دہی کے لیے قوانین بناتی۔ یہ اس قوم کے استعمالِ اختیارات کا وقتِ آغاز تھا اور اسے طے کرنا تھا کہ وہ اپنے ان اختیارات کو کس مقصد کے لیے کس چیز کی تعمیر اور کس چیز کی تخریب میں استعمال کرے۔
اس وقت دو طرح کے امکانات قریب قریب مساوی حیثیت میں موجود تھے۔ ایک امکان اس امر کا تھا کہ یہ مسلمان قوم لادینی قومی ریاست کے راستے پر مڑ جائے اور اس مصنوعی انقلاب کی تکمیل اس بدترین شکل میں ہو جس کا نقشہ کھینچ کھینچ کر ہم تقسیم سے پہلے اپنی قوم کو اس راستے کے خطرات سے آگاہ کیا کرتے تھے۔ ایک طاقت ور گروہ جس کے ہاتھ میں اختیارات کی کنجیاں بھی تھیں، اس قوم کو اسی راستے پر ڈالنے کے لیے زور لگا رہا تھا اور اس کوشش میں تھا کہ جس طرح بھی ہو سکے، دوسرے امکان کے دروازے جلدی سے جلدی بند کر دئیے جائیں۔ دوسرا امکان یہ تھا اور اس کے لیے اچھے خاصے مواقع موجود تھے کہ اس قوم کو اِسلامی ریاست کے راستے پر ڈالا جائے اور لادینی کی جڑیں اس کے معاشرے میں نہ جمنے دی جائیں۔
اس پس منظر کو نگاہ میں رکھ کر اب ملاحظہ فرمائیے کہ جس وقت ہم ۴۸ء میں دستور اِسلامی کی جدوجہد کے لیے اٹھ رہے تھے اس وقت ہم نے ان لوگوں کے استدلال کا کیا جواب دیا تھا جو کہتے تھے کہ سرِدست تو ایک لادینی جمہوری ریاست بن جانے دو، پھر جوں جوں معاشرہ اِسلامی بنتا جائے گا، ریاست بھی اِسلامی ہوتی چلی جائے گی۔ ابھی ریڈیو کے جس مکالمے کا میں نے ذکر کیا ہے، اس میں جانبِ مخالف کی بات کا جواب دیتے ہوئے میں نے عرض کیا تھا:
’’آپ نے سچ فرمایا کہ ایک ملک کا نظام اس کے باشندوں کی اَخلاقی و ذہنی حالت کا پرتو ہوتا ہے۔ اب اگر پاکستان کے باشندے اِسلام کی طرف ایک پرزور میلان رکھتے ہیں اور ان کے اندر اِسلام کے راستے پر آگے بڑھنے کی خواہش موجود ہے تو آخر ان کی قومی ریاست ان کے اس میلان اور خواہش کا پرتو کیوں نہ ہو؟ آپ کا یہ ارشاد بھی بالکل درست ہے کہ اگر ہم پاکستان کو ایک اِسلامی ریاست بنانا چاہتے ہیں تو ہمیں پاکستان کے باشندوں میں اِسلامی شعور، اِسلامی ذہنیت اور اِسلامی اَخلاق پیدا کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ مگر میں نہیں سمجھا کہ آپ اس کوشش میں حصہ لینے سے خود ریاست کو کیوں مستثنیٰ رکھنا چاہتے ہیں۔ ۱۵ ؍ اگست ۴۷ء سے پہلے کی صورت حال تو یہ تھی کہ ہمارے اوپر ایک غیر مسلم اقتدار مسلّط تھا، اس وجہ سے ہم اِسلامی خطوط پر اپنی ملت کی تعمیر میں ریاست اور اس کی طاقتوں اور اس کے ذرائع سے کوئی مدد نہیں پا رہے تھے، بلکہ درحقیقت اس وقت ریاست کا پورا ادارہ اپنے زور سے ہمیں دوسری طرف کھینچے لیے جا رہا تھا اور ہم انتہائی ناسازگار حالات میں اِسلامی زندگی کی تعمیر کے لیے جدوجہد کر رہے تھے۔ اب جو سیاسی انقلاب ۱۵؍ اگست کو رونما ہوا ہے اس کے بعد ہمارے سامنے یہ سوال پیدا ہو گیا ہے کہ آیا ہماری قومی ریاست اِسلامی زندگی کی تعمیر میں وہ حصہ لے گی جو ایک معمار کا حصہ ہوتا ہے، یا وہ طرز عمل اختیار کرے گی جو ایک بے نیاز غیر جانبدار کا ہوا کرتا ہے، یا اب بھی وہی پچھلی صورت حال برقرار رہے گی کہ ہمیں حکومت کی مدد کے بغیر بلکہ اس کی مزاحمت کے باوجود اِسلامی تعمیر کا کام کرنا ہو گا‘؟ اس وقت چوں کہ پاکستان کا آیندہ نظام زیر تشکیل ہے اس لیے ہم چاہتے ہیں کہ ایسی ریاست بن جائے جو اِسلامی زندگی کی معمار بن سکے۔ ہماری یہ خواہش اگر پوری ہو گئی تو ریاست کے وسیع ذرائع اور طاقتوں کو استعمال کرکے پاکستان کے باشندوں میں ذہنی اور اَخلاقی انقلاب برپا کرنا بہت زیادہ آسان ہو جائے گا۔ پھر جس نسبت سے ہمارا معاشرہ بدلتا جائے گا اسی نسبت سے ہماری ریاست بھی ایک مکمل اِسلامی ریاست بنتی چلی جائے گی۔‘‘
اس سے زیادہ تفصیل کے ساتھ اس کا جواب میں نے اپنی اس تقریر میں دیا تھا جو فروری ۴۸ء میں لا کالج لاہور میں کی گئی تھی۔ میں نے اس میں کہا تھا:
’’میں ان سے پوچھتا ہوں کہ یہ ماحول (یعنی اِسلامی ماحول جس کے تیار ہونے پر اِسلامی ریاست کی بنا ڈالنا موقوف قرار دیا جاتا ہے)، تیار کون کرے گا؟ کیا ایک بے دین ریاست جس کی باگیں فرنگیت زدہ حکام اور لیڈروں کے ہاتھ میں ہوں؟…… اگر ان کا مطلب یہی ہے تو انسانی تاریخ میں یہ پہلا اور بالکل نرالا تجربہ ہو گا کہ بے دینی خود دین کو پروان چڑھا کر اپنی جگہ لینے کے لیے تیار کرے گی! اور اگر ان کا مطلب کچھ اور ہے تو وہ ذرا صاف صاف اس کی توضیح فرمائیں کہ اِسلامی ماحول کی تیاری کا کام کون، کس طاقت اورکن ذرائع سے کرے گا اور اس دوران میں بے دین ریاست اپنے ذرائع اور اقتدار کو کس چیز کی تعمیر میں صرف کرتی رہے گی؟…… اِسلامی نظامِ زندگی کی تعمیر ہو یا غیر اِسلامی زندگی کی، اگرچہ وہ ہوتی تو بتدریج ہی ہے لیکن تدریجاً اس کی تعمیر صرف اسی صورت میں ہو سکتی ہے جب کہ ایک معمار طاقت اپنے سامنے ایک مقصد اور ایک نقشہ رکھ کر مسلسل اس کے لیے کام کرے… یہ پاکستان جب اِسلام کے نام سے اور اِسلام کے لیے مانگا گیا ہے اور اسی بنا پر ہماری یہ مستقل ریاست قائم ہوئی ہے، تو ہماری اس ریاست ہی کو وہ معمار طاقت بننا چاہیے جو اِسلامی زندگی کی تعمیر کرے۔ اور جب کہ یہ ریاست ہماری اپنی ریاست ہے اور ہم اپنے تمام قومی ذرائع ووسائل اس کے سپرد کر رہے ہیں تو کوئی وجہ نہیں کہ ہم اس تعمیر کے لیے کہیں اور سے ذرائع اور معمار فراہم کرتے پھریں۔‘‘
’’یہ بات اگر صحیح ہے تو پھر اس تعمیر کی راہ میں پہلا قدم یہ ہونا چاہیے کہ ہم اس ریاست کو جو ابھی تک انگریز کی چھوڑی ہوئی کافرانہ بنیادوں پر قائم ہے، مسلمان بنائیں… اس کے بعد ہی صحیح طورپر ہمارے رائے دہندوں کو یہ معلوم ہو گا کہ اب انھیں کس مقصد اور کس کام کے لیے اپنے نمائندے منتخب کرنے ہیں… دوسرا قدم یہ ہے کہ جمہوری انتخاب کے ذریعہ سے اس ریاست کی زمامِ کار ایسے لوگوں کے ہاتھوں میں منتقل ہو جو اِسلام کو جانتے بھی ہوں اور اس کے مطابق ملک کے نظامِ زندگی کو ڈھالنا چاہتے بھی ہوں۔ اس کے بعد تیسرا قدم یہ ہے کہ اجتماعی زندگی کے مختلف پہلوئوں کی ہمہ گیر اصلاح کا ایک منصوبہ بنایا جائے اور اسے عمل میں لانے کے لیے ریاست کے تمام ذرائع ووسائل استعمال کئے جائیں۔‘‘ { FR 7709 }
اسی زمانے میں مولانا امین احسن صاحب نے اپنی ایک تقریر میں وضاحت کے ساتھ یہ بتایا تھا کہ اگر پاکستان کی قومی ریاست ایک لادینی ریاست بن گئی تو اس کے نتائج کیا ہوں گے۔ انھوں نے فرمایا تھا:
’’جہاں تک مذہب کا تعلق ہے، ایک لادینی جمہوری ریاست کی طرف سے اس کے ساتھ دو ہی طرح کے سلوک کی توقع کی جا سکتی ہے۔ یا تو وہ چشم پوشی اور اغماض کا سلوک کرے گی، یا عناد کی پالیسی اختیار کرے گی۔ تجربہ بتاتا ہے کہ یہ دونوں طرح کے سلوک لادینی حکومتیں دو مختلف طرح کے حالات میں اختیار کرتی ہیں۔ جن ملکوں میں مذہبی احساس کم زور ہوتا ہے وہاں لادینی حکومتیں بالعموم چشم پوشی کی پالیسی اختیار کرے گی اور پیش نظریہ بات ہوتی ہے کہ نظامِ غالب کے تحت یہ خفیف مذہبی جڑیں اکھاڑ نہ دی جائیں، وہاں وہ پوری طاقت کے ساتھ اس بات کی کوشش کرتی ہے کہ مذہب کا نام ونشان بھی باقی نہ چھوڑے۔ میرا اندازہ ہے کہ پاکستان کے حالات اسی طرح کے ہیں۔ اس وجہ سے اگر اس ملک میں کسی لادینی ریاست کے قیام کا فیصلہ ہوا تو اس کی تعمیر مذہب کی تخریب کے بعد ہی ممکن ہو سکے گی اور لادینیت کے آئمہ مجبور ہوں گے کہ اس سرزمین کو تمام مذہبی آثار اور محرکات سے اسی طرح صاف کر دیں جس طرح کمال اتاترک اور ان کے ساتھیوں نے ترکی کو تمام مذہبی باقیات سے صاف کر دیا تھا۔‘‘ { FR 7710 }
اس تشریح سے آپ بخوبی اندازہ کر سکتے ہیں کہ جن حالات میں ہم نے اقامتِ دین کی جدوجہد کے لیے مطالبہ دستورِ اِسلامی کو نقطہ آغاز کی حیثیت سے منتخب کیا تھا ان حالات میں پیش قدمی کا یہی ایک راستہ صحیح تھا۔ فطری طریق انقلاب کا یہ تصوّر کہ وہ کوئی ایسا لگا بندھا طریقہ ہے جو ہر جگہ ہر طرح کے حالات میں ایک ہی ڈھنگ پر چلنا چاہیے، سراسر ایک غیر معقول تصور ہے۔ ایک نئی نئی آزاد ہونے والی مسلمان قوم کے اندر انقلاب لانے کا فطری اور معقول راستہ وہ نہ تھا جس پر قبل تقسیم کے حالات میں ہم کام کر رہے تھے، بلکہ یہ تھا کہ ہم آگے بڑھ کر اسے اپنی آزادی وخود مختاری کے استعمال کی صحیح صورت بتائیں، اس کو دوسری گمراہ کن تحریکوں کے اثر میں جانے سے روکیں، اس ملک میں ایک غلط اور تباہ کن نظام تعمیر نہ ہونے دیں اور اس امر کی پوری کوشش کریں کہ اس کے نئے اختیارات اور ذرائع ووسائل ایک تعمیر صالح میں صرف ہوں۔ ہمارے لیے قبل تقسیم کے طریق کار کی طرف پلٹنا اگر جائز ہو سکتا تھا تو صرف اسی صورت میں جب کہ ہم اپنے ان مقاصد میں ناکام ہو جاتے اور ہماری کوششوں کے باوجود ایک بے دین قیادت یہاں قدم جما کر ٹھیٹھ لادینی نظام قائم کر دیتی۔
اب اگر کوئی شخص یہ سمجھتا ہے کہ ہماری یہ جدوجہد بس حکمرانوں سے اِسلامی دستور بنا دینے کے مطالبے تک ہی محدود تھی اور اس کے ساتھ معاشرے کی تیاری کا کوئی عنصر شامل نہ تھا، تو یہ اس کے اپنے ہی فہم کا قصور ہے۔ وہ آنکھیں کھول کر دیکھے تو اسے نظر آ سکتا ہے کہ اس جدوجہد کے ذریعہ سے ہم نے پچھلے دس سال کے اندر معاشرے کو کس حد تک فاسد قیادتوں کے بالمقابل ایک صالح قیادت ابھارنے کے لیے تیار کیا ہے اور سلبی اور ایجابی دونوں حیثیتوں سے مخالف دین اثرات کی روک تھام اور موافق دین اثرات کو پھیلانے کی کتنی خدمت انجام دی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ مطالبہ دستور کی جدوجہد کے اصل مخاطب حکمران گروہ کے لوگ تھے ہی نہیں۔ اس کے مخاطب تو اس ملک کے عوام تھے اور انھی کی رائے کو نظام اِسلامی کے حق میں ہموار کرکے ہم لادینی کے ان طوفانوں کا مقابلہ کر سکتے ہیں جو آپ سب کی آنکھوں کے سامنے کیسی کیسی قوت کے ساتھ اٹھ کر اس ملک پر چھا جانے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔ اگر ملک کی رائے عام کو اس حد تک تیار کر دینا کہ بے دینی اپنی ساری سیاسی طاقت اور اپنے سارے ذرائع کے باوجود یہاں فیصلہ کن اقتدار حاصل نہ کر سکے اور اگر اقتدار کی ساری مزاحمتوں کے علی الرغم اِسلامی نظام کی حمایت میں ایک ایسی منظم طاقت پیدا کر دینا جو دفاع اور ہجوم دونوں کا بل بوتا رکھتی ہو اور جس کے ساتھ ہر شعبہ حیات سے تعلق رکھنے والے عناصر وابستہ ہوں، اس کا نام معاشرے کی تیاری نہیں ہے تو میں اس طرح کے خیالات رکھنے والوں سے گزاش کروں گا کہ براہ کرم وہ ہمیں وضاحت کے ساتھ بتائیں کہ معاشرے کی تیاری کا تصور ان کے ذہن میں آخر ہے کیا اور اس تصور کے لحاظ سے کس چیز کو معاشرے کی تیاری کہا جا سکتا ہے اور کسے نہیں کہا جا سکتا۔
معاشرہ پر ہماری دستوری جدوجہد کے اثرات
مجھے ہمیشہ اس بات سے نفرت رہی ہے کہ جماعتِ اِسلامی کے کارناموں کو گنایا جائے۔ میں ہمیشہ اس بات کو ترجیح دیتا ہوں کہ جو کچھ ہم سے نہیں ہو سکا ہے اسے ہم نمایاں کرکے اپنے کارکنوں کے سامنے رکھیں تاکہ ان میں مزید محنت وسعی کرنے کا ولولہ پیدا ہو اور اس چیز کی حوصلہ شکنی کرتا ہوں کہ جو کچھ ہم نے کیا ہے اسے فخر کے ساتھ بیان کیا جائے اور اس کا نتیجہ یہ ہو کہ کارکن اپنی جگہ مطمئن ہو کر بیٹھ جائیں۔ لیکن جب ہمیں سابقہ اس طرز بحث سے پیش آ جائے کہ جو کچھ جماعت نے فی الواقع کیا ہے اس کی نفی کی جا رہی ہو اور اس نفی سے بھی مقصود محض نفی نہ ہو، بلکہ استدلال یہ ہو کہ تقسیم کے بعد ہماری جدوجہد سرے سے غلط راستے پر پڑ گئی اور اس پر مزید استدلال یہ ہو کہ ہم اس وقت تک کے سارے نتائج عمل کو مہمل قرار دے کر قبل تقسیم کے حالت کی طرف الٹی زقند لگائیں، تو مجھے مجبورًااس کام کو پیش کرنا پڑتا ہے جو پچھلے دس سال میں اس نئی پالیسی کے تحت انجام دیا گیا ہے۔
تقسیم کے وقت ارکان جماعت کی کل تعداد ۳۸۵ تھی۔ آج ۱۲۷۲ ہے{ FR 7711 }۔ جماعت میں ارکان کے داخلہ کا جو طریق کار ہے اسے دیکھ کر اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ انسانوں کی کتنی کثیر تعداد تک پہنچ کر اور انھیں کس حد تک متاثر کر دینے کے بعد یہ مزید ۹۰۰ آدمی اس تحریک میں رکن کی حیثیت سے کام کرنے کے لیے ہمیں حاصل ہوئے ہوں گے۔
متفقین کی تعداد اس وقت ہزار بارہ سو سے زیادہ نہ تھی۔ آج ۲۵ ہزار کے لگ بھگ ہے۔{ FR 7712 } جماعت میں متفقین کی بھرتی کا جو طریقہ ہے اسے نگاہ میں رکھئے تو حساب لگا کر آپ خود دیکھ سکتے ہیں کہ کتنے لاکھ آدمیوں تک یہ دعوت پہنچائی گئی ہو گی، تب کہیں ۲۵ ہزار آدمی ایسے نکلے جنھوں نے باقاعدہ متفق بننا قبول کیا۔
متاثرین آج لاکھوں کی تعداد میں ہیں اور معاشرے کاکوئی عنصر ایسا نہیں رہا ہے جس میں وہ کم یا زیادہ نہ پائے جاتے ہوں۔ سرکاری محکموں کے ملازمین، تجّار، اہل صنعت، وکلا، طلبہ، اساتذہ اور پروفیسر، کاشت کار اور مزدور، شہری اور دیہاتی عوام، غرض کسی شعبہ ِحیات سے تعلق رکھنے والے لوگ بھی اب ان اثرات سے خالی نہیں رہے ہیں۔ اور ان میں ایک کثیر تعداد ایسی ہے جو جماعت کے مقصد اور اس کے کام سے صرف گہری دل چسپی ہی نہیں رکھتی بلکہ اس کا اَخلاقی اثر بھی قبول کر رہی ہے۔
دیہات تک میں یہ تحریک پھیل گئی ہے اور پھیلتی جا رہی ہے۔ پہلے دیہاتی علاقے اس سے بالکل خالی تھے۔ آج ان میں مضبوط حلقہائے متفقین منظم ہوتے چلے جا رہے ہیں۔
قریبی دَور کی تاریخ میں پہلی مرتبہ اتنے وسیع پیمانے پر عوام اور خواص کو اِسلامی زندگی کی خصوصیات اور اِسلامی ریاست کے واضح تصوّرسے آشنا کیا گیا ہے۔ اس سے پہلے ایسی کوئی مثال نہیں ملتی کہ اس ملک کے عوام کو اس کثرت کے ساتھ ان امور کی تعلیم دی گئی ہو۔ اور نہ دنیا کے کسی دوسرے مسلمان ملک ہی میں آج اس کی مثال پائی جاتی ہے۔ بلکہ عوام الناس میں دستوری مسائل کا شعور پیدا کرنے کی اتنے بڑے پیمانے پر کوشش تو مغربی ممالک میں بھی کم ہی کبھی کی گئی ہے۔
علمی حلقوں پر ہماری تحریک جس حد تک اثر انداز ہوئی ہے اس کا اندازہ اس سے کیا جا سکتا ہے کہ پچھلے چند سال میں اِسلام کے تصور ریاست، نظریہ سیاسی، نظریہ معاشی ، نظام قانون اور نظام حیات سے جتنی کچھ بحث بھی ہوئی ہے وہ زیادہ تر انھی خطوط پر ہوئی ہے جو ہمارے لٹریچر میں پائے جاتے ہیں۔{ FR 7713 } اب کوئی علمی اور تعلیمی ادارہ ایسا نہیں رہ گیا ہے جس میں مغربی مذہب فکر کے مقابلے میں اِسلامی مذہب فکر کے حامی بھی موجود نہ ہوں اور افکار کی دنیا میں ایک کش مکش رونما نہ ہو چکی ہو۔
مشرقی پاکستان، جو تقسیم کے وقت تک اس تحریک سے قطعاً غیر متاثر تھا، اس دس سال کی جدوجہد کے نتیجے میں اس حد تک تیار ہو چکا ہے کہ آج اشتراکیت اور بنگالی قوم پرستی کے مقابلے کا بل بوتا اگر کسی تحریک میں ہے تو وہ جماعتِ اِسلامی کی تحریک ہی ہے۔
دستور میں اِسلامی ریاست کے بنیادی اصولوں کا تسلیم کر لیا جانا ایک صریح پیمانہ ہے جو یہ بتاتا ہے کہ اس دس سال کی مدت میں رائے عام کو کس حد تک اِسلامی نظام کے حق میں ہموار کیا گیا ہے، غیر اِسلامی رجحانات کی حامی اور علمبردار طاقتیں اپنے سیاسی اقتدار اور وسیع ذرائع کے باوجود کسی حد تک پیچھے ہٹی ہیں اور اِسلامی رجحان کی طاقت کسی حد تک آگے بڑھی ہے۔ جو لوگ اس چیز کو حقیر ثابت کرنے کے لیے کہتے ہیں کہ یہ دو رجحانات کی طاقت آزمائی کا نتیجہ نہیں ہے بلکہ صرف ایک طفل تسلی ہے، یا سیاسی پارٹیوں کے جوڑ توڑ سے پیدا ہو جانے والی ایک صورت حال کا اتفاقی نتیجہ ہے، یا بعض سیاسی لیڈروں کے اپنے ہی مذہبی رجحان کا ثمرہ ہے، وہ دراصل سخن پروری کے جوش میں حقائق کا انکار کرتے ہیں۔ پورے ۹ سال تک اس مسئلہ پر جو کش مکش علانیہ سارے ملک میں برپا رہی ہے اور سیکولرزم کی حامی طاقتیں دستور میں اِسلامی اصولوں کے اندراج کی مزاحمت جس طرح قدم قدم پر کرتی رہی ہیں اس کی تاریخ کچھ اتنی زیادہ پرانی تو نہیں ہے کہ آج کسی ہٹ دھرم آدمی کے دو چار فقرے اس کو جھٹلا دینے کے لیے کافی ہو جائیں۔ اس تاریخ کا ایک ایک ورق گواہ ہے کہ سیکولرزم کے طوفان کس طرح باربار اٹھ کر اِسلامی رجحان کو دبانے کی کوشش کرتے رہے ہیں اور کس طرح اِسلامی رجحان نے آخر کار رائے عام کی حمایت سے ان کا منہ پھیرا ہے۔ پھر میں نہیں سمجھتا کہ آخر کون سی سخن آرائی اس امر واقعہ کو جھٹلا سکتی ہے کہ دستور کی تدوین کے آخری مرحلے میں ملک کے ایک سرے سے لے کر دوسرے سرے تک معاشرے کے ہر طبقے اور ہر عنصر نے بے نظیر اتفاق کے ساتھ اِسلامی دفعات کے اندراج کی پرزور تائید کی تھی اور اسی نے ان لوگوں کو یہ کڑوا گھونٹ حلق سے اتارنے پر مجبور کیا جو اسے پینے کی بہ نسبت زہر پی لینا زیادہ پسند کرتے تھے۔
دنیا بھر کے مسلم ممالک پر ہماری دعوت کا اچھا خاصا اثر پڑا ہے۔ ہمارے لٹریچر نے ان کے صرف افکار ہی پراثر نہیں ڈالا ہے بلکہ ان کی تحریکات کو بھی عملاً متاثر کیا ہے اور متعدّد نئے آزاد ہونے والے مسلمان ملکوں میں اِسلامی ریاست کے قیام اور اِسلامی دستور کی تدوین کا مطالبہ اسی طرز پر اٹھا ہے۔ میں صرف یہ معلوم کرنا چاہتا ہوں کہ آیا یہ امور واقعہ ہیں یا نہیں؟ اگر ہیں اور سچائی کے ساتھ ان کی واقعیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا تو آخر اس کام پر بھی ’’معاشرے کی تیاری‘‘ کے الفاظ کا کچھ اطلاق ہوتا ہے یا نہیں؟ صرف ۳۸۵ آدمیوں کی ابتدائی طاقت سے کام شروع کرکے صرف دس سال کی مدّت میں اور اتنی سخت مزاحم طاقتوں کے مقابلے میں آپ کس دوسرے طریقے سے اتنا کام کر سکتے تھے؟ اور اگر ہر جہت میں اتنے بڑے پیمانے پرکام نہ کیا گیا ہوتا تو کیا آج آپ ٹرکی سے کچھ بہتر پوزیشن میں ہوتے جہاں تیس سال کے بعد اب اس چیز کو غنیمت سمجھا جا رہا ہے کہ ہ درسگاہوں میں مذہبی تعلیم کی اجازت مل گئی ہے اور کچھ مذہبی رسالوں کی اشاعت بھی گوارا کی جانے لگی ہے۔
……٭٭٭……

شیئر کریں