Search
Close this search box.

فہرست موضوعات

دیباچۂ طبع اوّل
دیباچۂ طبع ششم
عقل کا فیصلہ
کوتہ نظری
ہدایت و ضلالت کا راز
اسلام ایک علمی و عقلی مذہب
اسلام میں عبادت کا تصور
جہاد فی سبیل اللہ
آزادی کا اسلامی تصوُّر
رواداری
اسلامی قومیت کا حقیقی مفہوم
استدراک
امربالمعروف و نہی عن المنکر
نُزولِ عذاب الٰہی کا قانون
ایک مسیحی بزرگ کے چند اعتراضات
کیا نجات کے لیے صرف کلمۂ توحید کافی ہے؟
کیا رسالت پر ایمان لانا ضروری ہے؟
ایمان بالرّسالت
قرآن پر سب سے بڈا بہتان
نبوت محمدی کا عقلی ثبوت
اتباع اور اطاعت رسول
رسول کی حیثیت شخصی وحیثیت نبوی
رسالت اور اس کے احکام
حدیث اور قرآن
مسلکِ اعتدال
استدراک
حدیث کے متعلق چند سوالات
قرآن اور سنت رسولؐ
ایک حدیث پر اعتراض اور اس کا جواب

تفہیمات (حصہ اول)

اس ویب سائٹ پر آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ اب آپ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمتہ اللہ علیہ کی کتابوں کو ’’پی ڈی ایف ‘‘ کے ساتھ ساتھ ’’یونی کوڈ ورژن‘‘ میں بھی پڑھ سکتے ہیں۔کتابوں کی دستیابی کے حوالے سے ہم ’’اسلامک پبلی کیشنز(پرائیوٹ) لمیٹڈ، لاہور‘‘، کے شکر گزار ہیں کہ اُنھوں نے اس کارِ خیر تک رسائی دی۔ اس صفحے پر آپ متعلقہ کتاب PDF اور Unicode میں ملاحظہ کیجیے۔

نُزولِ عذاب الٰہی کا قانون

قرآن مجید میں جگہ جگہ ان قوموں کا ذکر آیا ہے جن پر گزشتہ زمانہ میں خدا کا عذاب نازل ہوا ہے۔ ہر قوم پر نزول عذاب کی صورت مختلف رہی ہے۔ عاد پر کسی طرح کا عذاب اترا۔ ثمود پر کسی اور طرح کا۔ اہل مدین پر کسی دوسری صورت میں۔ آل فرعون پر ایک نئے انداز میں۔ مگر عذاب کی شکلیں اور صورتیں خواہ کتنی ہی مختلف ہوں، وہ قانون جس کے تحت یہ عذاب نازل ہوا کرتا ہے ایک ہی ہے اور ہرگز بدلنے والا نہیں۔
سُـنَّۃَ اللہِ فِي الَّذِيْنَ خَلَوْا مِنْ قَبْلُ۝۰ۚ وَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّۃِ اللہِ تَبْدِيْلًاo احزاب:62:33
نزول عذاب کے اس قانون کی تمام دفعات پوری تشریح کے ساتھ قرآن مجید میں درج کی گئی ہیں۔ اس کی پہلی دفعہ یہ ہے کہ جب کسی قوم کی خوشحالی بڑھ جاتی ہے تو وہ غلط کاری اور گمراہی کی طرف مائل ہو جاتی ہے اور خود اس کی عملی قوتوں کا رُخ صلاح سے فساد کی طرف پھر جایا کرتا ہے۔
وَاِذَآ اَرَدْنَآ اَنْ نُّہْلِكَ قَرْيَۃً اَمَرْنَا مُتْرَفِيْہَا فَفَسَقُوْا فِيْہَا فَحَـــقَّ عَلَيْہَا الْقَوْلُ فَدَمَّرْنٰہَا تَدْمِيْرًاo بنی اسرائیل16:17
اور جب ہم ارادہ کرتے ہیں کہ کسی بستی کو ہلاک کریں تو اس کے خوشحال لوگوں کو حکم ۱؎ دیتے ہیں اور وہ لوگ اس بستی میں نافرمانیاں کرنے لگتے ہیں۔ پھر وہ بستی عذاب کے حکم کی مستحق ہو جاتی ہے پھر ہم اس کو تباہ و برباد کر ڈالتے ہیں۔
دوسرا قاعدۂ کلیہ یہ ہے کہ خدا کسی قوم پر ظلم نہیں کرتا۔ بدکار قوم خود ہی اپنے اوپر ظلم کرتی ہے۔ خدا کسی قوم کو نعمت دے کر اس سے کبھی نہیں چھینتا۔ ظالم قوم خود اپنی نعمت کے درپے استیصال ہو جاتی ہے اور اس کے مٹانے کی کوشش کرتی ہے۔
ذٰلِكَ بِاَنَّ اللہَ لَمْ يَكُ مُغَيِّرًا نِّعْمَۃً اَنْعَمَہَا عَلٰي قَوْمٍ حَتّٰي يُغَيِّرُوْا مَا بِاَنْفُسِہِمْ۝۰ۙ
انفال53:8
یہ اس لیے کہ اللہ کبھی اس نعمت کو بدلنے والا نہیں ہے جو اس نے کسی قوم کو بخشی ہو‘ تاوقتیکہ وہ قوم خود اپنے آپ کو نہ بدل دے۔
فَمَا كَانَ اللہُ لِيَظْلِمَہُمْ وَلٰكِنْ كَانُوْٓا اَنْفُسَہُمْ يَظْلِمُوْنَo التوبہ:70:9
اللہ ایسا نہیں ہے کہ ان پر ظلم کرتا۔ وہ تو خود ہی اپنے اوپر ظلم کرتے تھے۔
پھر یہ بھی اسی قانون کی ایک دفعہ ہے کہ خدا ظلم (برنفس خود) پر مواخذہ کرنے میں جلدی نہیں کرتا بلکہ ڈھیل دیتا ہے اور تنبیہیں کرتا رہتا ہے کہ نصیحت حاصل کریں اور سنبھل جائیں۔
وَلَوْ يُؤَاخِذُ اللہُ النَّاسَ بِظُلْمِہِمْ مَّا تَرَكَ عَلَيْہَا مِنْ دَاۗبَّۃٍ وَّلٰكِنْ يُّؤَخِّرُہُمْ اِلٰٓى اَجَلٍ مُّسَمًّى۝۰ۚ النحل:61:16
اگر اللہ لوگوں کو ان کے ظلم کے بدلے میں پکڑتا تو روئے زمین پر کوئی متنفس باقی نہ رہتا۔ مگر وہ لوگوں کو ایک مقررہ مدت تک مہلت دیا کرتا ہے۔
وَلَقَدْ اَرْسَلْنَآ اِلٰٓى اُمَمٍ مِّنْ قَبْلِكَ فَاَخَذْنٰہُمْ بِالْبَاْسَاۗءِ وَالضَّرَّاۗءِ لَعَلَّہُمْ يَتَضَرَّعُوْنَo فَلَوْلَآ اِذْ جَاۗءَہُمْ بَاْسُـنَا تَضَرَّعُوْا وَلٰكِنْ قَسَتْ قُلُوْبُہُمْ وَزَيَّنَ لَہُمُ الشَّيْطٰنُ مَا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ o انعام:42-43:6
ہم نے تم سے پہلے کی قوموں میں بھی اسی طرح پیغمبر بھیجے اور ان کو سختی اور تکلیف میں گرفتار کیا تاکہ شاید وہ ہماری طرف عاجزانہ جھکیں۔ پس جب ان پر ہماری طرف سے مصیبت آئی تو کیوں نہ وہ ہمارے آگے گڑگڑائے؟ مگر ان کے دل تو سخت ہو چکے تھے اور شیطان نے ان کی نگاہوں میں ان کے اعمال کو خوشنما بنا دیا تھا۔
اس ڈھیل کے زمانے میں اکثر ایسا بھی ہوتا ہے کہ ظالم قوموں کو خوشحالی کے فتنے میں مبتلا کر دیا جاتا ہے۔ وہ اس سے دھوکا کھا جاتی ہیں اور واقعی یہ سمجھ بیٹھتی ہیں کہ ہم ضرور نیکوکار ہیں ورنہ ہم پر نعمتوں کی بارش کیوں ہوتی؟
اَيَحْسَبُوْنَ اَنَّمَا نُمِدُّہُمْ بِہٖ مِنْ مَّالٍ وَّبَنِيْنَo نُسَارِعُ لَہُمْ فِي الْخَــيْرٰتِ۝۰ۭ بَلْ لَّا يَشْعُرُوْنَo المومنون 55-56:23
کیا یہ لوگ سمجھ رہے ہیں کہ ہم جو مال اولاد سے ان کی امداد کیے چلے جارہے ہیں (تو اس کے معنی یہ ہیں کہ) ہم ان کو فائدہ پہنچانے میں جلدی کر رہے ہیں؟ (حالانکہ حقیقت یہ نہیں ہے۔ اصلی بات جو کچھ ہے) اسے یہ نہیں سمجھتے۔۱؎
آخر کار جب وہ قوم کسی طرح کی تنبیہ سے بھی نہیں سنبھلتی اور ظلم کیے ہی جاتی ہے تو خدا اس کے حق میں نزول عذاب کا فیصلہ کر دیتا ہے اور جب اس پر عذاب کا حکم ہو جاتا ہے تو کوئی قوت اس کو نہیں بچا سکتی۔
وَتِلْكَ الْقُرٰٓى اَہْلَكْنٰہُمْ لَمَّا ظَلَمُوْا وَجَعَلْنَا لِمَہْلِكِہِمْ مَّوْعِدًاo الکہف 59:18
یہ بستیاں (جن کے آثار تم دیکھ رہے ہو) ان کو ہم نے اس وقت تباہ کیا کہ جب انھوں نے ظلم کیا اور ہم نے ان کے ہلاک ہونے کے لیے ایک وقت مقرر کر دیا تھا۔
وَكَذٰلِكَ اَخْذُ رَبِّكَ اِذَآ اَخَذَ الْقُرٰي وَہِىَ ظَالِمَۃٌ۝۰ۭ اِنَّ اَخْذَہٗٓ اَلِيْمٌ شَدِيْدٌo
ہود: 102:11
اور جب تیرا رب ظالم ہستیوں کو پکڑتا ہے تو وہ ایسی ہی بُری طرح پکڑتا ہے اور اس کی پکڑ بڑی سخت اور درد ناک ہوا کرتی ہے۔
وَاِذَآ اَرَادَ اللہُ بِقَوْمٍ سُوْۗءًا فَلَا مَرَدَّ لَہٗ۝۰ۚ وَمَا لَہُمْ مِّنْ دُوْنِہٖ مِنْ وَّالٍo رعد11:13
اور جب خدا کسی قوم کے حق میں برائی کا ارادہ کرتا ہے تو کوئی قوت اس کی شامت کو دفع کرنے والی نہیں ہوتی، اور پھر خدا کے مقابلے میں ان کا کوئی مدد گار نہیں نکلتا۔
یہ عذاب الٰہی کا اٹل قانون جس طرح پچھلی قوموں پر جاری ہوتا رہا ہے اسی طرح آج بھی اس کا عمل جاری ہے۔ اور اگر بصیرت ہو تو آج آپ خود اپنی آنکھوں سے اس کے نفاذ کی کیفیت ملاحظہ کرسکتے ہیں۔ مغرب کی وہ عظیم الشان قومیں جن کی دولتمندی و خوشحالی، طاقت و جبروت، شان و شوکت، عقل و ہنر کو دیکھ دیکھ کر نگاہیں خیرہ ہوئی جاتی ہیں اور جن پر انعامات کی پیہم بارشوں کے مشاہدے سے یہ دھوکہ ہوتا ہے کہ شاید یہ خدا کے بڑے ہی مقبول اور چہیتے بندے اور خیر و صلاح کے مجسمے ہیں، ان کی اندرونی حالت پر ایک غائر نگاہ ڈالیے تو آپ کو معلوم ہوگا کہ وہ اس عذاب الٰہی کے قانون کی گرفت میں آچکی ہیں۔ اور انھوں نے اپنے آپ کو خود اپنے انتخاب و اختیار سے اس دیو ظلم ( ظلم برنفس خود) کے چنگل میں پوری طرح پھنسا دیا ہے جو تیزی کے ساتھ انھیں تباہی و ہلاکت کی طرف لیے چلا جارہا ہے۔
وہی صنعت و حرفت کی فراوانی، وہی تجارت کی گرم بازاری، وہی دہائے سیاست کی کامیابی، وہی علوم حکمیہ و فنون عقلیہ کی ترقی، وہی نظام معاشرت کی سربفلک بلندی، جس نے ان قوموں کو دنیا پر غالب کیا، اور روئے زمین پر ان کی دھاک بٹھائی، آج ایک ایسا خطرناک جال بن کر ان کو لپٹ گئی ہے جس کے ہزاروں پھندے ہیں اور ہر پھندے میں ہزاروں مصیبتیں ہیں۔ وہ اپنی عقلی تدبیروں سے جس پھندے کو کاٹنے کی کوشش کرتے ہیں اس کا ہر تارکٹ کر ایک نیا پھندا بن جاتا ہے، اور رہائی کی ہرتدبیر مزید گرفتاری کا سبب ہو جاتی ہے ؎
از سر گرہ زندگرہِ ناکشودہ را
یہاں ان تمام معاشی اور سیاسی اور تمدنی مصائب کی تفصیل کا موقع نہیں ہے جن میں مغربی قومیں اس وقت گرفتار ہیں۔ بیان مدعا کے لیے اس تصویر کا ایک پہلو پیش کیا جاتا ہے جس سے معلوم ہو جائے گا کہ یہ قومیں کس طرح اپنے اوپر ظلم کر رہی ہیں اورکس طرح اپنے ہاتھوں اپنی ہلاکت کا سامان مہیا کیے جارہی ہیں۔
اپنے معاشی، تمدنی اور سیاسی احوال کی خرابی کے اسباب تشخیص کرنے اور ان کا علاج تجویز کرنے میں اہل فرنگ سے عجیب عجیب غلطیاں ہو رہی ہیں۔ منجملہ ان کے ایک غلطی یہ ہے کہ وہ اپنی مشکلات کا بڑا بلکہ اصلی سبب آبادی کی کثرت کو سمجھنے لگے، اور ان کو اس کا صحیح علاج یہ نظر آیا کہ افزائش نسل کو روکا جائے، معاشی مشکلات کے ساتھ ساتھ یہ خیال نہایت تیزی کے ساتھ مغربی ممالک میں پھیلنا شروع ہوا اور دلوں میں کچھ اس طرح بیٹھا کہ لوگ اپنی نسل کو اپنا سب سے بڑا دشمن سمجھنے لگے، یا بالفاظ دیگر اپنی نسل کے سب سے بڑے دشمن بن گئے، چنانچہ ضبط ولادت کے نئے نئے طریقے جو پہلے کسی کے ذہن میں بھی نہ آتے تھے عام طور پر رائج ہونے شروع ہوئے۔ اس تحریک کو ترقی دینے کے لیے نہایت وسیع پیمانے پر تبلیغ و اشاعت کی گئی۔ کتابیں، پمفلٹ، رسائل اور جرائد خاص اسی موضوع پر شائع ہونے لگے، انجمنیں اور جمعیتیں قائم ہوئیں۔ ہر عورت اور مرد کو اس کے متعلق معلومات بہم پہنچانے، اور عملی آسانیاں فراہم کرنے کا انتظام کیا گیا۔ غرض یورپ اور امریکہ کے عمرانی ’’مصلحین‘‘نے اپنی نسلوں کے خلاف ایک زبردست جنگ چھیڑ دی اور جوش اصلاح میں ان کو یہ سوچنے کا ہوش بھی نہ آیا کہ آخر یہ جنگ کہاں جاکر رکے گی۔
توالدوتناسُل سے مغربی قوموں کی نفرت کاحال یہ ہوگیا کہ ضبط ولادت کے متعدد طریقوں سے بچ بچا کر جو حمل ٹھیر جاتے ان کو بھی اکثر و بیشتر گرایا جانے لگا۔ روس میں تو یہ فعل قانوناً جائز قرار دے دیا گیا اور ہر عورت کا یہ حق تسلیم کیا گیا کہ تین مہینے کا حمل ساقط ۱؎ کر دے۔ لیکن انگلستان اور دوسرے فرنگی ممالک میں بھی جہاں اسقاط حمل قانوناً ممنوع ہے، خفیہ طور پر اسقاط کی کثرت وبا کی حد تک پہنچ گئی۔ فرانس میں عام طور پر تسلیم کیا جاتا ہے کہ جتنے بچے ہر سال پیدا ہوتے ہیں قریب قریب اتنے ہی حمل ہر سال ساقط کیے جاتے ہیں، بلکہ بعض ڈاکٹروں کا خیال ہے کہ اسقاط کی تعداد پیدائش سے زیادہ ہے۔ تیس اور چالیس برس کے درمیان شاید ہی کوئی عورت ہو جس نے اسقاط کا ارتکاب نہ کیا ہو۔ گو قانوناً یہ فعل جرم ہے لیکن دواخانوں میں علانیہ اس کا ارتکاب ہوتا ہے اور فرضی بیماریاں رجسٹروں میں درج کر دی جاتی ہیں۔ انگلستان میں بہت سی دائیاں ہیں جن کا کاروبار اسقاط ہی سے چلتا ہے۔ ایک ڈاکٹر کا اندازہ ہے کہ ہر پانچ عورتوں میں سے چار ایسی ضرور نکلیں گی جنھوں نے کبھی نہ کبھی اسقاط کیا ہوگا۔ جرمنی میں تقریباً دس لاکھ حمل ہر سال ساقط کیے جاتے ہیں۔۲؎ اور اتنی ہی تعداد زندہ پیدا ہونے والے بچوں کی ہے۔ بعض جرمن شہروں میں تو اندازہ کیا گیا ہے کہ گزشتہ بیس سال کے اندر جتنے بچے پیدا ہوئے اس سے دو گنے حمل ساقط کر دیئے گئے۔
عورت جس کے اندر فطرت نے ایک زبردست جذبۂ مادری رکھا تھا، مغربی ممالک میں اب اتنی شقی القلب ہوگئی ہے کہ وہ اپنے پیٹ کی اولاد کو ہلاک کرنے کےلیے خود اپنی جان تک کو خطرے میں ڈالنے سے نہیں چوکتی۔ ڈاکٹر نارمن ہیر (Dr.Norman Haire)اپنی ایک تقریر میں بیان کرتا ہے کہ ایک حاملہ عورت اس کے ہاں آئی اور اس نے اسقاط کی خواہش ظاہر کی۔ جب قانونی مجبوری کی بنا پر عذر کیا گیا تو اس نے طرح طرح کی زہریلی دوائیں کھا کر پیٹ گرانے کی کوشش کی۔ سیڑھیوں پر سے قصداً اپنے آپ کو لڑھکایا۔ اونچے اونچے مقامات سے کود گئی، بھاری بھاری بوجھ اٹھائے۔ اور جب اس سے بھی اسقاط نہ ہوا تو آخر کار ایک اناڑی قابلہ کی دوا استعمال کرکے اپنی زندگی کا خاتمہ کرلیا۔ مادام البرشیت (Madame Albrecht)کا بیان ہے کہ عورتیں حمل ساقط کرنے کے لیے وہ وہ حرکتیں کر گزرتی ہیں جو بیان نہیں کی جاسکتیں۔ مثلاً پیٹ پر سخت آلات سے ضربیں لگانا، رحم کو مختلف آلات سے صدمہ پہنچانا، وحشیانہ طریقوں سے ناچنا، اپنے آپ کو قصداً اونچی جگہ سے گرا دینا، سخت سے سخت زہریلی چیزیں حتیٰ کہ باردت تک کھا جانا۔ وہ ایک فرانسیسی عورت کا قصہ بیان کرتی ہے کہ اس نے حمل سے تنگ آ کر ایک لمبی پن لی اور رحم میں چبھو چبھوکر اسے اتنا زخمی کرلیا کہ خون جاری ہوگیا۔ اس قسم کی مجنونانہ حرکات سے بکثرت عورتیں ہر سال اپنی جان دے دیتی ہیں۔ اندازہ کیا گیا ہے کہ انگلستان کے شفاخانہ ہائے نسواں میں جتنی عورتیں ہر سال مرتی ہیں ان میں سے نصف کا سبب اسقاط حمل ہے اور یہی کیفیت دوسرے ممالک کی بھی ہے۔
ایم پال بیورو اپنی کتاب ’’اخلاقی دیوالہ کی راہ پر‘‘ (towards moral bankruptcy) میں پیرس کی ایک رقاصہ کاحال لکھتا ہے کہ اس نے اپنے نومولود بچے کو نہایت بے رحمی کے ساتھ سر میں کیل ٹھونک ٹھونک کر قتل کیا اور جب وہ عدالت میں پیش ہوئی تو اس نے اپنے بیان میں صاف کہا کہ اس بچے کی پیدائش نے میری زندگی کے عیش کو کر کرا کر دیا تھا اس لیے میں نے اسے قتل کر دیا۔ طبی تحقیقات سے ثابت ہوا کہ اس میں قطعاً کسی جنون کے آثار نہ تھے بلکہ اس نے پورے شعور کے ساتھ اس فعل کا ارتکاب کیا تھا۔
اس زبردست نسل کشی کا نتیجہ یہ ہے کہ یورپ کی شرح پیدائش میں بہت کمی واقع ہوگئی ہے۔ ۱۸۷۶ئ اور ۱۹۳۰ئکے اعداد کا مقابلہ کیجیے انگلستان اور ویلز میں شرح پیدائش ۲ئ۳۶ فی ہزار سے گھٹ کر۳ئ۱۶ (اور ۱۹۳۱ء میں ۸ئ۱۵) رہ گئی ہے۔ جرمنی میں ۹ئ۴۰ سے۵ ء۱۷۔اٹلی میں۲ ء۳۹ سے۷ ء۲۶۔ سویڈن میں۸ئ۳۰سے ۴ئ۱۵ اور نیوزی لینڈ میں ۰ئ۴۱سے ۰ئ ۱۸ تک گھٹ گئی ہے۔۱؎ سردست چونکہ ان ممالک میں شرح اموات بھی قریب قریب اسی نسبت سے کم ہوئی ہے اس لیے آبادی ایک حالت پر ٹھیری ہوئی ہے۔ لیکن اندازہ کیا گیا ہے کہ اگر شرح پیدائش اسی رفتار سے گھٹتی رہی تو دس سال گزرنے کے بعد یہ ٹھیری ہوئی حالت قائم نہ رہے گی بلکہ آبادی گھٹنی شروع ہو جائے گی۔
سب سے زیادہ خطرناک حالت فرانس کی ہے۔ تمام دنیا کے ممالک میں صرف یہی ملک ایسا ہے جہاں کی آبادی روز بروز گھٹتی چلی جارہی ہے۔ ۱۸۸۰ء میں وہاں کی شرح پیدائش ۲۵ء۲ فی ہزار تھی، ۱۹۳۱ء میں ۱۷ء۱ رہ گئی۔ مگر شرح اموات میں اس تناسب سے کمی نہیں ہوئی۔ ۱۸۸۰ء میں شرح اموات ۲۲ء۶ تھی۔ ۱۹۳۱ء میں صرف ۱۶ء۳ تک اتری۔ فرانس کے ہمسایہ اور حریف ممالک، جرمنی اور اٹلی میں ۱۳۵ اور ۱۳۰ آدمی فی مربع کلومیٹر آباد ہیں۔ مگر فرانس میں صرف ۷۳ فی مربع کلومیٹر آبادی کا اوسط ہے۔ ۱۹۳۱ء میں فرانس کی سرزمین پر ۷۳۰۲۴۹ بچے پیدا ہوئے۔ اور اس کے حریف جرمنی میں پیدا ہونے والے بچوں کی تعداد ۱۰۳۱۵۰۸ تھی۔
مس سسلی ہیملٹن اپنی کتاب جدید فرانس (modern france)میں لکھتی ہے کہ اس حالت نے فرانس کے مدبرین سیاست میں ایک گہری پریشانی پیدا کر رکھی ہے جس کا بُرا اثر نہ صرف فرانس بلکہ تمام دنیا کی سیاست پر مترتب ہو رہا ہے۔ فرانس کی عیش پسند آبادی دیہات کو چھوڑ چھوڑ کر شہروں میں منتقل ہو رہی ہے۔ اٹلی اور پولینڈ وغیرہ ممالک کے باشندے ہجرت کرکرکے فرانس میں آرہے ہیں اور زمینوں پر قبضہ کرتے چلے جارہے ہیں۔ فی ہفتہ ۶ ہزار مہاجرین کا اوسطاً اندازہ لگایا گیاہے۔ ۱۹۲۹ء میں فرانسیسی سرزمین پر جتنے بچے پیدا ہوئے ان میں تقریباً ۹ فی صدی غیر قوموں کے تھے۔ اس سے فرانسیسی سیاسیین کو اندیشہ ہے کہ آگے چل کر ایک وقت ایسا آئے گا جب فرانسیسی قوم خود اپنے گھر میں غیر قوموں کی اکثریت سے مغلوب ہو جائے گی۔ تاہم یہ خطرہ بعید ہے۔ بالکل قریبی خطرہ یہ ہے کہ فرانس کے حریف اٹلی اور جرمنی کی آبادی اس سے بہت زیادہ ہے۔ اگر تخفیف اسلحہ کی تجاویز کو منظور کرکے فرانس اپنے آلات جنگ کم کر دے تو آیندہ لڑائی میں کامیابی کا انحصار فوج کی کثرت پر ہوگا۔ اور اس میدان میں اکیلا جرمنی اور اکیلا اٹلی، فرانس پردر رہے گا۔۱؎ یہی خطرات ہیں جن کی وجہ سے فرانس کا طرز عمل بین الملی مسائل میں دوسری اقوام کے خلاف ہے۔
یہ نتائج ہیں اس ’’عاقلانہ تدبیر‘‘ کے جو یورپ نے اپنی معاشی اور تمدنی مشکلات کو دُور کرنے کے لیے اختیار کی ہے۔ اس وقت فرانس کے سوا تمام فرنگی ممالک کی آبادی صرف اس وجہ سے ایک ٹھیری ہوئی حالت پر قائم ہے کہ شرح اموات سے شرح پیدائش ابھی تک زیادہ ہے، اس لیے شرح پیدائش کے گھٹنے کا اثر آبادی پر مترتب نہیں ہوا ہے۔ لیکن اہل فرنگ کے پاس یہ یقین کرنے کی کون سی معقول وجہ ہے کہ شرح اموات اور شرح پیدائش کا یہی تناسب ہمیشہ برقرار رہے گا؟ کیا انھوں نے اس کا اطمینان کرلیا ہے کہ کسی روز مغربی افریقہ کے مچھر زرد بخار کے جراثیم لیے ہوئے خود انھی کے ہوائی جہازوں پر بیٹھ کر یورپ نہ پہنچ جائیں گے؟ کیا انھوں نے اس کی کوئی ضمانت لے لی ہے کہ کبھی یورپ میں اچانک انفلوانزا‘ طاعون، ہیضہ اور ایسے ہی دوسرے وبائی امراض میں سے کوئی مرض نہ پھیل جائے گا؟ کیا وہ اس سے بے خوف ہو چکے ہیں کہ ایک دن یکایک فرنگی سیاست کے باردت خانوں میں سے کسی ایک میں ویسی ہی کوئی چنگاری نہ آپڑے گی جیسی ۱۹۱۴ء میں سراحیفو(سرائیو) میں گری تھی۔ اور پھر فرنگی قومیں خود اپنے ہاتھوں سے وہ سب کچھ نہ کر گزریں گی جو کوئی وبا اور کوئی بیماری نہیں کرسکتی؟ ۲؎ اگر ان میں سے کوئی صورت بھی پیش آگئی اور دفعتاً یورپ کی آبادی سے چند کروڑ آدمی قتل یا ہلاک یا ناکارہ ہوگئے تو اس وقت یورپ کے باشندوں کو معلوم ہوگا کہ انھوںنے اپنے آپ کو خود کس طرح تباہ کیا۔
اَفَاَمِنَ اَہْلُ الْقُرٰٓي اَنْ يَّاْتِـيَہُمْ بَاْسُـنَا بَيَاتًا وَّہُمْ نَاۗىِٕمُوْنَo اَوَاَمِنَ اَہْلُ الْقُرٰٓي اَنْ يَّاْتِـيَہُمْ بَاْسُـنَا ضُـحًى وَّہُمْ يَلْعَبُوْنَo اَفَاَمِنُوْا مَكْرَ اللہِ۝۰ۚ فَلَا يَاْمَنُ مَكْرَ اللہِ اِلَّا الْقَوْمُ الْخٰسِرُوْنَo اعراف97-99:7
کیا بستیوں کے لوگ مطمئن ہیں کہ ہمارا عذاب ان پر راتوں رات نہ آجائے گا جبکہ وہ سوتے ہوں گے؟ اور کیا ان بستیوں کے لوگوں نے اس امر کا اطمینان کرلیا ہے کہ ہمارا عذاب کبھی دن دہاڑے ان کو نہ آئے گا جبکہ وہ کھیلتے ہوں گے؟ اورکیا وہ اللہ کی چال سے بے خوف ہوگئے ہیں؟ سو اللہ کی چال سے تو وہی لوگ بے خوف ہوتے ہیں جن کو برباد ہونا ہے۔
ایسی ہی ایک قوم اب سے تین ہزار برس پہلے عرب کے جنوبی ساحل پر آباد تھی جس کا ذکر قرآن میں سبا کے نام سے کیا گیا ہے۔ اس قوم کی گھنی آبادی کا سلسلہ سواحل بحر ہند سے سواحل بحر احمر تک پھیلا ہوا تھا۔ ہندوستان اوریورپ کے درمیان جتنی تجارت اس زمانے میں ہوتی تھی وہ سب اسی قوم کے ہاتھوں میں تھی۔ اس کے تجارتی قافلے جنوبی ساحل سے مال لے کر چلتے تو مغربی ساحل تک مسلسل بستیوں اور باغوں کی چھائوں میں چلے جاتے تھے،وَجَعَلْنَا بَيْنَہُمْ وَبَيْنَ الْقُرَى الَّتِيْ بٰرَكْنَا فِيْہَا قُرًى ظَاہِرَۃً وَّقَدَّرْنَا فِيْہَا السَّيْرَ۝۰ۭ سِيْرُوْا فِيْہَا لَيَالِيَ وَاَيَّامًا اٰمِنِيْنَo سبا:18:34مگر انھوں نے اللہ کی اس نعمت کو مصیبت سمجھا اور چاہا کہ ان کی یہ گھنی، متصل، مسلسل بستیاں کم ہو جائیں اور ان کا باہمی فصل بڑھ جائے، فَقَالُوْا رَبَّنَا بَاعِدْبَیْنَ اَسْفَارِنَاوَظَلَمُوْا اَنْفُسَھُمْ یہاں لفظ بَاعِدْبَیْنَ اَسْفَارِنَا سے پتہ چلتا ہے کہ تجارتی خوشحالی کی وجہ سے جب آبادی بڑھی اور بستیاں گنجان ہوگئیں تو وہاں بھی یہی سوال پیدا ہوا تھا جو آج یورپ میں پیدا ہوا ہے۔ اور ظَلَمُوْا اَنْفُسَھُمْ سے اشارہ ملتا ہے کہ شاید انھوں نے بھی مصنوعی تدبیروں سے آبادی گھٹانے کی کوشش کی ہوگی۔ پھر ان کا حشر کیا ہوا؟ فَجَعَلْنٰہُمْ اَحَادِيْثَ وَمَزَّقْنٰہُمْ كُلَّ مُمَــزَّقٍ۝۰ۭ اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيٰتٍ لِّكُلِّ صَبَّارٍ شَكُوْرٍo سبا19:34 خدا نے ان کو منتشر اور پارہ پارہ کرکے ایسا تباہ و برباد کیا کہ بس ان کا وجود افسانوں ہی میں رہ گیا۔ (ترجمان القرآن۔ صفر ۱۳۵۲ھ۔ جون ۱۹۳۳ء)

شیئر کریں