اب دیکھئے‘ نماز کے لیے کھڑے ہوتے ہی سب سے پہلا کلمہ جو ہمارے منہ سے نکلتا ہے‘ وہ یہ اقرار ہے کہ:
انی وجھت للذی فطر السموات و الارض جنیفا وما انا من المشرکین۔
(الانعام: ۷۹)
’’یہ کہ میں نے فی الحقیقت ہر طرف سے منہ موڑ کر‘ دوسرے ہر ایک سے تعلق توڑ کر اور اطاعت اور نیازمندی کے دوسرے سب مراکز کو چھوڑ کر پوری یکسوئی کے ساتھ زمین و آسمان کے بنانے والے (ایک خدا) سے رشتہ جوڑ لیا اور میں شرک کرنے والوں میں سے ہرگز نہیں‘‘
نماز کے لیے کھڑے ہوتے ہی سب سے پہلے یہ اقرار کرائے جانے سے صاف واضح ہو جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں تقرب و مقبولیت تو درکنار اس کے حضور حاضری کے لیے اولین شرط یہ ہے کہ انسان غیر اللہ سے تمام عقیدتیں اور نیاز مندیاں ترک کر کے اور بالکل یکسو ہو کر اس کی طرف آئے اور اپنے آپ کو سرتاپا اور غیر مشروط طور پر اس کی بندگی میں دے دے۔ لہٰذا ہم میں سے ہر ایک کو اپنا جائزہ لے کر دیکھنا چاہئے کہ کیا خدا کے ساتھ ہمارا تعلق فی الواقع اسی طرح کا ہے اور اب ہم اس کی ذات‘ اس کی صفات‘ اس کے حقوق اور اس کے اختیارات میں کسی اور کو شریک نہیں گردانتے؟ اگر اب تک یہ پہلا قدم بھی درست نہیں ہوا تو ظاہر ہے کہ ہم ایک ایسی عمارت کی تعمیر میں جان کھپا رہے ہیں جس کی بنیاد ہی غائب ہے۔ ان حالات میں اس ریاضت سے جسمانی مشقت اور تکان کے سوا اور کیا حاصل ہونے کی توقع کی جاسکتی ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:
فویل اللمصلین الذین ھم عن صلاتھم ساھون۔ (الماعون: ۴)
’’تباہی ہے ان نمازیوں کے لیے جو اپنی نماز سے غافل ہیں‘‘
یہی وجہ ہے کہ آپ بعض لوگوں کو دیکھتے ہیں کہ وہ نماز پڑھتے ہیں لیکن یہ ان کے اخلاق و کردار اور معاملات پر کوئی اثر نہیں ڈالتی۔