Search
Close this search box.

فہرست موضوعات

عرضِ ناشر
دیباچہ طبع اوّل
دیباچہ طبع ہشتم
باب اوّل
مسلمان ہونے کے لیے علم کی ضرورت
مسلم اورکافر کا اصلی فرق
سوچنے کی باتیں
کلمۂ طیبہ کے معنی
کلمۂ طیّبہ اور کلمۂ خبیثہ
کلمۂ طیبہ پر ایمان لانے کا مقصد
باب دوم
مسلمان کسے کہتے ہیں؟
ایمان کی کسوٹی
اسلام کا اصلی معیار
خدا کی اطاعت کس لیے؟
دین اور شریعت
باب سوم
عبادت
نماز
نماز میں آپ کیا پڑھتے ہیں؟
نماز باجماعت
نمازیں بے اثر کیوں ہو گئیں؟
باب چہارم
ہر امت پر روزہ فرض کیا گیا
روزے کا اصل مقصد
باب پنجم
زکوٰۃ
زکوٰۃ کی حقیقت
اجتماعی زندگی میں زکوٰۃ کا مقام
انفاق فی سبیل اللہ کے احکام
زکوٰۃ کے خاص احکام
باب ششم
حج کا پس منظر
حج کی تاریخ
حج کے فائدے
حج کا عالمگیر اجتماع
باب ہفتم
جہاد
جہاد کی اہمیت
ضمیمہ ۱ ۱۔اَلْخُطْبَۃُ الْاُوْلٰی
۲۔اَلْخُطْبَۃُ الثَّانِیَۃُ
ضمیمہ ۲ (بسلسلہ حاشیہ صفحہ نمبر ۲۰۷)

خطبات

اسلام کو دل نشیں، مدلل اور جا مع انداز میں پیش کرنے کا جو ملکہ اور خداداد صلاحیت سید ابو الاعلیٰ مودودی ؒ کو حاصل ہے وہ محتاج بیان نہیں۔ آپ کی تصانیف و تالیفات کی ایک ایک سطر جیسی یقین آفریں اور ایمان افزا ہے، اس کا ہر پڑھالکھا شخص معترف و مدّاح ہے ۔ کتنے ہی بگڑے ہوئے افراد، جوان، بچے، مرد وعورت ان تحریروں سے متاثر ہو کر اپنے سینوں کو نورِ ایمان سے منور کر چکے ہیں۔ ان کتابوں کی بدولت تشکیک کے مارے ہوئے لاتعداد اشخاص ایمان و یقین کی بدولت سے مالا مال ہوئے ہیں اور کتنے ہی دہریت و الحاد کے علم بردار اسلام کے نقیب بنے ہیں۔ یوں تو اس ذہنی اور عملی انقلاب لانے میں مولانا محترم کی جملہ تصانیف ہی کو پیش کیا جا سکتا ہے لیکن ان میں سر فہرست یہ کتاب خطبات ہے۔ یہ کتاب دراصل مولانا کے ان خطبات کا مجموعہ ہے جو آپ نے دیہات کے عام لوگوں کے سامنے جمعے کے اجتماعات میں دیے۔ ان خطبات میں آپ نے اسلام کے بنیادی ارکان کو دل میں اُتر جانے والے دلائل کے ساتھ آسان انداز میں پیش کیا ہے اور کمال یہ ہے کہ اس کتاب کو عام وخاص،کم علم واعلیٰ تعلیم یافتہ،ہر ایک یکساں ذوق وشوق سے پڑھتا ہے اور اس سے فائدہ اُٹھاتا ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ اسلام کے بنیادی ارکان کو سمجھنے کے لیے ہماری زبان ہی میں نہیں بلکہ دنیا کی دوسری بلند پایہ زبانوں میں بھی اس کتاب کی نظیر نہیں ملتی۔ علم و حقانیت کا ایک ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر ہے جو ان صفحات میں بند کردیا گیا ہے۔

نماز باجماعت

برادرانِ اسلام! پچھلے خطبوں میں تو میں نے آپ کے سامنے صرف نماز کے فائدے بیان کیے تھے جن سے آپ نے اندازہ کیا ہو گا کہ یہ عبادت بجائے خود کیسی زبردست چیز ہے، کس طرح انسان میں بندگی کا کمال پیدا کرتی ہے اور کس طرح اس کو بندگی کا حق ادا کرنے کے قابل بناتی ہے۔ اب میں آپ کو نماز باجماعت کے فائدے بتانا چاہتا ہوں جنھیں سن کر آپ اندازہ کریں گے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل واحسان سے کس طرح ایک ہی چیز میں ہمارے لیے ساری نعمتیں جمع کردی ہیں۔ اوّل تو نماز خود ہی کیا کم تھی کہ اس کے ساتھ جماعت کا حکم دے کر اس کو دوآتشہ کردیا گیا، اوراس کے اندر وہ طاقت بھر دی گئی جو انسان کی کایا پلٹ دینے میں اپنا جواب نہیں رکھتی۔
نماز کِن صفات کو پیدا کرتی ہے؟
پہلے آپ سے یہ کہہ چکا ہوں کہ زندگی میں ہر وقت اپنے آپ کو خدا کا بندہ سمجھنا اور فرماںبردار غلام کی طرح مالک کی مرضی کا تابع بن کر رہنا، اور مالک کا حکم بجا لانے کے لیے ہر وقت تیار رہنا اصلی عبادت ہے، اور نماز اسی عبادت کے لیے انسان کو تیار کرتی ہے۔ یہ بھی آپ کو بتا چکا ہوں کہ اس عبادت کے لیے انسان میں جتنی صفات کی ضرورت ہے وہ سب نمازپیدا کرتی ہے۔ بندگی کا احساس، خدا اور اس کے رسولؐ اور اس کی کتاب پرایمان، آخرت کا یقین، خدا کا خوف، خدا کو عالم الغیب جاننا اور اس کو ہر وقت اپنے سے قریب سمجھنا، خدا کی فرماںبرداری کے لیے ہر حال میں مستعد رہنا، خدا کے احکام سے واقف ہونا، یہ اور ایسی تمام صفتیں نماز آدمی کے اندرپیدا کر دیتی ہے جو اس کو صحیح معنوں میں خدا کا بندہ بنانے کے لیے ضروری ہیں۔
مکمل بندگی تنہا ممکن نہیں
مگر آپ ذرا غور سے دیکھیں تو آپ کو معلوم ہوجائے گا کہ انسان اپنی جگہ خواہ کتنا ہی کامل ہو، وہ خدا کی بندگی کا پورا حق ادا نہیں کرسکتا جب تک کہ دوسرے بندے بھی اس کے مددگار نہ ہوں۔ خدا کے تمام احکام بجا نہیں لا سکتا جب تک کہ وہ بہت سے لوگ جن کے ساتھ رات دن اس کا رہنا سہنا ہے، جن سے ہر وقت اس کو معاملہ پیش آتا ہے، اس فرماںبرداری میں اس کا ساتھ نہ دیں۔ آدمی دنیا میں اکیلا تو پیدا نہیں ہوا ہے، نہ اکیلا رہ کر کوئی کام کر سکتا ہے۔ اس کی ساری زندگی اپنے بھائی بندوں، دوستوں اور ہمسایوں، معاملہ داروں اور زندگی کے بے شمار ساتھیوں سے ہزاروں قسم کے تعلقات میں جکڑی ہوئی ہے۔ اللہ کے احکام بھی تنہا ایک آدمی کے لیے نہیں ہیں، بلکہ انھی تعلقات کو درست کرنے کے لیے ہیں۔ اب اگر یہ سب لوگ خدا کے احکام بجا لانے میں ایک دوسرے کا ساتھ دیں اور ایک دوسرے کی مدد کریں، تو سب فرماںبردار بندے بن سکتے ہیں، اور اگر سب نافرمانی پر تلے ہوئے ہوں، یا ان کے تعلقات اس قسم کے ہوں کہ خدا کے احکام بجالانے میں ایک دوسرے کی مدد نہ کریں، توایک اکیلے آدمی کے لیے ناممکن ہے کہ وہ اپنی زندگی میں خداکے قانون پر ٹھیک ٹھیک عمل کر سکے۔
تنہا، شیطان کا مقابلہ ممکن نہیں
اس کے ساتھ جب آپ قرآن کو غور سے پڑھیں گے تو آپ کو معلوم ہو گا کہ خدا کا حکم صرف یہی نہیں ہے کہ آپ خود اللہ کے مطیع وفرماںبردار بندے بنیں، بلکہ ساتھ ساتھ یہ حکم بھی ہے کہ دنیا کو خدا کا مطیع وفرماںبردار بنائیں۔ دنیا میں خدا کے قانون کو پھیلائیں اور جاری کریں۔ شیطان کا قانون جہاں جہاں چل رہا ہو اس کومٹا دیں اور اس کی جگہ اللہ وحدہٗ لاشریک لہٗ کے قانون کی حکومت قائم کریں۔ یہ زبردست خدمت جو اللہ نے آپ کے سپرد کی ہے، اس کو ایک اکیلا مسلمان انجام نہیں دے سکتا اور اگر کروڑوں مسلمان بھی ہوں، مگر الگ الگ رہ کر کوشش کریں تب بھی وہ شیطان کے بندوں کی منظم طاقت کو نیچا نہیں دکھا سکتے۔ اس کے لیے بھی ضرورت ہے کہ مسلمان ایک جتھا بنیں، ایک دوسرے کے مددگار ہوں، ایک دوسرے کی پشت پناہ بن جائیں، اور سب مل کر ایک ہی مقصد کے لیے جدوجہد کریں۔
حکم کی اطاعت مطلوب ہے
پھر زیادہ گہری نظر سے جب آپ دیکھیں گے تو یہ بات آپ پر کھلے گی کہ اتنے بڑے مقصد کے لیے فقط مسلمانوں کا مل جانا ہی کافی نہیں ہے، بلکہ اس کی بھی ضرورت ہے کہ یہ مل جانا بالکل صحیح طریق پر ہو، یعنی مسلمانوں کی جماعت اس طرح بنے کہ ایک دوسرے کے ساتھ ان کے تعلقات ٹھیک ٹھیک جیسے ہونے چاہییں ویسے ہی ہوں۔ ان کے آپس کے تعلق میں کوئی خرابی نہ رہنے پائے۔ ان میں پوری یک جہتی ہو۔ وہ ایک سردار کی اطاعت کریں۔ اس کے حکم پر حرکت کرنے کی عادت ان میں پیدا ہو، اور وہ یہ بھی سمجھ لیں کہ اپنے سردار کی فرماں برداری انھیں کس طرح اور کہاں تک کرنی چاہیے او ر نافرمانی کے مواقع کون سے ہیں؟
نماز باجماعت کے فوائد
ان سب باتوں کو نظر میں رکھ کر دیکھیے کہ نماز باجماعت کس طرح یہ سارے کام کرتی ہے۔
ایک آواز پر اکٹھا ہونا
حکم ہے کہ اذان کی آوازسن کر اپنے کام چھوڑ دو اور مسجد کی طرف آ جائو۔ یہ طلبی کی پکار سن کر ہر طرف سے مسلمانوں کا اٹھنا اور ایک مرکز پر جمع ہو جانا ان کے اندر وہی کیفیت پیدا کرتا ہے جو فوج کی ہوتی ہے۔ فوجی سپاہی جہاں جہاں بھی ہوں، بگل کی آواز سنتے ہی سمجھ لیتے ہیں کہ ہمارا کمانڈر بلا رہا ہے۔ اس طلبی پر سب کے دل میں ایک ہی کیفیت پیدا ہوتی ہے، یعنی کمانڈر کے حکم کی پیروی کا خیال۔ اور اس خیال کے مطابق سب ایک ہی کام کرتے ہیں، یعنی اپنی اپنی جگہ سے اس آواز پردوڑ پڑتے ہیں اور ہر طرف سے سمٹ کر ایک جگہ جمع ہو جاتے ہیں۔
فوج میں یہ طریقہ کس لیے اختیار کیا گیا ہے؟ اسی لیے کہ اوّل تو ہر ہر سپاہی میں الگ الگ حکم ماننے اور اس پر مستعدی کے ساتھ عمل کرنے کی خصلت اور عادت پیدا ہو، اور پھر ساتھ ہی ساتھ ایسے تمام فرماںبردار سپاہی مل کر ایک گروہ، ایک جتھا، ایک ٹیم بن جائیں، اور ان میں یہ عادت پیدا ہو جائے کہ کمانڈر کے حکم پر ایک ہی وقت میں ایک ہی جگہ سب جمع ہو جایا کریں، تاکہ جب کوئی مہم پیش آ جائے تو ساری فوج ایک آواز پر ایک مقصد کے لیے اکٹھی ہو کر کام کر سکے۔ ایسا نہ ہو کہ سارے سپاہی اپنی اپنی جگہ تو بڑے تیس مار خاں ہوں، مگر جب کام کے موقع پر ان کو پکارا جائے تو وہ جمع ہو کر نہ لڑ سکیں، بلکہ ہر ایک اپنی اپنی مرضی کے مطابق جدھر منہ اٹھے چلا جائے۔ ایسی حالت اگر کسی فوج کی ہو تو اس کے ہزار بہادر سپاہیوں کو غنیم{ FR 1618 } کے پچاس سپاہیوں کا ایک دستہ الگ الگ پکڑ کے ختم کر سکتا ہے۔ بس اسی اصول پر مسلمانوں کے لیے بھی یہ قاعدہ مقرر کیا گیا ہے کہ جو مسلمان جہاں اذان کی آواز سنے، سب کام چھوڑ کر اپنے قریب کی مسجد کا رُخ کرے، تاکہ سب مسلمان مل کر اللہ کی فوج بن جائیں۔ اس اجتماع کی مشق ان کو روزانہ پانچ وقت کرائی جاتی ہے، کیونکہ دنیا کی ساری فوجوں سے بڑھ کر سخت ڈیوٹی اس خدائی فوج کی ہے۔ دوسری فوجوں کے لیے تو مدتوں میں کبھی ایک مہم پیش آتی ہے اور اس کی خاطر ان کو یہ ساری فوجی مشقیں کرائی جاتی ہیں، مگر اس خدائی فوج کو ہر وقت شیطانی طاقتوں کے ساتھ لڑنا ہے اور ہر وقت اپنے کمانڈر کے احکام کی تعمیل کرنی ہے۔ اس لیے اس کے ساتھ یہ بھی بہت بڑی رعایت ہے کہ اسے روزانہ صرف پانچ مرتبہ خدائی بگل کی آواز پر دوڑنے اور خدائی چھائونی، یعنی مسجد میں جمع ہونے کا حکم دیا گیا ہے۔

بامقصد اجتماع
یہ تو محض اذان کا فائدہ تھا۔ اب آپ مسجد میں جمع ہوتے ہیں اور صرف اس جمع ہونے میں بے شمار فائدے ہیں۔ یہاں جو آپ جمع ہوئے تو آپ نے ایک دوسرے کودیکھا، پہچانا، ایک دوسرے سے واقف ہوئے۔ یہ دیکھنا، پہچاننا، واقف ہونا، کس حیثیت سے ہے؟ اس حیثیت سے کہ آپ سب خدا کے بندے ہیں۔ ایک رسولؐ کے پیرو ہیں۔ ایک کتاب کے ماننے والے ہیں۔ ایک ہی مقصد آپ سب کی زندگی کا مقصد ہے۔ اسی ایک مقصد کو پورا کرنے کے لیے آپ یہاں جمع ہوئے ہیں، اور اسی مقصد کو یہاں سے واپس جا کر بھی آپ کو پورا کرنا ہے۔ اس قسم کی آشنائی، اس قسم کی واقفیت آپ میں خود بخود یہ خیال پیدا کر دیتی ہے کہ آپ سب ایک قوم ہیں، ایک ہی فوج کے سپاہی ہیں، ایک دوسرے کے بھائی ہیں، دنیا میں آپ کی اغراض، آپ کے مقاصد، آپ کے نقصانات اورآپ کے فوائد، سب مشترک ہیں، اور آپ کی زندگیاں ایک دوسرے کے ساتھ وابستہ ہیں۔
باہمی ہمدردی
پھر آپ جو ایک دوسرے کو دیکھیں گے تو ظاہر ہے کہ آنکھیں کھول کر ہی دیکھیں گے، اور یہ دیکھنا بھی دشمن کا دشمن کو دیکھنا نہیں، بلکہ دوست کا دوست کو اوربھائی کا بھائی کو دیکھنا ہو گا۔ اس نظر سے جب آپ دیکھیں گے کہ میرا کوئی بھائی پھٹے پرانے کپڑوں میں ہے، کوئی پریشان صورت ہے، کوئی فاقہ زدہ چہرہ لیے ہوئے آیا ہے، کوئی معذور، لنگڑا، لولا یا اندھا ہے، تو خواہ مخواہ آپ کے دل میں ہمدردی پیدا ہو گی۔ آپ میں سے جو خوش حال ہیں وہ غریبوں اور بے کسوں پر رحم کھائیں گے۔ جو بد حال ہیں انھیں امیروں تک پہنچنے اور ان سے اپنا حال کہنے کی ہمت پیدا ہو گی۔ کسی کے متعلق معلوم ہو گا کہ بیمار ہے، یا کسی مصیبت میں پھنس گیا ہے، اس لیے مسجد میں نہیں آیا تو اس کی عیادت کو جانے کا خیال پیدا ہو گا۔کسی کے مرنے کی خبر ملی تو سب مل کر اس کے لیے نماز جنازہ پڑھیں گے اور غمزدہ عزیزوں کے غم میں شریک ہوں گے۔ یہ سب باتیں آپ کی باہمی محبت کو بڑھانے والی اور ایک دوسرے کی مدد گار بنانے والی ہیں۔
پاک مقصد کے لیے جمع ہونا
اس کے بعد اور ذرا غور کیجیے۔ یہاں جو آپ جمع ہوئے ہیں، تو ایک پاک جگہ پاک مقصد کے لیے جمع ہوئے ہیں۔ یہ چوروں اور شرابیوں اور جوئے بازوں کا اجتماع نہیں ہے کہ سب کے دل میں ناپاک ارادے بھرے ہوئے ہوں۔ یہ تو اللہ کے بندوں کا اجتماع ہے، اللہ کی عبادت کے لیے، اللہ کے گھر میں۔ سب اپنے خدا کے سامنے بندگی کا اقرارکرنے حاضر ہوئے ہیں۔ ایسے موقع پر اوّل تو ایمان دار آدمی میں خود ہی اپنے گناہوں پر شرمندگی کا احساس ہوتا ہے۔ لیکن اگر اس نے کوئی گناہ اپنے دوسرے بھائی کے سامنے کیا تھا، اور وہ خود بھی یہاں مسجد میں موجود ہے، تومحض اس کی نگاہوں کا سامنا ہو جانا ہی اس کے لیے کافی ہے کہ گناہ گار اپنے دل میں کٹ کٹ جائے اور اگر کہیں مسلمانوں میں ایک دوسرے کو نصیحت کرنے کا جذبہ بھی موجود ہو،ا ور وہ جانتے ہوں کہ ہمدردی ومحبت کے ساتھ ایک دوسرے کی اصلاح کس طرح کرنی چاہیے، تو یقین جانیے کہ یہ اجتماع انتہائی رحمت وبرکت کا موجب ہو گا۔ اس طرح سب مسلمان مل کر ایک دوسرے کی خرابیوں کو دُور کریں گے، ایک دوسرے کی کمی پوری کریں گے، اور پوری جماعت نیکوں اور صالحوں کی جماعت بنتی چلی جائے گی۔
اخوت
یہ صرف مسجد میں جمع ہونے کی برکتیں ہیں۔ اس کے بعد یہ دیکھیے کہ جماعت کے ساتھ نماز ادا کرنے میں کتنی برکات پوشیدہ ہیں۔ آپ سب ایک صف میں ایک دوسرے کے برابر کھڑے ہوتے ہیں۔ نہ کوئی بڑا ہے نہ چھوٹا۔ نہ کوئی اونچے درجے کا ہے نہ نیچے درجے کا۔ خدا کے دربار میں خدا کے سامنے سب ایک درجے میں ہیں۔ کسی کا ہاتھ لگنے اور کسی کے چھو جانے سے کوئی ناپاک نہیں ہوتا۔ سب پاک ہیں، اس لیے کہ سب انسان ہیں، ایک خدا کے بندے ہیں، اور ایک ہی دین کے ماننے والے ہیں۔ آپ میں خاندانوں اور قبیلوں اور ملکوں اور زبانوں کا بھی کوئی فرق نہیں۔ کوئی سید ہے، کوئی پٹھان ہے، کوئی راجپوت ہے، کوئی جاٹ ہے، کوئی کسی ملک کا رہنے والا ہے اور کوئی کسی ملک کا۔ کسی کی زبان کچھ ہے اور کسی کی کچھ، مگر سب ایک صف میں کھڑے خدا کی عبادت کر رہے ہیں۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ سب ایک قوم ہیں۔ یہ حسب نسب اور برادریوں اور قوموں کی تقسیم سب جھوٹی ہے۔ سب سے بڑا تعلق آپ کے درمیان خدا کی بندگی وعبادت کا تعلق ہے۔ اس میں جب آپ سب ایک ہیں، تو پھر کسی معاملے میں بھی کیوں الگ ہوں؟
حرکات میں یکسانیت
پھر جب آپ ایک صف میں کندھے سے کندھا ملا کر کھڑے ہوتے ہیں تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ ایک فوج اپنے بادشاہ کے سامنے خدمت کے لیے کھڑی ہے۔ صف باندھ کر کھڑے ہونے اور مل کر ایک ساتھ حرکت کرنے سے آپ کے دلوں میں یکجہتی پیدا ہوتی ہے۔ آپ کو یہ مشق کرائی جاتی ہے کہ خدا کی بندگی میں اس طرح ایک ہو جائو کہ سب کے ہاتھ ایک ساتھ اٹھیں اور سب کے پائوں ایک ساتھ چلیں۔ گویا آپ دس بیس یا سو یا ہزار آدمی نہیں ہیں، بلکہ مل کر ایک آدمی کی طرح بن گئے ہیں۔
دعائیں
اس جماعت اور اس صف بندی کے بعد آپ کرتے کیا ہیں؟ یک زبان ہو کر اپنے مالک سے عرض کرتے ہیں کہ:
اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَاِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ o اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَo
ہم سب تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں۔ ہم کو سیدھے راستے پر چلا۔
رَبَّنَا لَکَ الْحَمْدُ
ہمارے پروردگار! تیرے ہی لیے حمد ہے۔
اَلسَّلَامُ عَلَیْنَا وَعَلٰی عِبَادِ اللّٰہِ الصَّالِحِیْنَ
ہم سب پر سلامتی ہو اور اللہ کے نیک بندوں پر۔
پھر نماز ختم کرکے آپ ایک دوسرے کے لیے سلامتی اور رحمت کی دعا کرتے ہیں کہ:
اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَۃُ اللّٰہِ
اس کے معنی یہ ہوئے کہ آپ سب ایک دوسرے کے خیر خواہ ہیں۔ سب مل کر ایک ہی مالک سے سب کے لیے بھلائی کی دعا کرتے ہیں۔ آپ اکیلے اکیلے نہیں ہیں۔ آپ میں سے کوئی تنہا سب کچھ اپنے ہی لیے نہیں مانگتا۔ ہر ایک کی یہی دُعا ہے کہ سب پر خدا کا فضل ہو، سب کو ایک ہی سیدھے رستے پر چلنے کی توفیق بخشی جائے، اور سب خدا کی سلامتی میں شامل ہوں۔ اس طرح یہ نماز آپ کے دلوں کو جوڑتی ہے، آپ کے خیالات میں یکسانی پیدا کرتی ہے، اور آپ میں خیر خواہی کا تعلق پیدا کرتی ہے۔
امام کے بغیر جماعت نہیں
مگر دیکھ لیجیے کہ جماعت کی نماز آپ کبھی امام کے بغیر نہیں پڑھتے۔ دو آدمی بھی مل کر پڑھیں گے تو ایک امام ہو گا اور دوسرا مقتدی۔ جماعت کھڑی ہو جائے تو اس سے الگ ہو کر نماز پڑھنا سخت ممنوع ہے، بلکہ ایسی نماز ہوتی ہی نہیں۔ حکم ہے کہ جو آتا جائے اُسی امام کے پیچھے جماعت میں شریک ہوتا جائے۔ یہ سب چیزیں محض نماز ہی کے لیے نہیں ہیں، بلکہ ان میں دراصل آپ کو یہ سبق دیا گیا ہے کہ مسلمان کی حیثیت سے زندگی بسر کرنی ہے، تو اس طرح جماعت بن کر رہو۔ تمھاری جماعت، جماعت ہی نہیں ہو سکتی جب تک کہ تمھارا کوئی امام نہ ہو، اور جماعت بن جائے تو اس سے الگ ہونے کے معنی یہ ہیں کہ تمھاری زندگی مسلمان کی زندگی نہیں رہی۔
امامت کی نوعیت وحقیقت
صرف اسی پر بس نہیں کیا گیا، بلکہ جماعت میں امام اور مقتدیوں کا تعلق اس طور پر قائم کیا گیا جس سے آپ کو معلوم ہو جائے کہ اس چھوٹی مسجد کے باہر اس عظیم الشان مسجد میں جس کا نام ’’زمین‘‘ ہے آپ کے امام کی حیثیت کیا ہے۔ اس کے فرائض کیا ہیں، اس کے حقوق کیا ہیں، آپ کو کس طرح اس کی اطاعت کرنی چاہیے اور کن باتوں میں کرنی چاہیے، اگر وہ غلطی کرے تو آپ کیا کریں، کہاں تک آپ کو غلطی میں بھی اس کی پیروی کرنی چاہیے، کہاں آپ اس کو ٹوکنے کے مجاز ہیں، کہاں آپ اس سے مطالبہ کر سکتے ہیں کہ اپنی غلطی کی اصلاح کرے، اور کس موقع پر آپ اس کو امامت سے ہٹا سکتے ہیں؟ یہ سب گویا چھوٹے پیمانے پر ایک بڑی سلطنت کو چلانے کی مشق ہے جو ہر روز پانچ مرتبہ آپ سے ہر چھوٹی مسجد میں کرائی جاتی ہے۔
امامت کے شرائط وآداب
یہاں اتنا موقع نہیں ہے کہ میں ان ساری تفصیلات کو بیان کروں، مگر چند موٹی موٹی باتیں بیان کرتا ہوں:
۱۔ متقی اور پرہیز گار
حکم ہے کہ امام ایسے شخص کو بنایا جائے جو پرہیز گار ہو، علم میں زیادہ ہو، قرآن زیادہ جانتا ہو، اور سن رسیدہ بھی ہو۔ حدیث میں ترتیب بھی بتا دی گئی ہے کہ ان صفات میں کون سی صفت کس صفت پر مقدم ہے۔ یہیں سے یہ تعلیم بھی دے دی گئی کہ سردارِ قوم کے انتخاب میں کن باتوں کا لحاظ کرنا چاہیے۔
۲۔ اکثریت کا نمائندہ
حکم ہے کہ امام ایسا شخص نہ ہو جس سے جماعت کی اکثریت ناراض ہو۔ یوں تو تھوڑے بہت مخالف کس کے نہیں ہوتے۔ لیکن اگر جماعت میں زیادہ تر آدمی کسی شخص سے نفرت رکھتے ہوں، تو اسے امام نہ بنایا جائے۔ یہاں پھر سردارِ قوم کے انتخاب کا ایک قاعدہ بتا دیا گیا۔
۳۔ مقتدیوں کا ہمدرد
حکم ہے کہ جو شخص مقتدیوں کا امام بنایا جائے وہ نماز ایسی پڑھائے کہ جماعت کے ضعیف ترین آدمی کو بھی تکلیف نہ ہو۔ محض جوان، مضبوط، تندرست اور فرصت والے آدمیوں کو ہی پیش نظر رکھ کر لمبی لمبی قراء ت اور لمبے لمبے رکوع اور سجدے نہ کرنے لگے، بلکہ یہ بھی دیکھے کہ جماعت میں بوڑھے بھی ہیں، بیمار بھی ہیں، کمزور بھی ہیں اور ایسے مشغول بھی ہیں جو جلدی نماز پڑھ کر اپنے کام پر واپس جانا چاہتے ہیں۔ نبی a نے اس معاملے میں یہاں تک رحم اور شفقت کا نمونہ پیش فرمایا ہے کہ نماز پڑھاتے میں کسی بچے کے رونے کی آواز آ جاتی، تو نماز مختصر کر دیتے تھے تاکہ اگر بچے کی ماں جماعت میں شریک ہے تو اسے تکلیف نہ ہو۔ یہ گویا سردارِ قوم کو تعلیم دی گئی ہے کہ وہ جب سردار بنایا جائے تو قوم کے اندر اُس کا طرزِ عمل کیسا ہونا چاہیے۔
۴۔ معذوری میں جگہ خالی کر دے
حکم ہے کہ امام کو اگر نماز پڑھاتے میں کوئی حادثہ پیش آ جائے جس کی وجہ سے وہ نماز پڑھانے کے قابل نہ رہے، تو فوراً ہٹ جائے اور اپنی جگہ پیچھے کے آدمی کو کھڑا کر دے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ سردارِ قوم کا بھی یہی فرض ہے جب وہ سرداری کے قابل اپنے آپ کو نہ پائے، تو اسے خود ہٹ جانا چاہیے اور دوسرے اہل آدمی کے لیے جگہ خالی کر دینی چاہیے۔ اس میں نہ شرم کا کچھ کام ہے اور نہ خود غرضی کا۔
۵۔ امام کی کامل اطاعت
حکم ہے کہ امام کے فعل کی سختی کے ساتھ پابندی کرو۔ اس کی حرکت سے پہلے حرکت کرنا سخت ممنوع ہے، یہاں تک کہ جو شخص امام سے پہلے رکوع یا سجدے میں جائے اس کے متعلق حدیث میں آیا ہے کہ وہ گدھے کی صورت میں اٹھایا جائے گا۔ یہاں گویا قوم کو سبق دیا گیا ہے کہ اسے اپنے سردار کی اطاعت کس طرح کرنی چاہیے۔
۶۔ غلطی پر تنبیہ
امام اگر نماز میں غلطی کرے، مثلاً جہاں اسے بیٹھنا چاہیے تھا وہاں کھڑا ہو جائے، یا جہاں کھڑا ہونا چاہیے تھا وہاں بیٹھ جائے، تو حکم ہے کہ سُبْحَانَ اللّٰہِ کہہ کر اسے غلطی پر متنبہ کر دو۔ سُبْحَانَ اللّٰہِ کے معنی یہ ہیں ’’اللہ پاک ہے۔‘‘ امام کی غلطی پر سُبْحَانَ اللّٰہِ کہنے کا مطلب یہ ہوا کہ غلطی سے تو صرف اللہ ہی پاک ہے۔ تم انسان ہو، تم سے بھول چوک ہو جانا کوئی تعجب کی بات نہیں۔ یہ طریقہ ہے امام کو ٹوکنے کا اور جب اس طرح اسے ٹوکا جائے تو اس کو لازم ہے کہ بلاکسی شرم ولحاظ کے اپنی غلطی کی اصلاح کرے، البتہ اگر ٹوکے جانے کے باوجود امام کو یقین ہو کہ اس نے صحیح فعل کیا ہے، تو وہ اپنے یقین کے مطابق عمل کر سکتا ہے اور اس صورت میں جماعت کا کام یہ ہے کہ اس عمل کو غلط جاننے کے باوجود اس کا ساتھ دے۔ نماز ختم ہونے کے بعد مقتدی حق رکھتے ہیں کہ امام پر اس کی غلطی ثابت کریں اور نماز دوبارہ پڑھانے کا اس سے مطالبہ کریں۔
۷۔ معصیت میں اطاعت نہیں
امام کے ساتھ جماعت کا یہ برتائو صرف اُن حالات کے لیے ہے، جب کہ غلطی چھوٹی چھوٹی باتوں میں ہو۔ لیکن اگر امام سنتِ نبویؐ کے خلاف نماز کی ترکیب بدل دے یا نماز میں قرآن کو جان بوجھ کر غلط پڑھے یا نماز پڑھاتے ہوئے کفر وشرک یا صریح گناہ کا ارتکاب کرے، تو جماعت کا فرض ہے کہ اسی وقت نماز توڑ کر اس امام سے الگ ہو جائے۔
یہ سب ہدایتیں ایسی ہیں جن میں پوری تعلیم دے دی گئی ہے کہ تم کو اپنی قومی زندگی میں اپنے سردار کے ساتھ کس طرح پیش آنا چاہیے۔
برادرانِ اسلام! یہ فوائد جو میں نے نماز باجماعت کے بیان کیے ہیں ان سے آپ نے اندازہ کیا ہو گا کہ اللہ تعالیٰ نے اس ایک عبادت میں، جو دن بھر میں پانچ مرتبہ صرف چند منٹ کے لیے ادا کی جاتی ہے، کس طرح دنیا اور آخرت کی تمام بھلائیاں آپ کے لیے جمع کر دی ہیں۔ کس طر ح یہی ایک چیز آپ کو تمام سعادتوں سے مالا مال کر دیتی ہے اور کس طرح یہ آپ کو اللہ کی غلامی اور دنیا کی حکمرانی کے لیے تیار کرتی ہے۔ اب آپ ضرور سوال کریں گے کہ جب نماز ایسی چیز ہے، تو جو فائدے تم اس کے بیان کرتے ہو یہ حاصل کیوں نہیں ہوتے؟ اس کا جواب ان شاء اللہ آئندہ خطبے میں دوں گا۔
٭…٭…٭

شیئر کریں