اس چیز کو ٹھیک ٹھیک سمجھنے کے لیے ہمیں دیکھنا چاہیے کہ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم اور خلفائے راشدینؓ کی سربراہی میں ریاست کا جو نظام چالیس سال تک چلتا رہا تھا اس کے دستور کی بنیادی خصوصیات کیا تھیں، اور یزید کی ولی عہدی سے مسلمانوں میں جس دُوسرے نظامِ ریاست کا آغاز ہوا، اس کے اندر کیا خصوصیات دولتِ بنی امیہ و بنی عباس اور بعد کی بادشاہیوں میں ظاہر ہوئیں، اسی تقابل سے ہم یہ جان سکتے ہیں کہ یہ گاڑی پہلے کِس لائن پر چل رہی تھی، اور اس نقطۂِ انحراف پر پہنچ کر آگے وہ کس لائن پر چل پڑی۔ اور اسی تقابل سے ہم یہ سمجھ سکتے ہیں کہ جس شخص نے رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم اور سیدۂ فاطمہؓ اور حضرت علیؓ کی آغوش میں تربیت پائی تھی‘ اور جس نے صحابہؓ کی بہترین سوسائٹی میں بچپن سے بڑھاپے تک کی منزلیں طے کی تھیں، وہ کیوں اس نقطۂِ انحراف کے سامنے آتے ہی گاڑی کو اُس نئی لائن پر جانے سے روکنے کے لیے کھڑا ہو گیا، اور کیوں اس نے اس بات کی بھی پروا نہ کی کہ اس زوردار گاڑی کا رُخ موڑنے کے لیے اس کے آگے کھڑے ہو جانے کا کیا نتیجہ ہو سکتا ہے۔