آئیے اب ہم دیکھیں کہ جو لوگ فطرت کے ساتھ یہ دغا بازی کرتے ہیں، کیا فطرت ان کو سزا دیے بغیر چھوڑ دیتی ہے یا اس کی کچھ سزا بھی دیتی ہے؟ قرآن مجید کہتا ہے کہ اس کی سزا ضرور دی جاتی ہے اوروہ سزا یہ ہے کہ ایسے لوگ خود ہی اپنے آپ کو نقصان میں مبتلا کرتے ہیں۔
﴿قَدْ خَسِرَ الَّذِيْنَ قَتَلُوْٓا اَوْلَادَہُمْ سَفَہًۢا بِغَيْرِ عِلْمٍ وَّحَرَّمُوْا مَا رَزَقَہُمُ اللہُ افْتِرَاۗءً عَلَي اللہِ۰ۭ ﴾ ( الانعام 140:6)
وہ لوگ ٹوٹے میں پڑ گئے جنھوں نے اپنی اولاد کو نادانی سے بغیر سمجھے بوجھے قتل کیا اور اس نعمت کو جو اللہ نے ان کو عطا کی تھی اللہ پر افترا باندھ کر اپنے اوپر حرام کر لیا۔{ FR 7158 }
اس آیت میں قتل اولاد کے ساتھ نعمتِ تناسل کو اپنے لیے حرام کر لینے کا نتیجہ بھی خُسران بتایا گیا ہے۔ دیکھنا چاہیے کہ یہ خسران کن کن صورتوں میں ظاہر ہوتا ہے۔