پہلی شیطانی تعلیم کا نتیجہ یہ ہوا کہ دولت مندوں نے جماعت کے ان افراد کا حق ماننے سے انکار کر دیا جو دولت کی تقسیم میں حصہ پانے سے محروم رہ جاتے ہیں یا اپنی اصلی ضرورت سے کم حصہ پاتے ہیں۔ انہوں نے یہ بالکل جائز سمجھا کہ ان لوگوں کو فاقہ کشی اور خستہ حالی میں چھوڑ دیا جائے۔ ان کی تنگ نظری نے یہ نہ دیکھا کہ اس رویّے کی وجہ سے انسانی جماعت کے بہت سے افراد جرائم پیشہ بنتے ہیں، جہالت اور دنائت اخلاق میں مبتلا ہوتے ہیں، جسمانی کمزوری اور امراض کا شکار ہوتے ہیں، ان کی ذہنی و جسمانی قوتیں نشوونما پانے اور انسانی تہذیب و تمدن کے ارتقاء میں اپنا حصہ ادا کرنے سے رہ جاتی ہیں، اور اس سے وہ سوسائٹی بحیثیت مجموعی نقصان اٹھاتی ہے جس کے وہ خود بھی ایک جز ہیں۔ اسی پر بس نہیں بلکہ ان دولت مندوں نے اپنی اصلی ضروریات پر بے شمار اور ضروریات کا اضافہ کیا اور بہت سے انسانوں کو، جن کی قابلیتیں تمدن و تہذیب کی بہتر خدمات کے لیے استعمال ہوسکتی تھیں، اپنے نفسِ شریر کی خود ساختہ ضرورتوں کے پورا کرنے میں استعمال کرنا شروع کر دیا۔ ان کے لیے زنا ایک ضرورت تھی جس کی خاطر فاحشہ عورتوں اور قرمساقوں اور دیّوثوں کا ایک لشکر فراہم ہوا۔ ان کے لیے غنا بھی ایک ضرورت تھی جس کی خاطر گویوں، نچنیوں، سازندوں، اور آلاتِ موسیقی تیار کرنے والوں کی ایک اور فوج تیار کی گئی۔ ان کے لیے بے شمار قسم کی تفریحات بھی ضروری تھیں جن کی خاطر مسخروں، نقالوں، ایکٹروں اور ایکٹرسوں، داستان گوئوں، مصوروں اور نقاشوں اور بہت سے فضول پیشہ وروں کا ایک اور گروہ کثیر مہیا کیا گیا۔ان کے لیے شکار بھی ضروری تھا جس کی خاطر بہت سے انسان کوئی بھلا کام کرنے کے بجائے اس کام پر لگائے گئے کہ جنگلوں میں جانوروں کو ہانکتے پھریں۔ ان کے لیے سرور و نشاط اور خود رفتگی بھی ایک ضرورت تھی جس کی خاطر بہت سے انسان شراب، کوکین، افیون اور دوسرے مسکّرات کی فراہمی میں مشغول کیے گئے۔ غرض اس طرح ان شیطان کے بھائیوں نے صرف اتنے ہی پر اکتفا نہ کیا کہ بے رحمی کے ساتھ سوسائٹی کے ایک بڑے حصے کو اخلاقی و روحانی اور جسمانی تباہی میں مبتلا ہونے کے لیے چھوڑ دیا ہو، بلکہ مزید ظلم یہ کیا کہ ایک اور بڑے حصے کو صحیح اور مفید کاموں سے ہٹا کر بیہودہ، ذلیل اور نقصان دِہ کاموں میں لگا دیا، اور تمدن کی رفتار کو راہ راست سے ہٹا کر ایسے راستوں کی طرف پھیر دیا جو انسان کو تباہی کی طرف لے جانے والے ہیں۔ پھر معاملہ اسی پر ختم نہیں ہوگیا ۔ انسانی سرمایہ (human capital) کو ضائع کرنے کے ساتھ انہوں نے مادی سرمایہ کو بھی غلط طریقہ سے استعمال کیا۔ ان کو محلات، کوٹھیوں، گلستانوں، تفریح گاہوں، ناچ گھروں وغیرہ کی ضرورت لاحق ہوئی، حتیٰ کہ مرنے کے بعد زمین میں لیٹنے کے لیے بھی ان کم بختوں کو ایکڑوں زمین اور عالی شان عمارتوں کی حاجت درپیش ہوئی، اور اس طرح وہ زمین،وہ سامان تعمیر اور وہ انسانی محنت، جو بہت سے بندگانِ خدا کے لیے سکونت اور معیشت کا انتظام کرنے کے لیے کافی ہوسکتی تھی، ایک ایک عیاش آدمی کے مستقر اور مستودع پر صرف ہو گئی۔ ان کو زیوروں، نفیس لباسوں، اعلیٰ درجے کے آلات و ظروف، زینت و آرائش کے سامانوں، شان دار سواریوں اور نہ معلوم کن کن چیزوں کی ضرورت پیش آئی۔ حتیٰ کہ ان ظالموں کے دروازے بھی قیمتی پردوں کے بغیر ننگے رہے جاتے تھے، ان کی دیواریں بھی سینکڑوں اور ہزاروں روپے کی تصویروں سے مزین ہوئے بغیر نہ رہ سکتی تھیں، ان کے کمروں کی زمین بھی ہزاروں روپے کے قالین اوڑھنا چاہتی تھی، ان کے کتوں کو بھی مخمل کے گدے اور سونے کے پٹے درکار تھے۔ اس طرح وہ بہت سا مواد اور وہ کثیر انسانی عمل جو ہزارہا انسانوں کا تن ڈھانکنے اور پیٹ بھرنے کے کام آسکتا تھا، ایک ایک شخص کی نفس پرستی کے لیے وقف ہوگیا۔