Search
Close this search box.

فہرست موضوعات

اسلام کا نظریۂ سیاسی
تمام اِسلامی نظریات کی اساس
انبیا علیہم السلا م کا مشن
الٰہ کے معنی
رَبّ کا مفہوم
فتنے کی جڑ
انبیاؑ کا اصل اصلاحی کام
نظریّۂ سیاسی کے اوّلیں اُصُول
اِسلامی اسٹیٹ کی نوعیت
ایک اعتراض
حُدودُ اللّٰہ کا مقصد
اِسلامی اسٹیٹ کا مقصد
ایجابی اسٹیٹ
جماعتی اور اُصولی اسٹیٹ
نظریہ خلافت اور اس کے سیاسی مضمرات
اِسلامی جمہوریت کی حیثیت
انفرادیت اور اجتماعیت کا توازن
اِسلامی اسٹیٹ کی ہیئتِ ترکیبی

اسلام کا نظریۂ سیاسی

اس ویب سائٹ پر آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ اب آپ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمتہ اللہ علیہ کی کتابوں کو ’’پی ڈی ایف ‘‘ کے ساتھ ساتھ ’’یونی کوڈ ورژن‘‘ میں بھی پڑھ سکتے ہیں۔کتابوں کی دستیابی کے حوالے سے ہم ’’اسلامک پبلی کیشنز(پرائیوٹ) لمیٹڈ، لاہور‘‘، کے شکر گزار ہیں کہ اُنھوں نے اس کارِ خیر تک رسائی دی۔ اس صفحے پر آپ متعلقہ کتاب PDF اور Unicode میں ملاحظہ کیجیے۔

نظریہ خلافت اور اس کے سیاسی مضمرات

اب مَیں آپ کے سامنے اِسلامی اسٹیٹ کی ترکیب اور اس کے طرزِ عمل کی تھوڑی سی تشریح کروں گا۔ یہ بات مَیں آپ سے عرض کر چکا ہوں کہ اِسلام میں اصلی حاکم اللّٰہ ہے۔ اس اصل الاصول کو پیشِ نظر رکھ کر جب آپ اس سوال پر غور کریں گے کہ زمین میں جو لوگ خدا کے قانون کو نافذ کرنے کے لیے اُٹھیں، ان کی حیثیت کیا ہونی چاہیے؟ تو آپ کا ذہن خود بخود پکارے گا کہ وُہ اصلی حاکم کے نائب ہونے چاہئیں۔ ٹھیک ٹھیک یہی حیثیت اِسلام نے بھی انھیں دی ہے۔ چنانچہ قرآن کہتا ہے:
وَعَدَ اللہُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّہُمْ فِي الْاَرْضِ كَـمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِہِمْ۝۰۠ النور 24:55
اللّٰہ نے وعدہ کیا ہے ان لوگوں کے ساتھ جو تم میں سے ایمان لائیں اور نیک عمل کریں کہ انھیں زمین میں خلیفہ بنائے گا اسی طرح جس طرح ان سے پہلے اس نے دُوسروں کو خلیفہ بنایا تھا۔
یہ آیت اِسلام کے نظریۂ ریاست (Theory of State) پر نہایت صاف روشنی ڈالتی ہے اس میں دو بنیادی نکات بیان کیے ہیں:
پہلا نکتہ یہ ہے کہ اِسلام حاکمیت کے بجائے خلافت (Vicegerency) کی اصطلاح استعمال کرتا ہے چوں کہ اس کے نظریہ کے مطابق حاکمیت خدا کی ہے لہٰذا جو کوئی اِسلامی دستور کے تحت زمین پر حکم ران ہو اسے لامحالہ حاکم اصلی کا خلیفہ (Vicegerent) ہونا چاہیے جو محض تفویض کردہ اختیارات (Delegated Power) استعمال کرنے کا مجاز ہو گا۔
دُوسری کانٹے کی بات اس آیت میں یہ ہے کہ خلیفہ بنانے کا وعدہ تمام مومنوں سے کیا گیا ہے۔ یہ نہیں کہا کہ ان میں سے کسی کو خلیفہ بنائوں گا۔ اس سے یہ بات نکلتی ہے کہ سب مومن خلافت کے حامل ہیں۔ خدا کی طرف سے جو خلافت مومنوں کو عطا ہوتی ہے وُہ عمومی خلافت (Popular Vicegereny) ہے۔ کسی شخص یا خاندان یا نسل یا طبقہ کے لیے مخصوص نہیں ہے۔ ہر مومن اپنی جگہ خدا کا خلیفہ ہے۔ خلیفہ ہونے کی حیثیت سے فردًا فردًا ہر ایک خدا کے سامنے جواب دِہ ہے (کلکم راع وکلکم مسئول عن رعیتہ)( مشہور حدیث ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ تم میں سے ہر شخص راعی ہے اور تم سب خدا کے سامنے اپنی رعیت کے بارے میں جواب دِہ ہو۔) اور ایک خلیفہ دوسرے خلیفہ کے مقابلہ میں کسی حیثیت سے فِروتر نہیں ہے۔

شیئر کریں