Search
Close this search box.

فہرست موضوعات

اسلامی قانون
قانون اور نظامِ زندگی کا باہمی تعلق
نظامِ زندگی کی فکری اور اخلاقی بنیادیں
اسلامی نظامِ زندگی کا ماخذ
اسلام کا نظریۂ زندگی
حق کا بنیادی تصور
’’اسلام‘‘ اور ’’مسلم‘‘ کے معنی
مسلم سوسائٹی کی حقیقت
شریعت کا مقصد اور اُس کے اُصول
شریعت کی ہمہ گیری
نظامِ شریعت کا ناقابل تقسیم ہونا
شریعت کا قانونی حصہ
اسلامی قانون کے اہم شعبے
اسلامی قانون کا استقلال اور اس کی ترقی پذیری
اعتراضات اور جوابات
پاکستان میں اسلامی قانون کا نفاذ کس طرح ہوسکتا ہے؟
فوری انقلاب نہ ممکن ہے نہ مطلوب
تدریج کا اصول
عہدِ نبوی کی مثال
انگریزی دَور کی مثال
تدریج ناگزیر ہے
ایک غلط بہانہ
صحیح ترتیب کار
خاتمۂ کلام

اسلامی قانون

اس ویب سائٹ پر آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ اب آپ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمتہ اللہ علیہ کی کتابوں کو ’’پی ڈی ایف ‘‘ کے ساتھ ساتھ ’’یونی کوڈ ورژن‘‘ میں بھی پڑھ سکتے ہیں۔کتابوں کی دستیابی کے حوالے سے ہم ’’اسلامک پبلی کیشنز(پرائیوٹ) لمیٹڈ، لاہور‘‘، کے شکر گزار ہیں کہ اُنھوں نے اس کارِ خیر تک رسائی دی۔ اس صفحے پر آپ متعلقہ کتاب PDF اور Unicode میں ملاحظہ کیجیے۔

نظامِ شریعت کا ناقابل تقسیم ہونا

یہ پورا نقشہ زندگی ایک ہی نقشہ زندگی ہے اور اس کا ایک مجموعی مزاج ہے جو تقسیم ہو کر قائم نہیں رہ سکتا۔ اس کی وحدت کچھ اسی طرح کی ہے جیسی خود انسان کے وجود کی وحدت ہے۔ آپ جس چیز کو انسان کہتے ہیں وہ آدمی کا سالم وجود ہے نہ کہ انسانی جسم کے الگ الگ کئے ہوئے ٹکڑوں کا مجموعہ۔ ایک کٹی ہوئی ٹانگ کو آپ۸ / ۱ انسان یا ۶ / ۱ انسان نہیں کہہ سکتے۔ نہ یہ کٹی ہوئی ٹانگ ان خدمات میں سے کوئی خدمت انجام دے سکتی ہے جو زندہ اور سالم جسم کا ایک عضو ہونے کی صورت میں وہ انجام دیا کرتی ہے۔ نہ اس ٹانگ کو کسی اور جانور کے جسم میں لگا کر آپ یہ توقع کرسکتے ہیں کہ اس جانور میں ایک ٹانگ کے بقدر انسانیت پیدا ہو جائے گی۔ اسی طرح انسانی جسم کے ہاتھ، پائوں، آنکھ، ناک وغیرہ اعضا کو الگ الگ لے کر آپ ان کے حسن یا ان کے فائدے کے متعلق بھی کوئی رائے قائم نہیں کرسکتے جب تک کہ پورے زندہ جسم میں ان کے تناسب اور ان کے عمل کو نہ دیکھیں۔ ٹھیک ٹھیک یہی حال شریعت کے نقشۂ زندگی کا ہے۔ اسلام اس پورے نقشہ کا نام ہے نہ کہ اس کے جُدا جُدا ٹکڑوں کا۔ اس کے اجزا کو پارہ پارہ کرکے نہ تو ان کے بارے میں جداگانہ رائے زنی کرنا درست ہوسکتا ہے، نہ مجموعہ سے الگ ہو کر اس کا کوئی جزو وہ کام کرسکتا ہے جو وہ صرف اپنے مجموعہ ہی میں رہ کر کیا کرتا ہے، نہ اس کے بعض اجزا کو قائم کرکے آپ یہ کہہ سکتے ہیں کہ ہم نے آدھا یا چوتھائی اسلام قائم کر دیا ہے اور نہ کسی دوسرے نظام زندگی میں اس ے کسی جز یا اجزا کو پیوست کرکے کوئی مفید نتیجہ ہی حاصل کیا جاسکتا ہے۔ شارع نے یہ نقشہ اس لیے بنایا ہے کہ یہ پورے کا پورا ایک ساتھ قائم ہو، نہ اس لیے کہ آپ حسبِ منشا اس کے کسی جز کو جب چاہیں لے کر قائم کر دیں بغیر اس کے کہ دوسرے اجزا اس کے ساتھ ہوں۔ اس کا ہر جزو دوسرے اجزا کے ساتھ اس طرح جڑا ہوا ہے کہ ان کے ساتھ مل کر ہی کام کرسکتا ہے اور آپ اس کی خوبی کے متعلق صحیح رائے صرف اسی وقت قائم کرسکتے ہیں جب کہ پورے نظام اسلامی کے تناسب اور عمل میں اس کو کام کرتے ہوئے دیکھیں۔
آج شریعت کے بعض احکام کے متعلق جو غلط فہمیاں لوگوں میں پائی جاتی ہیں ان میں سے اکثر کی وجہ یہی ہے کہ پورے اسلام پر مجموعی نگاہ ڈالے بغیر اس کے کسی ایک جز کو نکال لیا جاتا ہے اور پھر یا تو اسے موجودہ غیر اسلامی نظام زندگی کے اندر رکھ کر رائے قائم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے یا پھر بجائے خود اسی جز کو ایک مستقل چیز سمجھ کر اس کے حسن و قبح کا فیصلہ کیا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر اسلامی قانون فوجداری کی بعض دفعات پر آج کے لوگ بہت ناک بھوں چڑھاتے ہیں۔ لیکن انہیں یہ معلوم نہیں ہے کہ جس نقشۂ زندگی میں یہ قانونی دفعات رکھی گئی ہیں اس کے اندر ان کے ساتھ ایک نظامِ معیشت، ایک نظامِ معاشرت، ایک نظامِ حکومت اور ایک نظامِ تعلیم و تربیت بھی ہے جو اگر ساتھ ساتھ پوری اجتماعی زندگی میں کام نہ کر رہا ہو تو نری ان دفعات کو قانون کی کتاب سے نکال کر عدالت کے کمرے میں جاری کر دینا خود اس نقشۂ زندگی کے بھی خلاف ہے۔
بلاشبہ اسلامی قانون چوری پر ہاتھ کاٹنے کی سزا دیتا ہے۔ مگر یہ حکم ہر سوسائٹی میں جاری ہونے کے لیے نہیں دیا گیا ہے، بلکہ اسے اسلام ہی کی اس سوسائٹی میں جاری کرنا مقصود تھا جس کے مالداروں سے زکوٰۃ جاری ہو، جس کا بیت المال ہر حاجت مند کی امداد کے لیے کھلا ہو، جس کی ہر بستی پر مسافروں کی تین دن ضیافت لازم کی گئی ہو، جس کے نظامِ شریعت میں سب لوگوں کے لیے بالکل یکساں حوقق اور برابر کے مواقع ہوں، جس کے معاشی نظام میں طبقوں کی اجارہ داری کے لیے کوئی جگہ نہ ہو اور جائز کسب معاش کے دروازے سب کے لیے کھلے ہوں، جس کے نظامِ تعلیم و تربیت نے ملک کے عام افراد میں خدا کا خوف اور اس کی رضا کا شوق پیدا کر دیا ہو، جس کے اخلاقی ماحول میں فیاضی، مصیبت زدوں کی دست گیری، حاجت مندوں کی اعانت اور گرتوں کو سہارا دینے کا عام چرچا ہو اور جس کے بچے بچے کو یہ سبق دیا گیا ہو کہ تو مومن نہیں ہے اگر تیرا ہمسایہ بھوکا ہو اور تو خود پیٹ بھر کر کھانا کھا بیٹھے۔ یہ حکم آپ کی موجودہ سوسائٹی کے لیے نہیں دیا گیا تھا جس میں کوئی شخص کسی کو قرض بھی سود کے بغیر نہیں دیتا۔ جس میں بیت المال کی جگہ بنک اور انشورنس کمپنی ہے، جس میں حاجت مند کے لیے مدد کو بڑھنے والے ہاتھ کی جگہ دھتکار اور پھٹکار ہے، جس کا اخلاقی نقطۂ نظر یہ ہے کہ ایک شخص کی کمائی میں دوسروں کا کوئی حصہ نہیں بلکہ ہر شخص اپنی کفالت کا خود ذمہ دار ہے، جس کا معاشرتی نظام بعض خاص طبقوں کو مخصوص امتیازی حقوق دیتا ہے، جس کا معاشی نظام چند خوص نصیب اور چالاک لوگوں کو ہر طرف سے دولت سمیٹ لینے کا موقع دیتا ہے اور جس کا سیاسی نظام اپنے قوانین کے ذریعہ سے ان کے مفاد کی حفاظت کرتا ہے۔ ایسی سوسائٹی میں تو چور کا ہاتھ کاٹنا کیا معنی، شاید اکثر حالات میں تو اس کو سرے سے کوئی سزا دینا ہی درست نہیں ہے۔ کیونکہ اس قسم کی ایک سوسائٹی میں چوری کو جرم قرار دینا دراصل یہ معنی رکھتا ہے کہ خود غرض اور حرام خور لوگوں کے مال کی حفاظت پیش نظر ہے۔ برعکس اس کے اسلام وہ سوسائٹی پیدا کرتا ہے جس میں کسی شخص کے لیے چوری پر مجبور ہونے کا کوئی موقع نہ رہے، ہر ضرورت مند انسان کی جائز ضروریات پوری کرنے کے لیے لوگ خود ہی رضا کارانہ طور پر آمادہ ہوں اور حکومت کی طرف سے بھی اس کی دستگیری کا پورا انتظام ہو۔ پھر جو شخص اس کے باوجود چوری کرے اس کے لیے اسلامی قانون ہاتھ کاٹنے کی عبرتناک سزا تجویز کرتا ہے، کیونکہ ایسا شخص ایک شری، عادل اور فیاض سوسائٹی میں رہنے کے قابل نہیں ہے۔
اسی طرح اسلامی قانون تعزیرات زنا پر سو کوڑے مارتا ہے اور شادی شدہ زنا کار کو سنگسار کر دیتا ہے۔ مگر یہ کس سوسائٹی میں؟ اس میں جس کے پورے نظام تمدن کو شہوت انگیز اسباب سے خالی کیا گیا ہو، جس میں عورتوں اور مردوں کی مخلوط معاشرت نہ ہو، جس میں بنی سنوری عورتوں کا منظر عام پر آنا بند ہو، جس میں نکاح کو نہایت آسان کر دیا گیا ہو، جس میں نیکی اور تقویٰ اور پاکیزگیٔ اخلاق کا عام چرچا ہو اور جس کے ماحول میں خدا کی یاد ہر وقت تازہ ہوتی رہتی ہو۔ یہ حکم اس گندی سوسائٹی کے لیے نہیں ہے جس میں ہر طرف جنسی جذبات کو بھڑکانے کے اسباب پھیلے ہوئے ہیں، گلی گلی اور گھر گھر فحش گیت بج رہے ہیں، جگہ جگہ فلم اسٹاروں کی تصویریں لٹکی ہوئی ہیں، شہر شہر اور قصبے قصبے سنیما درسِ عشق دے رہے ہیں، نہایت گندہ لٹریچر آزادی کے ساتھ شائع ہو رہا ہے، بنی سنوری خواتین کھلے بندوں پھر رہی ہیں، زندگی کے ہر شعبہ میں جنسی اختلاط کے مواقع بڑھ رہے ہیں اور نظامِ معاشرت نے اپنے بیہودہ رواجوں سے نکاح کو بہت مشکل بنا دیا ہے۔ ظاہر ہے کہ ایسی سوسائٹی میں تو زنا کرنے والے کو سزا دینے کے بجائے زنا سے پرہیز کرنے والے کو انعام یا کم از کم خان بہادری کا خطاب ملنا چاہیے۔

شیئر کریں