پھر زندگی کے پورے دائرے میں ہمیں ’’کیا ہونا چاہیے‘‘ کے سوال کا جو جواب دیتے ہیں وہ دراصل ایک دوسرے سوال یعنی ’’کیوں ہونا چاہیے‘‘ کے جواب سے ماخوذ ہوتا ہے۔ دوسرے الفاظ میں یوں سمجھیے کہ ’’کیا ہونا چاہیے‘‘ کے متعلق ہمارے تمام جوابات دراصل ان نظریات پر مبنی ہوتے ہیں جو ہم نے انسانی زندگی اور اس کے خیر و شر اور اس کے حق و باطل اور صحیح غلط کے بارے میں قائم یا اختیار کیے ہیں اور ان نظریات کی نوعیت متعین کرنے میں اس ماخذ یا ان مآخذ کا بہت بڑا دخل، بلکہ اصلی فیصلہ کُن اثر ہوتا ہے جہاں سے ہم نے ان نظریات کو اخذ کیا ہے۔ دنیا میں مختلف انسانی گروہوں کے قوانین ا اختلاف اسی وجہ سے ہے کہ انسانی زندگی کے متعلق ان کے نظریات ایک ماخذ سے لیے ہوئے نہیں ہیں بلکہ ان کے مآخذ ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ اس اختلاف کے باعث ان کے نظریے مختلف ہوئے، ان کے اختلاف نے زندگی کی اسکیمیں مختلف کر دیں اور پھر ان اسکیموں کے جو حصے قانون سے متعلق ہیں وہ بھی لازماً مختلف ہو کر رہے۔ اب یہ کیسے ممکن ہے کہ ہم زندگی کی کسی خاص اسکیم کے بنیادی نظریات اور ان کے مآخذ اور ان سے وجود میں آنے والے پورے نظامِ حیات کو سمجھے بغیر صرف اس کے قانونی حصہ کے متعلق کوئی رائے قائم کرسکیں اور وہ بھی اس قانونی حصہ کا تفصیلی مطالعہ کرکے نہیں بلکہ اس کے پہلوئوں کے بارے میں چند اُڑتی ہوئی خبریں سن کر!
میں یہاں تقابلی مطالعے (Comparative study) کا ارادہ نہیں رکھتا، اگرچہ بات پوری طرح تو اسی وقت سمجھ میں آسکتی ہے جب مغربی نظامِ زندگی کو جس کا قانون آپ پڑھتے اور اپنے ملک میں جاری کرتے ہیں، اسلامی نظامِ زندگی ے بالمقابل رکھ کر دیکھا جائے کہ ان کے درمیان یا اختلاف ہے اور اس اختلاف نے کیوں ان کے قوانین کو مختلف کر دیا ہے۔ لیکن اس بحث سے گفتگو بہت طویل ہو جائے گی، اس لیے میں صرف اسلامی نظامِ زندگی کی تشریح پر اکتفا کروں گا۔