Search
Close this search box.

فہرست موضوعات

اسلامی حکومت کس طرح قائم ہوتی ہے؟
نظامِ حکومت کا طبعی اِرتقا
اصولی حکومت
خلافتِ الٰہیہ
اسلامی انقلاب کی سبیل
خام خیالیاں
اِسلامی تحریک کا مخصوص طریقِ کار

اسلامی حکومت کس طرح قائم ہوتی ہے؟

اس ویب سائٹ پر آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ اب آپ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمتہ اللہ علیہ کی کتابوں کو ’’پی ڈی ایف ‘‘ کے ساتھ ساتھ ’’یونی کوڈ ورژن‘‘ میں بھی پڑھ سکتے ہیں۔کتابوں کی دستیابی کے حوالے سے ہم ’’اسلامک پبلی کیشنز(پرائیوٹ) لمیٹڈ، لاہور‘‘، کے شکر گزار ہیں کہ اُنھوں نے اس کارِ خیر تک رسائی دی۔ اس صفحے پر آپ متعلقہ کتاب PDF اور Unicode میں ملاحظہ کیجیے۔

نظامِ حکومت کا طبعی اِرتقا

اہل علم کے اس مجمع میں مجھے اس حقیقت کی توضیح پر زیادہ وقت صرف کرنے کی ضرورت نہیں ہے کہ حکومت خواہ کسی نوعیت کی ہو، مصنوعی طریقہ سے نہیں بنا کرتی۔ وہ کوئی ایسی چیز نہیں ہے کہ کہیں وہ بن کر تیار ہو اور پھر ادھر سے لاکر اسے کسی جگہ جما دیا جائے۔ اس کی پیدائش تو ایک سوسائٹی کے اخلاقی، نفسیاتی تمدنی اور تاریخی اسباب کے تعامل سے طبعی طور پر ہوتی ہے۔ اس کے لیے کچھ ابتدائی لوازم (prerequisites) کچھ اجتماعی محرکات، کچھ فطری مقتضیات ہوتے ہیں جن کے فراہم ہونے اور زور کرنے سے وہ وجود میں آتی ہے۔ جس طرح منطق میں آپ دیکھتے ہیں کہ نتیجہ ہمیشہ مقدمات (premises)کی ترتیب ہی سے برآمد ہوتا ہے۔ جس طرح علم الکیمیا میں آپ دیکھتے ہیں کہ ایک کیمیائی مرکب ہمیشہ کیمیاوی کشش رکھنے والے اجزا کے مخصوص طریقہ پر ملنے ہی سے برآمد ہوا کرتا ہے، اسی طرح اجتماعیات میں بھی یہ حقیقت ناقابلِ انکار ہے کہ ایک حکومت صرف ان حالات کے اقتضا کا نتیجہ ہوتی ہے جو کسی سوسائٹی میں بہم پہنچ گئے ہوں۔ پھر حکومت کی نوعیت کا تعین بھی بالکلیہ ان حالات کی کیفیت پر منحصر ہوتا ہے جو اس کی پیدائش کے مقتضی ہوتے ہیں۔ جس طرح یہ ممکن نہیں ہے کہ مقدمات کسی نوعیت کے ہوں اور ان کی ترتیب سے نتیجہ کچھ اور نکل آئے، کیمیاوی اجزا کسی خاصیت کے ہوں اور انھیں ملانے سے مرکب کسی اور قسم کا بن جائے، درخت لیموں کا لگایا جائے اور نشوونما پاکر وہ پھل آم دینے لگے، اسی طرح یہ بھی ممکن نہیں ہے کہ اسباب ایک خاص نوعیت کی حکومت کے فراہم ہوں، ان کے مل کر کام کرنے کا ڈھنگ بھی اسی نوعیت کی حکومت کی نشوونما کے لیے مناسب ہو، مگر ارتقائی مراحل سے گزر کر جب وہ تکمیل کے قریب پہنچے تو انھی اسباب اور اسی عمل کے نتیجے میں بالکل ایک دوسری ہی حکومت بن جائے۔
یہ گمان نہ کیجیے کہ میں یہاں جبریّت (determinism)کو دخل دے رہا ہوں اور انسانی ارادہ و اختیار کی نفی کر رہا ہوں۔ بلاشبہ حکومت کی نوعیّت متعین کرنے میں افراد اور جماعتوں کے ارادہ و عمل کا بہت بڑا حصہ ہے۔ مگر میں دراصل یہ ثابت کر رہا ہوں کہ جس نوعیت کا بھی نظام حکومت پیدا کرنا مقصود ہو اسی کے مزاج اور اسی کی فطرت کے مناسب اسباب فراہم کرنا اور اسی کی طرف لے جانے والا طرزِ عمل اختیار کرنا بہرحال ناگزیر ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ ویسی ہی تحریک اٹھے، اسی قسم کے انفرادی کیریکٹر تیار ہوں، اسی طرح کا اجتماعی اخلاق بنے، اسی طرز کے کارکن تربیت کیے جائیں، اسی ڈھنگ کی لیڈر شپ ہو اور اسی کیفیت کا اجتماعی عمل ہو جس کا اقتضا اس خاص نظامِ حکومت کی نوعیت فطرتاً کرتی ہے جسے ہم بنانا چاہتے ہیں۔ یہ سارے اسباب و عوامل جب بہم ہوتے ہیں اور جب ایک طویل مدت تک جدوجہد سے ان کے اندر اتنی طاقت پیدا ہو جاتی ہے کہ ان کی تیار کی ہوئی سوسائٹی میں کسی دوسری نوعیت کے نظامِ حکومت کا جینا دشوار ہو جاتا ہے تب ایک طبیعی نتیجہ کے طور پر وہ خاص نظام حکومت ابھر آتا ہے جس کے لیے ان طاقت وَر اسباب نے جدوجہد کی ہوتی ہے۔ بالکل اسی طرح جس طرح کہ ایک بیج سے جب درخت پیدا ہوتا ہے، اور اپنے زور میں بڑھتا چلا جاتا ہے تو نشوونما کی ایک خاص حد پر پہنچ کر اس میں وہی پھل آنا شروع ہو جاتے ہیں جن کے لیے اس کی فطری ساخت زور کر رہی تھی۔ اس حقیقت پر جب آپ غور کریں گے تو آپ کو یہ تسلیم کرنے میں ذرا تامل نہ ہوگا کہ جہاں تحریک لیڈر شپ، انفرادی سیرت، اجتماعی اخلاق اور حکمتِ عملی، ہر ایک چیز ایک نوعیت کا نظامِ حکومت پیدا کرنے کے لیے مناسب و موزوں ہو اور امید یہ کی جائے کہ ان کے نتیجہ میں بالکل ہی ایک دوسری نوعیت کا نظام پیدا ہوگا، وہاں بے شعوری، خام خیالی اور خام کاری کے سوا اور کوئی چیز کام نہیں کر رہی ہے۔

شیئر کریں