اول تو یہ اقتدار، اور ایسا مطلق اقتدار وہ چیز ہے جس کے نشے میں بہک کر ظالم و جابر بننے سے رک جانا انسان کے لیے بہت مشکل ہے، خصوصاً جبکہ وہ اپنے اوپر کسی خدا کا اور اس کے سامنے جواب دہی کا اعتقاد بھی نہ رکھتا ہو۔ تاہم اگر یہ مان لیا جائے کہ ایسے اقتدارِ مطلق پر قابض ہونے کے بعد بھی یہ مختصر گروہ آپے سے باہر نہ ہوگا اور عدل و انصاف ہی کے ساتھ کام کرے گا، تب بھی ایسے ایک نظام میں افراد کے لیے اپنی شخصیت کو نشوونما دینے کا کوئی موقع نہیں ہوسکتا ۔ انسانی شخصیت اپنے ارتقاء کے لیے سب سے بڑھ کر جس چیز کی محتاج ہے وہ یہ ہے کہ اسے آزدی حاصل ہو، کچھ وسائلِ کار اس کے اپنے ہاتھ میں ہوں جنھیں وہ اپنے اختیار سے استعمال کرسکے، اور ان وسائل پر اپنے رجحان کے مطابق کام کر کے اپنی مخفی قوتوں کو ابھارے اور چمکائے۔ مگر اشتراکی نظام میں اس کا کوئی امکان نہیں۔ اس میں وسائل افراد کے اختیار میں نہیں رہتے بلکہ جماعت کی ہیئت انتظامیہ کے ہاتھوں میں چلے جاتے ہیں، اور وہ ہیئت انتظامیہ جماعتی مفاد کا جو تصور رکھتی ہے اسی کے مطابق ان وسائل کو استعمال کرتی ہے۔ افراد کے لیے اس کے سوا چارہ نہیں کہ اگر وہ ان وسائل سے استفادہ کرنا چاہیں تو اس نقشے کے مطابق کام کریں، بلکہ اسی نقشے کے مطابق اپنے آپ کو ڈھالے جانے کے لیے ان منتظمین کے سپرد کر دیں، جو انہوں نے جماعتی مفاد کے لیے تجویز کیا ہے۔ یہ چیز عملاً سوسائٹی کے تمام افراد کو چند انسانوں کے قبضے میں اس طرح دے دیتی ہے کہ گویا وہ سب بے روح موادِ خام ہیں۔ اور جیسے چمڑے کے جوتے اور لوہے کے پرزے بنائے جاتے ہیں اس طرح وہ چند انسان مختار ہیں کہ ان سب سے انسانوں کو اپنے نقشہ کے مطابق ڈھالیں اور بنائیں۔