حضرات! اس حقیقت کو فراموش نہ کیجئے کہ سنت اللہ یہ نہیں ہے کہ ہم دین کو چاہیں یا نہ چاہیں‘ اللہ تعالیٰ اپنے زور سے اس کو زمین میں جاری و قائم کر دے۔ اقامت دین تو بندگی کے کاموں میں سے ہے‘ اور بندگی بندوں کاکام ہے۔ اللہ تعالیٰ کا کام نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نہ ہماری طرف سے نماز پڑھے گا‘ نہ روزہ رکھے گا‘ نہ زکوٰۃ دے گا‘ نہ حج کرے گا اور نہ کوئی حکم بجا لائے گا۔ یہ سارے کام ہمارے کرنے کے ہیں۔ البتہ یہ ضروری ہے کہ اگر ہم ان کاموں کے کرنے کا عزم بالجزم کرلیں گے اور ان کی اقامت کی راہ میں اپنی عزیز سے عزیز چیزوں کو قربان کرنے کے لیے اٹھ کھڑے ہوں گے تو خدا اور اس کے فرشتوں کی مدد ہمارے ساتھ ہوگی۔ پس آپ اس بات کا ہرگز انتظار نہ کیجئے کہ اللہ تعالیٰ خود توحید کا پرچم سارے عالم میں لہرا دے گا۔ اس کے لیے تو بہرحال ہم ہی کو سردھڑ کی بازی لگانی پڑے گی اور اپنے سرو سینہ کو زخمی کرانا ہو گا۔ ہاں جب اس راہ میں ہم وہ سب کچھ کھودیں گے جو ہمارے پاس ہے تو ہمیں وہ سب کچھ مل جائے گا جو اس راہ کے خطرات برداشت کرنے والوں کے لیے اللہ کے پاس ہے اور وہ بڑی چیز ہے۔
اقامت حق کی راہ کا سب سے پہلا کام یہ ہے کہ اپنے آپ سے لڑ کر پہلے اپنے اوپر اللہ کی اطاعت کو لازم کیجے اور اپنے نفس کو اللہ کا فرماں بردار بنائیے‘ اللہ کی راہ میں وہی لوگ لڑ سکتے ہیں جو اس راہ میں اپنے نفس کو شکست دے چکے ہیں۔ یہ کام فارموں کے پر کر دینے سے نہیں ہوسکتا‘ اس کے لیے بڑی ریاضت اور نفس کشی کی ضرورت ہوگی۔ اپنی زندگی کا احتساب کرنا اور اپنے اوپر اللہ کے دین کو قائم کرنا کوئی سہل کام نہیں ہے‘ سب سے زیادہ انسان خود اپنے نفس سے شکست کھاتا ہے‘ اپنے اندر کا حریف آدمی کو بہت جلد چت کرلیتا ہے۔ اس وجہ سے سب سے پہلے اس محاذ پر فتح پالینا ضروری ہے۔
جو نجاستیں آپ نے از خود اپنے اوپر لادلی ہیں‘ ان کو فوراً دور کر دیجئے اور جو چیزیں آپ کی مرضی کے خلاف مسلط ہوگئی ہیں‘ ان کو دور کرنے کے لیے اجتماعی جدوجہد کا سامان کیجئے۔ اگر آپ کی زندگی صحیح نہج پر آگئی اور آپ نے اپنے اوپر دین کو قائم کرلیا تو آپ کی آنکھوں کے اشاروں سے وہ کام ہوں گے جو بڑے بڑے مقالوں سے نہیں ہوسکتے۔ آپ کو جو کچھ کہنا ہے‘ عمل کی زبان سے کہنا ہے‘ منہ کی زبان سے بہت کم کہنا ہے‘ آپ اپنے مقصد کے عملی داعی اور ترجمان بنیں۔
اس بات کو خوف یاد رکھئے کہ ہمارے لیے یہ ذرا بھی فخر کی بات نہیں ہے کہ ہم اس مقصد کے لیے اٹھے ہیں۔ ہمیں اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا چاہئے کہ اس نے ہمارے دلوں میں اپنی بندگی کا نیک ارادہ ڈالا اور اس پر چلنے کی توفیق عطا فرمائی۔ فخر و غرور سے بہت ڈرنا چاہئے اور ہر وقت اپنے رب سے چمٹے رہنا چاہئے۔ ہر عزم‘ خواہ حق ہو یا باطل امتحان کی کسوٹی پر پرکھا جاتا ہے۔ دیر یا سویر آپ کے ارادے کی پختگی بھی آزمائی جائے گی جس کام کو آپ لے کر اٹھے ہیں اس آسمان کے نیچے سب سے مشکل کام یہی ہے۔ اس کام میں کج دلے اور خام آدمیوں کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔ اس راہ میں کامیابیوں سے پہلے صعوبتوں کے لیے تیار رہنا چاہئے۔ اور تحسین و آفرین سے زیادہ ملامت کے تیروں کے لیے سینہ سپر رہنا چاہئے۔ تحسین اس راہ میں صرف اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوتی ہے‘ اور مبارک ہیں وہ جو اللہ تعالیٰ کی تحسین کے سزاوار ٹھیریں۔
اس امر سے واقعی بھی کبھی غفلت نہ ہو کہ ہمارے اور دوسرے بھائیوں کے درمیان فرق کفر و اسلام کا نہیں بلکہ پورے اور جزئی حق اور طریق کار کا فرق ہے۔ یہ فرق کچھ عرصے تک باقی رہے گا۔ بہت ممکن ہے کہ اس کے سبب سے کچھ غلط فہمیاں اور بدگمانیاں بھی پیدا ہوتی رہیں۔ لیکن اگر ہم مضبوطی کے ساتھ اپنے مقصد کے ساتھ اپنے مقصد پر قائم رہے اور ضمنی بحثوں میں نہ الجھے تو یہ بدگمانیاں آپ سے آپ رفع ہو جائیں گی۔ نفس انسانی کی یہ بہت بڑی کمزوری ہے کہ وہ اپنا صحیح جائزہ لینے میں ہمیشہ مداہنت کرتا ہے اور اپنے آپ کو زیادہ سے زیادہ الائونس کا مستحق سمجھتا ہے۔ اس وجہ سے ہمارا احتساب اور بے لاگ تبصرہ لوگوں کو کھلتا ہے‘ لیکن سچائی بہرحال سچائی ہے۔ اگر صبح طلوع ہو چکی ہے تو سب کا پردہ زیادہ دیر تک قائم نہیں رکھا جاسکتا۔ آنکھیں کھلیں گی اور حقائق نظر آنے لگیں گے اور جو لوگ بدگمانیوں کی بیماری میں مبتلا رہنے کے خواہش مند نہیں ہیں۔ وہ انشاء اللہ ہمارے رفیق کار بنیں گے۔ اتنے قلیل عرصہ میں بھی جو کچھ ہو چکا ہے اس میں ہمارے لیے مایوسی اور دل گرفتگی کی کوئی وجہ نہیں ہیں۔ ہم نے اپنے خلوص کی نہایت حقیر متاع اس راہ میں پیش کی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے اس کے صلے میں کام کی بہت سی راہیں کھول دیں۔ ہم کو جو استعداد آج حاصل ہے اگر ہم نے اس کو صحیح طور پر استعمال کیا تو انشاء اللہ اس سے بڑے کاموں کی راہیں کھلیں گی۔ جو ایک پیسے میں اپنے آپ کو امین ثابت کر دیتا ہے وہ مستحق ٹھیرتا ہے کہ اس کو ایک لاکھ کی امانت سونپی جائے۔