Search
Close this search box.

فہرست موضوعات

دیباچہ
مقدمہ طبع اوّل
تعارف مقصد
تحریک اِسلامی کا تنزل
ضمیمہ
نسلی مسلمانوں کے لیے دوراہیں عمل‘ خواہ انفرادی ہویااجتماعی‘ بہرحال اس کی صحت کے لیے دو چیزیں شرط لازم ہیں:
اقلیت واکثریت
شکایات ناظرین’’ترجمان القرآن‘‘میں سے ایک صاحب لکھتے ہیں:
راہ رَوپِشت بمنزل
اسلام کی دعوت اور مسلمان کا نصب العین
اصلی مسلمانوں کے لیے ایک ہی راہِ عمل
اسلام کی راہِ راست اور اس سے انحراف کی راہیں
۱۔اسلامی نصب العین
۲- اس نصب العین تک پہنچنے کا سیدھا راستہ
۳-مشکلات
۴-انحراف کی راہیں
۵- منحرف راستوں کی غلطی
پاکستانی خیال کے لوگ
۶-مشکلات کا جائزہ
اسلامی حکومت کس طرح قائم ہوتی ہے؟
استدراک
ایک صالح جماعت کی ضرورت
مطالبۂ پاکستان کو یہود کے مطالبہ ’’قومی وطن‘‘ سے تشبیہ دینا غلط ہے
مسلم لیگ سے اختلاف کی نوعیت
وقت کے سیاسی مسائل میں جماعت ِاسلامی کا مسلک
نظام کفر کی قانون ساز مجلس میں مسلمانوں کی شرکت کا مسئلہ
مجالس قانون ساز کی رکنیت شرعی نقطۂ نظر سے
پُر امن اِنقلاب کا راستہ
۱۹۴۶ء کے انتخابات اور جماعت ِاسلامی
جواب
تقسیم سے قبل ہندستان کے مسلمانوں کو آخری مشورہ (یہ وہ تقریر ہے‘ جو ۲۶اپریل ۱۹۴۷ء کو جماعت ِاسلامی کے اجلاس منعقدہ مدراس میں کی گئی تھی)
صوبہ سرحد کے ریفرنڈم میں جماعت ِاسلامی کا مسلک
تقسیم ہند‘ حالات پر تبصرہ
تقسیم کے وقت مسلمانوں کی حالت کا جائزہ
تقسیم کے بعد سامنے آنے والے مسائل
کیا پاکستان کو ایک مذہبی ریاست ہونا چاہئے؟
پاکستان میں اسلامی قانون کیوں نہیں نافذ ہوسکتا؟
اسلامی نظامِ زندگی کا مآخذ
پاکستان میں اسلامی قانون کس طرح نافذ ہوسکتا ہے؟
مطالبہ نظام اسلامی

تحریک آزادی ہند اور مسلمان (حصہ دوم)

اس ویب سائٹ پر آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ اب آپ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمتہ اللہ علیہ کی کتابوں کو ’’پی ڈی ایف ‘‘ کے ساتھ ساتھ ’’یونی کوڈ ورژن‘‘ میں بھی پڑھ سکتے ہیں۔کتابوں کی دستیابی کے حوالے سے ہم ’’اسلامک پبلی کیشنز(پرائیوٹ) لمیٹڈ، لاہور‘‘، کے شکر گزار ہیں کہ اُنھوں نے اس کارِ خیر تک رسائی دی۔ اس صفحے پر آپ متعلقہ کتاب PDF اور Unicode میں ملاحظہ کیجیے۔

نسلی مسلمانوں کے لیے دوراہیں عمل‘ خواہ انفرادی ہویااجتماعی‘ بہرحال اس کی صحت کے لیے دو چیزیں شرط لازم ہیں:

پہلی شرط خود شناسی ہے۔ آپ کو سب سے پہلے یہ جاننا چاہئے کہ آپ کیا ہیں‘ اور جو کچھ آپ ہیں اس کے ہونے کے مقتضیات کیا ہیں۔ پھر اگر اس تحقیق سے آپ پر کوئی ایسی حقیقت منکشف ہو‘ جس سے آپ راضی نہ ہوں‘ یعنی آپ کی یہ خواہش ہوکہ جو کچھ آپ ہیں وہ نہ رہیں‘ بلکہ کچھ اور ہوجائیں‘ تب بھی آپ کے لیے لازم ہے‘ کہ اس ’’کچھ اور‘‘ کا تعین کریں‘ اور جو کچھ بھی آپ ہونا چاہتے ہیں اس کے مقتضیات کو اچھی طرح سمجھ لیں۔
دوسری شرط قوّتِ فیصلہ اور قوّتِ ارادی ہے۔ آپ کو بہرحال یہ فیصلہ کرنا چاہئے کہ جو کچھ آپ ہیں وہی رہنا چاہتے ہیں‘ یا کچھ اور بننے کے خواہش مند ہیں۔ پھر اس فیصلہ کی رُو سے جو کچھ بھی آپ ہونا چاہیں‘ اس ہونے کے مقتضیات کا باراٹھانے کے لیے آپ کو تیار رہنا چاہئے۔ اس سے بڑھ کر خطر ناک بات کسی شخص یا گروہ کے لیے اور کوئی نہیں ہوسکتی کہ وہ ایک حیثیت سے محبت اور دوسری حیثیت کا لالچ رکھتا ہو‘ کبھی اس حیثیت سے چمٹ جائے‘ اور کبھی اس حیثیت کی طرف لپکے۔ مگر دونوں میں سے کسی ایک کے مقتضیات بھی پورے کرنے کے لیے تیار نہ ہو۔ اس تَلَوّن اور تردّد کا لازمی نتیجہ خام کاری ہے۔ جو شخص یا گروہ اس حالت میں مبتلا ہووہ بے وزن ہوکر رہ جاتا ہے۔ اس کے لیے کوئی ثبات اور قرار نہیں ہوتا۔ اس کی حالت ایسی ہوجاتی ہے جیسے ایک پتہ جو زمین پر پڑا ہو‘ اور ہوائوں کے جھونکے اسے اڑائے اڑائے لیے پھریں۔
مسلمانوں کے افراد اور ان کی جماعتوں کے اعمال میں تلوُّن اور خام کاری کی جو کیفیات ایک مدّت سے نمایاں ہیں‘ اور اب نمایاں تر ہوگئی ہیں ان کے اسباب پر میں نے جتنا زیادہ غور کیا اتنا ہی زیادہ مجھے یقین ہوتا چلا گیا کہ تمام خرابیوں کی جڑ انہی دو چیزوں کا فقدان ہے‘ کہیں خود شناسی مفقود ہے‘ اور کہیں قوّتِ فیصلہ وقوّتِ ارادی۔
ایک معتد بہ جماعت ہم میں ایسی ہے‘ جو سرے سے اپنی خودی کا احساس ہی نہیں رکھتی۔ اسے یہ معلوم ہی نہیں کہ مسلمان ہونے کے معنی کیا ہیں‘ اور اس کے مقتضیات کیا ہیں۔ پھر بھلا اس سے یہ اُمید کیسے کی جا سکتی ہے‘ کہ اپنے انفرادی یا اجتماعی عمل کے لیے وہ کوئی ایسا راستہ منتخب کرے گی ‘جو مسلمان کو کرنا چاہیے؟
ایک دوسری جماعت‘ اور وہ بھی معتدبہ‘ ایسی ہے‘ جو شعورِ ذات تو رکھتی ہے‘ مگر قوّتِ فیصلہ اور قوّتِ ارادی نہیں رکھتی۔ یہ لوگ جانتے ہیں‘ کہ ہم کیا ہیں‘ اور انہیں یہ بھی معلوم ہے‘ کہ جو کچھ ہم ہیں اس کے ہونے کے مقتضیات کیا ہیں۔ لیکن اس علم نے ان میں محبت اور خوف کے دو گُونہ جذبات پیدا کر دئیے ہیں۔ جو کچھ یہ ہیں وہی رہنا چاہتے ہیں‘ کیونکہ انہیں اپنی حیثیت سے محبت ہے۔ لیکن جو کچھ یہ ہیں اس ہونے کے مقتضیات کی دہشت ان پر طاری ہوگئی ہے۔ جانتے ہیں‘ کہ مسلمان ہونا کھیل نہیں ہے۔ اس کے ساتھ ذمّہ داریوں کا ایک بھاری بوجھ آتا ہے۔ اس کے ساتھ پابندیاں ہیں‘ ایثار اور قربانی ہے جہاد اور مشقت ہے‘ ایک ایسا سخت مشن ہے‘ جس میں دنیا بھر سے لڑائی ہے‘ اور اس لڑائی کے معاوضہ میں خدا کی خوشنودی کے سوا کسی چیز کی طلب بھی جائز نہیں۔ اس ہولناک چیز کا خوف ان کے دلوں پر ایسا بیٹھا ہوا ہے‘ کہ یہ مسلمان ہونے کے مقتضیات سے کترا کر بھاگتے ہیں‘ اور کوئی ایسی حیثیت اختیار کرنا چاہتے ہیں‘ جس میں آسانی ہو‘ مگر انہیں خود بھی معلوم ہے‘ کہ مسلمان ہونے کی حیثیت باقی رکھ کر یہ کوئی دوسری حیثیت اختیار نہیں کر سکتے۔ اس لیے ان کی قوّت فیصلہ جواب دے گئی ہے۔ یہ اسلام اور کفر کے درمیان مترّدد ہوکر رہ گئے ہیں۔
اسلام سے چمٹنا چاہتے ہیں‘ مگر اس کے مقتضیات کا خوف ناک چہرہ دیکھ کر دور بھاگتے ہیں۔ کفر کی آسائشوں اور لذّتوں اور فائدوں کو دیکھ کر اس کی طرف لپکتے ہیں‘ مگر وہ کہتا ہے‘ کہ میری طرف آتے ہو‘ تو پورے کافر بن کر آئو اور میرے مقتضیات پورے کرو۔ یہ اس کے لیے بھی تیار نہیں۔لہٰذا اس سے بھی دوربھاگتے ہیں۔ اب ان کی حالت ایک ایسے شخص کی سی ہوکر رہی گئی ہے‘ جو ہر طرف آسائشیں اور فائدے ڈھونڈتا ہو‘ مگر کسی طرف کی بھی ذمّہ داریاں قبول کرنے کے لیے تیار نہ ہو۔
مسلمانوں کی جماعت زیادہ تر انہی دو گروہوں پر مشتمل ہے‘ اس لیے عموماً جو اجتماعی تحریکیں مسلمانوں میں پھیل رہی ہیں وہ اسلامی نقطۂ نظر سے غلط ہیں۔ ان کے مقاصد میں غلطی ہے۔ ان کے طریق کار میں غلطی ہے‘ ان کی قیادت میں غلطی ہے‘ اور ان کی روحی کیفیت میں غلطی ہے۔ بہت سے لوگوں کو بے شعوری کی وجہ سے اس غلطی کا احساس ہی نہیں ہوتا اس لیے وہ جوش وخروش کے ساتھ ان تحریکوں کو چلاتے ہیں۔ ان کے نزدیک کسی تحریک کے درست ہونے کے لیے بس یہی بات کافی ہے‘ کہ اس میں ’’مسلمانوں کا فائد ہ‘‘ ہے۔يَحْسَبُوْنَ اَنَّہُمْ يُحْسِنُوْنَ صُنْعًاo{ FR 2496 } اور بہت سے لوگ جن کو غلطی کا احساس ہے وہ اپنے نفس کی چھپی ہوئی کمزوری کے باعث ان تحریکوں کا ساتھ دیتے ہیں۔ کیونکہ ان کے نفس نے انہیں یہ دھوکا دے رکھا ہے‘ کہ اسلام اور جاہلیت کے درمیان ایک بین بین راہ چلنے ہی میں سلامتی ہے۔ مگر حقیقت یہ ہے‘ کہ اسلام اور جاہلیت کے درمیان کوئی بیچ کی راہ نہیں ہے‘ اور ایسی کسی راہ پر چل کر مسلمان کہیں کے بھی نہیں رہتے۔ لہٰذا مسلمانوں کی حقیقی خیر خواہی کا تقاضایہ ہے‘ کہ ان کے سامنے واضح طور پر اسلام اور جاہلیت کی راہوں کو ان کے مقتضیات اور ان کے نتائج کے ساتھ کھول کر پیش کر دیا جائے‘ اور انہیں مشورہ دیا جائے کہ ان میں سے کسی ایک کو اختیار کر لیں۔
میں نے ترجمان القرآن میں ’’قوم‘‘ اور ’’جماعت‘‘ کے اصولی فرق کی بحث اسی توضیع کے لیے چھیڑی تھی۔{ FR 2497 } اس بحث میں میں نے قرآن اور حدیث کی شہادت سے یہ ثابت کیا تھا‘ کہ ’’مسلمان‘‘ کی اصطلاح جس گروہ کے لیے وضع کی گئی ہے‘ وہ دراصل ایک ’’قوم‘‘ نہیں ہے‘ بلکہ ایک ’’جماعت‘‘ ہے۔ اب میں ذرا تفصیل کے ساتھ یہ بتانا چاہتا ہوں کہ ’’قوم‘‘ ہونے اور ’’جماعت‘‘ ہونے کے مقتضیات ونتائج میں کیا فرق ہے۔ مجھے اور کسی شخص کو بھی یہ حق نہیں ہے‘ کہ آپ کو قوم کے بجائے جماعت بننے پر مجبور کرے۔ آپ کو پورا اختیار ہے‘ کہ جو چاہیں بنیں۔ البتہ جو خدمت ہم انجام دے سکتے ہیں وہ یہ ہے‘ کہ آپ کے ذہن کی اُلجھن اور نظر کے دھند کو دور کر دیں‘ تاکہ آپ دونوں حیثیتوں کا صحیح موازنہ کر لیں‘ اور آپ پر یہ واضح ہوجائے کہ ان حیثیتوں کے جمع کرنے کی جو صورتیں آپ نکال رہے ہیں یہ اصولاً غلط اور نتائج کے اعتبار سے مہلک ہیں۔
ایک گروہ میں قومیّت کا احساس دراصل تاریخی اثرات اور تہذیبی وراثت کے تسلسل سے پیدا ہوتا ہے۔ یعنی جب کچھ لوگ ایک طویل مدّت تک ایک قسم کے اخلاقی تصوّرات اور ایک قسم کے معاشرتی طور طریقوں کے ساتھ باہم متفق اور دوسرے گروہوں سے ممتاز ہوکر زندگی بسر کرتے ہیں‘ اور ایک نسل کے بعد دوسری نسل اس ورثہ کو لے کر اپنے اندر مستحکم کرتی چلی جاتی ہے‘ تو ان میں اپنے مستقل اجتماعی وجود کا وہ احساس پیدا ہوتا جاتا ہے‘ جسے ’’قومیّت‘‘ سے تعبیر کیا گیا ہے۔ چند عادتیں اور رسمیں ہوتی ہیں‘ جن سے وہ مانوس ہوتے ہیں۔ چند تخیلات ہوتے ہیں‘ جن سے انہیں محبت ہوتی ہے‘ اور جن کی ترجمانی ان کا لٹریچر کیا کرتا ہے۔ انہی چیزوں کے مجموعہ کو ان کی قومی تہذیب کہا جاتا ہے۔ ان میں طبعاً یہ خواہش ہوتی ہے‘ کہ اس تہذیب یعنی اسلاف کے اس ورثہ کو باقی رکھیں اور اپنے اخلاف کے لیے اسے چھوڑ جائیں‘ تاکہ ان کی قومی زندگی کا تسلسل قائم رہے۔
اس معنی میں جو گروہ ایک قوم بن گیا ہواس میں قومیّت کا شعور پیدا ہونے کے بعد طبعی طور پر یہ خواہش ابھر آتی ہے‘ کہ اپنی اجتماعی زندگی کا ضبط اس کے اپنے ہاتھ میں ہو‘ اور کسی دوسرے گروہ کی مرضی اس پر مسلّط نہ ہونے پائے۔ یہ ایک قوم کا سیاسی مفاد ہے۔
اسی طرح وہ یہ بھی چاہتا ہے‘ کہ معیشت کے جو وسائل اس کے پاس ہیں ان کی حفاظت کرے‘ اور جو مزید وسائل حاصل ہوسکتے ہوں انہیں حاصل کرے‘ تاکہ اس کے افراد زیادہ سے زیادہ خوش حال ہوں۔ یہی چیز ہے جس کو قوم کے معاشی مفاد سے تعبیر کیا جاتا ہے۔
اس میں کسی کلام کی گنجائش نہیں کہ قومیّت کا یہ مفہوم جو اوپر بیان ہوا ہے اس کے لحاظ سے مسلمان صدیوں کے توارث کی بدولت ایک قوم بن چکے ہیں‘ اور اب دوسرے تمام گروہوں سے ممتاز وہ اپنا ایک مستقل اجتماعی وجود رکھتے ہیں۔ اس میں بھی کسی شبہہ کی گنجائش نہیں کہ دوسرے گروہوں کی ایک کثیر تعداد کے درمیان گھرے ہوئے ہونے کی وجہ سے ان کے سیاسی اور معاشی مفاد اور ان کی قومی تہذیب کے تحفظ کا سوال بھی پیدا ہوتا ہے‘ جس کی اہمیت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ مگر سوال یہ ہے‘ کہ کیا مسلمانوں کی اجتماعی حیثیت بس یہی ہے؟ کیا وہ اس کے سوا کچھ نہیں کہ دنیا کی بہت سی قوموں میں سے ایک قوم ہیں؟ کیا ان کی قومیّت کی حقیقت بس اتنی ہی ہے‘ کہ ایک گروہ نے نسلاً بعد نسل ایک طرح کی زندگی بسر کر کے اپنے اندر ’’قومیّت‘‘ پیدا کر لی ہے؟ کیا وہ تہذیب جسے یہ اسلامی تہذیب کہتے ہیں محض موروثی عادات ورسوم اور تاریخی تجارِب کا مجموعہ{ FR 2498 } ہے؟ کیا ان کے اصل قومی مسائل صرف یہی ہیں‘ کہ جس ورثہ کو انہوں نے اپنے باپ دادا سے پایا ہے اس کی حفاظت کریں‘ جن وسائلِ معیشت اور جن سیاسی اقتدارات پروہ ابھی تک قابض ہیں انہیں ہاتھ سے نہ جانے دیں‘ جن چیزوں کی انہیں اپنے گروہ کے افراد کی خوش حالی کے لیے ضرورت ہے ان کو حاصل کر لیں۔اور فی الجملہ ان کی اجتماعی زندگی کا ضبط ان کے اپنے ہی ہاتھ میں رہے؟
اگر یہی مسلمانوں کی قومیّت اور یہی ان کی تہذیب ہے‘ اور یہی ان کے قومی مسائل ہیں‘ تو بلا شبہ وہ سب قومی تحریکات درست ہیں‘ جو اس وقت ان میں چل رہی ہیں۔ اس صورت میں:
ان کے لیے یہ بالکل کافی ہے‘ کہ ان کی ایک لیگ ہو‘ جس میں وہ سب لوگ ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوجائیں‘ جو مسلمان کہلاتے ہیں‘ اور مسلمانوں کے نظامِ معاشرت سے وابستہ ہیں۔ انہی کے گروہ کے کچھ لوگ ان کے قائد ہوں‘ جن کے اشاروں پر یہ حرکت کریں‘ اور ان کی تمام جدوجہد کا مقصود صرف یہ ہوکہ جو کچھ ان کے ہاتھ میں ہے وہ جانے نہ پائے‘ اور جو کچھ مزید ہاتھ آسکتا ہووہ آجائے‘ قطع نظر اس سے کہ اسلام جس کے نام پر یہ اپنی قوم کو مسلمان کہتے ہیں‘ ان کو جائز سمجھتا ہویا نہ سمجھتا ہو۔ ان کے لیے تمام تر اہمیت صرف اسی چیز کی ہونی چاہئے کہ ملک کا نظم ونسق خواہ کسی نوعیت کا ہوبہرحال اس کے ضبط میں خود ان کے اپنے افراد کو کافی حصّہ ملے‘ تاکہ اپنے آبائی ورثہ (یعنی اپنی قومی تہذیب) کو وہ خود جس صورت میں بھی باقی رکھنا چاہیں رکھ سکیں اور جس قسم کے بھی فوائد ومنافع ملک کی آبادی میں تقسیم ہورہے ہوں ان میں سے ایک معتدبہ حصّہ ان کے افراد کو بھی مل جائے۔
ان کے لیے یہ بھی درست ہے‘ کہ موقع اور محل کو دیکھ کر یہ ملک کی جس پارٹی{ FR 2499 } کے ساتھ جن شرائط پر چاہیں معاملہ کر لیں‘ بشرطیکہ اس معاملہ میں ان کے اپنے گروہ کا مفاد متصوّر ہو۔ ایسے کسی معاملہ میں قومی غداری کا سوال صرف اس وقت پیدا ہوگا جب معاملہ جان بوجھ کر نقصان کے ساتھ کیا جائے‘ یا اس میں اپنی قوم کے سیاسی ومعاشی مفاد کو نظر انداز کر دیا جائے۔
ان کے لیے یہ بھی جائز ہے‘ کہ جس طرح دوسری قوموں میں قوم پرستی (nationalism)پیدا ہوتی ہے اسی طرح ان میں بھی ہو۔ یہ بھی اٹلی اور جرمنی اور جاپان کی طرح غلبہ اور تمکّن فی الارض کا مطالبہ کریں۔ ان کی تنظیم بھی فاشستی اصولوں پر کی جائے۔ یہ بھی انتخابِ طبیعی(natural selection)اور بقائے اصلح (survival of the fittestt)کے قانون کے مطابق اپنے آپ کو بھیڑئیے کی طرح ’’صالح‘‘ ثابت کریں‘ اور غیر صالح بکریوں کو ہضم کرنا شروع کر دیں۔ یہ بھی استعماری قوموں کے زمرے میں شامل ہوجائیں‘ جس طرح ممکن ہوزمین میں غلبہ حاصل کریں‘ اور اسی دنیا کی زندگی میں اسی زمین پر اپنے لیے جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتَھَا الْاَنْھَرُ کا لطف پیدا کرلیں۔
قومیّت کا یہ نظریہ اختیار کر لینے کے بعد آپ کے لیے یہ سب کچھ درست ہوجاتا ہے۔ مگر خوب جان رکھیے کہ اسلام کو اس قومیّت سے کوئی واسطہ نہیں ہے۔ اسلام کو نہ تو کسی نسلی گروہ سے دل چسپی ہے‘ نہ وہ کسی جماعت کی موروثی عادات اور رسوم سے لگائو رکھتا ہے‘ نہ وہ دنیا کے معاملات کو چند اشخاص یا مجموعہ اشخاص کی منفعت کے نقطۂ نظر سے دیکھتا ہے‘ نہ وہ اس لیے آیا ہے‘ کہ انسانیت جن گروہوں میں بٹی ہوئی ہے ان کے اندر اپنے نام سے ایک اور گروہ کا اضافہ کر دے‘ نہ وہ انسانی جماعتوں کو جانور بنانا چاہتا ہے‘ کہ ایک دوسرے کے بالمقابل تنازع للبقاء(struggle for existence)کے میدان میں اتریں اور انتخاب طبیعی کے امتحان میں شریک ہوں۔ یہ سب کچھ غیراسلامی ہے۔ لہٰذا اگر یہ آپ کی قومیّت اور یہ آپ کی قومی تہذیب ہے‘ اور یہ آپ کے قومی مقاصد ہیں‘ تو آپ اپنی قوم کا جو نام چاہیں تجویز فرما لیں۔ اسلام کا نام استعمال کرنے کا آپ کو حق نہیں ہے۔ کیونکہ اسلام آپ کی اس قومیّت اور قومی تہذیب سے تبری کرتا ہے‘ اور میں نہیں سمجھتا اسلام ہی کا نام استعمال کرنے پر آپ کو اصرار کیوں ہو؟’’مسلمان‘‘ کے معنی ومفہوم سے تو آپ کو کوئی بحث ہے ہی نہیں۔ آپ کو تو اپنی قومیّت کے لیے بس ایک نام چاہئے۔ سو اس غرض کے لیے آپ جو نام بھی وضع کر لیں گے وہ آپ کی مستقل اجتماعی حیثیت پر اسی طرح دلالت کرنے لگے گا‘ جس طرح اب لفظ’’مسلمان‘‘ کر رہا ہے۔ آخر اس نوع کی قومیّت میں کون سی خصوصیت ہے‘ جس کے لیے لفظ’’مسلمان‘‘ ہی استعمال کرنا ضروری ہو؟
اس نام کو بدل دینے کی ضرورت صرف اسی لیے نہیں ہے‘ کہ آپ کے یہ نظریات جن پر آپ اپنی قومیّت کی بنا رکھ رہے ہیں‘ اولاً اسلام کے خلاف ہیں‘ بلکہ اس کی ضرورت اس لیے بھی ہے‘ کہ ان نظریات کے ساتھ آپ جو کچھ کریں گے وہ اسلام کے لیے رسوائی وبدنامی کا موجب ہوگا۔ دنیا آپ کی حرکات کو دیکھ کر سمجھے گی کہ اسلام یہی کچھ سکھاتا ہوگا‘ اور یہ چیز اس کو اسلام سے اور زیادہ دور پھینکے گی۔ آپ اپنے ’’قومی مفاد‘‘ کی حفاظت کے لیے غیراسلامی فوج میں اپنا تناسب قائم رکھنے کی کوشش کریں گے‘ اور دنیا یہ سمجھے گی کہ شاید یہ اسلام کی تعلیم ہے‘ کہ جو تمہیں پندرہ روپے تنخواہ دے اس کے حکم سے تم ہر ایک کا گلا کاٹنے کے لیے تیار ہوجائو۔ آپ اپنے قومی مفاد کی خاطر ہر اس منفعت کو دانتوں سے پکڑنے کی کوشش کریں گے‘ جو کسی مسلمان یا بہت سے مسلمانوں کو کسی طور سے حاصل ہویا ہوسکتی ہو‘ اور دنیا اس دنائت کو اسلام کی طرف منسوب کرے گی۔ آپ انتہائی بے اصولی کے ساتھ کہیں ایک چیز کی حمایت کریں گے اس لیے کہ وہ آپ کے مفاد کے مطابق ہے‘ اور کہیں اسی چیز کی مخالفت کریں گے اس لیے کہ وہ آپ کے مفاد کے خلاف ہے‘ کبھی ایک پارٹی سے ملیں گے‘ اور کبھی اسی پارٹی سے لڑیں گے نہ اس لیے کہ آپ کے اور اس کے درمیان اصولی اتفاق یا اتحاد ہے‘ بلکہ صرف اس لیے کہ آپ کے پیشِ نظر اصول نہیں’’قومی مفاد‘‘ ہے۔ یہ ابن الوقتی جو آپ کے کیرکٹر سے ظاہر ہوگی‘ دنیا سمجھے گی کہ ایسا ہی کیرکٹر اسلام پیدا کرتا ہے۔ آپ قومی مفاد کی تلاش میں ہر طرف لپکیں گے۔ فاشزم کے اصول یا کمیونزم کے نظریات بھی اختیار کریں گے ظالمانہ سرمایہ داری اور مستبدانہ شخصی ریاستوں کے دامن میں بھی پناہ لیں گے‘ انگریز اور ہندو اور ریاستہائے ہند‘ جس کے آستانہ پر بھی فائدہ کا بُت بیٹھا نظر آئے گا اسی کی طرف سجدہ ریز ہوں گے‘ اور یہ سارے داغ آپ کے توّسط سے اسلام کے دامن پر لگتے چلے چائیں گے۔ اسلام نے صدیوں آپ پر جو احسانات کئے ہیں ان کا کم از کم یہ بدلہ تو نہ ہونا چاہئے کہ آپ اس طرح اس کی رسوائی کا سامان کریں۔
لیکن اگر آپ کو اسلام سے واقعی محبت ہے‘ اور حقیقت میں آپ مسلمان ہی رہنا چاہتے تو آپ کو یہ جان لینا چاہئے کہ اسلام یہودیت اور ہندوازم کی طرح ایک نسلی مذہب نہیں ہے‘ جو ایک نسلی قومیّت بناتا ہو‘بلکہ وہ تمام نوعِ انسانی کے لیے ایک اخلاقی واجتماعی مسلک ہے۔ ایک جہانی نظریہ (world theory) اور ایک عالمی تصوّر (universal idea)ہے۔ وہ ایک ایسی جماعت پیدا کرنا چاہتا ہے‘ جو اس مسلک‘ اس نظریہ‘ اس تصوّر کو لے کر اُٹھے‘ اور دنیا کے سامنے عملاً اس کا نقشہ پیش کرے‘ اور جس جس قوم کے جو جو لوگ اس کو قبول کرتے جائیں انہیں اپنی جماعت میں شامل کرتی چلی جائے‘ یہاں تک کہ قوموں کے درمیان تفریق کی دیواریں مسمار ہوجائیں۔ اس کے نزدیک ’’اسلامی‘‘ صرف وہ چیز ہے‘ جو اس کے مسلک اور اس کے نظریہ کے مطابق ہو۔ اور جو چیز اس کے خلاف ہواس کو وہ اپنانے سے صاف انکار کرتا ہے خواہ تمام دنیا کے مسلمانوں کا ذاتی مفاد اس سے وابستہ ہو۔ لہٰذا اگر آپ اسلام کے مسلک کی خاطر جئیں اور اس کو دنیا میں حکمران بنانے کے لیے جدوجہد کریں تب تو یقیناً آپ اسلامی جماعت اور مسلمان گروہ ہوں گے‘ ورنہ اپنے لیے جینے اور اپنے مفاد کے لیے جدوجہد کرنے کی صورت میں اسلام سے آپ کا کوئی تعلق نہ ہوگا۔ آپ کو ہر گزیہ حق نہیں پہنچتاکہ کام اپنے لیے کریں‘ اور نام اسلام کا لیں۔
مسلک ِاسلام کی اس جہانی وعالمی نوعیت کو ذہن نشین کر لینے کے بعد اب یہ بھی سمجھ لینا چاہئے کہ ایک عالم گیر مسلک اور جہانی نظریہ کے مقتضیات کیا ہوتے ہیں۔
اولاً وہ مختلف پارٹیوں میں سے ایک پارٹی بن کر رہنے پر قانع نہیں ہوتا‘ بلکہ اس کی فطرت کا اقتضاء یہ ہوتا ہے‘ کہ بس وہی ایک ہو۔ وہ مقابل کی کسی طاقت کو اپنا شریک وفہیم بنانے کے لیے تیار نہیں ہوتا۔مُدارات اور مصالحت(compromise)کرنا اس کے لیے ناممکن ہوتا ہے۔وہ سودا نہیں کرتا‘ بلکہ غالب ہونا چاہتا ہے‘ لِيُظْہِرَہٗ عَلَي الدِّيْنِ كُلِّہٖ۝۰ۙ وَلَوْ كَرِہَ الْمُشْرِكُوْنَ o { FR 2500 }
ثانیاً وہ اشخاص یا طبقوں یا قوموں کے نقطۂ نظر سے مسائل کو نہیں دیکھتا بلکہ کُلّی اور جہانی نقطۂ نظر سے دیکھتا ہے۔اسے اس امر سے قطعاً کوئی بحث نہیں ہوتی کہ اس شخص یا اس طبقہ یا اس گروہ کا فائدہ کس چیز میں ہے۔ اس کو انسان سے بحث ہوتی ہے‘ اور وہ ان مسائل کو حل کرنا چاہتا ہے‘ جو مجموعی حیثیت سے انسان کے لیے حل طلب ہوں‘ قطع نظر اس سے کہ کس کو کیا ملتا ہے‘ اور کس سے کیا چھنتا ہے‘ كُنْتُمْ خَيْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ { FR 2501 }
ثالثاً اس کے پیشِ نظر وقتی یا مقامی مقاصد نہیں ہوتے بلکہ ایک دائمی اور جہانی مقصد ہوتا ہے‘ اور وہ یہ ہے‘ کہ دنیا میں زندگی کا جو نظام اس کے اصول کے خلاف قائم ہے اس کو توڑ ڈالے اور اپنے اصول کے مطابق مستقل طور پر ایک نظام قائم کرے۔
رابعاً وہ ایسی قومیّت کے تنگ دائرے میں بند ہونے کے لیے تیار نہیں ہوتا‘ جو نسلی اور تاریخی روایات پر قائم ہو۔ اس کی کامیابی کے لیے تو لازمی شرط یہی ہے‘ کہ اپنے عہد کے تمام انسانوں میں سے بہتر اور صالح تر افراد کو نکال کر اپنی تنظیم کی طرف کھینچ لائے اور ان کی قابلیتوں سے کام لے۔ اگر وہ کسی خاص قوم کی ذاتی اغراض کا حامی بن جائے‘ تو ظاہر ہے‘ کہ دوسری قوموں کے لیے اس کی اپیل قطعاً غیر موثر ہوجائے گی۔
خامساً وہ کسی خاص قوم کی موروثی تہذیب اور روایتی رسوم وعادات سے اپنا دامن نہیں باندھتا بلکہ ہر عہد میں تمام عالمِ انسانی نے اپنی علمی تلاش وجستجو سے جو حقائق … نظریات نہیں‘ بلکہ حقائق …… دریافت کیے ہوں‘ یا اپنی سعی وعمل سے جو صالح نتائج پیدا کیے ہوں‘ ان سب کو لے کروہ اپنے تجویز کردہ نظامِ اجتماعی میں اپنے اصول کے مطابق اِس طرح جذب کرتا ہے‘ کہ وہ اس نظام کے فطری اجزاء(نہ کہ درآمد شدہ اشیاء)بن جائیں۔
سادساً اس کی کامیابی کے لیے صرف یہ ثابت کر دینا کافی نہیں ہوتاکہ وہ بجائے خود برحق ہے‘ اور اس میں انسان کے لیے فلاح ہے۔ بلکہ اپنے مقصود کو پہنچنے کے لیے وہ اس امر کا تقاضا کرتا ہے‘ کہ اس کے اصولوں کو ایک انقلابی تحریک کی بنیاد بنا دیا جائے‘ اس پر ایمان رکھنے والے اس تحریک کے زور سے ایک مجاہد جماعت بن کر اُٹھیں‘ اور بالآخر اس کے نظریات ایک اسٹیٹ کے لیے بنیادی قانون بن جائیں۔
یہ اسلام کے مقتضیات ہیں‘ اور یہی مسلمان ہونے کے مقتضیات بھی ہیں۔ اب اگر آپ ’’اسلامی جماعت‘‘ بن کر کام کرنا چاہتے ہیں‘ تو آپ کو اپنی اس قومی پالیسی پر نظرثانی کرنی ہوگی‘ جس پر آپ اب تک چلتے رہے ہیں‘ اور اسے بالکلیہ بدل کر ان مقتضیات کے مطابق ڈھالنا ہوگا۔
آپ کو اپنے دماغ سے قومی مفاد کا تصوّر نکال دینا پڑے گا ‘اور اس کی جگہ اسلام کے اصول اور اس کے نصب العین کو دینی ہوگی۔ آپ کو وقتی اور مقامی مقاصد سے صرفِ نظر کر لینا ہوگا ‘اور اپنی نظر اس ایک مقصد پر جماد ینی ہوگی کہ اسلام کے اصول دنیا میں حکمراں ہوں۔ اس غرض کے لیے آپ کو دنیا بھر سے لڑنے کے لیے تیار ہونا پڑے گا ‘اور کسی ایسی پارٹی سے جو آپ کے اصول نہ مانتی ہو‘ آپ کسی شرط پر بھی سودانہ کر سکیں گے۔ آپ کو سختی کے ساتھ ایک بااصول جماعت بننا پڑے گا‘ ان ناکارہ لوگوں کو اپنے سے الگ کرنا ہوگا‘ جو آپ کے اصول کو نہ مانتے ہوں‘ اور سب قوموں میں سے ان صالحین کو چُن چُن کر اپنے ساتھ ملانا ہوگا‘ جو ان اصولوں کو ماننے کے لیے تیار ہوں۔ آپ کو ابن الوقتی چھوڑ دینی ہوگی۔ اپنے اصولوں سے ہٹ کر آپ کچھ نہ کر سکیں گے‘ خواہ اس میں کتنا ہی بڑا شخصی یا قومی فائدہ ہو۔ آپ کو ایک ایسی مجاہد جماعت بننا پڑے گا۔ جو اپنے اصولوں کے لیے لڑنے والی ہو‘ جس کا مقصد اپنی ’’قومی حکومت‘‘(national state)قائم کرنا نہ ہو‘بلکہ اپنے ’’اصولوں کی حکومت‘‘ (ideological state)قائم کرنا ہو۔
ایسی جماعت جب آپ بنیں گے تو آپ کو اپنی قیادت میں تغیّر کرنا ہوگا۔ اس وقت آپ کے قائد صرف وہ لوگ ہوسکیں گے‘ جو اسلام کے اصول کو ٹھیک ٹھیک جانتے ہوں ‘اور سب سے زیادہ ان کا اتّباع کرنے والے ہوں۔
اور سب سے زیادہ ان کا اتباع کرنے والے ہوں۔ ایک قوم کا لیڈر ہر وہ شخص ہوسکتا ہے‘ جو قوم کا فرد ہو۔ مگر ایک جماعت کا لیڈر صرف وہی ہوسکتا ہے‘ جو جماعت کے مسلک کا سب سے بڑا علمبر دار ہو۔مسلمانوں کی قومی تنظیم میں تو اسلام کے مسلک سے ہٹے ہوئے لوگ صف ِاوّل میں بھی جگہ پا سکتے ہیں‘ مگر جماعتی تنظیم میں ان کا مقام سب سے پچھلی صفوں میں ہوگا‘ بلکہ شاید ان میں سے بہت سوں کو کسی صف میں بھی جگہ نہ ملے گی۔
قَدْ تَّبَيَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَيِّ۝۰ۚ { FR 2502 }
آپ پر دونوں راستے واضح ہوچکے ہیں۔ اب ان کے فوائد اور نقصانات کا مواز نہ کر کے بھی دیکھ لیجیے‘ تاکہ ان میں سے کسی ایک کو انتخاب کرنے میں آسانی ہو۔
اگر آپ محض ایک ایسی قوم ہوں‘ جو اپنے ذاتی مفاد کے لیے جدوجہد کرتی ہو‘ تو آپ کی حیثیت ایک جامد چٹان کی سی ہوگی‘ اور آپ کے مقابلہ میں دوسری بہت سی قومیں ایسی ہی چٹانوں کی صورت میں موجود ہوں گی۔ آپ کا اور ان کا مقابلہ اسی طرح ہوگا‘ جس طرح چٹانوں کا ایک دوسرے سے ہوتا ہے۔ ایک چٹان دوسری چٹان میں سے اجزا لے کر اپنا حجم نہیں بڑھا سکتی۔ نہ ایک چٹان کے اندر گُھس سکتی ہے۔ ان کے درمیان معاملہ کی بس دوہی صورتیں ہیں۔ یا تو ہر ایک چٹان اپنی اپنی جگہ رہنے پر قانع ہو۔ یا ایک چٹان دوسری چٹان پر چڑھ جائے‘ اور اس سے ٹکرا کر اسے توڑنے اور پیسنے کی کوشش کرے۔ پہلی صورت میں آپ محدود ہوکر رہ جاتے ہیں۔ اور دوسری صورت میں آپ کے لیے وسعت کا امکان تو ہے‘ مگر اسی طرح کی وسعت جیسی فاشسٹ اٹلی اور نازی جرمنی حاصل کر رہا ہے‘ اور اس سے پہلے امپیریلسٹ برطانیہ حاصل کر چکا ہے۔ اس طرح کی وسعت حاصل کر کے آپ دنیا میں بس ایک مُفسد قوم کا اضافہ کر دیں گے‘ جو زمین میں کچھ مدّت تک فساد پھیلائے گی‘ اور بالآخر اپنے کیے کی سزا پائے گی۔
بخلاف اس کے اگر آپ اسلامی مفہوم کے مطابق ایک ایسی اصولی جماعت ہوں‘ جو محض ایک عالمگیر مسلک اور ایک جہانی نظریہ کے لیے جدوجہد کرتی ہو‘ اور جس میں ہر انسان آپ کے اصول قبول کر کے مساوی حقوق اور مساویانہ حیثیت کے ساتھ شریک ہوسکتا ہو‘ تو آپ ایک جامد پتھر کی طرح نہ ہوں گے‘ بلکہ ایک نامی جسم (organic body)کی طرح ہوں گے۔ آپ کی مثال اس درخت کی سی ہوگی ‘جو ہر طرف اپنے گردوپیش سے اجزاء جذب کرتا ہے‘ اور پھیلتا چلا جاتا ہے۔ اس صورت میں آپ ایک عالمگیر طاقت (world force)ہوں گے۔ آپ دنیا کو اپنے لیے نہیں‘ بلکہ اصولِ حق کے لیے فتح کرنے کی کوشش کریں گے۔ اور اگر واقعی آپ کے اصول فطرت انسانی کو اپیل کرنے والے اور انسانیت کی مشکلات کو حل کرنے والے ہیں…… جیسے کہ وہ فی الواقع ہیں…… تو دنیا خود اپنے آپ کو مفتوحیت کے لیے آپ کے سامنے پیش کر دے گی۔ آپ کے شخصی یا قومی مفاد میں تو کوئی عالم گیر کشش نہیں ہے۔ اس کی طرف آپ دعوت دیں گے تو دنیا اس کی طرف خود کبھی نہ کھینچے گی‘ بلکہ آپ کو زبردستی اسے کھینچنا پڑے گا۔ لیکن اسلام کے اصول میں عالم گیری کی طاقت ہے۔ دنیا ان کی طرف خود کھنچے گی بشرطیکہ آپ اپنے لیے نہیں‘ بلکہ اپنے اصولوں کے لیے جئیں اور مریں۔ آپ کے سامنے اشتراکیت کی مثال موجود ہے۔ وہ ایک عالم گیر طاقت صرف اس لیے بنتی چلی گئی کہ اشتراکی لوگ اشتراکیوں کے مفاد کے لیے نہیں‘ بلکہ اشتراکیت کے اصول کے لیے جہاد کرتے رہے۔ آج اگر وہ اشتراکیت کے لیے جہاد کرنا چھوڑ دیں اور ہر قوم کے اشتراکیوں کو صرف اپنے قومی مفاد کی فکر لگ جائے‘ تو آپ دیکھیں گے کہ اشتراکیت کی عالم گیری ختم ہوجائے گی۔
(ترجمان القرآن۔مئی ۱۹۳۹ء)

شیئر کریں