نسلیّت کیا ہے؟ محض خون کا اِشتِراک۔ اس کا نقطۂ آغاز ماں اور باپ کا نطفہ ہے جس سے چند انسانوں میں خونی رشتہ پیدا ہوتا ہے۔ یہی نقطہ پھیل کر خاندان بنتا ہے ، پھر قبیلہ، پھر نسل۔ اس آخری حد یعنی نسل تک پہنچتے پہنچتے انسان اپنے اس باپ سے جس کو اس نے اپنی نسل کا مورثِ اعلیٰ قرار دیا ہے، اتنا دُور ہوجاتا ہے کہ اس کی مورثیت محض ایک خیالی چیز بن جاتی ہے۔ نام نہاد نسل کے اس دریا میں بیرونی خون کے بہت سے ندی نالے آکر مل جاتے ہیں اور کوئی صاحب ِ عقل و علم انسان یہ دعویٰ نہیں کرسکتا کہ یہ دریا خالص اسی پانی کا ہے جو اپنے اصلی سرچشمہ سے نکلا تھا۔ پھر اگر اس خلط ملط کے باوجود خون کے اِشتِراک کی بنا پر انسان ایک ’’نسل‘‘ کو اپنے لیے مادئہ اتحاد قرار دے سکتا ہے، تو کیوں نہ اس خون کے اِشتِراک کو بنائے وحدت قرار دیا جاسکے جو تمام انسانوں کو ان کے پہلے باپ اور پہلی ماں سے ملاتا ہے؟ اور کیوں نہ تمام انسانوں کو ایک ہی نسل اور ایک ہی اصل کی طرف منسوب کیا جائے؟ آج جن لوگوں کو مختلف نسلوں کا بانی و مورث قرار دے لیا گیا ہے ان سب کا نسب اُوپر جاکر کہیں نہ کہیں ایک دوسرے سے مل جاتا ہے اور آخر میں تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ وہ سب ایک اصل سے ہیں۔ پھر یہ آریّت اور سامیّت کی تقسیم کیسی؟