Search
Close this search box.

فہرست موضوعات

عرضِ ناشر
تصریح
دیباچہ
باب اوّل: سُنّت کی آئینی حیثیت
ڈاکٹر صاحب کا پہلا خط
جواب
ڈاکٹر صاحب کا دوسرا خط
جواب
سُنّت کیا چیز ہے؟
سُنّت کس شکل میں موجود ہے؟
کیا سُنّت متفق علیہ ہے؟ اور اس کی تحقیق کا ذریعہ کیا ہے؟
چار بنیادی حقیقتیں
دوسرے خط کا جواب
چار نکات
نکتۂ اُولیٰ
رسول اللّٰہa کے کام کی نوعیت
حضور a کی شخصی حیثیت اور پیغمبرانہ حیثیت کا فرق
قرآن سے زائد ہونا اور قرآن کے خلاف ہونا ہم معنی نہیں ہے
کیا سُنّت قرآن کے کسی حکم کو منسوخ کر سکتی ہے؟
نکتۂ دوم
نکتۂ سوم
احادیث کو پرکھنے میں روایت اور درایت کا استعمال
نکتۂ چہارم
اشاعت کا مطالبہ
باب دوم: منصبِ نبوت
ڈاکٹر صاحب کا خط
جواب
۱۔ منصب ِنبوّت اور اس کے فرائض
۲۔ رسول پاکﷺ کے تشریعی اختیارات
۳۔ سُنّت اور اتباع سُنّت کا مفہوم
۴۔رسولﷺ پاک کس وحی کے اتباع پر مامور تھے، اور ہم کس کے اتباع پر مامور ہیں؟
۵۔ مرکزِ ملّت
۶۔ کیا حضورﷺ صرف قرآن پہنچانے کی حد تک نبی تھے؟
۷۔ حضورﷺ کی اجتہادی لغزشوں سے غلط استدلال
۸۔ موہوم خطرات
۹۔ خلفائے راشدین پر بہتان
۱۰۔ کیا حضورﷺ پر قرآن کے علاوہ بھی وحی آتی تھی؟
سُنّت کے متعلق چند مزید سوالات
جواب
وحی پر ایمان کی وجہ
مَااَنْزَلَ اللّٰہُ سے کیا چیز مراد ہے؟
سُنّت کہاں ہے؟
وحی سے مراد کیا چیز ہے؟
محض تکرارِ سوال
ایمان وکفر کا مدار
کیا احکامِ سُنّت میں رد وبدل ہو سکتا ہے؟
باب سوم : اعتراضات اور جوابات
۱۔ بزمِ طلوع اِسلام سے تعلق؟
۲۔ کیا گشتی سوال نامے کا مقصد علمی تحقیق تھا؟
۳۔ رسولﷺ کی حیثیت ِ شخصی و حیثیتِ نبویﷺ
۴۔ تعلیماتِ سنّت میں فرقِ مراتب
۵۔ علمی تحقیق یا جھگڑالو پن؟
۶۔ رسولﷺ کی دونوں حیثیتوں میں امتیاز کا اصول اور طریقہ
۷۔ قرآن کی طرح احادیث بھی کیوں نہ لکھوائی گئیں؟
۸۔ دجل وفریب کا ایک نمونہ
۹۔ حدیث میں کیا چیز مشکوک ہے اور کیا مشکوک نہیں ہے
۱۰۔ ایک اور فریب
۱۱۔ کیا امت میں کوئی چیز بھی متفق علیہ نہیں ہے؟
۱۲۔ سُنّت نے اختلافات کم کیے ہیں یا بڑھائے ہیں؟
۱۳۔ منکرینِ سُنّت اور منکرینِ ختم نبوت میں مماثلت کے وجوہ
۱۴۔ کیا آئین کی بنیاد وہی چیز ہو سکتی ہے جس میں اختلاف ممکن نہ ہو؟
۱۵۔ قرآن اور سُنّت دونوں کے معاملے میں رفعِ اختلاف کی صورت ایک ہی ہے
۱۶۔ ایک دل چسپ مغالطہ
۱۷۔ شخصی قانون اور ملکی قانون میں تفریق کیوں؟
۱۸۔ حیثیت ِرسول ﷺ کے بارے میں فیصلہ کن بات سے گریز
۱۹۔ کیا کسی غیر نبی کو نبی کی تمام حیثیات حاصل ہو سکتی ہیں
۲۰۔ اِسلامی نظام کے امیر اور منکرینِ حدیث کے مرکزِ ملت میں عظیم فرق
۲۱۔ عہد رسالت میں مشاورت کے حدود کیا تھے؟
۲۲۔ اذان کا طریقہ مشورے سے طے ہوا تھا یا الہام سے؟
۲۳۔ حضورﷺ کے عدالتی فیصلے سند وحجت ہیں یا نہیں؟
۲۴۔ کج بحثی کا ایک عجیب نمونہ
۲۵۔ کیا اللہ تعالیٰ بھی غلطی کرسکتا ہے؟
۲۶۔حضورﷺ کے ذاتی خیال اور بربنائے وحی کہی ہوئی بات میں واضح امتیاز تھا
۲۷۔ کیا صحابہؓ اس بات کے قائل تھے کہ حضورﷺ کے فیصلے بدلے جا سکتے ہیں؟
۲۸۔ مسئلہ طلاق ثلاثہ میں حضرت عمرؓ کے فیصلے کی اصل نوعیت
۲۹۔ مؤلفۃ القلوب کے بارے میں حضرت عمرؓ کے استدلال کی نوعیت
۳۰۔ کیا مفتوحہ اراضی کے بارے میں حضرت عمرؓ کا فیصلہ حکم رسولﷺ کے خلاف تھا؟
۳۱۔ وظائف کی تقسیم کے معاملے میں حضرت عمرؓ کا فیصلہ
۳۲۔ کیا قرآن کے معاشی احکام عبوری دور کے لیے ہیں؟
۳۳۔ ’’عبوری دور‘‘ کا غلط مفہوم
۳۴۔ حضورﷺکیا صرف شارح قرآن ہی ہیں یا شارع بھی؟
۳۵۔ بصیرت رسولﷺ کے خداداد ہونے کا مفہوم
۳۶۔ وحی کی اقسام ازروئے قرآن
۳۷۔ وحی غیرمتلو پر ایمان، ایمان بالرسول کا جُز ہے
۳۸۔ کیا وحی غیر متلو بھی جبریل ہی لاتے تھے؟
۳۹۔ کتاب اور حکمت ایک ہی چیز یا الگ الگ
۴۰۔ لفظ تلاوت کے معنی
۴۱۔ کتاب کے ساتھ میزان کے نزول کا مطلب
۴۲۔ ایک اور کج بحثی
۴۳۔ تحویلِ قبلہ والی آیت میں کون سا قبلہ مراد ہے؟
۴۴۔ قبلے کے معاملے میں رسولﷺ کی پیروی کرنے یا نہ کرنے کا سوال کیسے پیدا ہوتا تھا؟
۴۵۔ نبی پر خود ساختہ قبلہ بنانے کا الزام
۴۶۔ لَقَدْ صَدَقَ اللّٰہُ رَسُوْلَہُ الرُّؤْیَا کا مطلب
۴۷۔ کیا وحی خواب کی صورت میں بھی ہوتی ہے؟
۴۸۔ بے معنی اعتراضات اور الزامات
۴۹۔ کیا آنحضورﷺ نے صحابہؓ کو دھوکا دیا تھا؟
۵۰۔ کیا آنحضورﷺ اپنے خواب سے متعلق متردد تھے؟
۵۱۔دروغ گویم بر رُوئے تو
۵۲۔ رُو در رُو بہتان
۵۳۔ نَبَّأَنِیَ الْعَلِیْمُ الْخَبِیْرُ کا مطلب

سنت کی آئینی حیثیت

انکار سنت کا فتنہ اسلامی تاریخ میں سب سے پہلے دوسری صدی ہجری میں اُٹھا تھا اور اس کے اُٹھانے والے خوارج اور معتزلہ تھے۔ خوارج کو اس کی ضرورت اس لیے پیش آئی کہ مسلم معاشرے میں جو انارکی وہ پھیلانا چاہتے تھے، اس کی راہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی وہ سنت حائل تھی جس نے اس معاشرے کو ایک نظم و ضبط پر قائم کیا تھا، اور اس کی راہ میں حضور کے وہ ارشادات حائل تھے جن کی موجودگی میں خوارج کے انتہا پسندانہ نظریات نہ چل سکتے تھے۔ اس بنا پر اُنھوں نے احادیث کی صحت میں شک اور سنت کے واجب الاتباع ہونے سے انکار کی دو گونہ پالیسی اختیار کی۔ معتزلہ کو اس کی ضرورت اس لیے لاحق ہوئی کہ عجمی اور یونانی فلسفوں سے پہلا سابقہ پیش آتے ہی اسلامی عقائد اور اصول و احکام کے بارے میں جو شکوک و شبہات ذہنوں میں پیدا ہونے لگے تھے، اُنھیں پوری طرح سمجھنے سے پہلے وہ کسی نہ کسی طرح اُنھیں حل کر دینا چاہتے تھے۔ خود ان فلسفوں میں ان کو وہ بصیرت حاصل نہ ہوئی تھی کہ ان کا تنقیدی جائزہ لے کر ان کی صحت و قوت جانچ سکتے۔ اُنھوں نے ہر اس بات کو جو فلسفے کے نام سے آئی، سراسر عقل کا تقاضا سمجھا اور یہ چاہا کہ اسلام کی عقائد اور اصولوں کی ایسی تعبیر کی جائے جس سے وہ ان نام نہاد عقلی تقاضوں کے مطابق ہو جائیں۔ اس راہ میں پھر وہی حدیث و سنت مانع ہوئی۔ اس لیے اُنھوں نے بھی خوارج کی طرح حدیث کو مشکوک ٹھیرایا اور سنت کو حجت ماننے سے انکار کیا۔ اس کتاب میں مولانا مودودیؒ نے مخالفانہ دلائل کو ایک ایک کرکے اس طرح بیان کیا ہے کہ اس کے بعد کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی۔ سید مودودیؒ کتاب کے آخر میں رقم طراز ہیں: ”ہم نے ایک ایک دلیل کا تفصیلی جائزہ لے کر جو بحث کی ہے اسے پڑھ کر ہر صاحب علم آدمی خود یہ رائے قائم کر سکتا ہے کہ ان دلائل میں کتنا وزن ہے اور ان کے مقابلے میں سنت کے ماخذ قانون اور احادیث کے قابل استناد ہونے پر جو دلیلیں ہم نے قائم کی ہیں وہ کس حد تک وزنی ہیں۔ ہم خاص طور پر خود فاضل جج سے اور مغربی پاکستان ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اور ان کے رفقا سے گزارش کرتے ہیں کہ وہ پورے غور کے ساتھ ہماری اس تنقید کو ملاحظہ فرمائیں اور اگر ان کی بے لاگ رائے میں، جیسی کہ ایک عدالت عالیہ کے فاضل ججوں کے رائے بے لاک ہونی چاہیے، یہ تنقید فی الواقع مضبوط دلائل پر مبنی ہو تو وہ قانون کے مطابق کوئی ایسی تدبیر عمل میں لائیں جس سے یہ فیصلہ آئیندہ کے لیے نظیر نہ بن سکے۔ عدالتوں کا وقار ہر ملک کے نظام عدل و انصاف کی جان ہوتا ہے اور بہت بڑی حد تک اسی پر ایک مملکت کے استحکام کا انحصار ہوتا ہے۔ اس وقار کے لیے کوئی چیز اس سے بڑھ کر نقصان دہ نہیں ہے کہ ملک کی بلند ترین عدالتوں کے فیصلے علمی حیثیت سے کمزور دلائل اور ناکافی معلومات پر مشتمل ہوں۔ اس لیے یہ ضروری ہے کہ جب ایمان دارانہ تنقید سے ایسی کسی غلطی کی نشان دہی ہو جائے تو اولین فرصت میں خود حاکمان عدالت ہی اس کی تلافی کی طرف توجہ فرمائیں۔“ حدیث کے حوالے سے شکوک وشبہات کا اظہار کرنے والے افراد کے لیے اس کتاب کو پڑھنا بہت اہم ہے۔

نبیﷺ کی اصل حیثیت ازروئے قرآن

ہم بڑے ادب کے ساتھ عرض کریں گے کہ درحقیقت ان تمام عبارتوں میں خلط مبحث زیادہ اور اصل مسئلہ زیر بحث سے تعرض بہت کم ہے۔ اصل مسئلہ جس کی تحقیق اس مقام پر مطلوب تھی وہ یہ نہیں تھا کہ محمد رسول اللّٰہ ﷺ معاذ اللّٰہ خدا ہیں یا نہیں، اور وہ انسان ہیں یا کچھ اور، اور دین کے احکام میں سند ومرجع خدا کا حکم ہے یا کسی اور کا، بلکہ تحقیق جس چیز کی کرنی چاہیے تھی وہ یہ تھی کہ رسول پاکﷺ کو اللّٰہ تعالیٰ نے کس کام کے لیے مقرر کیا ہے‘دین میں ان کی حیثیت اور اختیارات کیا ہیں، اور خدا کے احکام آیا صرف وہی ہیں جو قرآن کی آیات میں بیان ہوئے ہیں یا وہ بھی ہیں جو رسول پاکﷺ نے قرآن کے علاوہ ہم کو دیے۔ ان سوالات کی تحقیق ان آیات سے نہیں ہو سکتی تھی جنھیں فاضل جج نے نقل کیا ہے، کیوں کہ ان میں سرے سے ان سوالات کا جواب دیا ہی نہیں گیا ہے۔ ان کا جواب تو حسب ذیل آیات سے ملتا ہے جن کی طرف فاضل جج نے سرے سے توجہ ہی نہیں کی:
۱۔ لَقَدْ مَنَّ اللہُ عَلَي الْمُؤْمِنِيْنَ اِذْ بَعَثَ فِيْھِمْ رَسُوْلًا مِّنْ اَنْفُسِھِمْ يَتْلُوْا عَلَيْھِمْ اٰيٰتِہٖ وَيُزَكِّيْھِمْ وَيُعَلِّمُھُمُ الْكِتٰبَ وَالْحِكْمَۃَ۝۰ۚ آل عمران3:164
اللّٰہ نے احسان کیا مومنوں پر جب کہ بھیجا ان کے درمیان خود انھی میں سے ایک رسولﷺ جو تلاوت کرتا ہے ان پر اس کی آیات، اور تزکیہ کرتا ہے ان کا، اور تعلیم دیتا ہے ان کو کتاب کی اور دانائی کی۔
۲۔ وَاَنْزَلْنَآ اِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ اِلَيْہِمْ النحل 44:16
اور ہم نے یہ ذکر (یعنی قرآن) نازل کیا ہے تیری طرف تاکہ تو تشریح کر دے لوگوں کے لیے اس (کتاب) کی جو ان کی طرف نازل کی گئی ہے۔
۳۔ يَاْمُرُہُمْ بِالْمَعْرُوْفِ وَيَنْہٰىہُمْ عَنِ الْمُنْكَرِ وَيُحِلُّ لَہُمُ الطَّيِّبٰتِ وَيُحَرِّمُ عَلَيْہِمُ الْخَـبٰۗىِٕثَ الاعراف 157:7
وہ (نبیﷺ) حکم دیتا ہے ان کو نیکی کا اور منع کرتا ہے ان کو برائی سے اور حلال کرتا ہے ان کے لیے پاک چیزیں اور حرام کرتا ہے ان کے لیے ناپاک چیزیں۔
۴۔ وَمَآ اٰتٰىكُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْہُ۝۰ۤ وَمَا نَہٰىكُمْ عَنْہُ فَانْتَہُوْا۝۰ۚ الحشر 7:59
جو کچھ رسول تمھیں دے اسے لے لو اور جس چیز سے روک دے اس سے رک جائو۔
۵۔ وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا لِيُطَاعَ بِـاِذْنِ اللہِ۝۰ۭ النسائ 64:4
اور ہم نے کوئی رسول بھی نہیں بھیجا مگر اس لیے کہ اس کی اطاعت کی جائے اللّٰہ کے اذن سے۔
۶۔ مَنْ يُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللہَ۝۰ۚ النسائ 80:4
جس نے رسول کی اطاعت کی اس نے اللّٰہ کی اطاعت کی۔
۷۔ وَاِنْ تُطِيْعُوْہُ تَہْتَدُوْا۝۰ۭ النور 54:24
اور اگر تم رسولﷺ کی اطاعت کرو گے تو ہدایت پائو گے۔
۸۔ لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِيْ رَسُوْلِ اللہِ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ الاحزاب 21:33
تمھارے لیے رسولﷺ کی ذات میں ایک بہترین نمونہ ہے۔
۹۔ فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُوْنَ حَتّٰي يُحَكِّمُوْكَ فِيْمَا شَجَــرَ بَيْنَھُمْ ثُمَّ لَا يَجِدُوْا فِيْٓ اَنْفُسِہِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُوْا تَسْلِــيْمًاo النسائ 65:4
پس نہیں، تیرے رب کی قسم، وہ ہرگز مومن نہیں ہوں گے جب تک تجھے اس معاملے میں فیصلہ کرنے والا نہ مان لیں جس میں ان کے درمیان اختلاف ہے، پھر جو فیصلہ تو کرے اس پر اپنے دل میں کوئی تنگی تک محسوس نہ کریں اور اسے سربسر تسلیم کر لیں۔
۱۰۔ يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اَطِيْعُوا اللہَ وَاَطِيْعُوا الرَّسُوْلَ وَاُولِي الْاَمْرِ مِنْكُمْ۝۰ۚ فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِيْ شَيْءٍ فَرُدُّوْہُ اِلَى اللہِ وَالرَّسُوْلِ اِنْ كُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللہِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ ۭ النسائ 59:4
اے لوگو جو ایمان لائے ہو! اطاعت کرو اللّٰہ کی اور اطاعت کرو رسولﷺ کی اور ان لوگوں کی جو تم میں سے اولی الامر ہوں۔ پھر اگر تمھارے درمیان کسی معاملے میں نزاع ہو جائے تو پھیر دو اس کو اللّٰہ اور رسولﷺ کی طرف، اگر تم ایمان رکھتے ہو اللّٰہ اور روز آخرت پر۔
۱۱۔ قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللہَ فَاتَّبِعُوْنِيْ يُحْبِبْكُمُ اللہُ آل عمران 31:3
(اے نبیﷺ!) ان سے کہہ دو کہ اگر تم اللّٰہ سے مَحبّت رکھتے ہو تو میری پیروی کرو، اللّٰہ تم سے مَحبّت رکھے گا۔
ان گیارہ آیات کو اگر ملا کر پڑھا جائے تو دین اِسلام میں رسول پاکﷺ کی حقیقی حیثیت بالکل قطعی اور واضح طور پر ہمارے سامنے آ جاتی ہے۔ بلاشبہ وہ خدا تو نہیں ہیں، انسان ہی ہیں، مگر وہ ایسے انسان ہیں جن کو خدا نے اپنا نمایندۂ مجاز بنا کر بھیجا ہے۔ خدا کے احکام براہ راست ہمارے پاس نہیں آئے، بلکہ ان کے واسطے سے آئے ہیں۔ وہ محض اس لیے مقرر نہیں کیے گئے کہ خدا کی کتاب کی آیات جو ان پر نازل ہوں، بس وہ پڑھ کر ہمیں سنا دیں، بلکہ ان کے تقرر کا مقصد یہ ہے کہ وہ کتاب کی تشریح کریں۔ ایک مربی کی حیثیت سے ہمارے افراد اور معاشرے کا تزکیہ({ FR 7020 }) کریں، اور ہمیں کتاب اللّٰہ کی اور دانائی کی تعلیم دیں۔ آیت نمبر ۳ تصریح کرتی ہے کہ ان کو تشریعی اختیارات (legislature powers) بھی اللّٰہ تعالیٰ نے تفویض کیے ہیں اور اس میں کوئی قید ان کے اختیارات کو صرف قرآنی احکام کی تشریح تک محدود کرنے والی نہیں ہے۔ آیت نمبر ۴ علی الاطلاق یہ حکم دیتی ہے کہ جو کچھ وہ دیں اسے لے لو اور جس چیز سے بھی روک دیں اس سے رک جائو۔ اس میں بھی کوئی قید ایسی نہیں ہے جس سے یہ نتیجہ نکلتا ہو کہ جو کچھ وہ آیات قرآنی کی شکل میں دیں صرف اسی کو لو۔ آیت نمبر ۸ ان کی سیرت وکردار اور ان کے عمل کو ہمارے لیے نمونہ قرار دیتی ہے۔ اس مقام پر بھی یہ شرط نہیں لگائی گئی ہے کہ اپنے جس قول اور عمل کی سند وہ قرآن سے دے دیں صرف اسی کو اپنے لیے نمونہ سمجھو، بلکہ اس کے برعکس مطلقاً ان کو معیار حق کی حیثیت سے ہمارے سامنے پیش کر دیا گیا ہے۔ آیات نمبر ۵‘۶ اور ۷ ہمیں ان کی اطاعت کا حکم دیتی ہیں اور یہاں بھی قطعًا کوئی اشارہ اس امر کی طرف نہیں ہے کہ یہ اطاعت صرف ان احکام کی حد تک ہے جو آیات قرآنی کی شکل میں وہ ہمیں دیں۔ آیت نمبر ۹ ان کو ایک ایسا جج بناتی ہے جس کی طرف فیصلے کے لیے رجوع کرنا اور جس کا فیصلہ بظاہر ہی نہیں بلکہ دل سے ماننا شرط ایمان ہے۔ یہ وہ حیثیت ہے جو دُنیا کی کسی عدالت اور کسی جج کو بھی حاصل نہیں ہے۔ آیت نمبر ۱۰ ان کی حیثیت کو مسلمانوں کے تمام دوسرے اُولی الامر کی حیثیت سے الگ کر دیتی ہے۔ اولی الامر (جن میں صدر ریاست، اس کے وزرا، اس کے اہلِ شورٰی، اس کی حکومت کے جملہ منتظمین، اور عدلیہ کے حکام، سب شامل ہیں) اطاعت کے لحاظ سے تیسرے نمبر پر آتے ہیں، اور اللّٰہ کی اطاعت پہلے نمبر ہے۔ ان دونوں کے درمیان رسولﷺ کا مقام ہے اوراس مقام پر رسولﷺ کی حیثیت یہ ہے کہ اولی الامر سے تو مسلمانوں کی نزاع ہو سکتی ہے مگر رسولﷺ سے نہیں ہو سکتی، بلکہ ہر نزاع جو پیدا ہو، اس میں فیصلے کے لیے رجوع اللّٰہ اور اس کے رسولﷺ کی طرف کیا جائے گا۔ اس پوزیشن کو تسلیم کرنا بھی شرط ایمان قرار دیا گیا ہے۔ جیسا کہ آیت کے آخری الفاظ اِنْ کُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ سے صاف ظاہر ہوتا ہے۔ پھر آخری آیت اللّٰہ کی مَحبّت کا ایک ہی تقاضا، اور اس کی مَحبّت حاصل ہونے کا ایک ہی راستہ بتاتی ہے، اور وہ یہ ہے کہ آدمی اللّٰہ کے رسولﷺ کا اتباع کرے۔
یہ ہے دین اِسلام میں رسولﷺ کی اصل حیثیت جسے قرآن اتنی وضاحت کے ساتھ پیش کرتا ہے۔ کیا اس کو ملاحظہ فرمانے کے بعد فاضل جج اپنی اس رائے پر نظر ثانی فرمائیں گے جو انھوں نے پیرا گراف نمبر ۲۱ میں بیان کی ہے؟ کیا دونوں تصویروں کو بالمقابل رکھ کر یہ صاف نظر نہیں آتا کہ انھوں نے رسول پاکﷺ کی حیثیت کا تخمینہ حضورﷺکی اصل حیثیت سے بہت کم، بلکہ بنیادی طورپر مختلف لگایا ہے؟

شیئر کریں