یہ پانچ نکات جو اوپر عرض کیے گئے ہیں انھیں ذرا آنکھیں کھول کر دیکھیے۔ آپ کو ان میں ایک نبیؐ کی خداداد بصیرت اور ہدایت یافتہ حکمت ایسی نمایاں نظر آئے گی کہ اگر اس قربانی کے سنت رسولؐ ہونے کی کوئی اور شہادت موجود نہ ہوتی تب بھی اس کے اس طریقے کی اندرونی شہادت خود یہ بتا دینے کے لیے کافی تھی کہ اسے اسی خدا کے رسول نے مقرر کیا ہے جس خدا نے قرآن نازل کیا ہے۔ قرآنِ مجید میں قربانی کے متعلق جو کچھ اور جتنا کچھ ارشاد فرمایا گیا تھا اسے پڑھ کر کوئی غیر نبی، چاہے وہ کتنا ہی بڑا عالم اور دانش مند ہی کیوں نہ ہوتا، اس سے زیادہ کوئی نتیجہ اخذ نہ کرتا کہ مسلمان وقتًا فوقتًا اللہ تعالیٰ کے لیے قربانی کی عبادت بجا لاتے رہیں۔ وہ کبھی ان ارشادات سے یہ منشا نہ پاسکتا کہ ساری دنیائے اسلام کے لیے قربانی کا ایک دن مقرر کیا جائے، اس دن کو یوم العید قرار دیا جائے، وہ دن حضرت ابراہیم و اسمٰعیل علیہما السلام کی قربانی کا دن ہونا چاہیے، وہ دن اور اس کے سابق ولاحق ایام زمانۂ حج کے بھی مطابق ہونے چاہییں، اور یہ قربانی ایسے طریقے سے ادا کی جانی چاہیے کہ اس سے اسلام کی پوری روح تازہ ہو جائے۔ یہ منشا ایک نبی کے سوا اور کون پاسکتا تھا؟ اس منشا کو پانا اس نبیؐ کے سوا اورکس کاکام ہوسکتا تھا جس پر خدا نے اپنا قرآن نازل فرمایا تھا؟
مگر اس کے سنتِ رسولؐ ہونے کی اس اندرونی شہادت کے علاوہ اس کی خارجی شہادتیں بھی اتنی زیادہ اور اتنی مضبوط ہیں کہ بجز ایک ہٹ دھرم آدمی کے کوئی ان کا انکار نہیں کرسکتا۔