Search
Close this search box.

فہرست موضوعات

دیباچۂ طبع اوّل
دیباچۂ طبع ششم
عقل کا فیصلہ
کوتہ نظری
ہدایت و ضلالت کا راز
اسلام ایک علمی و عقلی مذہب
اسلام میں عبادت کا تصور
جہاد فی سبیل اللہ
آزادی کا اسلامی تصوُّر
رواداری
اسلامی قومیت کا حقیقی مفہوم
استدراک
امربالمعروف و نہی عن المنکر
نُزولِ عذاب الٰہی کا قانون
ایک مسیحی بزرگ کے چند اعتراضات
کیا نجات کے لیے صرف کلمۂ توحید کافی ہے؟
کیا رسالت پر ایمان لانا ضروری ہے؟
ایمان بالرّسالت
قرآن پر سب سے بڈا بہتان
نبوت محمدی کا عقلی ثبوت
اتباع اور اطاعت رسول
رسول کی حیثیت شخصی وحیثیت نبوی
رسالت اور اس کے احکام
حدیث اور قرآن
مسلکِ اعتدال
استدراک
حدیث کے متعلق چند سوالات
قرآن اور سنت رسولؐ
ایک حدیث پر اعتراض اور اس کا جواب

تفہیمات (حصہ اول)

اس ویب سائٹ پر آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ اب آپ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمتہ اللہ علیہ کی کتابوں کو ’’پی ڈی ایف ‘‘ کے ساتھ ساتھ ’’یونی کوڈ ورژن‘‘ میں بھی پڑھ سکتے ہیں۔کتابوں کی دستیابی کے حوالے سے ہم ’’اسلامک پبلی کیشنز(پرائیوٹ) لمیٹڈ، لاہور‘‘، کے شکر گزار ہیں کہ اُنھوں نے اس کارِ خیر تک رسائی دی۔ اس صفحے پر آپ متعلقہ کتاب PDF اور Unicode میں ملاحظہ کیجیے۔

قرآن پر سب سے بڈا بہتان

اِنَّ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَالَّذِيْنَ ھَادُوْا وَالنَّصٰرٰى وَالصّٰبِـــِٕيْنَ مَنْ اٰمَنَ بِاللہِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ وَعَمِلَ صَالِحًا فَلَھُمْ اَجْرُھُمْ عِنْدَ رَبِّہِمْ۝۰ۚ۠ وَلَا خَوْفٌ عَلَيْہِمْ وَلَا ھُمْ يَحْزَنُوْنَo
البقرہ 62:2
یوں تو قرآن مجید کی آیات میں معنوی تحریف کرنے کی ہر زمانے میں کوششیں کی گئی ہیں، اور ہر دَور میں کج نظر لوگوں کا یہی شیوہ رہا ہے کہ کتاب الٰہی کے واضح ارشادات کو توڑ مروڑ کر اپنے نفس کی خواہشات یا اپنے دوستوں کے رجحانات ومطالبات کے مطابق ڈھالتے رہیں۔ لیکن زمانۂ حال میں جو معنوی تحریف آیت مندرجہ عنوان میں کی گئی ہے، اس سے بڑھ کر گمراہ کن تحریف شاید ہی کبھی کی گئی ہو۔ دوسری تحریفات تو زیادہ تر احکام کی قطع وبرید پر مشتمل ہیں، یا تعلیمات اسلامی کے اجزا میں سے کسی جز پر ضرب لگاتی ہیں، مگر یہ تحریف سرے سے اس بنیاد ہی کو اکھیڑ پھینکتی ہے جس پر قرآن مجید تمام عالم کو ایک صراطِ مستقیم کی طرف دعوت دیتا ہے۔ بلکہ اس سے بڑھ کر اس کی زد اس قاعدۂ کلیہ پر براہ راست پڑتی ہے جو نوع انسانی کی ہدایت کے لیے اللہ تعالیٰ نے مقرر کیا ہے اور جس کے تحت ابتدائے آفرینش سے بعثت ِ محمدی صلعم تک تنزیل کتب اور ارسال رسل کا سلسلہ جاری رہا ہے حقیقت میں اس تحریف نے روح ضلالت کی وہ خدمت انجام دی ہے جس سے ائمہ کفر و ضلال بھی عاجز رہ گئے تھے۔ یہ ایک طرف تو غیر مسلموں کو قرآن کی دعوت حق قبول نہ کرنے کے لیے خود قرآن ہی سے دلیل بہم پہنچاتی ہے، دوسری طرف مسلمانوں کی جماعت میں جو منافقین اسلام کی گرفت سے آزاد ہونے کے لیے بے چین ہیں ان کو یہ کفر و اسلام کاامتیاز اٹھا دینے کی اجازت خود اسلام ہی کی زبان سے دلواتی ہے اور تیسری طرف جو اچھے خاصے صاحب ایمان لوگ خدا کی کتاب اور اس کے رسول کی پیروی پر قائم ہیں، ان کے ایمان کو بھی متزلزل کر دیتی ہے، حتیٰ کہ وہ بے چارے اس شک میں پڑ جاتے ہیں کہ جب قرآن اور رسالت محمدی سے انکار کرکے بھی انسان نجات پاسکتا ہے، اور جب نجات کے لیے سرے سے کتاب اور رسالت پر ایمان لانے کی ضرورت ہی نہیں ہے تو پھر اسلام کی پابندی محض بے معنی ہے، اور ہمارا مسلمان ہونا یا ہندو، عیسائی، پارسی، یہودی وغیرہ ہونا یکساں ہے۔ غرض یہ ایک شاہ ضرب (master stroke)ہے جو ہر طرف سے، اندر سے بھی اور باہر سے بھی، اسلام کو نشانہ بناتی ہے۔ داد دینی چاہیے اس ذہانت کی جس نے کتاب ہدایت سے ضلالت کا یہ ہتھیار نکالا!… شاید قرآن پر اس سے بڑا بہتان کبھی نہیں لگایا گیا۔
مجھے بکثرت مجلسوں میں اس تحریف کے کرشمے دیکھنے کا اتفاق ہوا ہے۔ اور خصوصیت کے ساتھ میں نے دیکھا کہ جدید تعلیم یافتہ حضرات بُری طرح اس کے شکار ہو رہے ہیں۔ ناظرین ترجمان القرآن میں سے بھی متعدد اصحاب نے مجھے لکھا کہ اس آیت کی ’’جدید تفسیر‘‘ سے سخت غلط فہمیاں پھیل رہی ہیں۔ بعض غیر مسلم مشاہیرکی تحریروں اور تقریروں سے بھی اندازہ ہوا کہ اس ’’تفسیر نو‘‘ سے کافی فائدہ اٹھانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ اس فتنے کو دیکھ کر یہ ضروری معلوم ہوتا ہے کہ اس آیت کا صحیح مفہوم قرآن مجید سے متعین کیا جائے، اور جو معنی اس کو پہنائے گئے ہیں ان کی تردید خود قرآن ہی سے کر دی جائے۔ کیونکہ جب قائل خود اپنے قول کی تشریح کر دے تو کسی شخص کو اپنے طور پر اس کے قول کو کچھ دوسرے معنی پہنانے کا حق ہی نہیں رہتا۔
سب سے پہلے آیت کے اصل الفاظ ملاحظہ کر لیجیے:
اِنَّ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَالَّذِيْنَ ھَادُوْا وَالنَّصٰرٰى وَالصّٰبِـــِٕيْنَ مَنْ اٰمَنَ بِاللہِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ وَعَمِلَ صَالِحًا فَلَھُمْ اَجْرُھُمْ عِنْدَ رَبِّہِمْ۝۰ۚ۠ وَلَا خَوْفٌ عَلَيْہِمْ وَلَا ھُمْ يَحْزَنُوْنَo
البقرہ 62:2
بے شک جو لوگ ایمان لائے (یعنی مسلمان) اور جو یہود ہوئے اور نصاریٰ اور صابی، ان میں سے جو کوئی بھی اللہ پر اور یوم آخر پر ایمان لایا اور جس نے بھی نیک عمل کیے ان سب کے لیے ان کے پروردگار کے ہاں اجر ہے اور ان کے لیے خوف اور رنج کی کوئی بات نہیں ہے۔
اسی مضمون کا اعادہ سورۂ مائدہ کے دسویں رکوع میں بھی تھوڑے سے تغیر لفظی کے ساتھ کیا گیا ہے۔ دونوں آیتوں کا مفہوم متعین کرنے کے لیے ضروری ہے کہ پہلے ان کا تجزیہ کرکے ایک ایک لفظ کا مفہوم متعین کیا جائے اور اس کے بعد یہ دیکھا جائے کہ جو بات ان آیتوں میں مختصراً بیان کی گئی ہے، اس کی تفصیل خود قرآن میں دوسرے مقامات پر کس طرح کی گئی ہے۔
(۱) اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا۔ اس کا لفظی ترجمہ صرف اس قدر ہے کہ ’’بے شک وہ لوگ جو ایمان لائے۔‘‘مگر اس مبتدا کی خبر مَنْ اٰمَنَ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِر۔ (جو بھی اللہ پر ایمان لایا اور یوم آخر پر)میں دوبارہ ایمان لانے کا ذکرکیا گیا ہے۔ اس سے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایمان لانے والے کا ایمان لانا کیا معنی رکھتا ہے؟ اَلَّذِیْنَ سے اگر وہی لوگ مراد ہوں جو خدا اورآ خرت پر ایمان لائے ہیں تو ان کے لیے دوبارہ مَنْ اٰمَنَ بِاللّٰہِ وَ الْیَوْمِ الْاَخِرِ کہنا فضول ہوگا۔ لہٰذا یہ ماننا لازم آتا ہے کہ اَلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا سے مراد محض گروہ اہل اسلام ہے، اور اس کے مقابلے میں مَنْ اٰمَنَ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ سے وہ شخص مراد ہے جو درحقیقت ایمان کامل کا حامل ہو، بلالحاظ اس کے کہ وہ کس گروہ سے انتساب رکھتا ہے۔
نزول قرآن کے عہد میں گروہ بندی کے جو تخیلات دماغوں پر مسلط تھے وہی آج بھی مسلط ہیں اور ان کو پیش نظر رکھ کر یہ سمجھنا بہت آسان ہے کہ قرآن مجید یہاں دراصل فرق کر رہا ہے ان لوگوں کے درمیان جو اہل ایمان کے گروہ سے انتساب رکھتے ہو ں اور ان کے درمیان جو فی الواقع حقیقت ایمان کے حامل ہوں۔ آج بھی ہم دیکھ رہے ہیں کہ دنیا فرقہ بندی کے نقطۂ نظر سے ہی اشخاص میں تمیز کرتی ہے۔ ایک شخص کو مومن یا مسلم کہا جاتا ہے، صرف اس لیے کہ جماعتوں کی تقسیم کے اعتبار سے وہ مسلمانوں کی جماعت میں شامل ہے۔ اس سے بحث نہیں کہ وہ درحقیقت بھی ’’مسلم‘‘ ہے یا نہیں۔ اسی طرح ایک عیسائی، ایک یہودی، ایک بودھی کو بھی اس کے ظاہری انتساب کا لحاظ کرتے ہوئے عیسائی، یہودی وغیرہ کہا جاتا ہے قطع نظر اس سے کہ حقیقت میں وہ اپنے گروہ کے ایمانیات پر اعتقاد رکھتا ہو یا نہ رکھتا ہو۔ اسی قسم کی صورت حال نزول قرآن کے عہد میں بھی تھی کہ حقیقت سے قطع نظر کرکے نوع انسانی کو ظاہر کے اعتبار سے گروہوں میں تقسیم کر دیا گیا تھا۔ لوگ اس لحاظ سے اشخاص اور جماعتوں کے درمیان امتیاز کرتے تھے کہ فلاں شخص محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی جماعت کا آدمی ہے، اور فلاں یہودیوں کے گروہ سے ہے، اور فلاں نصرانیوں کے فرقے والاہے۔ چنانچہ اسی جماعتی تقسیم کے لحاظ سے منافقین بھی گروہ اہل ایمان (اَلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا) میں شمار کیے جاتے تھے، حالانکہ فی الواقع وہ ایمان نہ رکھتے تھے۔
یہاں اللہ تعالیٰ اسی نقطۂ نظر کی غلطی واضح کرنا چاہتا ہے، اس لیے وہ حقیقت نفس الامری کو بیان کرنے سے پہلے گروہوں کا ذکر ان کے جدا جدا ناموں سے کر رہا ہے، اور ابتدا اس نے مسلمانوں کے گروہ سے کی ہے۔
(۲) وَالَّذِیْنَ ھَادُوْ۔ لفظی ترجمہ: ’’وہ لوگ جو یہودی ہوئے‘‘۔ مقصود یہاں بھی وہی ہے جس کی تصریح اوپر کی گئی ہے۔ ’’یہودی ہوئے‘‘ سے مراد یہ نہیں کہ جنھوں نے حقیقت میں یہودیوں کا عقیدہ اور مسلک اختیار کیا ہے ان کے لیے وہ حکم ہے جو آگے چل کر بیان ہونے والا ہے۔ بلکہ دراصل گروہ اہل یہود میں شمار ہونے والوں کو اَلَّذِیْنَ ھَادُوْ ا سے تعبیر کیا گیا ہے۔
(۳) وَالنَّصٰرٰی۔ سلسلۂ کلام کے تحت یہاں نصاریٰ سے مراد بھی ’’اعتقادی عیسائی‘‘ نہیں ہیں بلکہ وہ لوگ جو عیسائیوں کی قوم میں شمار ہوتے ہیں۔
(۴) وَالصَّابِئِیْنَ۔ یہ لفظ اہل عرب کی زبان میں عراق و الجزیرہ وغیرہ علاقوں کے اس گروہ کے لیے بولا جاتا تھا جس میں انبیائے مقتدمین کی تعلیمات کے ساتھ کواکب پرستی اور ملائک پرستی کے عقاید خلط ملط ہوگئے تھے۔ یہاں بھی صَابِئِیْنَ سے مراد محض اس گروہ کے لوگ ہیں، نہ کہ صابیت پر اعتقاد رکھنے والے۔
(۵) مَنْ اٰمَنَ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَعَمِلَ صَالِحًا فَلَھُمْ اَجْرُھُمْ عِنْدَ رَبِّھِمْ۔ لفظی ترجمہ یہ ہے:
جو کوئی بھی ایمان لایا اللہ پر اور روز آخرت پر اور جس نے بھی نیک عمل کیے ایسے لوگوں کا اجر ان کے پروردگار کے پاس ہے اور ان پر نہ کوئی خوف ہے اور نہ رنج۔
یہاں اللہ تعالیٰ نے دراصل اس خیال کی تردید کی ہے جو عام طور پر پھیلا ہوا ہے کہ انسانوں کی تقسیم نام و نسب اور ظاہری انتسابات کے اعتبار سے جو مختلف قوموں اور گروہوں میں ہوگئی ہے اسی کے مطابق ان کا حشر بھی ہوگا۔ یہودی یہ سمجھتا ہے کہ جو یہودیوں کے گروہ میں شامل ہے وہی نجات پانے والا ہے، اس گروہ کے باہر کسی کے لیے نجات نہیں ہے۔ نصرانی یہ گمان کرتا ہے کہ نصرانیوں کے گروہ میں شامل ہونا گویا اہل حق میں شامل ہو جانا ہے، اور اس گروہ سے باہر سب اہل باطل ہیں۔ مسلمان بھی اس غلط فہمی میں مبتلا ہوگئے کہ محض گروہ اہل اسلام میں نام اور خاندان اور چند ظاہری اشکال و مراسم کے اعتبار سے شامل ہو جانا ہی ’’مسلمان‘‘ ہونا ہے اور اس لحاظ سے جو لوگ اس گروہ میں شامل ہیں وہ ان لوگوں پر شرف رکھتے ہیں جو اس لحاظ سے ان میں شامل نہیں ہیں۔ ان غلط خیالات کے جواب میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ انسان اور انسان میں حقیقی فرق و امتیاز ظاہری گروہ بندی سے نہیں ہوتا، بلکہ اصل چیز ایمان اور عمل صالح ہے۔ جو مومن کہلاتا ہے مگر حقیقت میں ایمان اور عمل صالح سے بہرہ ور نہیں وہ حقیقت میں مومن نہیں ہے اور اس کا انجام وہ نہیں ہوسکتا جو مومنین کے لیے مخصوص ہے۔ اسی طرح جو یہودی یا نصرانی یا صا بی گروہوں کی طرف منسوب ہے، اگر وہ ایمان اور عمل صالح کی صفت سے متصف ہو جائے تو وہ حقیقت میں یہودی یا صابی نہیں بلکہ مومن ہے، اور اس کا حشر وہ ہوگا جو مومنین و صالحین کے لیے مقرر کیا گیا ہے، لیکن اگر وہ ان صفات سے عاری ہو تو جس طرح مسلمانوں کے گروہ میں شامل ہونا کسی شخص کے لیے نافع نہیں ہے اسی طرح یہودی و نصرانی یا صابی گروہوں میں شامل ہونا بھی کسی کے لیے نافع نہیں ہوسکتا۔
قرآن مجید میں دوسرے مقامات پر یہود و نصاریٰ کی اس گروہ پرستی کا خصوصیت کے ساتھ ذکر کیا گیا ہے اور اس کی تردید کی گئی ہے۔ مثلاً فرمایا:
وَقَالُوْا لَنْ يَّدْخُلَ الْجَنَّۃَ اِلَّا مَنْ كَانَ ھُوْدًا اَوْ نَصٰرٰى۝۰ۭ تِلْكَ اَمَانِيُّھُمْ۝۰ۭ قُلْ ھَاتُوْا بُرْھَانَكُمْ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِيْنَo بَلٰي۝۰ۤ مَنْ اَسْلَمَ وَجْہَہٗ لِلہِ وَھُوَمُحْسِنٌ فَلَہٗٓ اَجْرُہٗ عِنْدَ رَبِّہٖ۝۰۠ وَلَا خَوْفٌ عَلَيْہِمْ وَلَا ھُمْ يَحْزَنُوْنَo البقرہ111-112:2
انھوں نے کہا کہ کوئی شخص جنت میں نہ جائے گا تاوقتیکہ وہ یہودی نہ ہو یا نصرانی نہ ہو۔ یہ محض ان کے من سمجھوتے ہیں۔ اے محمدؐ! ان سے کہہ دو کہ اگر تم سچے ہو تو دلیل لائو۔ ہاں جو بھی خدا کے آگے سر تسلیم خم کر دے گا اور نیکوکار ہوگا اس کے لیے اپنے پروردگار کے ہاں اجر ہے اور ایسے ہی لوگوں کے لیے کوئی خوف اور رنج نہیں ہے۔
وَقَالَتِ الْيَھُوْدُ وَالنَّصٰرٰى نَحْنُ اَبْنٰۗؤُا اللہِ وَاَحِبَّاۗؤُہٗ۝۰ۭ قُلْ فَلِمَ يُعَذِّبُكُمْ بِذُنُوْبِكُمْ۝۰ۭ بَلْ اَنْتُمْ بَشَرٌ مِّمَّنْ خَلَقَ۝۰ۭ المائدہ18:5
یہودیوں اور عیسائیوں نے کہا کہ ہم اللہ کے بیٹے اور اس کے پیارے ہیں اے محمدؐ ان سے پوچھو کہ پھر اللہ تمھارے گناہوں کی تم کو سزا کیوں دیتا ہے؟ دراصل تم بھی ویسے ہی انسان ہو جیسے خدا نے اور انسان پیدا کیے ہیں۔
قَالُوْا لَنْ تَمَــسَّـنَا النَّارُ اِلَّآ اَيَّامًا مَّعْدُوْدٰتٍ۝۰۠ وَغَرَّھُمْ فِيْ دِيْــنِہِمْ مَّا كَانُوْا يَفْتَرُوْنَo فَكَيْفَ اِذَا جَمَعْنٰھُمْ لِيَوْمٍ لَّا رَيْبَ فِيْہِ۝۰ۣ وَوُفِّيَتْ كُلُّ نَفْسٍ مَّا كَسَبَتْ وَھُمْ لَا يُظْلَمُوْنَo آل عمران24-25:3
انھوں نے کہا کہ ہم کو آگ ہرگز نہ چھوئے گی اور اگر چھو بھی گئی تو زیادہ سے زیادہ چند روز، جو باتیں انھوں نے خود گھڑ لی ہیں انھی نے ان کو اپنے دین کے بارے میں دھوکہ دے رکھا ہے۔ پھر اس وقت کیسی کچھ گزرے گی جب ہم ان کو اس دن جمع کریں گے جس کے آنے میں کوئی شبہ نہیں ہے اور ہر شخص کو اپنے کیے کا بدلہ ملے گا اور لوگوں کے ساتھ ظلم نہ ہوگا بلکہ وہی کیا جائے گا جس کے وہ حقیقت میں مستحق ہوں گے۔
قُلْ اِنْ كَانَتْ لَكُمُ الدَّارُ الْاٰخِرَۃُ عِنْدَ اللہِ خَالِصَۃً مِّنْ دُوْنِ النَّاسِ فَتَمَنَّوُا الْمَوْتَ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِيْنَo البقرہ94:2
اے محمد! ان سے کہو کہ اگر اللہ کے ہاں آخرت کا گھر بس تمھارے ہی لیے ہے اور دوسرے لوگ اس میں حصہ دار نہیں ہیں، تب تو تمھیں موت کی تمنا کرنی چاہیے اگر تم سچے ہو۔
ان تمام آیات میں یہی حقیقت واضح کی گئی ہے کہ اللہ کا کسی گروہ کے ساتھ کوئی رشتہ نہیں ہے۔ نہ نجات پر کسی قوم کا اجارہ ہے۔ تم اس بنا پر کسی خاص برتائو کا حق نہیں رکھتے کہ فلاں قوم میں پیدا ہوئے ہو، یا فلاں جماعت سے منسوب ہو، خدا کی نگاہ میں انسان ہونے کی حیثیت سے سب برابر ہیں۔ کوئی قوم نہ بجائے خود چہیتی اور مقبول بارگاہ ہے۔ اور نہ کوئی صرف اس لیے راندۂ درگاہ کہ وہ فلاں نام سے موسوم اور فلاں طبقے سے منسوب ہے۔ خدا کے ہاں اصل وزن انتسابات اور قومیتوں کا نہیں ہے بلکہ اصول اور حقائق کا ہے۔ سچے دل سے ایمان لائو گے اور نیک عمل کرو گے تو اچھا بدلہ پائو گے اور اگر ایمان و عمل صالح سے خالی رہو گے تو کوئی چیز تمھیں بری جزا سے نہ بچا سکے گی خواہ تم کسی گروہ سے تعلق رکھتے ہو۔ اسی مضمون کو مسلمانوں اور اہل کتاب دونوں سے خطاب کرتے ہوئے بیان کیاگیا ہے:
لَيْسَ بِاَمَانِيِّكُمْ وَلَآ اَمَانِيِّ اَھْلِ الْكِتٰبِ۝۰ۭ مَنْ يَّعْمَلْ سُوْۗءًا يُّجْزَ بِہٖ۝۰ۙ وَلَا يَجِدْ لَہٗ مِنْ دُوْنِ اللہِ وَلِيًّا وَّلَا نَصِيْرًاo وَمَنْ يَّعْمَلْ مِنَ الصّٰلِحٰتِ مِنْ ذَكَرٍ اَوْ اُنْثٰى وَھُوَمُؤْمِنٌ فَاُولٰۗىِٕكَ يَدْخُلُوْنَ الْجَنَّۃَ وَلَا يُظْلَمُوْنَ نَقِيْرًاo النساء123-124:4
عاقبت کا مدار تمھاری خواہشات پر ہے اور نہ اہل کتاب کی تمنائوں پر جو بُرا عمل کرے گا، اس کا بدلہ پائے گا اور خدا کی پکڑ سے بچانے کے لیے اس کو کوئی حامی و مددگار نہ ملے گا اور جو نیک عمل کرے گا اس حال میں کہ وہ با ایمان ہو، تو وہ مرد ہو یا عورت، ایسے لوگ جنت میں جائیں گے۔ دونوں قسم کے آدمیوں کے ساتھ رتی برابر بھی ظلم نہ کیا جائے گا۔
یہی بات ہے جس کو آیت زیر بحث میں ایک دوسرے انداز سے بیان کیا گیا ہے۔ جس سلسلۂ کلام میں یہ آیت نازل ہوئی ہے اس میں بحث یہ تھی ہی نہیں کہ مومن ہونے کے لیے کن کن باتوں پر ایمان لانا ضروری ہے، اور صالح ہونے کے لیے عمل کا ضابطہ کیا ہونا چاہیے، یہ تفصیلات قرآن میں دوسری جگہ بیان ہوئی ہیں۔ وہاں تو محض یہ قاعدہ کلیہ بیان کرنا مقصود تھا کہ خدا کے ہاں اصل اعتبار حقائق نفس الامری کا ہے نہ کہ ان خارجی مظاہر اور سطحی اشکال اور نمائشی انتسابات کا جن پر دنیا کے لوگ کٹے مرتے ہیں۔ اسی لیے وہاں حقائق نفس الامری کی طرف ایک مختصر اشارہ کر دیا گیا۔ اب اگر اس سے کوئی شخص یہ معنی نکالتا ہے کہ اس آیت میں چونکہ صرف خدا اور آخرت پر ایمان لانے کا ذکر کیا گیا ہے اس لیے بس یہی دو چیزیں انسان کی نجات کے لیے کافی ہیں، ان کے بعد کسی رسول یا کسی کتاب کو ماننے اور کسی شریعت کا اتباع کرنے کی ضرورت نہیں، یا یہ کہے کہ قرآن کی دعوت کا منشا اس سے زیادہ کچھ اور نہیں ہے کہ ہندو پکا ہندو بن جائے اور یہودی سچا یہودی بن کر رہے اور ہر شخص اسی مذہب کا پورا اتباع کرے جس کا وہ معتقد ہے، باقی رہا قرآن اور رسالت محمدی پر ایمان تو وہ نجات کے لیے شرط نہیں، تو ایسے شخص کے متعلق ہم صاف کہتے ہیں کہ وہ قرآن کی تفسیر نہیں کرتا بلکہ اس کے ساتھ مذاق کرتا ہے۔ اس کی بات تسلیم ہی نہیں کی جاسکتی جب تک کہ ان دو آیتوں کو مستثنیٰ کرکے سارے قرآن کا انکار نہ کر دیا جائے۔
اس میں شک نہیں کہ دین کی اصل ایمان باللہ ہی ہے، اور اسی لیے آیات زیر بحث میں سب سے پہلے اسی کا ذکر کیا گیا ہے، مگر ایمان باللہ کے معنی یہ نہیں ہیں کہ بس خدا کے وجود کا اور اس کی وحدانیت کا اقرار کرلیا جائے۔ قرآن واضح طور پر خود ہی ہم کو بتاتا ہے کہ ایمان باللہ سے اس کی مراد کیا ہے۔
بَلٰي۝۰ۤ مَنْ اَسْلَمَ وَجْہَہٗ لِلہِ وَھُوَمُحْسِنٌ فَلَہٗٓ اَجْرُہٗ عِنْدَ رَبِّہٖ۝۰۠ وَلَا خَوْفٌ عَلَيْہِمْ وَلَا ھُمْ يَحْزَنُوْنَo البقرہ112:2
جس نے اپنے آپ کو خدا کے سپرد کر دیا اور نیکوکاری اختیارکی اس کے لیے اپنے رب کے ہاں اجر ہے اور ایسے لوگوں کے لیے کوئی خوف اور رنج نہیں۔
یہاں ایمان باللہ کی تشریح کر دی گئی ہے کہ اس سے مراد ’’اسلام‘‘ یعنی اپنے آپ کو خدا کی رضا کا مطیع بنا دینا ہے۔ اور اس کا اجر بھی ٹھیک وہی بیان کیا گیا ہے جو آیت اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَالَّذِیْنَ ھَادُوْم میں بیان کیا گیا تھا، یعنی ایسا کرنے والے کا اجر اس کے رب کے پاس ہے اور اس کے لیے نہ خوف ہے نہ رنج۔
پھر دوسرے مقامات پر مزید تشریح کی گئی کہ ایسا ایمان یا ’’اسلام‘‘ آدمی کو صرف انبیاء اور کتب آسمانی کی وساطت ہی سے مل سکتا ہے، یہ ممکن نہیں ہے کہ کوئی شخص خود اپنی جگہ غور و فکر کرکے خدا اور آخرت کے متعلق ایک عقیدہ اور اخلاقِ فاضلہ کے متعلق ایک نظریہ قائم کرے، یا اپنے ذاتی انتخاب سے کام لے کر کچھ باتیں اِس مذہب کی اور کچھ اُس مذہب کی چن لے، اور وہ قرآن کی نظر میں مومن قرار پائے۔
قُوْلُوْٓا اٰمَنَّا بِاللہِ وَمَآ اُنْزِلَ اِلَيْنَا وَمَآ اُنْزِلَ اِلٰٓى اِبْرٰھٖمَ… وَمَآ اُوْتِيَ النَّبِيُّوْنَ مِنْ رَّبِّہِمْ۝۰ۚ لَا نُفَرِّقُ بَيْنَ اَحَدٍ مِّنْھُمْ۝۰ؗۖ وَنَحْنُ لَہٗ مُسْلِمُوْنَo فَاِنْ اٰمَنُوْا بِمِثْلِ مَآ اٰمَنْتُمْ بِہٖ فَقَدِ اھْتَدَوْا۝۰ۚ وَاِنْ تَوَلَّوْا فَاِنَّمَا ھُمْ فِيْ شِقَاقٍ۝۰ۚ البقرہ136-137:2
کہو کہ ہم ایمان لائے اللہ پر اور اس کتاب پر جو ہماری طرف آئی ہے اور ان کتابوں پر جو ابراہیم اور اسمعیل اور اسحق اور یعقوب اور اولاد یعقوب کی طرف اتاری گئی تھیں اور ان سب کتابوں پر جو تمام انبیاء کو ان کے پروردگار کی طرف سے دی گئیں۔ ہم ان پیغمبروں میں سے کسی کو الگ نہیں کرتے اور ہم اسی خدا کے فرمانبردار (مسلم) ہیں اگر وہ ایمان لائیں اسی طرح جس طرح تم ایمان لائے ہو، تو انھوں نے ہدایت پالی۔ اور اگر وہ ایسے ایمان سے انکار کریں تو وہ ضد پر ہیں۔
آل عمران میں دوبارہ اسی مضمون کا اعادہ کیا گیا ہے اور نَحْنُ لَہٗ مُسْلِمُوْنَ تک بیان کرنے کے بعد صاف کہا گیا ہے کہ وَمَنْ يَّبْتَـغِ غَيْرَ الْاِسْلَامِ دِيْنًا فَلَنْ يُّقْبَلَ مِنْہُ۝۰ۚ وَھُوَفِي الْاٰخِرَۃِ مِنَ الْخٰسِرِيْنَo آل عمران85:3 یعنی جو شخص اس دین کو چھوڑ کر کوئی اور دین پسند کرے وہ ہرگز قبول نہ کیا جائے گا اور آخرت میں وہ نامراد رہے گا۔
پھر اسی سورۃ میں دوسری جگہ فرمایا:
فَاِنْ حَاۗجُّوْكَ فَقُلْ اَسْلَمْتُ وَجْہِيَ لِلہِ وَمَنِ اتَّبَعَنِ۝۰ۭ وَقُلْ لِّلَّذِيْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ وَالْاُمِّيّٖنَ ءَاَسْلَمْتُمْ۝۰ۭ فَاِنْ اَسْلَمُوْا فَقَدِ اھْتَدَوْا۝۰ۚ آل عمران20:3
اگر وہ تم سے حجت کریں تو کہو کہ میں نے اور میرے پیرئووں نے تو اپنے آپ کو خدا کی رضا کا مطیع (مسلم) بنا دیا ہے۔ پھر اہل کتاب یہود و نصاریٰ اور ان پڑھ لوگوں (غیر اہل کتاب) سے کہو تم بھی اسی طرح اسلام لائے ہو؟ اگر وہ اسلام لائیں تب وہ بے شک ہدایت یافتہ ہوں گے۔
ان آیات سے پوری صراحت کے ساتھ یہ معلوم ہو جاتا ہے کہ آیت زیر تفسیر میں ایمان باللہ سے مراد محض خدا کو مان لینا نہیں ہے، بلکہ انبیاء علیہم السلام اور کتب آسمانی کی تعلیم کے مطابق ماننا ہے اور اسی کا نام اسلام ہے۔ قرآن نہایت قطعی الفاظ میں بار بار اس امر کا اعادہ کرتا ہے کہ نبی اور کتاب کا واسطہ انسانی ہدایت کے لیے ناگزیر ہے۔ اس واسطے سے بے نیاز ہو کر کوئی شخص ہدایت نہیں پاسکتا۔ اور اس بنا پر کوئی شخص صاحب ایمان ہو ہی نہیں سکتا جب تک کہ وہ خدا کے ساتھ اس کے پیغمبروں پر بھی ایمان نہ لائے۔
اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا بِاللہِ وَرَسُوْلِہٖ النور62:24
مومن تو صرف وہی لوگ ہیں جو اللہ پر اور اس کے رسول پر ایمان لائیں۔
وَمَنْ يَّكْفُرْ بِاللہِ وَمَلٰۗىِٕكَتِہٖ وَكُتُبِہٖ وَرُسُلِہٖ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ فَقَدْ ضَلَّ ضَلٰلًۢا بَعِيْدًاo
النساء 136:4
اور جو کوئی اللہ سے اور اس کے ملائکہ اور اس کی کتابوں اور اس کے رسولوں اور آخرت سے کفر کرے وہ گمراہی میں بہت دُور نکل گیا۔
وَكَاَيِّنْ مِّنْ قَرْيَۃٍ عَتَتْ عَنْ اَمْرِ رَبِّہَا وَرُسُلِہٖ فَحَاسَبْنٰہَا حِسَابًا شَدِيْدًا۝۰ۙ وَّعَذَّبْنٰہَا عَذَابًا نُّكْرًاo فَذَاقَتْ وَبَالَ اَمْرِہَا وَكَانَ عَاقِبَۃُ اَمْرِہَا خُسْرًاo الطلاق 8-9:65
اور کتنی ہی بستیاں تھیں جنھوں نے اپنے پروردگار اور اس کے رسولوں سے سرتابی کی تو ہم نے ان سے سخت باز پرس کی اور ان کو بڑی بُری سزا دی اور انھوں نے اپنے کیے کا مزہ چکھا اور آخر کار وہ گھاٹے میں رہے۔
یہ ان بے شمار آیات میں سے چند ہیں جن میں صاف صاف بیان کیا گیا ہے کہ ایمان باللہ کے ساتھ ایمان بالرسل کا تعلق غیر منفک ہے اور رسالت کا منکر کسی طرح خدا کا مومن نہیں ہوسکتا۔ پھر یہ بھی بیان کر دیا گیا کہ ایمان بالکتب اور ایمان بالرسل کے معنی یہی نہیں ہیں کہ رسولوں کی عظمت و بزرگی کا اعتراف کرلیا جائے اور زبان سے کہہ دیا جائے کہ ان کو بھی مانتے ہیں اور ان کی لائی ہوئی کتابوں کو بھی۔ ایمان کے لیے محض اس طرح کا ایک تعظیمی اعتراف کافی نہیں ہے جیسا کہ برہمو سماجی حضرات یا گاندھی جی کی قسم کے لوگ کرتے ہیں، بلکہ عملی اطاعت اور اتباع بھی ضروری ہے اور اس قاعدۂ کلیہ کو تسلیم کرنا ایک ناگزیر شرط ہے کہ نبی کا قول آخری قول (final authority)ہے اور اس کے مقابلے میں اپنی حجت چلانے کا کسی مومن کو حق نہیں۔
وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا لِيُطَاعَ بِـاِذْنِ اللہِ۝۰ۭ النساء64:4
ہم نے جو رسول بھی بھیجا ہے اسی لیے بھیجا ہے کہ فرمان خداوندی کے تحت اس کی اطاعت کی جائے۔
مَنْ يُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللہَ۝۰ۚ النساء80:4
جس نے رسول کی اطاعت کی اس نے خدا کی اطاعت کی۔
وَمَنْ يُّشَاقِقِ الرَّسُوْلَ مِنْۢ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَہُ الْہُدٰى وَيَتَّبِـعْ غَيْرَ سَبِيْلِ الْمُؤْمِنِيْنَ نُوَلِّہٖ مَا تَوَلّٰى وَنُصْلِہٖ جَہَنَّمَ۝۰ۭ وَسَاۗءَتْ مَصِيْرًاo النساء115:4
جس شخص نے رسول سے جھگڑا کیا، دراں حالیکہ ہدایت اس پر واضح ہو چکی ہو اور مومنوں کے طریقے (یعنی اطاعت رسول) کو چھوڑ کر کوئی دوسرا راستہ اختیار کیا، تو جدھر وہ مڑ گیا ہم بھی اسے ادھر ہی موڑیں گے اور اسے جہنم میں جھونکیں گے اور اس کا بہت بُرا ٹھکانا ہوگا۔
وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَّلَا مُؤْمِنَۃٍ اِذَا قَضَى اللہُ وَرَسُوْلُہٗٓ اَمْرًا اَنْ يَّكُوْنَ لَہُمُ الْخِـيَرَۃُ مِنْ اَمْرِہِمْ۝۰ۭ وَمَنْ يَّعْصِ اللہَ وَرَسُوْلَہٗ فَقَدْ ضَلَّ ضَلٰلًا مُّبِيْنًاo الاحزاب36:33
کسی مومن مرد یا عورت کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ جب خدا اور اس کا رسول کسی امر کا فیصلہ کر دے تو پھر وہ خود اپنے معاملے میں اپنے اختیار سے کوئی فیصلہ کرے اللہ اور اس کے رسول کی جس نے نافرمانی کی وہ کھلی گمراہی میں مبتلا ہوا۔
فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُوْنَ حَتّٰي يُحَكِّمُوْكَ فِيْمَا شَجَــرَ بَيْنَھُمْ ثُمَّ لَا يَجِدُوْا فِيْٓ اَنْفُسِہِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُوْا تَسْلِــيْمًاo النساء65:4
نہیں، تیرے رب کی قسم وہ ہرگز مومن نہیں ہوں گے جب تک کہ وہ اپنے باہمی اختلاف میں (اے نبی) تجھ کو فیصلہ کرنے والا نہ مان لیں اور جو فیصلہ تو کرے اس پر اپنے دل میں بھی کوئی تنگی محسوس نہ کریں بلکہ بے چون و چرا اس کو تسلیم کرلیں۔
اس کے ساتھ یہ تصریح کی گئی ہے کہ کسی ایک نبی یا ایک کتاب کو یا چند کتابوں کو مان لینا کافی نہیں ہے، بلکہ تمام انبیا اور تمام خدائی کتابوں پر ایمان لانا ضروری ہے، حتیٰ کہ اگر ایک نبی کا بھی انکار کیا جائے گا تو تمام انبیا اور خود اللہ تعالیٰ سے بھی کفر لازم آئے گا۔
اِنَّ الَّذِيْنَ يَكْفُرُوْنَ بِاللہِ وَرُسُلِہٖ وَيُرِيْدُوْنَ اَنْ يُّفَرِّقُوْا بَيْنَ اللہِ وَرُسُلِہٖ وَيَقُوْلُوْنَ نُؤْمِنُ بِبَعْضٍ وَّنَكْفُرُ بِبَعْضٍ۝۰ۙ وَّيُرِيْدُوْنَ اَنْ يَّتَّخِذُوْا بَيْنَ ذٰلِكَ سَبِيْلًاo اُولٰۗىِٕكَ ہُمُ الْكٰفِرُوْنَ حَقًّا۝۰ۚ النساء150-151:4
جو لوگ اللہ اور اس کے رسولوں کے ساتھ کفر کرتے ہیں، اور جو لوگ چاہتے ہیں کہ اللہ اور اس کے رسولوں میں تفریق کریں (یعنی خدا کو مانیں اور رسولوں کو نہ مانیں) اور جو لوگ کہتے ہیں ہم بعض رسولوں کو مانیں گے اور بعض کو نہ مانیں گے اور چاہتے ہیں کہ درمیان کی کوئی راہ اختیار کریں، وہ سب کے سب بالیقین کافر ہیں۔
یہ اس لیے کہ تمام انبیا ایک ناقابل تفریق جماعت ہیں اور ایک ہی دین کی دعوت دیتے ہیں۔ لہٰذا ایک کا انکار سب کا انکار بلکہ اصل دین کا انکار ہے۔ اگر دس آدمی ایک ہی بات کہتے ہوں تو تمھارے لیے اس کے سوا چارہ نہیں کہ یا تو سب کی تصدیق کرویا سب کی تکذیب کرو۔ جو شخص ان میں سے نوکو سچا کہے گا اور ایک کو جھوٹا کہے گا وہ دراصل دسوں کی تکذیب بلکہ خود اس بات کی تکذیب کا مرتکب ہوگا جو انھوں نے بالاتفاق بیان کی ہے۔
يٰٓاَيُّہَا الرُّسُلُ… وَاِنَّ ہٰذِہٖٓ اُمَّتُكُمْ اُمَّۃً وَّاحِدَۃً وَّاَنَا رَبُّكُمْ فَاتَّــقُوْنِo المومنون 51-52:23
اے پیغمبرو… اور بلاشبہ تمھاری یہ جماعت ایک ہی جماعت ہے اور میں تمھارا پروردگارہوں لہٰذا مجھ ہی سے ڈرو۔
شَرَعَ لَكُمْ مِّنَ الدِّيْنِ مَا وَصّٰى بِہٖ نُوْحًا وَّالَّذِيْٓ اَوْحَيْنَآ اِلَيْكَ وَمَا وَصَّيْنَا بِہٖٓ اِبْرٰہِيْمَ وَمُوْسٰى وَعِيْسٰٓى اَنْ اَقِيْمُوا الدِّيْنَ وَلَا تَتَفَرَّقُوْا فِيْہِ۝۰ۭ الشوریٰ13:42
اللہ نے تمھارے لیے دین کا وہی راستہ ٹھیرایا ہے جس پر چلنے کا نوح کو حکم دیا اور جس کی وحی اے محمد!تمھاری طرف بھیجی اور جس کا حکم ابراہیم اور موسیٰ اور عیسیٰ کو دیا کہ اسی دین کو قائم رکھو اور اسی میں تفرقہ نہ ڈالو۔
اس قاعدۂ کلیہ کے تحت یہ آپ سے آپ لازم آجاتا ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن مجید کی بھی تصدیق کی جائے، کیونکہ اگر کوئی شخص تمام انبیا پر ایمان لائے اور صرف آنحضرت پر ایمان لانے سے انکار کر دے، یا تمام کتب آسمانی کو مانے اور صرف قرآن کو نہ مانے، تو درحقیقت وہ تمام انبیااور تمام کتب آسمانی، بلکہ اصل دین الٰہی کا منکر ہوگا جیسا کہ اوپر بیان ہوا۔ اس بات کی تصریح قرآن مجید میں ایک جگہ نہیں بے شمار مقامات پر کی گئی ہے، اور اسی بنا پر انبیائے سابقین اور کتب سابقہ کے ماننے والوں کو محمدصلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن پر ایمان لانے کا حکم دیا گیا ہے اور ان سے صاف صاف کہا گیا ہے کہ اگر تم ان پر ایمان نہ لائو گے تو کفر کے مجرم ہوگے۔
وَلَمَّا جَاۗءَھُمْ كِتٰبٌ مِّنْ عِنْدِ اللہِ مُصَدِّقٌ لِّمَا مَعَھُمْ۝۰ۙ وَكَانُوْا مِنْ قَبْلُ يَسْتَفْتِحُوْنَ عَلَي الَّذِيْنَ كَفَرُوْا۝۰ۚۖ فَلَمَّا جَاۗءَھُمْ مَّا عَرَفُوْا كَفَرُوْا بِہٖ۝۰ۡفَلَعْنَۃُ اللہِ عَلَي الْكٰفِرِيْنَo
البقرہ 89:2
اور جب خدا کی طرف سے ان کے پاس وہ کتاب آئی جو انھی کتابوں کی تصدیق کرتی ہے جو ان کے پاس پہلے سے موجود تھیں، تو باوجودیکہ وہ اس کتاب کی آمد سے پہلے کفار کے مقابلے میں اسی کتاب کی توقع پر فتح کی دعائیں کرتے تھے۔
وَاِذَا قِيْلَ لَھُمْ اٰمِنُوْا بِمَآ اَنْزَلَ اللہُ قَالُوْا نُؤْمِنُ بِمَآ اُنْزِلَ عَلَيْنَا وَيَكْفُرُوْنَ بِمَا وَرَاۗءَہٗ۝۰ۤ
البقرہ 91:2
مگر اس کے آنے پر انھوں نے اس سے انکار کر دیا، حالانکہ وہ اسے خوب پہچانتے تھے۔ پس خدا کی لعنت ہو ان کافروں پر…… اور جب ان سے کہا گیا کہ ایمان لائو اس چیز پر جو خدا نے بھیجی ہے تو انھوں نے کہا کہ ہم تو صرف اسی کتاب کو مانیں گے جو ہمارے پاس آئی ہے اس کے سوا دوسری کتاب کو ماننے سے وہ انکار کرتے ہیں۔
نَزَّلَ عَلَيْكَ الْكِتٰبَ بِالْحَقِّ مُصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيْہِ… اِنَّ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا بِاٰيٰتِ اللہِ لَھُمْ عَذَابٌ شَدِيْدٌ۝۰ۭ آل عمران 3-4:3
اللہ نے تم پر یہ کتاب برحق اتاری ہے۔ یہ تصدیق کرتی ہے ان کتابوں کی جو اس سے پہلے آچکی ہیں… بے شک جو لوگ خدا کی آیتوں سے منکر ہیں ان کے لیے سخت عذاب ہے۔
يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ اٰمِنُوْا بِمَا نَزَّلْنَا مُصَدِّقًا لِّمَا مَعَكُمْ مِّنْ قَبْلِ اَنْ نَّطْمِسَ وُجُوْہًا فَنَرُدَّھَا عَلٰٓي اَدْبَارِھَآ اَوْ نَلْعَنَھُمْ كَـمَا لَعَنَّآ اَصْحٰبَ السَّبْتِ۝۰ۭ النساء47:4
ان سے بھی زیادہ صاف الفاظ میں وہ آیت ہے جس میں فرمایا گیا ہے کہ:
وَاِنَّ مِنْ اَھْلِ الْكِتٰبِ لَمَنْ يُّؤْمِنُ بِاللہِ وَمَآ اُنْزِلَ اِلَيْكُمْ وَمَآ اُنْزِلَ اِلَيْھِمْ خٰشِعِيْنَ لِلہِ۝۰ۙ لَا يَشْتَرُوْنَ بِاٰيٰتِ اللہِ ثَـمَنًا قَلِيْلًا۝۰ۭ اُولٰۗىِٕكَ لَھُمْ اَجْرُھُمْ عِنْدَ رَبِّھِمْ۝۰ۭ
آل عمران 199:3
یہ آخری آیت نہایت واضح طور پر آیت زیر بحث کی تفسیر کر رہی ہے۔ وہاں کہا گیا تھا کہ مسلمان یہودی، عیسائی، صابی، ان میں سے جو کوئی اللہ اور آخرت پر ایمان لائے گا وہ اس کا اجر اپنے پروردگار کے ہاں پائے گا۔ یہاں اس کی تفسیر اس طرح کر دی گئی کہ محمدصلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن کے آجانے کے بعد صرف وہی اہل کتاب خدا کے ہاں اجر پاسکیں گے جو اللہ اور اس کی بھیجی ہوئی پچھلی کتابوں پر ایمان لانے کے ساتھ اس کتاب پر بھی ایمان لائیں جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر اتاری گئی ہے۔ اس سے زیادہ کھلی ہوئی تفسیر اور کیا ہو سکتی ہے؟
اس کے باوجود جو شخص آیت پر بحث سے یہ معنی نکالتا ہے کہ یہودی کا بس پکا یہودی بن جانا اور عیسائی کا محض سچا عیسائی بن جانا قرآن کی نظر میں ہدایت یافتہ اور مستحق اجر ہونے کے لیے کافی ہے، وہ خود قرآن کے صریح بیانات کے خلاف قرآن کی تفسیر کرتا ہے۔ یہ سچ ہے کہ قرآن یہودیوں اور عیسائیوں کو توراۃ اور انجیل کے اتباع کی دعوت دیتا ہے، مگر یہ بھی خبر ہے کہ اس دعوت کے معنی کیا ہیں؟ اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ یہود و نصاریٰ، قرآن اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو چھوڑ کر توراۃ و انجیل کا اتباع کریں، بلکہ اس کا مطلب دراصل یہ ہے کہ توراۃ و انجیل میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے لائے ہوئے پیغام کی پیروی کرنے کے لیے جو ہدایات دی گئی تھیں ان کا اتباع کیا جائے۔ چنانچہ قرآن میں صاف کہہ دیا گیا ہے کہ اب توراۃ و انجیل کا حقیقی اتباع، قرآن اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا اتباع ہے:
يٰٓاَہْلَ الْكِتٰبِ لَسْتُمْ عَلٰي شَيْءٍ حَتّٰي تُقِيْمُوا التَّوْرٰىۃَ وَالْاِنْجِيْلَ وَمَآ اُنْزِلَ اِلَيْكُمْ مِّنْ رَّبِّكُمْ۝۰ۭ المائدہ68:5
اے اہل کتاب تمھارا دعوائے حق پرستی ہیچ ہے جب تک کہ تم توراۃ اور انجیل اور اس کتاب کی پیروی پر قائم نہ ہو جو تمھارے رب کی طرف سے تمھارے پاس بھیجی گئی ہے۔
اَلَّذِيْنَ يَتَّبِعُوْنَ الرَّسُوْلَ النَّبِيَّ الْاُمِّيَّ الَّذِيْ يَجِدُوْنَہٗ مَكْتُوْبًا عِنْدَہُمْ فِي التَّوْرٰىۃِ وَالْاِنْجِيْلِ۝۰ۡ ……اُولٰۗىِٕكَ ہُمُ الْمُفْلِحُوْنَo اعراف157:7
یہ صرف اسی بنا پر نہیں ہے کہ قرآن اسی تعلیم خداوندی کو پیش کرتا ہے جس کو توراۃ اور انجیل پیش کرتی تھیں، بلکہ یہ اس وجہ سے بھی ناگزیر ہے کہ قرآن اس تعلیمِ ہدایت کا جدید ترین (latest)بلکہ آخری ایڈیشن (last edition)ہے۔ اس میں بہت سی ان چیزوں کا اضافہ کیا گیا ہے جو پچھلے اڈیشنوں میں نہ تھیں، اور بہت سی وہ چیزیں حذف کر دی گئی ہیں جن کی اب ضرورت باقی نہیں رہی۔ لہٰذا جو شخص اس ایڈیشن کو قبول نہ کرے گا وہ صرف خدا کی نافرمانی ہی کا مرتکب نہ ہوگا بلکہ ان فوائد سے بھی محروم رہ جائے گا جو آخری اور جدید ترین ایڈیشن میں انسان کو عطا کیے گئے ہیں۔
يٰٓاَہْلَ الْكِتٰبِ قَدْ جَاۗءَكُمْ رَسُوْلُنَا يُـبَيِّنُ لَكُمْ كَثِيْرًا مِّمَّا كُنْتُمْ تُخْفُوْنَ مِنَ الْكِتٰبِ وَيَعْفُوْا عَنْ كَثِيْرٍ۝۰ۥۭ المائدہ15:5
اے اہل کتاب تمھارے پاس ہمارا پیغمبر آگیا ہے جو تم کو کتاب الٰہی کی بہت سی وہ باتیں کھول کر بتاتا ہے جن کو تم چھپاتے ہو۔ اور بہت سی چیزوں سے معاف بھی کر دیتا ہے۔
وَيُحِلُّ لَہُمُ الطَّيِّبٰتِ وَيُحَرِّمُ عَلَيْہِمُ الْخَـبٰۗىِٕثَ وَيَضَعُ عَنْہُمْ اِصْرَہُمْ وَالْاَغْلٰلَ الَّتِيْ كَانَتْ عَلَيْہِمْ۝۰ۭ الاعراف157:7
اور وہ ان کے لیے پاک چیزوں کو حلال اور ناپاک چیزوں کو حرام کرتا ہے اور ان پر سے وہ بھاری بوجھ اور وہ طوق و سلاسل اتار دیتا ہے جو ان پر لدے ہوئے تھے۔
نیز یہ اس لیے بھی ضروری ہے کہ اہل کتاب نے خدا کی پچھلی کتابوں میں قصداً تحریف کی اور بہت سی چیزوں کو بھلا دیا۔ اور بعض کتابوں (مثلاً اصل منزل من اللہ انجیل) کو کھو دیا، جس کی وجہ سے اب کسی طرح ممکن ہی نہیں ہے کہ کوئی اتباع قرآن کے بغیر موسیٰ علیہ السلام اور توراۃ اورعیسیٰ علیہ السلام اور انجیل کا اتباع کرسکے۔
يُحَرِّفُوْنَ الْكَلِمَ عَنْ مَّوَاضِعِہٖ۝۰ۙ وَنَسُوْا حَظًّا مِّمَّا ذُكِّرُوْا بِہٖ۝۰ۚ ……وَمِنَ الَّذِيْنَ قَالُوْٓا اِنَّا نَصٰرٰٓى اَخَذْنَا مِيْثَاقَہُمْ فَنَسُوْا حَظًّا مِّمَّا ذُكِّرُوْا بِہٖ۝۰ المائدہ13-14:5
یہودی ، الفاظ کو ان کے اصلی معنوں سے پھیر دیتے ہیں، اور انھوں نے ان ہدایتوں کا ایک بڑا حصہ بھلا دیا جو ان کو دی گئی تھیں…… اور جو لوگ کہتے ہیں کہ ہم عیسائی ہیں ان سے ہم نے عہد لیا تھا مگر انھوں نے ان ہدایات کا ایک حصہ بھلا دیا تھا جو ان کو دی گئی تھیں۔
اب یہ ظاہر ہے کہ جن قوموں کے متعلق خود قرآن نے تصدیق کی ہے کہ ان کو خدا کی طرف سے کتاب دی گئی تھی، ان کے لیے بھی جب اتباع قرآن کے سوا کوئی راستہ نہیں ہے، تو پھر ان قوموں کو اتباع قرآن کے بغیر ہدایت کا راستہ کیسے مل سکتا ہے جن کا اہل کتاب ہونا محض قاعدۂ کلیہ لِکُلِّ قَوْمٍ ھَادٍ رعد 7:13 کی بنا پر فرض کر لیا گیا ہے۔
بظاہر یہ کہنے میں بڑی رواداری نظر آتی ہے کہ ’’اسلام صرف اپنے آپ ہی کو برحق نہیں کہتا بلکہ دوسرے مذاہب کو بھی سچا سمجھتا ہے، اور اس کا دعویٰ یہ نہیں ہے کہ لوگ جب تک اپنے اپنے مذہبوں کو چھوڑ کر اسلام نہ لے آئیں ہدایت اور نجات سے بہرہ یاب نہ ہوں گے۔ بلکہ وہ تو صرف یہ کہتا ہے کہ اپنے اپنے مذہبوں کی اصلی تعلیمات کا اتباع کرو‘‘۔ لیکن حقیقت میں دیکھا جائے تو یہ سراسر ایک غیر معقول بات ہے۔ دو نقطوں کے درمیان جس طرح خط مستقیم ایک ہی ہوسکتا ہے، اسی طرح انسان سے خدا تک صراط مستقیم بھی ایک ہی ہوسکتی ہے۔ اسلام جب اپنے آپ کو صراط مستقیم کہتا ہے تو اس کے ساتھ ہی یہ لازم آجاتا ہے کہ اس کے سوا جتنے راستے ہیں وہ ان سب کو غلط اور ٹیڑھے راستے قرار دے۔ کسی راستے کو صراط مستقیم بھی کہنا، اور پھر مختلف راستوں کو راہ راست بھی قرار دینا، کسی صاحب عقل کاکام نہیں ہے۔ یہ اگر رواداری ہے تو محض ایک جھوٹی رواداری ہے، اور قرآن ایسی رواداری سے صاف انکار کرتا ہے۔ قرآن مجید میں تو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو صاف صاف یہ اعلان کرنے کی ہدایت کی گئی ہے کہ:
وَاَنَّ ھٰذَا صِرَاطِيْ مُسْتَقِـيْمًا فَاتَّبِعُوْہُ۝۰ۚ وَلَا تَتَّبِعُوا السُّـبُلَ فَتَفَرَّقَ بِكُمْ عَنْ سَبِيْلِہٖ۝۰ۭ ذٰلِكُمْ وَصّٰىكُمْ بِہٖ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَo الانعام153:6
اور یہی میرا راستہ سیدھا ہے لہٰذا تم اسی پر چلو اور دوسرے راستوں پر نہ چلو کہ وہ تم کو خدا کی راہ سے بھٹکا دیں گے۔ یہ ہدایت ہے جو خدا نے تم کو دی ہے شاید کہ تم پرہیز گار بن جائو۔
محمد صلی اللہ علیہ وسلم تمام دنیا کو کھینچ کر اپنی طرف لانے کے لیے آئے تھے، اسی لیے کہ آپ کو اپنے برحق ہونے پر کمال درجہ کا وثوق تھا۔ آپ نہ مذبذب تھے اور نہ معاذ اللہ خوشامدی کہ تمام مختلف راہوں پر چلنے والوں کے ساتھ مصالحت اور مدارات (compromise)کرنے کے لیے تیار ہو جاتے۔
رواداری جتنی مستحسن چیز ہے، اس سے بدرجہا زیادہ غیر مستحسن چیز جھوٹ ہے۔ جس شخص کو اس معاملے میں اپنی رواداری کا مظاہرہ کرنا ہو وہ اپنی طرف سے ایسی بات کہہ سکتا ہے، مگر اسے قرآن کی طرف سے وہ بات کہنے کا کیا حق ہے جو اس نے نہیں کہی؟ قرآن تو اس کے مقابلے میں علی الاعلان کہتا ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن کی پیروی کے سوا کوئی راستہ بھی صحیح نہیں ہے، تمام نوع انسانی کے لیے اور ہمیشہ کے لیے اب یہی ایک راستہ ہدایت اور نجات کا راستہ ہے، جو اس کو اختیار نہ کرلے گا اس کا انجام دنیا میں گمراہی اور آخرت میں خسران کے سوا کچھ نہ ہوگا۔
قُلْ يٰٓاَيُّھَا النَّاسُ اِنِّىْ رَسُوْلُ اللہِ اِلَيْكُمْ جَمِيْعَۨا الاعراف158:7
کہہ دو کہ اے انسانو! میں تم سب کی طرف خدا کا رسول ہوں۔
وَاُوْحِيَ اِلَيَّ ہٰذَا الْقُرْاٰنُ لِاُنْذِرَكُمْ بِہٖ وَمَنْۢ بَلَغَ۝۰ۭ الانعام19:6
اور میری طرف یہ قرآن وحی کیا گیا ہے تاکہ تم کو اور ان سب لوگوں کو خبردار کروں جن تک یہ پہنچے۔
وَمَآ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا كَاۗفَّۃً لِّلنَّاسِ بَشِيْرًا وَّنَذِيْرًا السبا28:34
اے محمدؐ! ہم نے تم کو تمام انسانوں کے لیے خوشخبری دینے والا اور ڈرانے والا بنا کر بھیجا ہے۔
يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا ادْخُلُوْا فِي السِّلْمِ كَاۗفَّۃً۝۰۠ وَّلَا تَتَّبِعُوْا خُطُوٰتِ الشَّيْطٰنِ۝۰ۭ البقرہ 208:2
اے ایمان والو تم سب کے سب اسلام میں داخل ہو جائو اور شیطان کے راستوں پر نہ چلو۔
يٰٓاَيُّھَا النَّاسُ قَدْ جَاۗءَكُمُ الرَّسُوْلُ بِالْحَقِّ مِنْ رَّبِّكُمْ فَاٰمِنُوْا خَيْرًا لَّكُمْ۝۰ۭ وَاِنْ تَكْفُرُوْا فَاِنَّ لِلہِ مَا فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ۝۰ۭ النساء170:4
اے انسانو! یہ رسول تمھارے پاس خدا کی طرف سے حق لے کر آیا ہے۔ ایمان لائو کہ اسی میں تمھارے لیے بھلائی ہے اور اگر کفر کرو گے تو جان رکھو کہ خدا آسمانوں اور زمین کا مالک ہے۔
وَلَقَدْ اَنْزَلْنَآ اِلَيْكَ اٰيٰتٍؚبَيِّنٰتٍ۝۰ۚ وَمَا يَكْفُرُ بِہَآ اِلَّا الْفٰسِقُوْنَo البقرہ99:2
اے محمدؐ! ہم نے تمھاری طرف کھلی کھلی آیتیں بھیجی ہیں اور ان کا انکار صرف وہی کرتے ہیں جو نافرمان ہیں۔
وَمَنْ يَّكْفُرْ بِہٖ فَاُولٰۗىِٕكَ ھُمُ الْخٰسِرُوْنَo البقرہ121:2
اور جو اس کا انکار کریں وہی نامراد ہوں گے۔
كَذٰلِكَ اَنْزَلْنَآ اِلَيْكَ الْكِتٰبَ۝۰ۭ ……وَمَا يَجْحَدُ بِاٰيٰتِنَآ اِلَّا الْكٰفِرُوْنَo العنکبوت29:47
اور اسی طرح ہم نے تمھاری طرف یہ کتاب بھیجی …… اور ہماری آیتوں کے ماننے سے صرف کافر ہی انکار کرتے ہیں۔
فَلْيَحْذَرِ الَّذِيْنَ يُخَالِفُوْنَ عَنْ اَمْرِہٖٓ اَنْ تُصِيْبَہُمْ فِتْنَۃٌ اَوْ يُصِيْبَہُمْ عَذَابٌ اَلِيْمٌo
النور 63:24
پس خوف کریں وہ لوگ جو رسول کے حکم کی مخالفت کرتے ہیں کہ کہیں وہ فتنے میں نہ پڑ جائیںیا کہیں کوئی سخت عذاب ان کو نہ آلے۔
وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَاٰمَنُوْا بِمَا نُزِّلَ عَلٰي مُحَمَّدٍ وَّہُوَالْحَقُّ مِنْ رَّبِّہِمْ۝۰ۙ o ذٰلِكَ بِاَنَّ الَّذِيْنَ كَفَرُوا اتَّبَعُوا الْبَاطِلَ وَاَنَّ الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اتَّبَعُوا الْحَقَّ مِنْ رَّبِّہِمْ۝۰ۭ
محمد47: 2-3
جو لوگ ایمان لائے اور جنھوں نے نیک عمل کیے اور اس ہدایت کو مان لیا جو محمد پر اتاری گئی ہے کہ وہی ان کے پرودگار کی طرف سے حق ہے، ان کے گناہ خدا نے معاف کر دیئے اور ان کا حال درست کیا۔ یہ اس لیے کہ جنھوں نے نہ مانا انھوں نے باطل کا اتباع کیا اور جنھوں نے مان لیا انھوں نے اس حق کا اتباع کیا جو ان کے پروردگار کی طرف سے ہے۔
قَدْ اَنْزَلَ اللہُ اِلَيْكُمْ ذِكْرًاo رَّسُوْلًا يَّتْلُوْا عَلَيْكُمْ اٰيٰتِ اللہِ مُبَـيِّنٰتٍ لِّيُخْرِجَ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ مِنَ الظُّلُمٰتِ اِلَى النُّوْرِ۝۰ۭ الطلاق10-11:65
اللہ نے تمھاری طرف پیغمبر کو تمھاری آگاہی کے لیے بھیجا ہے۔ وہ تم کو اللہ کی کھلی کھلی آیات سناتا ہے تاکہ ایمان لانے والوں اور نیک عمل کرنے والوں کو تاریکی سے نکال کر روشنی میں لائے۔
قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللہَ فَاتَّبِعُوْنِيْ يُحْبِبْكُمُ اللہُ …… فَاِنْ تَوَلَّوْا فَاِنَّ اللہَ لَا يُحِبُّ الْكٰفِرِيْنَo آل عمران31-32:3
اے محمد! کہہ دو کہ اگر تم خدا سے محبت رکھتے ہو تو میری پیروی کرو، خدا بھی تم سے محبت کرے گا…… اور اگر وہ اس سے باز رہیں تو بے شک اللہ کافروں سے تو محبت نہیں کرتا۔
یہ زور جو مذکورہ بالا آیات میں پایا جاتا ہے، یہ صرف اسی کلام میں ہوسکتا ہے جس کے قائل کو اپنے صادق اور حق ہونے پر پورا پورا علم ہو اور جو اپنے علم کے مطابق نوع انسانی کی اصلاح کا محکم ارادہ رکھتا ہو۔ ایسے کلام کی قدر وہ کمزور اخلاقی طاقت رکھنے والے کس طرح کرسکتے ہیں جو صداقت کا یقینی علم بھی نہ رکھتے ہوں اور پھر دنیا میں ہر ایک کو خوش بھی رکھنے کے متمنی ہوں۔ وہ تو بڑی سے بڑی بات جو کہہ سکتے ہیں وہ یہی ہوگی کہ بھائیو تم سب اچھے اور سب سچے! (’’ترجمان القرآن‘‘۔ محرم ۱۳۵۷ھ۔ مارچ ۱۹۳۸ئ)

شیئر کریں