Search
Close this search box.

فہرست موضوعات

مسئلۂ تعدد ازواج
اصل قانون
غلط مفروضہ
تاویل نمبر ۱
تاویل نمبر۲
تاویل نمبر ۳
تاویل نمبر۴
تاویل نمبر ۵
تاویل نمبر ۶
غلط تاویلات کی اصل وجہ
نئی نئی شرطیں
آخری سہارا
دو ٹوک بات

مسئلہ تعدد ازواج

اس ویب سائٹ پر آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ اب آپ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمتہ اللہ علیہ کی کتابوں کو ’’پی ڈی ایف ‘‘ کے ساتھ ساتھ ’’یونی کوڈ ورژن‘‘ میں بھی پڑھ سکتے ہیں۔کتابوں کی دستیابی کے حوالے سے ہم ’’اسلامک پبلی کیشنز(پرائیوٹ) لمیٹڈ، لاہور‘‘، کے شکر گزار ہیں کہ اُنھوں نے اس کارِ خیر تک رسائی دی۔ اس صفحے پر آپ متعلقہ کتاب PDF اور Unicode میں ملاحظہ کیجیے۔

نئی نئی شرطیں

بعض حضرات انھی خارجی اثرات سے متاثر ہو کر تعددِ ازواج کی اجازت کو صرف اُن حالات تک محدود رکھنے پر اصرار کرتے ہیں جب کہ ایک شخص کی بیوی بانجھ ہو، یا اتنی بیمار ہو کہ ازدواجی تعلق کے لائق نہ رہے، یا اور ایسی ہی کوئی ناگزیر مجبوری درپیش ہو۔ لیکن ان کے اس خیال کی کھلی تردید خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل سے ہو جاتی ہے۔ ظاہر بات ہے کہ حضورؐ نے جو ایک سے زائد نکاح کیے ان کی وجہ یہ نہ تھی کہ بیوی بیمار تھی، یا بانجھ تھی، یا اولادِ نرینہ نہ تھی، یا کچھ یتیموں کی پرورش کا مسئلہ درپیش تھا۔ ان محدود شخصی ضروریات کے بغیر آپؐ نے تمام نکاح یا تو تبلیغی و تعلیمی ضروریات کے لیے کیے، یا اصلاح معاشرہ کے لیے، یا سیاسی و اجتماعی مقاصد کے لیے۔ سوال یہ ہے کہ جب اللہ نے خود تعددِ ازواج کو اُن چند گنی چنی مخصوص اغراض تک جن کا آج نام لیا جارہا ہے، محدود نہیں رکھا، اور اللہ کے رسول نے ان کے سوا بہت سے دوسرے مقاصد کے لیے متعدد نکاح کیے، تو کوئی دوسرا شخص کیا حق رکھتا ہے کہ قانون میں اپنی طرف سے چند قیود تجویز کرے اور اوپر سے دعویٰ یہ کرے کہ یہ حد بندیاں وہ شریعت کے مطابق کر رہا ہے۔ دراصل ان ساری حد بندیوں کی جڑ یہ مغربی تخیل ہی ہے کہ تعددِ ازواج بجائے خود ایک بُرائی ہے۔ اسی تخیل کی بنا پر یہ نظریہ پیدا ہوا ہے کہ یہ ’’فعل ِ حرام‘‘ اگر کبھی حلال ہو بھی سکتا ہے تو صرف شدید ناگزیر ضروریات کے لیے ہوسکتا ہے۔ لیکن اس درآمد شدہ تخیل پر اسلام کا جعلی ٹھپا لگانے کی چاہے کتنی ہی کوشش کی جائے، قرآن و سنت اور پوری امت مسلمہ کالٹریچر اس سے قطعا ًناآشنا ہے۔
پھر یہ لوگ ’’ناگزیر ضرورت‘‘ کی شرط پر مزید دو شرطوں کا اضافہ کرتے ہیں۔ ایک یہ کہ آدمی کسی عدالت، یا ازروئے قانون مقرر کیے ہوئے کسی سرپنچ یا پنچایت کو اس بات پر مطمئن کرے کہ اسے فی الواقع دوسری بیوی کی ضرورت ہے۔ دوسرے یہ کہ اپنی پہلی بیوی کو اس پر راضی کرے یا اس سے نکاح ثانی کی اجازت لے۔
یہ دونوں بالکل نرالے اور اجنبی تخیلات ہیں جنہیں اسلامی قانون میں زبردستی داخل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ اسلامی قانون تعددِ ازواج کے لیے ’’ناگزیر ضرورت‘‘ کی شرط ہی سے ناآشنا ہے، کجا کہ اس پر ان دو شرطوں کا اور اضافہ کیا جائے۔ سوال یہ ہے کہ آخر ان شرطوں کا ماخذ کیا ہے اور یہ کہاں سے لائی گئی ہیں؟ کیا قرآن میں کہیں ان کا ذکر ہے؟ کیا کسی حدیث میں ان کی طرف اشارہ کیا گیا ہے؟ کیا اسلام کی پوری تاریخ میں کبھی تعددِ ازواج کے لیے یہ شرطیں لگائی گئی ہیں؟ کیا کوئی شہادت اس امر کی موجود ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بیوی کے بعد جتنی شادیاں کیں، ان میں سے کسی شادی سے پہلے آپ نے صحابہ کرامؓ کو جمع کرکے انہیں اس بات پر مطمئن کیا ہو کہ مجھے مزید ایک بیوی کی ضرورت ہے؟ یا صحابہ کرامؓ میں سے کسی کو دوسری شادی کرنے سے پہلے اس بات پر مجبور کیا گیا ہو کہ وہ حضورؐ کے سامنے یا صحابہ کی کسی پنچایت کے سامنے اپنی ضرورت ثابت کریں؟ رہی پہلی بیوی سے اجازت، تو یہ عجیب بات ہے کہ ایک مسلمان مرد اپنے نکاح کے معاملے میں اپنے باپ اور اپنی ماں سے تو اجازت لینے کا پابند نہ ہو، مگر بیوی سے اجازت لینے کا اسے پابند کیا جائے! غالباً یہ تجویز کسی ایسے زن مرید کے ذہن کی آفریدہ ہے جس کے نزدیک شادی ہو جانے کے بعد ایک آدمی کا تعلق ماں باپ سے کٹ جاتا ہے اور صرف بیوی ہی اس کی اکیلی سرپرست رہ جاتی ہے۔ اگر بیوی کی رضامندی کو اس بنا پر ضروری قرار دیا جاتا ہے کہ شوہر کے گھر میں ایک دوسری بیوی کا آجانا اس کے لیے پیچیدگیاں پیدا کرنے کا موجب ہوتا ہے، تو ہم پوچھتے ہیں کہ بیٹے کے گھر میں ایک اور بہو کا آجانا کیا وہ باپ اور ماں کے لیے کوئی پیچیدگی پیدا نہیں کرتا؟ آپ کی نگاہ میں ان بے چاروں کی کوئی اہمیت نہیں ہے؟

شیئر کریں