Search
Close this search box.

فہرست موضوعات

عرضِ ناشر
اسلام کی ابتدا (بچوں کے پروگرام میں)
سرورِ عالم ﷺ
میلادُ النبیؐ
سرورِ عالم ﷺ کا اصلی کارنامہ
معراج کی رات
معراج کا پیغام
معراج کا سفرنامہ
شب برأت
روزہ اور ضبطِ نفس
عید قربان
قربانی
پاکستان کو ایک مذہبی ریاست ہونا چاہیے
زندگی بعد موت

نشری تقریریں

اس ویب سائٹ پر آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ اب آپ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمتہ اللہ علیہ کی کتابوں کو ’’پی ڈی ایف ‘‘ کے ساتھ ساتھ ’’یونی کوڈ ورژن‘‘ میں بھی پڑھ سکتے ہیں۔کتابوں کی دستیابی کے حوالے سے ہم ’’اسلامک پبلی کیشنز(پرائیوٹ) لمیٹڈ، لاہور‘‘، کے شکر گزار ہیں کہ اُنھوں نے اس کارِ خیر تک رسائی دی۔ اس صفحے پر آپ متعلقہ کتاب PDF اور Unicode میں ملاحظہ کیجیے۔

میلادُ النبیؐ

آج اُس عظیم الشان انسان کا یوم پیدائش ہے جو زمین پر بسنے والے تمام انسانوں کے لیے رحمت بن کر آیا تھا اور وہ اصول اپنے ساتھ لایا تھا جس کی پیروی میں ہر فرد انسانی، ہر قوم وملک، اور تمام نوع انسان کے لیے یکساں فلاح اور سلامتی ہے۔ یہ دن اگرچہ ہر سال آتا ہے، مگر اب کے سال یہ ایسے نازک موقع پر آیا ہے جب کہ زمین کے باشندے ہمیشہ سے بڑھ کر اس دانائے کامل کی راہ نمائی کے محتاج ہیں۔ معلوم نہیں مسٹر برنارڈشا نے اچھی طرح جان بوجھ کر کہا تھا یا بے جانے بوجھے، مگر جو کچھ انھوں نے کہا وہ بالکل سچ تھا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اگر اس وقت دُنیا کے ڈکٹیٹر ہوتے تودُنیا میں امن قائم ہو جاتا۔ میں اس سے ایک قدم آگے بڑھ کر کہتا ہوں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم دنیا میں موجود نہ سہی، ان کے پیش کردہ اصول تو بے کم وکاست موجود ہیں، ان کے اصولوں کو بھی اگر ہم راست بازی کے ساتھ ڈکٹیٹر مان لیں تو وہ سارے فتنے ختم ہو سکتے ہیں جن کی آگ سے آج نسل آدم کا گھر جہنم بنا ہوا ہے (خیال رہے کہ یہ جنگ عظیم دوم کے انتہائی زور کا زمانہ تھا)۔
اب سے چودہ سو برس پہلے جب محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا میں قدم رکھا تھا اس وقت خود ان کا اپنا وطن اخلاقی پستی، بدنظمی اور بدامنی کی انتہا کو پہنچا ہوا تھا۔ قرآن میں اس وقت کی حالت پر ان الفا ظ میں تبصرہ کیا گیا ہے کہ ’’تم آگ سے بھرے ہوئے ایک گڑھے کے کنارے کھڑے تھے جس سے خدا نے تمھیں بچا لیا۔‘‘ اس سے کچھ بہتر حالت دنیا کے دوسرے ملکوں کی نہ تھی۔ ایران اور مشرقی رومی سلطنت اس وقت انسانی تہذیب کے دو سب سے بڑھے گہوارے تھے۔ اور ان دونوں کو ایک طرف آپس کی پیہم لڑائی اور دوسری طرف خود اپنے گھر کے معاشرتی امتیازات، معاشی ناہمواری اور مذہبی جھگڑوں نے تباہ کر رکھا تھا۔ ان حالات میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم اُٹھے اور تیئس برس کے اندر انھوں نے نہ صرف عرب کو بدل ڈالا بلکہ ان کی راہ نمائی میں عرب سے جو تحریک اٹھی تھی اُس نے ایک چوتھائی صدی کے اندر ہندوستان کی سرحدوں سے شمالی افریقہ تک دنیا کے ایک بڑے حصہ کو اخلاق، تمدن، معیشت، سیاست، غرض ہر شعبہ زندگی میں درست کرکے رکھ دیا۔
یہ اصلاح کیوں کر ہوئی؟ ایک مختصر گفتگو میں اس کی ساری تفصیلات بیان کرنا ناممکن ہے لیکن اس کے موٹے موٹے اصول میں آپ کے سامنے بیان کروں گا۔
سب سے پہلی چیز جس پر انھوں نے زور دیا یہ تھی کہ تمام انسان صرف خدائے واحد کو اپنا آقا، مالک، معبود اور حاکم تسلیم کریں۔ خدا کے سوا کسی کی بندگی قبول نہ کریں۔ صرف مذہب کے محدود دائرے ہی میں نہیں بلکہ زندگی کے سارے معاملات میں تنہا خدا کے اقتدار اعلیٰ کے آگے جھک جائیں۔ اس کے ساتھ دوسری اہم چیز ان کی تعلیم میں یہ تھی کہ انسان کی مطلق العنانی اور غیر ذمہ داری کو بالکل ختم کر دیا جائے۔ ہر انسان فردًا فردًا اپنے آپ کو خدا کے سامنے جواب دہ سمجھے اور اسی طرح انسانی جماعتیں بھی، خواہ وہ خاندانوں اور قبیلوں کی شکل میں ہوں یا طبقات کی شکل میں، قوموں کی شکل میں ہوں یا ریاستوں اورحکومتوں کی شکل میں، بہرحال خدا کے حضوراپنی ذمہ داری کو محسوس کریں۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے انسان کا تصور ہی یہ پیش کیا ہے کہ وہ زمین پر خدا کا خلیفہ یا نائب ہے، اسے جس قدر اور جس حیثیت میں بھی کچھ اختیارات حاصل ہیں دراصل وہ اس کے ذاتی اختیارات نہیں ہیں بلکہ خدا کے دیے ہوئے ہیں اور ان کے استعمال میں وہ خدا کے سامنے جواب دہ ہے۔
خدائی اقتدارِ اعلیٰ اور انسانی خلافت کی بنیادوں پر محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے نوع انسانی کے درمیان منصفانہ وحدت واتفاق کا وہ رشتہ فراہم کیا جو کسی دوسرے ذریعہ سے پیدا نہیں ہو سکتا، نسل، نسب، زبان، رنگ، وطن معاشی مفاد اور دوسری جتنی چیزیں سوسائٹی کی بنیاد بنتی ہیں۔ وہ لازمی طور پر انسانوں کو مختلف گروہوں میں تقسیم کرکے ایک دوسرے کا مدِّ مقابل بنا دیتی ہیں۔ ان میں اگر موافقت ہوتی بھی ہے تو اغراض کی بنا پر ایک ناپائدار عارضی موافقت ہوتی ہے۔ کش مکش اور جنگ اس تقسیم کی عین فطرت میں داخل ہے اور اس کا لازمی نتیجہ بے انصافی ہے۔ اس کو دور کرنے کی کوئی صورت اس کے سوا نہیں کہ تمام انسانوں کو خدا کی بندگی پر متحد کیا جائے اور خدا کے سامنے جواب دہ ہونے کا احساس پیدا کرکے انھیں انصاف پر آمادہ کیا جائے۔
قومیت اور طبقات کے بجائے خدا کی بندگی اور خلافت کے تصور پر جس عالم گیر سماجی زندگی کی بنیاد محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے رکھی اس کے ہر پہلو کو انھوں نے پائدار اخلاقی اصولوں پر ڈھال دیا۔ ان کے پیش کیے ہوئے اخلاقیات تارک الدنیا اوردرویشوں کے لیے نہیں تھے بلکہ دنیا کا کام چلانے والے لوگوں کے لیے تھے۔ کسان، زمین دار، مزدور، کارخانہ دار، تاجر، خریدار، پولیس مین، مجسٹریٹ، کلکٹر، جج، گورنر، سپاہی اور سپہ سالار، وزیر اور سفیر ہر ایک کو اس کے دائرہ عمل میں انھوں نے اخلاق کے ایسے ضابطوں سے باندھ دیا جس کی بندشوں کو کھولنا اور کسنا، جس کے اصولوں کو بنانا اور بگاڑنا افراد یا رائے عام کی خواہشات پر منحصر نہیں تھا۔ انھوں نے معاشرت اور شخصی تعلقات کو، آرٹ اور ادب کو، کاروبار اور لین دین کو، سیاست اور انتظام ملکی کو، بین الاقوامی تعلقات اور صلح وجنگ کو، غرض انسانی زندگی سے تعلق رکھنے والے ہر شعبہ کا یہ حق تسلیم کرنے سے انکار کر دیا کہ وہ اخلاق کی بندشوں سے آزاد ہو کر نشوونما پائے۔
یہ وہ بڑے بڑے اصول تھے جن پر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا اصلاحی پروگرام مبنی تھا۔ اس پروگرام کو عمل میں لانے کے لیے انھوں نے جو طریقہ اختیار کیا وہ انفرادی اصلاح سے شروع ہوتا تھا۔ ان کی نگاہ سے یہ بات پوشیدہ نہ تھی کہ اجتماعی اصلاح کے ہر نقشہ کا دارومدار افراد ہی پر جا کر ٹھہرتا ہے۔ کوئی بہتر سے بہتر نظام بھی کم زور کیریکٹر اور ناقابل اعتماد سیرت کے لوگوں کو لے کر کام یابی کے ساتھ نہیں چلایا جا سکتا، افراد کی سیرت کی خامیوں سے ایک نظام کے عمل درآمد میں جو رخنے اور شگاف پڑتے ہیں، انھیں کاغذ پر نہیں بھرا جا سکتا۔ کاغذ کی دنیا میں آپ مختلف ممکن خرابیوں کے سدِّ باب کا جس قدر چاہیں خیالی انتظام کر لیں، لیکن عمل کی دنیا میں اس کاغذی نقشہ کو چلانے کا انحصار بہرحال کارکن افراد ہی پر ہو گا۔ یہ افراد اگربجائے خود خواہشات، اغراض اور تعصبات سے شکست کھا جانے والے لوگ ہوں، اگر ان کے اندر سچا ایمان اور پختہ کیریکٹر نہ ہو، تو آپ کی ساری خیالی احتیاطوں کے باوجود اس نظام میں رخنے پڑیں گے اور ایسی ایسی جگہوں سے پڑیں گے جہاں تک آپ کا تصور بھی نہ جا سکے گا۔ بخلاف اس کے کاغذ پر ایک نظام کو دیکھ کر آپ اس میں بہت سے رخنوں کا امکان ثابت کر سکتے ہیں لیکن اسے چلانے کے لیے اگر بھروسے کے قابل افراد موجود ہوں تو ان کا صحیح عمل ان سارے رخنوں کو بھر دے گا جس کے رونما ہونے کا امکان عالم خیال میں آپ کو نظر آتا ہو۔
اسی بنا پر محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے اپنی ساری قوت ایسے افراد کو تیار کرنے پر صرف کی جو ان کے پروگرام کے مطابق بہترین طریقہ پر دنیا کی اصلاح کر سکتے ہوں۔ انھوں نے ایسے لوگ تیار کیے جو ہر حال میں خدا سے ڈر کر بدی سے پرہیز کرنے والے ہوں۔ جو اپنی زندگی کے ہر معاملہ میں خدا کے سامنے اپنی ذمہ داری کو پیش نظر رکھنے والے ہوں۔ جو ہر اس کام سے رک جانے والے ہوں جس کے متعلق انھیں خدا کی ناراضی کا اندیشہ ہو اور ہر اس کام میں دل وجان سے کوشش کرنے والے ہوں جس کے متعلق انھیں معلوم ہو جائے کہ خدا اس سے خوش ہو گا۔ جنھیں خدا کی خوشنودی پر اپنی کسی چیز کو قربان کرنے میں تامل نہ ہو جن کے دل میں خدا کے سوا کسی کا خوف، کسی کی مہربانی کا لالچ، اور کسی کے انعام کی تمنا نہ ہو۔ جن کے لیے پبلک اور پرائیویٹ زندگی میں کوئی فرق نہ ہو۔ جو راز کے پردوں میں بھی اتنے ہی نیک، شریف اور پرہیز گارہوں، جتنے پبلک میں منظر عام پر آئیں۔ جن پر یہ بھروسا کیا جا سکے کہ بندگانِ خدا کی جان، مال، آبرو اگر ان کے چارج میں دے دی جائے تو خیانت کار ثابت نہ ہوں گے۔ اپنی ذات یا اپنی قوم اور حکومت کی طرف سے کوئی عہد کریں تو بے وفا نہ نکلیں گے۔ انصاف کی کرسی پر بٹھائے جائیں تو ظالم نہ پائے جائیں گے۔ لین دین کے بازار میں بیٹھیں تو بدمعاملگی نہ کریں گے۔ حق مانگنے میں چاہے سست ہوں مگر حق ادا کرنے میں سست نہ ہوں گے اور اپنی ذہانت، ہوشیاری، تدبر اور قوت وقابلیت کو راستی اور انصاف کے لیے اور انسانیت کی فلاح کے لیے استعمال کریں گے نہ کہ شخصی یا قومی اغراض کی خاطر دوسروں کو بے وقوف بنانے اور دوسروں کے حق تلف کرنے کے لیے۔
کامل پندرہ سال تک محمد صلی اللہ علیہ وسلم ایسے افراد کی تیاری میں لگے رہے۔ اس مدت میں آپ نے حق پرستوں کی ایک مٹھی بھر جماعت تیار کر لی۔ جو صرف عرب کے لیے نہیں بلکہ تمام دنیا کی اصلاح کے لیے سچا عزم رکھتی تھی اور جس میں عرب کے علاوہ دوسری قوموں کے افراد بھی شامل تھے۔
اس جماعت کو منظم کرنے کے بعد آپ نے وسیع پیمانہ پر سماج کی اصلاح کے لیے عملی جدوجہد شروع کی اور صرف آٹھ برس میں بارہ لاکھ مربع میل پر پھیلی ہوئی سرزمین عرب کے اندر مکمل اخلاقی، معاشی، تمدنی اور سیاسی انقلاب برپا کرکے رکھ دیا۔
پھر وہی جماعت جسے آپ نے منظم کیا تھا عرب کی اصلاح سے فارغ ہو کر آگے بڑھی اور اس نے اس زمانہ کی مہذب دنیا کے بیشتر حصے کو اس انقلاب کی برکتوں سے مالا مال کر دیا جو عرب میں رونما ہوا تھا۔
آج ہم نئے نظام (نیو آرڈر) کی آوازیں ہر طرف سے سن رہے ہیں۔ لیکن یہ بات ہماری سمجھ میں نہیں آتی کہ جن بنیادی خرابیوں نے پرانے نظام کو آخر کار فتنہ بنا کر چھوڑا وہی اگر صورت بدل کر کسی نئے نظام میں بھی موجود ہوں تو وہ نیا نظام ہوا کب۔ وہ تو وہی پرانا نظام ہو گا جس کے کاٹنے اور ڈسنے سے جاں بلب ہوجانے کے بعد ہم نئے نظام کا تریاق مانگ رہے ہیں انسانی اقتدارِ اعلیٰ، خدا سے بے نیازی وبے خوفی، قومی ونسلی امتیازات، ملکوں اور قوموں اور طبقوں کی سیاسی ومعاشی خود غرضیاں، اور ناخدا ترس افراد کا دنیا میں برسر اقتدار ہونا، یہ ہیں وہ اصلی خرابیاں جو اس وقت تک نوع انسانی کو تباہ کرتی رہی ہیں اور آئندہ بھی اگر ہماری زندگی کا نظام انھی خرابیوں کا شکار رہا تو یہ ہمیں تباہ کرتی رہیں گی۔ اصلاح اگر ہو سکتی ہے تو انھی اصولوں پر ہو سکتی ہے جن کی طرف انسانیت کے ایک سچے بہی خواہ نے اس سے صدیوں پہلے ہماری محض راہ نمائی ہی نہ کی تھی بلکہ عملاً اصلاح کرکے دکھا دی تھی۔

شیئر کریں