Search
Close this search box.

فہرست موضوعات

یتیم پوتے کی وراثت کا مسئلہ
پہلا خط
میراث کے متعلق قرآن و سنّت کے اصولی احکام
قائم مقامی کے اصول کی غلطی
ایک اور غلط تجویز
دوسرا خط
مصنف کا جواب

یتیم پوتے کی وراثت کا مسئلہ

اس ویب سائٹ پر آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ اب آپ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمتہ اللہ علیہ کی کتابوں کو ’’پی ڈی ایف ‘‘ کے ساتھ ساتھ ’’یونی کوڈ ورژن‘‘ میں بھی پڑھ سکتے ہیں۔کتابوں کی دستیابی کے حوالے سے ہم ’’اسلامک پبلی کیشنز(پرائیوٹ) لمیٹڈ، لاہور‘‘، کے شکر گزار ہیں کہ اُنھوں نے اس کارِ خیر تک رسائی دی۔ اس صفحے پر آپ متعلقہ کتاب PDF اور Unicode میں ملاحظہ کیجیے۔

میراث کے متعلق قرآن و سنّت کے اصولی احکام

– میراث کا سوال آدمی کی زندگی میں نہیں بلکہ اس وقت پیدا ہوتا ہے جب کہ وہ کچھ مال چھوڑ کر مر گیا ہو۔ قرآن میں اس بنیادی قاعدے کو متعدد مقامات پر وضاحت کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔ ایک جگہ فرمایا:
’’مردوں کے لیے اس مال میں سے حصّہ ہے جو والدین اور قریب تر رشتہ داروں نے چھوڑا ہو اور عورتوں کے لیے اس مال میں سے حصّہ ہے جو والدین اور قریب تر رشتہ داروں نے چھوڑا ہو۔‘‘ (النساء۴:۷)
دوسری جگہ فرمایا:
’’اگر کوئی شخص ہلاک ہو جائے اور اس کے کوئی اولاد نہ ہو اور اس کی ایک بہن ہو تو جو کچھ اس نے چھوڑا، اس کا نصف بہن کے لیے ہے۔‘‘ (النساء۴:۱۷۶)
اسی طرح سورۂ نساء کی آیات ۱۱،۱۲ میں میراث کا قانون بیان کرتے ہوئے بار بار تَرَکَ اور تَرَکْتُمْ اور تَرَکْنَ کے الفاظ کا اعادہ کیا گیا ہے۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ وراثت کا حکم صرف تر کے سے متعلق ہے۔
۲- مذکورہ بالا بنیادی قاعدے سے جو اصول نکلتے ہیں وہ یہ ہیں:
(الف) میراث کا کوئی حق مورث کی موت سے پہلے پیدا نہیں ہوتا۔
(ب) میراث کے حقوق صرف ان لوگوں کو پہنچتے ہیں جو مورث کی موت کے بعد فی الواقع زندہ موجود ہوں نہ کہ زندہ فرض کر لیے گئے ہوں۔
(ج) مورث کی زندگی ہی میں جو لوگ وفات پا چکے ہوں ،ان کا کوئی حق اس کے ترکے میں نہیں ہے، کیونکہ وہ اس وقت مر چکے تھے جب کہ سرے سے کوئی حق وراثت پیدا ہی نہیں ہوا تھا۔ لہٰذا کوئی شخص ان پہلے کے فوت شدہ لوگوں کا وارث یا قائم مقام ہونے کی حیثیت سے مورث کے ترکے میں اپنے کسی حق کا دعویٰ نہیں کر سکتا۔ البتہ اگر وہ بجائے خود اپنا کوئی شرعی حق اس کی میراث میں رکھتا ہو تو وہ اسے پا سکتا ہے۔
۳- مورث کے وفات پا جانے پر جو لوگ زندہ ہوں ان کے درمیان میراث تقسیم کرنے کے لیے قرآن جو قاعدہ مقرر کرتا ہے وہ یہ نہیں ہے کہ جو حاجت مند یا قابل رحم ہو اس کو دیا جائے بلکہ یہ ہے کہ جو رشتے میں مورث سے قریب تر ہو یا بالفاظ دیگر مورث جس سے رشتے میں قریب تر ہو، وہ حصّہ پائے اور قریب تر رشتہ دار کی موجودگی میں بعید تر حصّہ نہ پائے۔ یہ قاعدہ سورۂ نساء کی آیت ۷ کے ان الفاظ میں بیان ہوا ہے:
اس مال میں سے جو چھوڑا ہو والدین اور قریب تر رشتہ داروں نے۔
۴- ایک آدمی کے قریب ترین رشتہ دار کون ہیں، اس کو قرآن خود بیان کر دیتا ہے اور اس کے ساتھ یہ بھی بتا دیتا ہے کہ ان میں سے ہر ایک کا کتنا حصّہ ہے۔ اس کے بیان کی رو سے وہ رشتہ دار یہ ہیں:
باپ اور ماں
بربنائے حق والدیت
بیوی یا شوہر بہن بھائی
بربنائے حق زوجیت میت جس کی میراث کا سوال درپیش ہے بربنائے حق اخوت

بیٹے اور بیٹیاں
بربنائے حق ولدیت
۵- تقسیم وراثت کی اس اسکیم میں جس رشتہ دار کو بھی کوئی حصّہ ملتا ہے میت کے ساتھ خود اپنے قریبی تعلق کی بنا پر ملتا ہے۔ کوئی دوسرا نہ تو قریبی حق دار کی موجودگی میں اس کے حق کا شریک بن سکتا ہے اور نہ اس کی غیرموجودگی میں اس کا قائم مقام بن کر اس کا حصّہ لے سکتا ہے۔
(الف) حق مادری و پدری میت کے حقیقی ماں اور باپ کو پہنچتا ہے، ان کی موجودگی میں کوئی دوسرا اس حق کو نہیں پا سکتا۔ البتہ اگر باپ نہ ہو تو حق پدری دادا کو اور دادا بھی نہ ہو تو پر دادا کو پہنچے گا۔ اسی طرح اگر ماں نہ ہو تو حق مادری دادی اور نانی کو اور دادی اور نانی بھی نہ ہوں تو پردادی اور پرنانی کو پہنچ جائے گا۔ اس کی وجہ یہ نہیں ہے کہ یہ حقیقی ماں باپ کے قائم مقام ہیں بلکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ باپ کی غیرموجودگی میں باپ کا باپ اور ماں کی غیر موجودگی میں ماں کی ماں اور باپ کی ماں خود حق پدری و مادری رکھتے ہیں۔
(ب) حق ولدیت صرف انھی بیٹوں اور بیٹیوں کو پہنچتا ہے جو میت کے نطفے یا اس کے بطن سے پیدا ہوئے ہوں۔ ان کی موجودگی میں یہ حق کسی طرح بھی اولاد کی اولاد کو نہیں پہنچ سکتا۔ البتہ اگر ان میں سے کوئی بھی موجود نہ ہو تو حق ولدیت اولاد کی اولاد کو پہنچ سکتا ہے۔ باپ اور ماں کے برعکس ایک آدمی کے بچے چونکہ بہت سے ہو سکتے ہیں اس لیے یہ بات اکثر پیش آتی ہے کہ ایک یا چند بچے آدمی کی زندگی میں مر جائیں اور ایک یا چند بچے اس کے مرنے کے بعد زندہ رہیں۔ اسی وجہ سے حق والدیت کے برعکس حق ولدیت کے معاملے میں یہ صورت پیدا ہو جاتی ہے کہ اولاد کی موجودگی میں اولاد کی اولاد کو میراث نہیں پہنچتی۔
اس معاملے کی اصولی نوعیت کو جو لوگ نہیں سمجھتے وہ اس صورتِ حال کو دیکھ کر یہ اعتراض جڑ دیتے ہیں کہ جب باپ کے مرنے پر حق والدیت دادا کو پہنچ جاتا ہے تو بیٹے کے مر جانے کی صورت میں حق ولدیت پوتے کو کیوں نہیں پہنچتا؟ حالانکہ یہ اعتراض اگر صحیح ہو سکتا تھا تو صرف اس صورت میں جب کہ ایک آدمی بیک وقت تین چار آدمیوں کا بیٹا ہوتا اور پھر ان میں سے کسی ایک کے مر جانے پر دادا کو حصّہ پہنچ جاتا، یا پھر ایک آدمی کی زندگی میں اس کی ساری اولاد کے مر جانے کے باوجود اس آدمی کے پوتوں پوتیوں کو حصّہ نہ دیا جاتا۔ پھر یہ لوگ اس پر مزید ایک غلطی یہ کرتے ہیں کہ باپ کی غیر موجودگی میں دادا کے حق پدری پانے کو ’’قائم مقامی‘‘ (representation) کے قاعدے پر مبنی سمجھ لیتے ہیں اور اصرار کرتے ہیں کہ جس طرح باپ کے سر کتے ہی دادا اس کی جگہ آ کھڑا ہوتا ہے۔ اسی طرح بیٹے کے سرکتے ہی پوتے کو اس کی جگہ آ کھڑا ہونے کی اجازت دی جائے حالانکہ یہ معاملہ راشن ڈپو کے خریداروں کی قطار کا نہیں ہے بلکہ اصول قرب و بعد کا ہے۔ جب تک وہ شخص موجود ہے جس کا ایک آدمی براہِ راست نطفہ ہے اس وقت تک حق پدری کسی ایسے شخص کو نہیں پہنچ سکتا جس کا وہ بالواسطہ نطفہ ہو، اسی طرح جب تک وہ اولاد موجود ہے جو آدمی کی صلب سے براہِ راست پیدا ہوئی ہے اس وقت تک بالواسطہ اولاد کبھی ’’اولاد‘‘ کا حق لینے کی مستحق نہیں ہو سکتی۔
باپ کے نہ ہونے کی صورت میں دادا اس بنا پر حق پدری نہیں پاتا کہ وہ باپ کی جگہ آ کھڑا ہوا ہے بلکہ اس بنا پر پاتا ہے کہ بلاواسطہ پدر کی غیر موجودگی میں بالواسطہ پدر خود یہ حق رکھتا ہے۔
(ج) حق زوجیت صرف اس شخص کو پہنچ سکتا ہے جس سے میت کا اپنا ازدواجی رشتہ ہو اور چونکہ یہ رشتہ بالواسطہ نہیں ہو سکتا اس لیے مورث کی زندگی میں شوہر یا بیوی کے مر جانے سے اس کا حق میراث بالکل ختم ہو جاتا ہے۔ قائم مقامی کا اصول یہاں بھی نہیں پایا جاتا کہ شوہر کے حینِ حیات اگر بیوی مر چکی ہو تو اس کے وارثوں میں سے کوئی اس کا قائم مقام ہونے کی حیثیت سے شوہر کے ترکے میں سے حق زوجیّت مانگ سکے، یا شوہر بیوی کی زندگی میں مر چکا ہو تو اس کے وارثوں میں سے کوئی عورت کے مال میں سے حق زوجیت کا طلب گار ہو سکے۔
(د) حقِ اخوت اولاد اور باپ کے نہ ہونے کی صورت میں صرف بھائی بہنوں ہی کو پہنچتا ہے۔ خواہ وہ حقیقی ہوں یا علاتی (یعنی باپ کی طرف سے) یا اخیافی (یعنی ماں کی طرف سے) قائم مقامی کا اصول یہاں بھی نہیں ہے کہ بھائی کی غیرموجودگی میں اس کی اولاد قائم مقام ہونے کی حیثیت سے اس کا حصّہ پائے۔ بھتیجوں کو اگر حصّہ پہنچے گا تو ذوی الفروض کے نہ ہونے کی صورت میں، یا ذوی الفروض کے حصّے ادا ہوجانے کے بعد عصبات ہونے کی حیثیت سے اپنے ذاتی حق کی بنا پر پہنچے گا نہ کہ کسی کا قائم مقام ہونے کی حیثیت سے۔
۶- قرآن مجید نے صرف ان رشتہ داروں کے حقوق بیان کیے ہیں جو مذکورہ بالا چار حقوق میں سے کوئی حق رکھتے ہوں اور ان کے حصّے اس نے خود مقرر کر دیے ہیں۔ اس کے بعد دو سوالات کا جواب باقی رہ جاتا ہے۔ اوّل یہ کہ قرآن نے جو حصّے مقرر کر دیے ہیں ان کو ادا کرنے کے بعد جو کچھ بچے ،وہ کہاں جائے گا؟ اور دوم یہ کہ قرآن نے جن رشتہ داروں کے حقوق مقرر کیے ہیں وہ اگر نہ ہوں تو کن کو وراثت پہنچے گی؟ ان دونوں سوالات کا جواب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مستند شارحِ قرآن ہونے کی حیثیت سے خود قرآن ہی کے اشارات کی بنا پر یہ دیا ہے کہ قریب ترین رشتہ داروں کے حق ادا ہو چکنے کے بعد یا ان کی غیرموجودگی میں حق میراث ان قریب تر جدّی رشتہ داروں کو پہنچے گا جو ایک آدمی کے فطرتاً پشتیبان اور حامی و ناصر ہوتے ہیں۔ یہی معنی ہیں ’’عصبات‘‘ کے یعنی آدمی کے وہ اہلِ خاندان جو اس کے لیے تعصب کرنے والے ہوں۔ اور اگر وہ موجود نہ ہوں تو پھر یہ حق ’’ذوی الارحام‘‘ (رحمی رشتہ داروں مثلاً ماموں، نانا، بھانجے اور بیٹی یا پوتی کی اولاد) کو دیا جائے گا۔ یہاں بھی نہ تو قائم مقامی کا اصول کام کرتا ہے اور نہ یہ اصول کہ جو محتاج اور قابلِ رحم ہو اس کو میراث دی جائے۔ بلکہ قرآن کے بتائے ہوئے چار اصول اس معاملے میں کار فرما ہیں:
ایک یہ کہ قریب ترین کے بعد حصّہ قریب تر کو پہنچے گا اور قریب ترکی موجودگی میں بعید تر حصّہ نہ پائے گا۔ (مِمَّا تَرَکَ الْوَالِدَانِ وَالْاَقْرَبُوْنَ)
دوسرے یہ کہ غیر ذوی الفروض کو وارث قرار دینے میں یہ دیکھا جائے گا کہ میت کے لیے نفع کے لحاظ سے قریب تر، یعنی اس کی حمایت و نصرت میں فطرتاً زیادہ سرگرم کون ہو سکتے ہیں۔ (اَیُّہُمْ اَقْرَبُ لَکُمْ نَفْعًا)
تیسرے یہ کہ عورتوں کی بہ نسبت مرد فطرۃً عصبہ ہونے کے زیادہ اہل ہوتے ہیں۔ اسی لیے قرآن ماں اور باپ میں سے عصبہ باپ کو قرار دیتا ہے اور اسی لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ فرض حصّے ادا کرنے کے بعد مابقی ترکہ قریب ترین مرد کو دو لیکن بعض حالات میں عورت بھی عصبہ ہو سکتی ہے مثلاً یہ کہ میت کی وارث بیٹیاں ہی ہوں اور کوئی مرد عصبہ موجود نہ ہو تو بیٹیوں کا حصّہ فرض ادا کرنے کے بعد مابقی میت کی بہن کو دیا جائے گا کیونکہ وہ اس کی پشتیبان ہوتی ہے۔
چوتھا اصول قرآن نے اس طرح بیان کیا ہے کہ اُولُو الْاَرْحَامِ بَعْضُہُمْ اَوْلٰی بِبَعْضٍ (رحمی رشتہ دار اجنبیوں کی بہ نسبت ایک دوسرے کے زیادہ حق دار ہیں) اسی بنا پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اَلْخَالُ وَارِثُ مَنْ لاَّ وَارِثَ لَہٗ (جس کا کوئی اور وارث نہ ہو، اس کا وارث اس کا ماموں ہے)
یہ ہیں تقسیم میراث کے اسلامی اصول جن کو سمجھنے میں کوئی ایسا شخص غلطی نہیں کر سکتا جس نے کبھی قرآن کو سمجھ کر پڑھا ہو اور اس کے مضمرات پر غور کیا ہو۔ یہی وجہ ہے کہ عصبات کی تعیین اور ذوی الارحام کی میراث کے مسائل کو چھوڑ کر قانونِ وراثت کے بنیادی اصولوں میں تمام امت کے علما شروع سے آج تک متفق رہے ہیں اور زمانۂ حال سے پہلے کبھی اسلامی تاریخ کے دوران میں یہ آواز نہیں سنی گئی کہ قرآن کے اس قانون کو سمجھنے میں ساری امت کے علما بالاتفاق غلطی کر گئے ہیں۔

شیئر کریں