’’حیرت ہے کہ ریت کے ذرے بھی اتنی تعداد میں کسی خطہ ارض میں جمع ہو جائیں تو اسے ریگستان بنا دیتے ہیں۔ اور پانی کے قطرے بھی اس تعداد میں کہیں جمع ہو جائیں تو وہ سیلاب بن کر بہہ نکلتے ہیں۔ لیکن دنیا میں اتنے مسلمان موجود ہوتے ہوئے بھی نظام اسلامی کہیں قائم نہیں۔ خدا کے لیے خواب غفلت سے بیدار ہو کر اپنے اعمال پر تنقیدی نگاہ ڈالیے۔ یہود کے نقش قدم پر چلتے رہو گے تو کوئی وجہ نہیں کہ یہود کا سا برتائو آپ کے ساتھ نہ کیا جائے‘‘
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم
(یہ مضمون ابتداًء محرم 1364 ھ میں ایک پیغام کی صورت میں شائع ہوا تھا۔ پھر کچھ اضافے کے ساتھ اسے اس مجموعے (دعوت اسلامی اور اس کے مطالبات) میں شامل کردیا گیا۔ اور اب جولائی 1976 ء میں مکمل نظر ثانی کے بعد شائع کیا جارہا ہے)
صاحبو‘ وقت بڑی تیزی سے گزرتا چلا جارہا ہے۔ زندگی کی مہلت لحظہ بہ لحظہ گھٹتی چلی جارہی ہے۔ اس دنیا میں جینے کی جو مدت ہمارے لئے مقرر کی گئی تھی‘ وہ ایک سال اور کم ہوگئی ہے اور حساب کا دن ایک برس اور قریب آگیا ہے۔ لیکن کتنے لوگ ہیں جن کو اس امر کا احساس ہوا اور جو اپنی زندگی کے اصل مقصد کو سمجھنے اور اسے پورا کرنے کی طرف متوجہ ہوئے؟ انسان کی اس غفلت اور ناعاقبت اندیشی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ہی اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:
اقترب للناس حسابھم وھم فی غفلۃ معرضون۔ (الانبیاء: 1 )
’’لوگوں کے حساب کا وقت ان کے سر پر آگیا ہے‘ مگر وہ ہیں کہ غفلت میں پڑے بہے جارہے ہیں اور انہیں چرنے چگنے سے آگے کسی بات کی فکر ہی نہیں ہے‘‘