Search
Close this search box.

فہرست موضوعات

وہابی اور وہابیت
وہابی اور نجد کا فرقہ
حضرت حوا کی پیدائش
مالی عبادات اور بدنی عبادات کے ایصالِ ثواب کا معاملہ
ایصالِ ثواب کا اللّٰہ تعالیٰ کی مرضی پر موقوف ہونا
دوسروں کے لیے ایصالِ ثواب
اصحاب ِقبور سے دُعا کی درخواست
دُعا میں بزرگوں کی حرمت وجاہ سے توسل
مسئلہ حیات النبیﷺ
سجود لِغیر اﷲ
علمِ غیب
حاضر وناظرہونے کا معاملہ
خواب میں زیارتِ نبویؐ
سحر کی حقیقت اور معوّذتین کی شان نزول
گھر،گھوڑے اور عورت میں نحوست
شفاعت کا انکار
شفاعت کا صحیح تصور
اذان میں رسالت کی شہادت
کیا نماز میں درود پڑھنا شرک ہے؟
رسول اللّٰہﷺ کا تشہد
سنت نماز اور شرک
نماز کے آخر میں سلام کے مخاطب
رسول اللّٰہ ﷺ کی رکعاتِ نماز کی تعداد
اجنبی ماحول میں تبلیغِ اسلام
غیر مسلموں کے برتنوں میں کھانا
دعوت میں شراب پیش کرنا
روزے رکھنے کی طاقت کے باوجود فدیہ دینا
کُتوں کے منہ لگے ہوئے کپڑوں کو دھونا
جرابوں پر مسح
مہر معجل کا حکم
غیر محرم قریبی اعزّہ سے پردے کی صورت
غیر محرم رشتہ دار اور غیر محرم اجانب سے پردہ
غیر مَحرم اَعِزّہ کے سامنےآمنے کا مطلب
اللّٰہ تعالیٰ اور رسول ﷺ کے مقابلے میں ماں کی اطاعت
عورت کا مردوں کو خطاب
خواتین کی تعلیم اور ملازمت
جہاد کے موقع پر خواتین کی خدمات
شادی پر استطاعت سے بڑھ کر خرچ کرنا
ہم پلا لوگوں میں شادی کرنا
لڑکی والوں کی طرف سے رشتہ میں پہل کرنا
شادی بیاہ ،پیدائش اور موت کی تقریبات
رسُومات کی اصلاح میں ترجیحات
مہر کے تقرر میں حیلے نکالنا
آلات کے ذریعے سے توالد وتناسل
آلاتِ موسیقی اور ان کی تجارت
شادی بیاہ کے موقع پر باجے وغیرہ بجانا
موسیقی استعمال کرنے والوں کے ساتھ تعلق داری
موسیقی والی شادی میں شرکت
دُف کی ترقی یافتہ شکلوں کا حکم
دُف کے استعمال کا مفہوم
گڑیوں(کھلونوں) کاحکم
اشتہاری تصویریں
کنیز کی تعریف اور شرعی حیثیت
تعددِ ازواج اور لونڈیاں
تعدّدِ ازواج پرپابندی
توأم متحد الجسم لڑکیوں کا نکاح
طلاق قبل از نکاح
عدت خلع
ضبطِ ولادت کے جدید طریقوں کا حکم
ضبطِ ولادت اور بڑھتی ہوئی آبادی
جرم کی دنیوی سزا ملنے کی صورت میں آخرت کی سزا کا معاملہ
اپنی قوم میں شادی
نکاح و طلاق کےملکی قوانین اور شریعت
منکوحہ کتابیہ کے لیے آزادیِ عمل کے حدود
نکاح بلا مہر
اﷲ تعالیٰ کے حقوق ا ور والدین کے حقوق
پردہ اور اپنی پسند کی شادی
لفظ نکاح کا اصل مفہوم
عورت کی عصمت وعفت کا مستقبل
بیوی اور والدین کے حقوق
قرآن میں زنا کی سزا
بالغ عورت کا اختیار ِنکاح
شادی بیاہ میں کفاء ت کا لحاظ
نکاحِ شِغار

خواتین اور دینی مسائل

اس ویب سائٹ پر آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ اب آپ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمتہ اللہ علیہ کی کتابوں کو ’’پی ڈی ایف ‘‘ کے ساتھ ساتھ ’’یونی کوڈ ورژن‘‘ میں بھی پڑھ سکتے ہیں۔کتابوں کی دستیابی کے حوالے سے ہم ’’اسلامک پبلی کیشنز(پرائیوٹ) لمیٹڈ، لاہور‘‘، کے شکر گزار ہیں کہ اُنھوں نے اس کارِ خیر تک رسائی دی۔ اس صفحے پر آپ متعلقہ کتاب PDF اور Unicode میں ملاحظہ کیجیے۔

مہر معجل کا حکم

سوال: اگر بوقت نکاح زرِمہر کی صرف تعداد مقرر کردی گئی ہو اور اس امر کی تصریح نہ کی گئی ہو کہ یہ مہر معجل ہے یا مؤجل، تو آیا اس کو معجل قرار دیا جائے گا یا مؤجل؟اس مسئلے میں علما سے استفتا کیا گیا مگر جواب مختلف آئے۔ مثلاً چندجوابات یہ ہیں:
مولانا محمد کفایت اﷲصاحب ودیگرعلما ے دہلی:
’’اگرمہر میں مؤجل کی تصریح بھی ہو مگر اجل مجہول بجہالت فاحشہ ہو تو مہر معجل ہوجاتا ہے اورجب کہ معجل یا مؤجل کا لفظ استعمال نہ کیا جائے بلکہ واجب الادا کا لفظ لکھ دیا جائے تو یہ بھی معجل ہوگا، کیوںکہ بغیر ذکرِ اجل کے مؤجل نہیں ہوسکتا۔
إلَّا إذَا جُهِلَ الْأَجَلُ جَهَالَةً فَاحِشَةً فَيَجِبُ حَالًّا … وَإِنْ كَانَتْ مُتَفَاحِشَةً كَإِلَى الْمَيْسَرَةِ أَوْ إلَى هُبُوبِ الرِّيحِ، أَوْ إلَى أَنْ تُمْطِرَ السَّمَاءُ فَالْأَجَلُ لَا يَثْبُتُ وَيَجِبُ الْمَهْرُ حَالًّا، وَكَذَا فِي غَايَةِ الْبَيَانِ { رد المحتار علی الدرالمختار، کتاب النکاح، باب المھر، ج3، ص144 }
مولانا سعید احمد صاحب مدرس مدرستہ الاصلاح سراے میر،ضلع اعظم گڑھ:
مہر مؤجل اس وقت ہوگا جب بوقت عقد نکاح اداے مہر کے لیے وقت اور تاریخ کی تعیین ہو ورنہ معجل۔ یہی حال تمام معاملات کا ہے۔اگر کسی نے ایک دکان سے کوئی چیز خریدی اور بات چیت میںنقد یا تاخیر تعیین وقت کا ذکر نہیں آیا تو یہ معاملہ بھی معجل کے حکم میں ہوگا،خریدار خواہ فوراًقیمت دے دے یا بعد میں دینے کا وعدہ کرے۔بہرصورت معجل میں یہ ضروری نہیں ہے کہ عوض فوراًادا کیا جائے بلکہ صاحب حق کو یہ حق حاصل ہوتا ہے کہ فوراًیا جب چاہے اپنے حق کا مطالبہ کرے۔ اور معاملۂ مؤجلہ میں اجل اور تاریخ سے پہلے مطالبے اور تقاضے کا حق حاصل نہیں ہوگا۔اس تفصیل کی رُو سے معاملۂ مسئولہ میں زرِمہر معجل ہے‘ اس لیے عورت جب چاہے،اس کا مطالبہ اور دعویٰ کرسکتی ہے۔
مولانا سیّد سلیمان ندوی:
زرِ مہر میں اگر معجل یا مؤجل کی کوئی تفصیل نہیں ہے تو عرف کا اعتبار کیا جائے گا۔وقایہ میں ہے: وَالْمُعَجَّلُ وَالْمُؤَجَّلُ اِنْ بَیَّنَّا فَذَلِکَ وَاِلَّا فَالْمُتَعَارَفُ (اگر معجل اور مؤجل دونوں بیان کردیے گئے ہیں تو جیسا بیان کیا گیا ہے ویسا ہوگا ورنہ عرف کا اعتبار ہوگا)
مولانا عبدالرحمن صاحب نائب مفتی ریاست پیٹالہ ودیگر علما:
اس صورت میں عرف کا اعتبار کیا جائے گا(حوالہ وہی مختصر وقایہ کا ہے)اگر عرف یہ ہے کہ ایک عورت ایسے غیر مبیّن مہر کو صرف شوہر کی وفات یا طلاق ہی کے بعد حاصل کرسکتی ہے تو وہ شوہر کی وفات یا طلاق سے پہلے اسے وصول کرنے کاحق نہیں رکھتی۔
اس اختلاف کا حل کیا ہے؟ براہِ کرم آپ اس پر تفصیل سے روشنی ڈالیں۔

جواب: قرآن وحدیث کی رُو سے مہر دراصل اس حقِ زوجیت کا معاوضہ ہے جو ایک مرد کو اپنی بیوی پر حاصل ہوتا ہے۔قرآن میں فرمایا گیا ہے:
﴿ وَاُحِلَّ لَكُمْ مَّا وَرَاۗءَ ذٰلِكُمْ اَنْ تَبْتَغُوْا بِاَمْوَالِكُمْ﴾ (النسائ 4:24)
(ان کے ماسوا جو تمھاری عورتیں ہیں،تمھارے لیے حلال کیا گیا کہ اپنے مالوں کے عوض ان کوحاصل کرو)
﴿فَـمَا اسْتَمْتَعْتُمْ بِہٖ مِنْھُنَّ فَاٰتُوْھُنَّ اُجُوْرَھُنَّ فَرِ يْضَۃً﴾ۭ (النسائ 4:24)
(پس جو لطف تم نے ان سے اُٹھایاہے اس کے بدلے ان کے مہر بطور ایک فرض کے ادا کرو)
﴿وَكَيْفَ تَاْخُذُوْنَہٗ وَقَدْ اَفْضٰى بَعْضُكُمْ اِلٰى بَعْضٍ ﴾ (النسائ 4:21)
(اور تم وہ مال کیسے لے سکتے ہو جب کہ تم میں سے ایک دوسرے سے اختلاط کرچکا ہے)
ان آیات سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ مہر ہی وہ چیز ہے جس کے عوض مردکو عورت پر شوہرانہ حقوق حاصل ہوتے ہیں۔پھر اس کی مزید تصریح وہ احادیث کرتی ہیں جو اس معنی میں نبی ﷺ سے مروی ہیں۔صحاح ستہ اور دارمی اور مسند احمد میں حضورﷺ کا یہ ارشاد منقول ہے:
اَحَقُّ الشُّرُوطِ أَن تُوْفُوا بِہٖ مَااسْتَحْلَلْتُمْ بِہِ الْفُرُوْجَ { صحیح البخاری، کتاب الشروط، باب الشروط فی المھر عند عقدۃ النکاح، حدیث 2721 }
(تمام شرطوں سے بڑھ کر جو شرط اس کی مستحق ہے کہ تم اسے پوراکرو، وہ شرط وہ ہے جس پر تم عورتوں کی شرم گاہوں کو حلال کرتے ہو)
لِعان کا وہ مشہور مقدمہ، جس میں نبی ﷺ نے زوجین کے درمیان تفریق کرائی تھی، اس کا ذکر کرتے ہوئے عبداﷲ ابن عمرؓ روایت کرتے ہیں کہ جب تفریق ہوچکی تو شوہر نے عرض کیا: یارسول اﷲﷺ ! میرا مال مجھے واپس دلوایا جائے۔آپﷺ نے جواب میں فرمایا:
لَا مَالَ لَکَ اِنْ کُنْتَ صَدَقْتَ عَلَیْھَا فَھُوَ بِمَا اسْتَحْلَلْتَ مِنْ فَرْجِھَا، وَاِنْ کُنْتَ کَذَبْتَ عَلَیْھَا فَذٰلِکَ اَبْعَدُ لَکَ مِنْھَا {صحیح مسلم، کتاب الطلاق، باب انقضاء عدۃ المتوفی، حدیث 3821 }
(مال لینے کا تجھے کوئی حق نہیں ہے۔اگر تو نے اس پر سچا الزام لگایا ہے تو اس کی شرم گاہ جو تو نے اپنے لیے حلال کی تھی،اس کے معاوضے میں وہ مال ادا ہوچکا،اور اگر تو نے اس پر جھوٹا الزام لگایا ہے تو مال لینے کا حق تجھ سے اور بھی زیادہ دُور ہوگیا)
اِ س سے بھی زیادہ تصریح ایک اور حدیث میں ہے جو امام احمدؒ اپنی مسند میں لائے ہیں کہ:
مَنْ تَزَوَّجَ إمْرَأَۃً عَلَی صَدَاقٍ، وَھُوَ یَنْوِی أَ لَّایُؤَدِیْہِ إلَیْھَا فَھُوَ زَانٍ{البزار،ابوبکر احمد بن عمر،مسند البزار، المدینۃ المنورۃ، مکتبۃ العلوم و الحکم، 2009م، مسند أبی حمزۃ، حدیث8721؛ مسند أحمد، أول مسند الکوفیین، حدیث صھیب بن سنان، حدیث 18932 }
( جس نے کسی عورت سے [مہر کے عوض[ نکاح کیا اور نیت یہ رکھی کہ یہ مہر دینا نہیں ہے وہ زانی ہے)
ان تمام نصوص سے مہر کی یہ حیثیت اچھی طرح واضح ہوجاتی ہے کہ یہ کوئی رسمی ونمائشی چیز نہیں ہے بلکہ وہ چیز ہے جس کے معاوضے میں ایک عورت ایک مرد کے لیے حلال ہوتی ہے۔ اور ان نصوص کا اقتضا یہ ہے کہ استحلال فرج کے ساتھ ہی پورا مہر فوراًواجب الادا ہوجائے۔ الّایہ کہ زوجین کے درمیان اس کو مؤخر کردینے کے لیے کوئی قرار داد ہوچکی ہو۔
پس زرِ مہر کی ادائگی کے معاملے میں اصل تعجیل ہے نہ کہ تاجیل۔مہرکا حق یہ ہے کہ وہ استحلال فرج کے ساتھ بروقت ادا ہو،اور یہ محض ایک رعایت ہے کہ اس کو ادا کرنے میں مہلت دی جائے۔ اگر مہلت کے بارے میں زوجین کے درمیان کوئی قرار داد نہ ہوئی ہو تو اعتبار اصل(تعجیل) کا کیا جائے گا نہ کہ رعایت (یعنی تاجیل اور مہلت) کا۔ یہ بات شارع کے منشا کے بالکل خلاف معلوم ہوتی ہے کہ تاجیل کو اصل قرار دیا جائے اور تاجیل وتعجیل کے غیر مصرّح ہونے کی صورت میں زرِ مہر کو آپ سے آپ موّجل ٹھیرایا جائے۔
فقہائے حنفیہ کے درمیان اس مسئلے میں دو گروہ پائے جاتے ہیں۔ایک گروہ کی راے وہی ہے جو ہم نے اوپر بیان کی۔ ’’غایۃ البیان‘‘ میں ہے:
فإِنْ کَانَ یَعْنِی الْمَھْرَ بِشَرْطِ التَّعْجِیْلِ أَوْمَسْکُوتًا عَنْہُ یَجِبُ حَالاّ وَلَھَا أَنْ تَمْنَعَ نَفْسَھَا حَتّٰی یُعْطِیَھَا الْمَھْرَ { بحوالہ: ابن نجیم المصری ، زین الدین بن ابراھیم، البحر الرائق شرح کنز الدقائق، بیروت، دارالکتاب الاسلامی (بدون تاریخ) کتاب النکاح، باب المھر،ج3، ص191 }
(اگر مہر بشرط تعجیل ہو یا اس کے بارے میں سکوت اختیار کیا گیا ہو( کہ معجل ہے یا مؤجّل) تو وہ فوراً واجب ہوگا اور عورت کو حق ہوگا کہ اپنے آپ کو شوہر سے روک لے جب تک وہ مہر ادا نہ کرے)
اور شرح العنایۃ علی الھدایۃ میں ہے:
فإِنْ سَمَّوا الْمَھْرَ سَاکِتِیْنَ عَنِ التَّعْجِیْلِ وَالتَّاجِیْلِ مَاذَا یَکُوْنُ حُکْمْہُ؟ قُلْتُ یَجِبُ حَالاَّ ] … [ فَیَکُوْنُ حُکْمُہُ حُکْمَ مَاشُرِطَ تَعْجِیْلُہُ۔{ العنایۃ شرح الھدایۃ، کتاب النکاح، باب المھر، ج3، ص372}
(پھر اگر مہر مقرر کردیا گیا اور معجل یا مؤجل کے بارے میں سکوت اختیار کیا گیا تو اس کا کیا حکم ہے؟ میں کہتا ہوں کہ وہ فوراً واجب ہوگا،اس کا حکم اس مہر کا سا حکم ہے جس کے لیے تعجیل کی شرط کی گئی ہو)
اور ] مجمع الأنھر[میں ہے:
اِنَّ الْمَھْرَ مُعَجَّلاً أَوْمَسْکُوتاً عَنْہُ فإِنَّہُ یَجِبُ حَالاًّ لِأَنَّ النِّکَاحَ عَقْدُ مُعَاوَضَۃٍ وَقَدْ تَعَیَّنَ حَقُّہُ فِی الزَّوجَۃِ فَوَجَبَ أَنْ یَتَعَیَّنَ حَقُّھَا وَذَلِکَ بِالتَّسْلِیْمِ { بحوالہ: شیخی زادہ، عبدالرحمن بن محمد، مجمع الانھر فی شرح ملتقی الابحر، بیروت، داراحیاء التراث العربی، (بدون تاریخ) کتاب النکاح، باب ھل یجب المھر فی عقد فاسد، ج1، ص359
} (اگر مہر معجل ہو یا اس کے بارے میں سکوت اختیار کیا گیا ہو تو وہ فوراً واجب ہوگا کیوں کہ نکاح ایک عقد بامعاوضہ ہے،جب زوجہ میں شوہر کا حق متعین ہوگیا تو واجب آیا کہ عورت کا حق بھی متعین ہوجائے اور وہ اسی طرح ہوسکتا ہے کہ مہر ادا کردیا جائے)
رہا دوسرا گروہ،تو وہ کہتا ہے کہ اس معاملے میں عرف کا اعتبار کیا جائے گا۔ فتاویٰ قاضی خاں میں ہے:
فإِنْ لَمْ یُبَیِّنُوا قَدْرَ الْمُعَجَّلِ یُنْظَرُ إلَی الْمَرْأَۃِ وَإلیَ الْمَھْرِ أَنَّہُ کَمْ یَکُونُ الْمُعَجَّلُ لِمِثْلِ ھٰذِہِ الْمَرْأَۃِ مِنْ مِثْلِ ھٰذَا الْمَھْرِ فَیَعَجَّلُ ذَالِکَ وَلَا یَتَقَدَّرُ بِالرُّبْعِ وَالْخُمْسِ بَلْ یُعْتَبَرُ الْمُتَعَارَفُ {بحوالہ: الزیلعی، فخر الدین، عثمان بن علی، تبیین الحقائق شرح کنز الدقائق، القاھرۃ، المطبعۃ الکبریٰ الأمیریۃ، 1313ھ، کتاب النکاح، باب المھر، ج2، ص156 }(اگر معجل کی مقدار واضح نہ کی گئی ہو تو دیکھا جائے گا کہ عورت کس طبقے کی ہے اور مہر کتنا ہے اور یہ کہ ایسی عورت کے لیے ایسے مہر میں سے کس قدر معجل قرار دیا جاتا ہے۔بس اتنی ہی مقدار معجل قرار دی جائے،ایک چوتھائی یا پانچویں حصے کی تعیین نہ کردینی چاہیے، جو رواج ہو اس کا اعتبار کرنا چاہیے)
اسی راے کی تائید علامہ ابن ہمامؒ نے ’’فتح القدیر‘‘ میں کی ہے۔وہ لکھتے ہیں:
وَإنْ لَمْ یَشْتَرِطْ تَعْجِیْلَ شَیْ ئٍ بَلْ سَکَتُوا عَنْ تَعْجِیْلِہِ وتَاجِیْلِہِ فإِنْ کَانَ عُرْفٌ فِی تَعْجِیْلِ بَعْضِہٖ وَتَأْخِیْرِ بَاقِیْہِ إلَی المَوْتِ أوْالْمَیْسَرَۃِ أَوْالطَّلاَقِ فَلَیْسَ لَھَا أَنْ تَحْتَبِسَ إلاَّ إلٰی تَسْلِیْمِ ذَالِکَ الْقَدْرِ{ شرح فتح القدیر، کتاب النکاح، باب المھر، ج3، ص370 } (اور اگر کسی حصۂ مہر کی تعجیل کی شرط نہ کی گئی ہو بلکہ تعجیل اور تاجیل کے بارے میں سکوت اختیار کیا گیا ہو تو رواج کو دیکھا جائے گا۔ اگر رواج یہ ہے کہ ایک حصہ معجل قرار دیا جاتا ہے اور باقی حصہ موت تک یا خوش حالی یا طلاق تک مؤخر رکھا جاتا ہے، تو عورت صرف اتنی ہی مقدار وصول ہونے تک اپنے آپ کو شوہر سے روکنے کاحق رکھتی ہے)
اصولی حیثیت سے دیکھا جائے تو پہلے گروہ کی راے قرآن وحدیث کی منشا سے زیادہ مطابقت رکھتی ہے۔ لیکن دوسرے گروہ کی راے بھی بے وزن نہیں ہے۔ان کے قول کا مدعا یہ نہیں ہے کہ مہر کے باب میں تاجیل اصل ہے اور جب تاجیل وتعجیل کی صراحت نہ ہو تو معاملہ اصل یعنی تاجیل کی طرف راجع ہونا چاہیے۔بلکہ وہ اپنے فتوے میں ایک اور قاعدے کا لحاظ کرتے ہیں جسے شریعت میں تسلیم کیا گیا ہے۔ اور وہ یہ ہے کہ کسی سوسائٹی میں معاملات کے متعلق جوطریقہ عام طور پر مروّج ہو،اس کی حیثیت افراد کے درمیان ایک بے لکھے معاہدے کی سی ہوتی ہے۔اگر اس سوسائٹی کے دو فریق باہم کوئی معاملہ طے کریں اور کسی خاص پہلو کے بارے میں بصراحت کوئی قراردادنہ کریں تو یہ سمجھا جائے گا کہ اِ س پہلو میں وہ مروّجہ طریقے پر راضی ہیں۔
بلاشبہہ یہ قاعدہ شریعت میں مسلّم ہے، اور اس لحاظ سے فقہا کے دوسرے گروہ کی راے بھی غلط نہیں ہے۔ لیکن قبل اس کے کہ ہم کسی خاص سوسائٹی میں اس قاعدے کو جاری کریں،ہمیں یہ سمجھ لینا چاہیے کہ شریعت نے رواج کوبطور ایک ما ٔ خذِ قانون (source of law) کے تسلیم نہیں کیا ہے کہ جو کچھ رواج ہو وہی شریعت کے نزدیک حق ہو۔ بلکہ اس کے برعکس وہ غیر متقی سوسائٹی اور اس کے غیر منصفانہ رواجوں کو قبول کرنے کے بجائے ان کو بدلنا چاہتی ہے اور صرف ان رواجوں کو تسلیم کرتی ہے جو ایک اصلاح شدہ سوسائٹی میں شریعت کی رُوح اور اس کے اصولوں کے تحت پیدا ہوئے ہوں۔لہٰذا رواج کو بے لکھا معاہدہ مان کر مثل ِ قانون نافذ کرنے سے پہلے یہ دیکھنا ضروری ہے کہ جس سوسائٹی کے رواج کو ہم یہ حیثیت دے رہے ہیں کیا وہ ایک متقی سوسائٹی ہے؟ اور کیا اس کے رواج شریعت کی روح اور اس کے اصولوں کی پیروی میں پیدا ہوئے ہیں؟اگر تحقیق سے اس کا جواب نفی میں ملے تو اس قاعدے کومثلِ قانون جاری کرنا عدل نہیں بلکہ قطعاً ایک ظلم ہوگا۔
اس نقطۂ نظر سے جب ہم اپنے ملک کی موجودہ مسلم سوسائٹی کو دیکھتے ہیں تو ہمیں صاف نظر آتا ہے کہ تعلقاتِ زن وشوہر کے معاملے میں اس نے خواہشاتِ نفس کی پیروی اختیار کرکے اس توازن کو بہت کچھ بگاڑ دیا ہے جو شریعت نے قائم کیا تھا، اور بالعموم اس کا میلان ایسے طریقوں کی طرف ہے جو شریعت کی روح اوراس کے احکام سے صریحاً منحرف ہیں۔اسی مہر کے معاملے کو لے لیجیے جس پر ہم یہاں گفتگو کررہے ہیں۔اِ س ملک کے مسلمان بالعموم مہر کو محض ایک رسمی چیز سمجھتے ہیں۔ان کی نگاہ میں اس کی وہ اہمیت قطعاً نہیں ہے جو قرآن وحدیث میں اس کو دی گئی ہے۔ نکاح کے وقت بالکل ایک نمائشی طور پر مہر کی قرار داد ہوجاتی ہے مگر اس امر کا کوئی تصور ذہنوں میں نہیں ہوتا کہ اس قرار داد کو پورا بھی کرنا ہے۔بارہا ہم نے مہرکی بات چیت میں اپنے کانوں سے یہ الفاظ سنے ہیں کہ’’میاں کون لیتا ہے کون دیتا ہے‘‘، گویا یہ فعل محض ضابطے کی خانہ پُری کے لیے کیا جارہا ہے۔ہمارے علم میں80فی صدی نکاح ایسے ہوتے ہیں جن میں مہر سرے سے کبھی ادا ہی نہیں کیا جاتا۔ زرِ مہر کی مقدار مقرر کرنے میں اکثر جو چیزلوگوں کے پیش نظر ہوتی ہے، وہ صرف یہ ہے کہ اسے طلاق کی روک تھام کا ذریعہ بنایا جائے۔اس طرح عملاً عورتو ں کے ایک شرعی حق کو کالعدم کردیا گیا ہے اور اس بات کی کوئی پروا نہیں کی گئی کہ جس شریعت کی رُو سے یہ لوگ عورتوں کو مردوں پر حلال کرتے ہیں وہ مہرکو استحلالِ فروج کا معاوضہ قرار دیتی ہے، اور اگر معاوضہ ادا کرنے کی نیت نہ ہو تو خدا کے نزدیک عورت مرد پرحلال ہی نہیں ہوتی۔
ہمارے لیے یہ سمجھنا مشکل ہے کہ جس سوسائٹی کا عرف اتنا بگڑ چکا ہو اور جس کے رواج نے شریعت کے احکام اور اس کی رُوح کے بالکل خلاف صورتیں اختیار کرلی ہوں،اس کے عرف و رواج کو ازرُوئے شریعت جائز قرار دینا کس طرح صحیح ہوسکتا ہے۔ جن فقہا کی عبارتیںاعتبار عرف کی تائید میں نقل کی جاتی ہیں،ان کے پیش نظر نہ یہ بگڑی ہوئی سوسائٹی تھی اور نہ اس کے خلافِ شریعت رواج۔ انھوں نے جو کچھ لکھا تھا،وہ ایک اصلاح شدہ سوسائٹی اور اس کے عرف کو پیش نظر رکھ کر لکھا تھا۔کوئی مفتی مجرد ان کی عبارتوں کو نقل کرکے اپنی ذمہ داری سے سبک دوش نہیں ہوسکتا۔اس کا فرض ہے کہ فتویٰ دینے سے پہلے اصولِ شریعت کی روشنی میںان کی عبارتوں کو اچھی طرح سمجھ لے اور یہ تحقیق کرلے کہ جن حالات میں انھوں نے وہ عبارتیں لکھی تھیں،ان سے وہ حالات مختلف تو نہیں ہیں جن پر آج انھیں چسپاں کیا جارہا ہے۔

(ترجمان القرآن، جولائی،اگست1943ء)

شیئر کریں