شیعوں او رخارجیوں کے انتہائی متضاد نظریات کا رد عمل ایک تیسرے گروہ کی پیدائش کی صورت میں ہو ا جسے مرجیہ کے نام سے موسو م کیا گیا ہے ۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی لڑائیوں میں جس طرح کچھ لوگ ان کے پرجوش حامی اور کچھ ان کے سخت مخالف تھے ، اسی طرح ایک طبقہ غیر جانب دار لوگوں کا بھی تھا ، جو یا تو خانہ جنگی کو فتنہ سمجھ کر الگ بیٹھ رہا تھا ، یا پھر اس معاملے میں مذبذب تھا کہ حق فریقین میں سے کسی کے ساتھ ہے ۔ یہ لوگ اس بات کو تو ضرور محسوس کرتے تھے کہ مسلمانوں کا آپس میں کشت وخون ایک بڑی برائی ہے ، مگر وہ لڑنے والوں میں سے کسی کو برا کہنے کے لیے تیار نہ تھے اور ان کا فیصلہ خدا پر چھوڑتے تھے کہ آخرت میں وہی طے کرے گا کہ کون حق پر ہے اور کون باطل پر ۔ اس حد تک تو ان کے خیالات عام مسلمانوں کے خیالات سے مختلف نہ تھے ۔لیکن جب شیعوں اور خارجیوں نے اپنے انتہاپسندانہ نظریات کی بنا پر کفر وایمان کے سوالات اٹھانے شروع کیے اور ان پر جھگڑوں ، بحثوں اور مناظروں کا سلسلہ چلا ،تو اس غیر جانب دار طبقے نے بھی اپنے نقطہ نظر کے حق میں مستقل دینیاتی نظریات قائم کرلیے جس کا خلاصہ یہ ہے : 1۔ ایمان صرف خدا اور رسول ﷺ کی معرفت کانام ہے ، عمل اس کی حقیقت میں شامل نہیں ہے ، اس لیے ترک فرائض اور ارتکاب ِکبائر کے باوجود ایک شخص مومن رہتا ہے ۔ 2۔ نجات کا مدار صرف ایمان پر ہے ۔کوئی معصیت ایمان کے ساتھ آدمی کو نقصان نہیں پہنچا سکتی ۔ آدمی کی مغفرت کے لیے بس یہ کافی ہے کہ وہ شرک سے مجتنب ہو او رتوحید کے عقیدے پر مرے ۔ [9] بعض مرجیہ نے اسی انداز فکر کو آگے بڑھا کر یہ قول اختیار کیا کہ شرک سے کم تر جو برے سے برے افعال بھی کیے جائیں وہ لامحالہ بخشے جائیں گے [10]۔ اور بعضوں نے اس سے بھی ایک قدم آگے بڑھ کر کہا کہ آدمی اگر دل میں ایمان رکھتا ہو اور وہ دارالاسلام میں بھی ، جہاں کسی کا خوف نہیں ، زبان سے کفر کا اعلان کرے یا بت پوجے یا یہودیت یا نصرانیت میں داخل ہوجائے ، پھر بھی وہ کامل الایمان اور اللہ کا ولی اور جنتی ہے ۔ [11] ان خیالات نے معاصی اور فسق وفجور اور ظلم وستم کی بڑی ہمت افزائی کی اور لوگوں کو اللہ کی مغفرت کا بھروسا دلا کر گناہوں پر جری کردیا ۔ اس طرز خیال سے ملتاجلتا ایک اور نقطہ نظر یہ تھا کہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر ، اگر اس کے لیے ہتھیار اٹھانے کی ضرورت پڑے ، ایک فتنہ ہے ۔ حکومت کے سوا دوسروں کے برے افعال پر ٹوکنا تو ضرور جائز ہے مگر حکومت کے ظلم وجور کے خلاف زبان کھولنا جائز نہیں[12]۔ علامہ ابوبکر جصاص اس پر بڑے تلخ انداز میں شکایت کرتے ہیں کہ ان باتوں نے ظالموں کے ہاتھ مضبوط کیے اور برائیوں اور گمراہیوں کے مقابلے میں مسلمانوں کی قوت ِ مدافعت کو سخت نقصان پہنچایا ۔