Search
Close this search box.

فہرست موضوعات

عرضِ ناشر
تصریح
دیباچہ
باب اوّل: سُنّت کی آئینی حیثیت
ڈاکٹر صاحب کا پہلا خط
جواب
ڈاکٹر صاحب کا دوسرا خط
جواب
سُنّت کیا چیز ہے؟
سُنّت کس شکل میں موجود ہے؟
کیا سُنّت متفق علیہ ہے؟ اور اس کی تحقیق کا ذریعہ کیا ہے؟
چار بنیادی حقیقتیں
دوسرے خط کا جواب
چار نکات
نکتۂ اُولیٰ
رسول اللّٰہa کے کام کی نوعیت
حضور a کی شخصی حیثیت اور پیغمبرانہ حیثیت کا فرق
قرآن سے زائد ہونا اور قرآن کے خلاف ہونا ہم معنی نہیں ہے
کیا سُنّت قرآن کے کسی حکم کو منسوخ کر سکتی ہے؟
نکتۂ دوم
نکتۂ سوم
احادیث کو پرکھنے میں روایت اور درایت کا استعمال
نکتۂ چہارم
اشاعت کا مطالبہ
باب دوم: منصبِ نبوت
ڈاکٹر صاحب کا خط
جواب
۱۔ منصب ِنبوّت اور اس کے فرائض
۲۔ رسول پاکﷺ کے تشریعی اختیارات
۳۔ سُنّت اور اتباع سُنّت کا مفہوم
۴۔رسولﷺ پاک کس وحی کے اتباع پر مامور تھے، اور ہم کس کے اتباع پر مامور ہیں؟
۵۔ مرکزِ ملّت
۶۔ کیا حضورﷺ صرف قرآن پہنچانے کی حد تک نبی تھے؟
۷۔ حضورﷺ کی اجتہادی لغزشوں سے غلط استدلال
۸۔ موہوم خطرات
۹۔ خلفائے راشدین پر بہتان
۱۰۔ کیا حضورﷺ پر قرآن کے علاوہ بھی وحی آتی تھی؟
سُنّت کے متعلق چند مزید سوالات
جواب
وحی پر ایمان کی وجہ
مَااَنْزَلَ اللّٰہُ سے کیا چیز مراد ہے؟
سُنّت کہاں ہے؟
وحی سے مراد کیا چیز ہے؟
محض تکرارِ سوال
ایمان وکفر کا مدار
کیا احکامِ سُنّت میں رد وبدل ہو سکتا ہے؟
باب سوم : اعتراضات اور جوابات
۱۔ بزمِ طلوع اِسلام سے تعلق؟
۲۔ کیا گشتی سوال نامے کا مقصد علمی تحقیق تھا؟
۳۔ رسولﷺ کی حیثیت ِ شخصی و حیثیتِ نبویﷺ
۴۔ تعلیماتِ سنّت میں فرقِ مراتب
۵۔ علمی تحقیق یا جھگڑالو پن؟
۶۔ رسولﷺ کی دونوں حیثیتوں میں امتیاز کا اصول اور طریقہ
۷۔ قرآن کی طرح احادیث بھی کیوں نہ لکھوائی گئیں؟
۸۔ دجل وفریب کا ایک نمونہ
۹۔ حدیث میں کیا چیز مشکوک ہے اور کیا مشکوک نہیں ہے
۱۰۔ ایک اور فریب
۱۱۔ کیا امت میں کوئی چیز بھی متفق علیہ نہیں ہے؟
۱۲۔ سُنّت نے اختلافات کم کیے ہیں یا بڑھائے ہیں؟
۱۳۔ منکرینِ سُنّت اور منکرینِ ختم نبوت میں مماثلت کے وجوہ
۱۴۔ کیا آئین کی بنیاد وہی چیز ہو سکتی ہے جس میں اختلاف ممکن نہ ہو؟
۱۵۔ قرآن اور سُنّت دونوں کے معاملے میں رفعِ اختلاف کی صورت ایک ہی ہے
۱۶۔ ایک دل چسپ مغالطہ
۱۷۔ شخصی قانون اور ملکی قانون میں تفریق کیوں؟
۱۸۔ حیثیت ِرسول ﷺ کے بارے میں فیصلہ کن بات سے گریز
۱۹۔ کیا کسی غیر نبی کو نبی کی تمام حیثیات حاصل ہو سکتی ہیں
۲۰۔ اِسلامی نظام کے امیر اور منکرینِ حدیث کے مرکزِ ملت میں عظیم فرق
۲۱۔ عہد رسالت میں مشاورت کے حدود کیا تھے؟
۲۲۔ اذان کا طریقہ مشورے سے طے ہوا تھا یا الہام سے؟
۲۳۔ حضورﷺ کے عدالتی فیصلے سند وحجت ہیں یا نہیں؟
۲۴۔ کج بحثی کا ایک عجیب نمونہ
۲۵۔ کیا اللہ تعالیٰ بھی غلطی کرسکتا ہے؟
۲۶۔حضورﷺ کے ذاتی خیال اور بربنائے وحی کہی ہوئی بات میں واضح امتیاز تھا
۲۷۔ کیا صحابہؓ اس بات کے قائل تھے کہ حضورﷺ کے فیصلے بدلے جا سکتے ہیں؟
۲۸۔ مسئلہ طلاق ثلاثہ میں حضرت عمرؓ کے فیصلے کی اصل نوعیت
۲۹۔ مؤلفۃ القلوب کے بارے میں حضرت عمرؓ کے استدلال کی نوعیت
۳۰۔ کیا مفتوحہ اراضی کے بارے میں حضرت عمرؓ کا فیصلہ حکم رسولﷺ کے خلاف تھا؟
۳۱۔ وظائف کی تقسیم کے معاملے میں حضرت عمرؓ کا فیصلہ
۳۲۔ کیا قرآن کے معاشی احکام عبوری دور کے لیے ہیں؟
۳۳۔ ’’عبوری دور‘‘ کا غلط مفہوم
۳۴۔ حضورﷺکیا صرف شارح قرآن ہی ہیں یا شارع بھی؟
۳۵۔ بصیرت رسولﷺ کے خداداد ہونے کا مفہوم
۳۶۔ وحی کی اقسام ازروئے قرآن
۳۷۔ وحی غیرمتلو پر ایمان، ایمان بالرسول کا جُز ہے
۳۸۔ کیا وحی غیر متلو بھی جبریل ہی لاتے تھے؟
۳۹۔ کتاب اور حکمت ایک ہی چیز یا الگ الگ
۴۰۔ لفظ تلاوت کے معنی
۴۱۔ کتاب کے ساتھ میزان کے نزول کا مطلب
۴۲۔ ایک اور کج بحثی
۴۳۔ تحویلِ قبلہ والی آیت میں کون سا قبلہ مراد ہے؟
۴۴۔ قبلے کے معاملے میں رسولﷺ کی پیروی کرنے یا نہ کرنے کا سوال کیسے پیدا ہوتا تھا؟
۴۵۔ نبی پر خود ساختہ قبلہ بنانے کا الزام
۴۶۔ لَقَدْ صَدَقَ اللّٰہُ رَسُوْلَہُ الرُّؤْیَا کا مطلب
۴۷۔ کیا وحی خواب کی صورت میں بھی ہوتی ہے؟
۴۸۔ بے معنی اعتراضات اور الزامات
۴۹۔ کیا آنحضورﷺ نے صحابہؓ کو دھوکا دیا تھا؟
۵۰۔ کیا آنحضورﷺ اپنے خواب سے متعلق متردد تھے؟
۵۱۔دروغ گویم بر رُوئے تو
۵۲۔ رُو در رُو بہتان
۵۳۔ نَبَّأَنِیَ الْعَلِیْمُ الْخَبِیْرُ کا مطلب

سنت کی آئینی حیثیت

انکار سنت کا فتنہ اسلامی تاریخ میں سب سے پہلے دوسری صدی ہجری میں اُٹھا تھا اور اس کے اُٹھانے والے خوارج اور معتزلہ تھے۔ خوارج کو اس کی ضرورت اس لیے پیش آئی کہ مسلم معاشرے میں جو انارکی وہ پھیلانا چاہتے تھے، اس کی راہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی وہ سنت حائل تھی جس نے اس معاشرے کو ایک نظم و ضبط پر قائم کیا تھا، اور اس کی راہ میں حضور کے وہ ارشادات حائل تھے جن کی موجودگی میں خوارج کے انتہا پسندانہ نظریات نہ چل سکتے تھے۔ اس بنا پر اُنھوں نے احادیث کی صحت میں شک اور سنت کے واجب الاتباع ہونے سے انکار کی دو گونہ پالیسی اختیار کی۔ معتزلہ کو اس کی ضرورت اس لیے لاحق ہوئی کہ عجمی اور یونانی فلسفوں سے پہلا سابقہ پیش آتے ہی اسلامی عقائد اور اصول و احکام کے بارے میں جو شکوک و شبہات ذہنوں میں پیدا ہونے لگے تھے، اُنھیں پوری طرح سمجھنے سے پہلے وہ کسی نہ کسی طرح اُنھیں حل کر دینا چاہتے تھے۔ خود ان فلسفوں میں ان کو وہ بصیرت حاصل نہ ہوئی تھی کہ ان کا تنقیدی جائزہ لے کر ان کی صحت و قوت جانچ سکتے۔ اُنھوں نے ہر اس بات کو جو فلسفے کے نام سے آئی، سراسر عقل کا تقاضا سمجھا اور یہ چاہا کہ اسلام کی عقائد اور اصولوں کی ایسی تعبیر کی جائے جس سے وہ ان نام نہاد عقلی تقاضوں کے مطابق ہو جائیں۔ اس راہ میں پھر وہی حدیث و سنت مانع ہوئی۔ اس لیے اُنھوں نے بھی خوارج کی طرح حدیث کو مشکوک ٹھیرایا اور سنت کو حجت ماننے سے انکار کیا۔ اس کتاب میں مولانا مودودیؒ نے مخالفانہ دلائل کو ایک ایک کرکے اس طرح بیان کیا ہے کہ اس کے بعد کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی۔ سید مودودیؒ کتاب کے آخر میں رقم طراز ہیں: ”ہم نے ایک ایک دلیل کا تفصیلی جائزہ لے کر جو بحث کی ہے اسے پڑھ کر ہر صاحب علم آدمی خود یہ رائے قائم کر سکتا ہے کہ ان دلائل میں کتنا وزن ہے اور ان کے مقابلے میں سنت کے ماخذ قانون اور احادیث کے قابل استناد ہونے پر جو دلیلیں ہم نے قائم کی ہیں وہ کس حد تک وزنی ہیں۔ ہم خاص طور پر خود فاضل جج سے اور مغربی پاکستان ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اور ان کے رفقا سے گزارش کرتے ہیں کہ وہ پورے غور کے ساتھ ہماری اس تنقید کو ملاحظہ فرمائیں اور اگر ان کی بے لاگ رائے میں، جیسی کہ ایک عدالت عالیہ کے فاضل ججوں کے رائے بے لاک ہونی چاہیے، یہ تنقید فی الواقع مضبوط دلائل پر مبنی ہو تو وہ قانون کے مطابق کوئی ایسی تدبیر عمل میں لائیں جس سے یہ فیصلہ آئیندہ کے لیے نظیر نہ بن سکے۔ عدالتوں کا وقار ہر ملک کے نظام عدل و انصاف کی جان ہوتا ہے اور بہت بڑی حد تک اسی پر ایک مملکت کے استحکام کا انحصار ہوتا ہے۔ اس وقار کے لیے کوئی چیز اس سے بڑھ کر نقصان دہ نہیں ہے کہ ملک کی بلند ترین عدالتوں کے فیصلے علمی حیثیت سے کمزور دلائل اور ناکافی معلومات پر مشتمل ہوں۔ اس لیے یہ ضروری ہے کہ جب ایمان دارانہ تنقید سے ایسی کسی غلطی کی نشان دہی ہو جائے تو اولین فرصت میں خود حاکمان عدالت ہی اس کی تلافی کی طرف توجہ فرمائیں۔“ حدیث کے حوالے سے شکوک وشبہات کا اظہار کرنے والے افراد کے لیے اس کتاب کو پڑھنا بہت اہم ہے۔

مَااَنْزَلَ اللّٰہُ سے کیا چیز مراد ہے؟

آپ کا دوسرا سوال یہ ہے کہ:
قرآن نے جہاں مَا اُنْزِلَ اِلَیْکَ کہا ہے کیا اس سے مراد صرف قرآن ہے یا وحی کا مذکورۂ صدر حصہ بھی؟
اس کا جواب یہ ہے کہ قرآن مجید میں جہاںنازل کرنے کے ساتھ کتاب یا ذکر یا فرقان وغیرہ کی تصریح کی گئی ہے، صرف اسی جگہ مَااَنْزَلَ اللّٰہُ سے مراد قرآن ہے۔ رہے وہ مقامات جہاں کوئی قرینہ ان الفاظ کو قرآن کے لیے مخصوص نہ کر رہا ہو، وہاں یہ الفاظ ان تمام ہدایات وتعلیمات پر حاوی ہیں جو نبی ﷺ سے ہم کو ملی ہیں، خواوہ وہ آیاتِ قرآنی کی صورت میں ہوں، یا کسی اور صورت میں۔ اس کی دلیل خود قرآن مجید ہی میں موجود ہے۔ قرآن ہمیں بتاتا ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ کی طرف سے نبی ﷺ پر صرف قرآن ہی نازل نہیں ہوا ہے بلکہ کچھ اور چیزیں بھی نازل ہوئی ہیں۔ سورۂ نساء میں ارشاد ہوا ہے:
٭ وَاَنْزَلَ اللہُ عَلَيْكَ الْكِتٰبَ وَالْحِكْمَۃَ وَعَلَّمَكَ مَا لَمْ تَكُنْ تَعْلَمُ۝۰ۭ النسائ 113:4
اور اللّٰہ نے تیرے اوپر نازل کی کتاب اور حکمت اور تجھے سکھایا وہ کچھ جو تو نہ جانتا تھا۔
یہی مضمون سورۂ بقرہ میں بھی ہے:
٭ وَّاذْكُرُوْا نِعْمَتَ اللہِ عَلَيْكُمْ وَمَآ اَنْزَلَ عَلَيْكُمْ مِّنَ الْكِتٰبِ وَالْحِكْمَۃِ يَعِظُكُمْ بِہٖ۝۰ۭ البقرہ 231:2
اور یاد رکھو اپنے اوپر اللّٰہ کے احسان کو، اور اس کتاب اور حکمت کو جو اس نے تم پر نازل کی ہے۔ اللّٰہ تمھیں اس کا پاس رکھنے کی نصیحت فرماتا ہے۔
اسی بات کو سورۂ احزاب میں دہرایا گیا ہے جہاں نبی ﷺ کے گھر کی خواتین کو نصیحت فرمائی گئی ہے کہ:
٭ وَاذْكُرْنَ مَا يُتْلٰى فِيْ بُيُوْتِكُنَّ مِنْ اٰيٰتِ اللہِ وَالْحِكْمَۃِ۝۰ۭ الاحزاب 34:33
اور یاد رکھو کہ تمھارے گھروں میں (لوگوں کو) اللّٰہ کی آیات اور حکمت کی ان باتوں کو جو سنائی جاتی ہیں۔
اس سے معلوم ہوا کہ نبی ﷺ پر کتاب کے علاوہ ایک چیز ’’حکمت‘‘ بھی نازل کی گئی تھی جس کی تعلیم آپ لوگوں کو دیتے تھے۔ اس کا مطلب آخر اس کے سوا کیا ہے کہ جس دانائی کے ساتھ آں حضور ﷺ قرآن مجید کی اسکیم کو عملی جامہ پہنانے کے لیے کام کرتے اور قیادت وراہ نُمائی کے فرائض انجام دیتے تھے، وہ محض آپ کی آزادانہ ذاتی قوتِ فیصلہ (private judgement) نہ تھی بلکہ یہ چیز بھی اللّٰہ نے آپ پر نازل کی تھی۔ نیز یہ کوئی ایسی چیز تھی جسے آپ خود ہی استعمال نہ کرتے تھے بلکہ لوگوں کو سکھاتے بھی تھے (یُعَلِّمُکُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَ) اور ظاہر ہے کہ یہ سکھانے کا عمل یا تو قول کی صورت میں ہو سکتا تھا، یا فعل کی صورت میں۔ اس لیے امت کو آں حضرتﷺ کے ذریعے سے اللّٰہ تعالیٰ کی نازل کردہ دو چیزیں ملی تھیں۔ ایک: کتاب۔ دوسری: حکمت، حضورﷺ کے اقوال میں بھی اور افعال کی صورت میں بھی۔
پھر قرآن مجید ایک اور چیز کا ذکر بھی کرتا ہے جو اللّٰہ نے کتاب کے ساتھ نازل کی ہے:
۱۔ اَللہُ الَّذِيْٓ اَنْزَلَ الْكِتٰبَ بِالْحَقِّ وَالْمِيْزَانَ۝۰ۭ الشوریٰ17:42
اللّٰہ ہی ہے جس نے نازل کی کتاب حق کے ساتھ اور میزان۔
۲۔ لَقَدْ اَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَيِّنٰتِ وَاَنْزَلْنَا مَعَہُمُ الْكِتٰبَ وَالْمِيْزَانَ لِيَقُوْمَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ۝۰ۚ الحدید 25:57
ہم نے اپنے رسولوں کو روشن نشانیوں کے ساتھ بھیجا اور ان کے ساتھ کتاب اور میزان نازل کی تاکہ لوگ انصاف پر قائم ہوں۔
یہ میزان جو کتاب کے ساتھ نازل کی گئی ہے، ظاہر ہے کہ وہ ترازو تو نہیں ہے جو ہر بنیے کی دکان پر رکھی ہوئی مل جاتی ہے بلکہ اس سے مراد کوئی ایسی چیز ہی ہے جو اللّٰہ تعالیٰ کی ہدایات کے مطابق انسانی زندگی میں توازن قائم کرتی ہے، اس کے بگاڑ کو درست کرتی ہے اور افراط وتفریط کو دور کرکے انسانی اخلاق ومعاملات کو عدل پر لاتی ہے۔ کتاب کے ساتھ اس چیز کو انبیا پر ’’نازل‘‘ کرنے کے صاف معنی یہ ہیں کہ انبیا کو اللّٰہ تعالیٰ نے بطورِ خاص اپنے پاس سے وہ راہ نُمائی کی صلاحیت عطا فرمائی تھی جس سے انھوں نے کتاب اللّٰہ کے منشا کے مطابق افراد اور معاشرے اور ریاست میں نظامِ عدل قائم کیا۔ یہ کام ان کی ذاتی قوتِ اجتہاد اور رائے پر منحصر نہ تھا، بلکہ اللّٰہ کی نازل کردہ میزان سے تول تول کر وہ فیصلہ کرتے تھے کہ حیات انسانی کے مرکب میں کس جز کا کیا وزن ہونا چاہیے۔پھر قرآن ایک تیسری چیز کی بھی خبر دیتا ہے جو کتاب کے علاوہ نازل کی گئی تھی:
٭ فَاٰمِنُوْا بِاللہِ وَرَسُوْلِہٖ وَالنُّوْرِ الَّذِيْٓ اَنْزَلْنَا۝۰ۭ التغابن 8:64
پس ایمان لائو اللّٰہ پر اور اس کے رسول ﷺ پر اور اس نور پر جو ہم نے نازل کیا ہے۔
٭ فَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا بِہٖ وَعَزَّرُوْہُ وَنَصَرُوْہُ وَاتَّبَعُوا النُّوْرَ الَّذِيْٓ اُنْزِلَ مَعَہٗٓ۝۰ۙ اُولٰۗىِٕكَ ہُمُ الْمُفْلِحُوْنَo الاعراف 157:7
پس جو لوگ ایمان لائیں اس رسولﷺ پر اور اس کی تعظیم وتکریم کریں اور اس کی مدد کریں اور اس نور کے پیچھے چلیں جو اس کے ساتھ نازل کیا گیا ہے۔ وہی فلاح پانے والے ہیں۔
٭ قَدْ جَاۗءَكُمْ مِّنَ اللہِ نُوْرٌ وَّكِتٰبٌ مُّبِيْنٌo يَّہْدِيْ بِہِ اللہُ مَنِ اتَّبَعَ رِضْوَانَہٗ سُـبُلَ السَّلٰمِ المائدہ 15-16:5
تمھارے پاس آ گیا ہے اللّٰہ کی طرف سے نور اور کتاب مبین جس کے ذریعے سے اللّٰہ تعالیٰ ہر اس شخص کو جو اس کی مرضی کی پیروی کرنے والا ہے، سلامتی کی راہیں دکھاتا ہے۔
ان آیات میں جس نور کا ذکر کیا گیا ہے وہ کتاب سے الگ ایک چیز تھا، جیسا کہ تیسری آیت کے الفاظ صاف بتا رہے ہیں اور یہ نور بھی اللّٰہ تعالیٰ کی طرف سے اس کے رسولﷺ پر نازل کیا گیا تھا۔ ظاہر ہے کہ اس سے مراد وہ علم ودانش اور بصیرت وفراست ہی ہو سکتی ہے جو اللّٰہ نے حضور ﷺ کو عطا فرمائی تھی۔ جس سے آپﷺ نے زندگی کی راہوں میں صحیح اور غلط کا فرق واضح فرمایا، جس کی مدد سے زندگی کے مسائل حل کیے، اور جس کی روشنی میں کام کرکے آپﷺ نے اخلاق و روحانیت، تہذیب وتمدن، معیشت ومعاشرت اور قانون وسیاست کی دُنیا میں انقلاب عظیم برپا کر دیا۔ یہ کسی پرائیویٹ آدمی کا کام نہ تھا، جس نے بس خدا کی کتاب پڑھ پڑھ کر اپنی سمجھ بوجھ کے مطابق جدوجہد کر ڈالی ہو، بلکہ یہ خدا کے اس نمایندے کا کام تھا جس نے کتاب کے ساتھ براہ راست خدا ہی سے علم اور بصیرت کی روشنی بھی پائی تھی۔
ان تصریحات کے بعد یہ بات بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ قرآن جب ہمیں دوسری سب چیزوں کو چھوڑ کر صرف مَا اَنْزَلَ اللّٰہُ کی پیروی کرنے کا حکم دیتا ہے تو اس سے مراد محض قرآن ہی کی پیروی نہیں ہوتی، بلکہ اس حکمت اور اس نور اور اس میزان کی پیروی بھی ہوتی ہے جو قرآن کے ساتھ نبی ﷺ پر نازل کی گئی تھی اور جس کا ظہور لامحالہ حضور ﷺ کی سیرت وکردار اور حضورﷺ کے اقوال وافعال ہی میں ہو سکتا تھا۔ اسی لیے قرآن کہیں یہ کہتا ہے کہ ما انزل اللّٰہ کی پیروی کرو،مثلاً: الاعراف ۷:۳ میں، اور کہیں یہ ہدایت کرتا ہے کہ محمد ﷺ کی پیروی کرو،(مثلاً: آل عمران۳:۳۱۔۳۲۔۱۳۲، اور الاعراف ۷:۱۵۸ میں)۔اگر یہ دو مختلف چیزیں ہوتیں تو ظاہر ہے کہ قرآن کی ہدایات متضاد ہو جاتیں۔

شیئر کریں