حامیانِ ضبط ِ ولادت تسلیم کرتے ہیں کہ انواع کی تعداد کوایک حد ِمناست کے اندر محدود رکھنے کا انتظام خود فطرت نے کیا ہے اور یہ انتظام نوعِ انسانی پر بھی حاوی ہے لیکن وہ کہتے ہیں کہ فطرت اس کام کو موت کے ذریعہ سے انجام دیتی ہے جس میں انسان کے لیے سخت روحانی اور جسمانی اذیتیں ہیں۔ کیوں نہ ہم اس کے بجائے خود اپنی احتیاطی تدبیروں سے اپنی آبادی کو محدود رکھنے کا انتظام کر لیں؟ زندہ انسانوں کے لقمہ ٔاجل ہونے، طرح طرح کی تکلیفوں سے جان دینے، اور پسماندوں کے تڑپ تڑپ کر رہ جانے سے تو بدرجہا بہتر یہ ہے کہ ضرورت سے زیادہ انسان پیدا ہی نہ ہوں۔
یہاں پھر یہ لوگ خدائی انتظام میں مداخلتِ بے جا کے مرتکب ہوتے ہیں۔ ہم پوچھتے ہیں کہ تمھاری احتیاطی تدبیروں سے کیا جنگ، وبائیں، امراض، سیلاب، زلزلے، طوفان، ریلوں اور موٹروں اور بحری اور ہوائی جہازوں کے حادثے سب بند ہو جائیں گے؟ کیا تم نے خدا (یا بزعم خود ’’فطرت‘‘) سے کوئی ایسا معاہدہ کر لیا ہے کہ جب تم ضبط ِولادت پر عمل شروع کرو گے تو فرشتۂ موت کو برطرف کر دیا جائے گا؟ اگر ایسا نہیں ہے اور یقینا نہیں ہے تو بتائو کہ ضبط ِولادت اور فرشتۂ موت دونوں کی کارگزاری کا تختۂ مشق بن کر نوعِ انسانی کا کیا حشر ہو گا؟ ایک طرف تم خود اپنے ہاتھوں سے اپنی آبادیوں کو گھٹا رہے ہو۔ دوسری طرف زلزلے ہزاروں آدمیوں کو بیک وقت نذرِ اجل کرتے رہیں گے، سیلابوں اور طوفانوں میں بستیوں کی بستیاں اُجڑتی رہیں گی، حادثوں میں لاکھوں آدمی مرتے رہیں گے، وبائیں آ کر آبادیوں پرجھاڑو پھیرتی رہیں گی، لڑائیوں میں تمھارے اپنے سائنٹفک آلات لاکھوں بلکہ کروڑوں آدمیوں کوموت کے گھاٹ اتار دیں گے اور موت کا فرشتہ فرداً فرداً بھی آدمیوں کی روحیں قبض کرتا رہے گا۔ کیا تم حساب لگا کر اتنا بھی معلوم نہیں کرسکتے کہ جس خزانے میں آمد گھٹتی چلی جائے اور خرچ بدستور رہے وہ کب تک بھرپور رہے گا۔{ FR 7264 }
اس سوال کو بھی جانے دو کیا تمھارے پاس اپنی آبادیوں کے لیے ’’حدِ مناسب‘‘ مقرر کرنے کا کوئی معیار ہے؟ اگر بالفرض ہے، تو کیا تم اس معیار کے مطابق حسب ضرورت بچے پیدا کرنے اور صرف ضرورت سے زیادہ بچوں کی پیدائش روک دینے پر قادر ہو؟ جب عوام الناس میں خود غرضانہ ذہنیت پیدا ہو جائے اور وہ اپنے شخصی حالات اورنفسانی رجحانات کی بناء پر بچوں کی ضرورت وعدم ضرورت کا فیصلہ کرنے میں آزاد ہوں، اور ضبط ِولادت کے عملی طریقے اور وسائل بھی آسانی کے ساتھ ان کو بہم پہنچ جائیں، تو کیا یہ ممکن ہے کہ ملکوں اور قوموں کی آبادی کو کس مناسب حد تک ہی گھٹایا جائے اور اس حد سے زیادہ نہ گھٹنے دیا جائے؟ قیاس کی ضرورت نہیں، تجربہ شہادت دے رہا ہے کہ دنیا کے سب سے زیادہ ترقی یافتہ ممالک بھی ایسی کوئی حدِ مناسب مقرر کرنے اور افراد کے عمل کو اس حد کے اندر محدود رکھنے میں کامیاب نہیں ہو سکے ہیں۔ پھر وہ کیا سامان ہے جس کو لے کر تم اس خدائی تدبیر میں داخل دینے چلے ہو جس کے تحت وہ خود انسانی بستیوں کے لیے ’’حدِ مناسب‘‘ مقرر کرتا اور ایک اندازے کے ساتھ ان کو گھٹاتا بڑھاتا ہے؟