Search
Close this search box.

فہرست موضوعات

مسئلۂ قربانی شرعی اور عقلی نقطۂ نظر سے پاکستان میں قربانی کے خلاف مہم
اس پروپیگنڈے کا اثر ہندی مسلمانوں پر
شیطانی ذوق تفرقہ اندازی
تفریق بین اللہ و الرسول
منصبِ رسولؐ
رسالت کا غلط تصوُّر
غلط تصو ر کی فتنہ انگیزی
چند مثالیں اور نتائج
سنت، قرآن کی عملی تشریح ہے
قربانی کے قرآنی احکام اور ان کی حکمت
اوقاتِ قربانی کی تعیین
قربانی کا تاریخی پس منظر
اسے عالم گیر بنانے میں مصلحت
قربانی کی حقیقی روح
نبیؐ کی خدا داد بصیرت
احادیث سے قربانی کا ثبوت
فقہائے اُمّت کا اِتفاق
اُمّت کا تواتر عمل
ہمارا اَخلاقی انحطاط
مخالفین کے دلائل کا دینی تجزیہ
اجتماعی نقطۂ نظر سے جائزہ
معترضین کے چند مزید سہارے

مسئلہ قربانی

اس ویب سائٹ پر آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ اب آپ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمتہ اللہ علیہ کی کتابوں کو ’’پی ڈی ایف ‘‘ کے ساتھ ساتھ ’’یونی کوڈ ورژن‘‘ میں بھی پڑھ سکتے ہیں۔کتابوں کی دستیابی کے حوالے سے ہم ’’اسلامک پبلی کیشنز(پرائیوٹ) لمیٹڈ، لاہور‘‘، کے شکر گزار ہیں کہ اُنھوں نے اس کارِ خیر تک رسائی دی۔ اس صفحے پر آپ متعلقہ کتاب PDF اور Unicode میں ملاحظہ کیجیے۔

منصبِ رسولؐ

یہ بات حقیقت کے خلاف بھی ہے اور سخت فتنہ انگیز بھی۔
حقیقت کے خلاف یہ اس لیے ہے کہ اللہ تعالیٰ نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو معاذ اللہ محض ایک ڈاکیا بنا کر نہیں بھیجا تھا کہ آپ کاکام اللہ کا پیغام بندوں تک پہنچا دینے کے بعد ختم ہو جائے اور اس کے بعد بندے اللہ میاں کے نامۂ گرامی کو لے کر جس طرح ان کی سمجھ میں آئے اس کی تعمیل کرتے رہیں۔ خود قرآن کی رُو سے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے منصب کی نوعیت کفار کے لیے الگ اور اہل ایمان کے لیے الگ ہے۔ کفار کے لیے آپ صرف مبلغ اور داعی الی اللہ ہیں۔ مگر جو لوگ ایمان لے آئیں ان کے لیے تو آپ اللہ تعالیٰ کی حاکمیت کے مکمل نمایندے ہیں۔ آپ کی اطاعت عین اللہ کی طاعت ہے۔ مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللّٰہِ۔ آپ کے اتباع کے سوا اللہ کی خوشنودی کا کوئی دوسرا راستہ نہیں۔ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اللّٰہُ[آل عمران3:31]اللہ نے آپؐ کو اپنی طرف سے معلم، مربی، راہ نما، قاضی، آمروناہی اور حاکم مطاع، سب کچھ بنا کر مامور فرمایا تھا۔ آپ کاکام یہ تھا کہ مسلمانوں کے لیے عقیدہ و فکر، مذہب و اخلاق، تمدن و تہذیب، معیشت و سیاست، غرض زندگی کے ہر گوشے کے لیے وہ اصول، طریقے اور ضابطے مقرر کریں جو اللہ کی پسند کے مطابق ہوں اور مسلمانوں کا فرض یہ ہے کہ جو کچھ آپ نے سکھایا اور مقرر کیا ہے اس کے مطابق اپنی زندگی کو ڈھالیں۔ مسلمان ہونے کی حیثیت سے کوئی شخص یہ حق نہیں رکھتا کہ رسول اللہؐ جو حکم دیں اس پر ان سے سند طلب کرے۔ رسولؐ کی ذات خود سند ہے۔ اس کا حکم بجائے خود قانون ہے۔ اس کے مقابلے میں کوئی مسلمان یہ سوال کرنے کا مجاذ نہیں ہے کہ جو حکم رسولؐ نے دیا ہے اس کا حوالہ قرآن میں ہے یا نہیں۔ اللہ تعالیٰ کوئی ہدایت خواہ اپنی کتاب کے ذریعہ سے دے یا اپنے رسولؐ کے ذریعہ سے، سند اور وزن کے اعتبار سے دونوں بالکل یکساں ہیں اور قانونِ الٰہی ہونے میں ان دونوں کے درمیان کوئی فرق نہیں۔

شیئر کریں