یہ بات حقیقت کے خلاف بھی ہے اور سخت فتنہ انگیز بھی۔
حقیقت کے خلاف یہ اس لیے ہے کہ اللہ تعالیٰ نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو معاذ اللہ محض ایک ڈاکیا بنا کر نہیں بھیجا تھا کہ آپ کاکام اللہ کا پیغام بندوں تک پہنچا دینے کے بعد ختم ہو جائے اور اس کے بعد بندے اللہ میاں کے نامۂ گرامی کو لے کر جس طرح ان کی سمجھ میں آئے اس کی تعمیل کرتے رہیں۔ خود قرآن کی رُو سے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے منصب کی نوعیت کفار کے لیے الگ اور اہل ایمان کے لیے الگ ہے۔ کفار کے لیے آپ صرف مبلغ اور داعی الی اللہ ہیں۔ مگر جو لوگ ایمان لے آئیں ان کے لیے تو آپ اللہ تعالیٰ کی حاکمیت کے مکمل نمایندے ہیں۔ آپ کی اطاعت عین اللہ کی طاعت ہے۔ مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللّٰہِ۔ آپ کے اتباع کے سوا اللہ کی خوشنودی کا کوئی دوسرا راستہ نہیں۔ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اللّٰہُ[آل عمران3:31]اللہ نے آپؐ کو اپنی طرف سے معلم، مربی، راہ نما، قاضی، آمروناہی اور حاکم مطاع، سب کچھ بنا کر مامور فرمایا تھا۔ آپ کاکام یہ تھا کہ مسلمانوں کے لیے عقیدہ و فکر، مذہب و اخلاق، تمدن و تہذیب، معیشت و سیاست، غرض زندگی کے ہر گوشے کے لیے وہ اصول، طریقے اور ضابطے مقرر کریں جو اللہ کی پسند کے مطابق ہوں اور مسلمانوں کا فرض یہ ہے کہ جو کچھ آپ نے سکھایا اور مقرر کیا ہے اس کے مطابق اپنی زندگی کو ڈھالیں۔ مسلمان ہونے کی حیثیت سے کوئی شخص یہ حق نہیں رکھتا کہ رسول اللہؐ جو حکم دیں اس پر ان سے سند طلب کرے۔ رسولؐ کی ذات خود سند ہے۔ اس کا حکم بجائے خود قانون ہے۔ اس کے مقابلے میں کوئی مسلمان یہ سوال کرنے کا مجاذ نہیں ہے کہ جو حکم رسولؐ نے دیا ہے اس کا حوالہ قرآن میں ہے یا نہیں۔ اللہ تعالیٰ کوئی ہدایت خواہ اپنی کتاب کے ذریعہ سے دے یا اپنے رسولؐ کے ذریعہ سے، سند اور وزن کے اعتبار سے دونوں بالکل یکساں ہیں اور قانونِ الٰہی ہونے میں ان دونوں کے درمیان کوئی فرق نہیں۔