Search
Close this search box.

فہرست موضوعات

دعوت اسلامی اور اس کا طریق کار
اجتماعات کا مقصد:
دعوت اسلامی کے تین نکات :
بندگی رب کا حقیقی مفہوم:
منافقت کی حقیقت
تناقض کی حقیقت:
امامت میں انقلاب کیسے آتا ہے؟
مخالفت اور اس کے اسباب :
ہمارا طریقِ کار
علماء اور مشائخ کی آڑ :
زہد کا طعنہ:
رفقاء جماعت سے خطاب :

دعوت اسلامی اور اس کا طریق کار

اس ویب سائٹ پر آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ اب آپ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمتہ اللہ علیہ کی کتابوں کو ’’پی ڈی ایف ‘‘ کے ساتھ ساتھ ’’یونی کوڈ ورژن‘‘ میں بھی پڑھ سکتے ہیں۔کتابوں کی دستیابی کے حوالے سے ہم ’’اسلامک پبلی کیشنز(پرائیوٹ) لمیٹڈ، لاہور‘‘، کے شکر گزار ہیں کہ اُنھوں نے اس کارِ خیر تک رسائی دی۔ اس صفحے پر آپ متعلقہ کتاب PDF اور Unicode میں ملاحظہ کیجیے۔

منافقت کی حقیقت

دوسری چیز جس کی دعوت دیتے ہیں وہ یہ ہے کہ اسلام کی پیروی کا دعویٰ کرنے والے یا اسلام قبول کرنے والے سب لوگ منافقا نہ روّیہ کو بھی چھوڑ دیں۔اور اپنی زندگی کو تناقضات سے بھی پاک کریں۔منافقانہ روّیہ سے ہماری مراد یہ ہے کہ آدمی جس دین کی پیروی کادعویٰ کرے اس کے بالکل بر خلاف نظامِ زندگی کو اپنے اوپرحاوی و مسلط پاکر راضی اور مطمئن رہے اس کو بدل کر اپنے دین کواس کی جگہ قائم کرنے کی کوئی سعی نہ کرے بلکہ اس کے برعکس اسی فاسقانہ و باغیانہ نظام زندگی کو اپنے لیے ساز گار بنانے اور اس میں اپنے لیے آرام کی جگہ پیدا کرنے کی فکر کرتا رہے یا اگر اس کوبدلنے کی کوشش بھی کرے تو اس کی غرض یہ نہ ہو کہ اس فاسقانہ نظامِ زندگی کی جگہ دین حق قائم ہو بلکہ صرف یہ کوشش کرے کہ ایک فاسقانہ نظام ہٹ کر دوسرا فاسقانہ نظام اس کی جگہ قائم ہو جائے۔ہمارے نزدیک یہ طرز عمل سراسرمنافقانہ ہے ،اس لیے کہ ہمارا ایک نظامِ زندگی پر ایمان رکھنااور دوسرے نظام زندگی میں راضی رہنا بالکل ایک دوسرے کی ضد ہیں۔مخلصانہ ایمان کا اوّلین تقاضا یہ ہے کہ جس طریقِ زندگی پر ایمان رکھتے ہیں اسی کوہم اپنا قانون حیات دیکھنا چاہیں اور ہماری روح اپنی آخری گہرائیوں تک ہراس رکاوٹ کے پیش آجانے پر بے چین ومضطرب ہو جائے جو اس طریق زندگی کے مطابق جینے میں سدراہ بن رہی ہو۔ ایمان تو ایسی کسی چھوٹی رکاوٹ کو بھی برداشت کرنے کے لئے تیار نہیں ہو سکتاکجا کہ اس کا پورا کا پورا دین کسی دوسرے نظام زندگی کا تابع مہمل بن کے رہ گیا ہواس دین کے کچھ اجزا پر عمل درآمد ہوتا بھی ہو تو صرف اس وجہ سے کہ غالب نظام زندگی نے ان کو بے ضّررسمجھ کر رعایتہ باقی رکھا ہو اور ان رعایات کے ماسوا ساری زندگی کے معاملات دین کی بنیادوں سے ہٹ کر غالب نظام زندگی کی بنیادوں پر چل رہے ہوں اور پھر بھی ایمان اپنی جگہ نہ صرف خوش اور مطمئن ہو بلکہ جو کچھ بھی سوچے اسی غلبۂ کفر کو اصول موضوعہ کے طور پر تسلیم کر کے سوچے اس قسم کا ایمان چاہے فقہی اعتبار سے معتبر ہو لیکن دینی لحاظ سے تو اس میں اور نفاق میں کوئی فرق نہیں ہے اور قرآن کی متعددآیات اس بات پر شاہد ہیں کہ یہ حقیقت میں نفاق ہی ہے ہم چاہتے ہیں کہ جو لوگ بھی اپنے آپ کو بندگی رب کے اس مفہوم کے مطابق جس کی ابھی میں نے تشریح کی ہے خدائے واحد کی بندگی میں دینے کا اقرار کریں۔ان کی زندگی اس نفاق سے پاک ہو۔بندگی حق کے اس مفہوم کا تقاضا یہ ہے کہ ہم سچے دل سے یہ چاہیں کہ جوطریق زندگی ،جو قانون حیات ،جواصول تمدن واخلاق ومعاشرت وسیاست،جو نظام فکروعمل اللہ تعالیٰ نے اپنے انبیا علیہم اسلام کے واسطے سے ہمیں دیاہے ،ہماری زندگی کا پورا کاروبار اسی کی پیروی میں چلے اور ہم ایک لمحہ کے لیے بھی اپنی زندگی کے کسی چھوٹے سے چھوٹے شعبہ کے اندر بھی اس نظام حق کے خلاف کسی دوسرے نظام کے تسلط کو برداشت کرنے کے لیے تیار نہ ہوں۔اب آپ خود سمجھ لیں کہ نظام باطل کے تسلط کو برداشت کرنا بھی جب کہ تقاضائے ایمان کے خلاف ہو تو اس پر راضی ومطمئن رہنا اور اس کے قیام وبقا کی سعی میں حصہ لینا یا ایک نظام باطل کی جگہ دوسرے نظام باطل کو سرفراز کرنے کی کوشش کرنا ایمان کے ساتھ کیسے میل کھا سکتا ہے۔

شیئر کریں