دوسری چیز جس کی ہم دعوت دیتے ہیں وہ یہ ہے کہ اسلام کی پیروی کا دعویٰ کرنے والے یا اسلام قبول کرنے والے سب لوگ منافقانہ رویے کو بھی چھوڑیں اور اپنی زندگی کو تناقضات (Incensistancies)سے بھی پاک کریں۔ منافقانہ رویے سے ہماری مراد یہ ہے کہ آدمی جس دین کی پیروی کا دعویٰ کرے اس کے بالکل برخلاف نظام زندگی کو اپنے اوپر حاوی و مسلط پاکر راضی و مطمئن رہے۔ اس کوبدل کر اپنے دین کو اس کی جگہ قائم کرنے کی کوئی سعی نہ کرے بلکہ اس کے برعکس اسی فاسقانہ و باغیانہ نظام زندگی کو اپنے لیے سازگار بنانے اور اس میں اپنے لیے آرام کی جگہ پیدا کرنے کی فکر کرتا رہے‘ یا اگر اس کو بدلنے کی کوشش بھی کرے تو اس کی غرض یہ نہ ہو کہ اس فاسقانہ نظام زندگی کی جگہ دین حق قائم ہو‘ بلکہ صرف یہ کوشش کرے کہ ایک فاسقانہ نظام ہٹ کر‘ دوسرا فاسقانہ نظام اس کی جگہ قائم ہو جائے۔ ہمارے نزدیک یہ طرز عمل سراسر منافقانہ ہے۔ اس لیے کہ ہمارا ایک نظام زندگی پر ایمان رکھنا اور دوسرے نظام زندگی میں راضی رہنا بالکل ایک دوسرے کی ضد ہیں‘ مخلصانہ ایمان کا اولین تقاضا یہ ہے کہ جس طریق زندگی پر ہم ایمان رکھتے ہیں اسی کو ہم اپنا قانون حیات دیکھنا چاہیں اور ہماری روح اپنی آخری گہرائیوں تک ہر اس رکاوٹ کے پیش آجانے پر بے چین و مضطرب ہو جائے‘ جو اس طریق زندگی کے مطابق جینے میں سد راہ بن رہی ہو۔ ایمان تو ایسی کسی چھوٹی سے چھوٹی رکاوٹ کو بھی برداشت کرنے کے لئے تیار نہیں ہوسکتا‘ کجا کہ اس کا پورا کا پورا دین کسی دوسرے نظام زندگی کا تابع مہمل بن کر رہ گیا ہو۔ ہم چاہتے ہیں کہ جو لوگ بھی اپنے آپ کو بندگی رب کے اس مفہوم کے مطابق جس کی ابھی میں نے تشریح کی ہے‘ خدائے واحد کی بندگی میں دینے کا اقرار کریں‘ ان کی زندگی اس نفاق سے پاک ہو۔ بندگی حق کے اس مفہوم کا تقاضا یہ ہے کہ ہم سچے دل سے یہ چاہیں کہ جو طریق زندگی‘ جو قانون حیات‘ جو اصول تمدن و اخلاق و معاشرت و سیاست جو نظام فکر و عمل اللہ تعالیٰ نے اپنے انبیاء کے واسطے سے ہمیں دیا ہے ہماری زندگی کا پورا پورا کاروبار اسی کی پیروی میں چلے اور ہم ایک لمحے کے لیے بھی اپنی زندگی کے کسی چھوٹے سے چھوٹے شعبے کے اندر بھی اس نظام حق کے خلاف کسی دوسرے نظام کے تسلط کو برداشت کرنے کے لئے تیار نہ ہوں۔ اب آپ خود سمجھ لیں کہ نظام باطل کے تسلط کو برداشت کرنا بھی جبکہ تقاضائے ایمان کے خلاف ہو تو اس پر راضی و مطمئن رہنا اور اس کے قیام و بقاء کی سعی میں حصہ لینا‘ یا ایک نظام باطل کی جگہ دوسرے نظام باطل کو سرفراز کرنے کی کوشش کرنا ایمان کے ساتھ کیسے میل کھا سکتا ہے؟