Search
Close this search box.

فہرست موضوعات

دیباچہ
مقدمہ
باب اول:
دین و سیاست
۱۔مذہب کا اسلامی تصور
۲۔ اسلامی ریاست کیوں؟
۳۔ اسلام اور اقتدار
۴۔ دین و سیاست کی تفریق کا باطل نظریہ اورقصۂ یوسف ؑ سے غلط استدلال
۵۔ تفریق دین و سیاست کا دفاع اور اس کا جائزہ
باب ٢
اسلام کا سیاسی نظریہ
۱۔بنیادی مُقدّمات
۲۔ نظریۂ سیاسی کے اوّلین اصول
۳۔ اسلامی ریاست کی نوعیت
۴۔ اسلامی ریاست کی خصوصیات
۵۔ نظریۂ خلافت اور اس کے سیاسی مضمرات
باب۳ قرآن کا فلسفہ ٔ سیاست
۱۔علم سیاست کے بنیادی سوال
۲۔ چند بنیادی حقیقتیں
۳۔اسلامی تصورِ حیات
۴۔ دین اور قانونِ حق
۵۔حکومت کی ضرورت اور اہمیت
۶۔ تصور حاکمیت و خلافت
۷۔ اصول اطاعت ووفاداری
باب ۴
معنی ٔ خلافت
باب ۵
۱۔اسلامی تصور قومیت
۲۔ اسلامی قومیت کا حقیقی مفہوم
باب۶
اسلام کے دستوری قانون کے مآخذ
ا۔قرآن مجید
۲۔ سنتِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ۸۴؎
۳۔خلافتِ راشدہ کا تعامل
۴۔ مجتہدینِ امت کے فیصلے
ضمیمہ باب ۶: سنت ِرسولؐ اللہ بحیثیت ِ مآ خذ ِقانون
باب۷
اسلامی ریاست کی بنیادیں
۱۔حاکمیت کس کی ہے؟
۲۔ ریاست کے حدودِ عمل
۳۔ اعضائے ریاست کے حدودِ عمل اور ان کا باہمی تعلق
۴۔ ریاست کا مقصدِ وجود
۵۔حکومت کی تشکیل کیسے ہو؟
۶۔اولی الامر کے اوصاف
۷۔ شہریت اور اس کی بنیادیں
۸۔ حقوقِ شہریت
۹۔شہریوں پر حکومت کے حقوق
باب ۸
اسلامی دستور کی بنیادیں
۱۔حاکمیت الٰہی
۲۔ مقامِ رسالت
۳۔ تصورِ خلافت
۴۔ اصولِ مشاورت
۵۔اصولِ انتخاب
۶۔عورتوں کے مناصب
۷۔ حکومت کا مقصد
۸۔ اولی الامر اور اصولِ اطاعت
۹۔ بنیادی حقوق اور اجتماعی عدل
۱۰۔فلاحِ عامہ
باب ۹
۱۔ دورِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم
۲۔ خلافتِ راشدہ
باب ۱۰
۱۔ اسلام میں قانون سازی کا دائرۂ عمل اور اس میں اجتہاد کا مقام
۲۔قانون سازی‘ شوریٰ اور اجماع
۳۔نظام اسلامی میں نزاعی امور کے فیصلے کا صحیح طریقہ
باب۱۱
۱۔ اسلامی ریاست کے چند پہلو
۲۔خلافت و حاکمیت۲۰۳؎
۳۔ ملکی سیاست میں عورتوں کا حصہ
۴۔ذمیوں کے حقوق۲۱۱؎
(۵) ذمیوں کے حقوق۲۱۶؎
۶۔چند متفرق مسائل
باب ۱۲
انسان کے بنیادی حقوق
باب۱۳
غیر مسلموں کے حقوق
باب۱۴
اسلام اور عدلِ اجتماعی
باب ۱۵
اسلامی ریاست کے رہنما اُصول
باب۱۶
۱۔اسلامی انقلاب کی راہ
ضمیمہ نمبر ۱
ضمیمہ نمبر ۲

اسلامی ریاست

اسلام ایک کامل دین اور مکمل دستور حیات ہے اسلام جہاں انفرادی زندگی میں فردکی اصلاح پر زور دیتا ہے وہیں اجتماعی زندگی کے زرین اُصول وضع کرتا ہے جوزندگی کے تمام شعبوں میں انسانیت کی راہ نمائی کرتا ہے اسلام کا نظامِ سیاست وحکمرانی موجودہ جمہوری نظام سے مختلف اوراس کے نقائص ومفاسد سے بالکلیہ پاک ہے۔ اسلامی نظامِ حیات میں جہاں عبادت کی اہمیت ہے وہیں معاملات ومعاشرت اور اخلاقیات کو بھی اولین درجہ حاصل ہے۔ اسلام کا جس طرح اپنا نظامِ معیشت ہے اور اپنے اقتصادی اصول ہیں اسی طرح اسلام کا اپنا نظامِ سیاست وحکومت ہےاسلامی نظام میں ریاست اور دین مذہب اور سلطنت دونوں ساتھ ساتھ چلتے ہیں، دونوں ایک دوسرے کی تکمیل کرتے ہیں دونوں ایک دوسرے کے مددگار ہیں، دونوں کے تقاضے ایک دوسرے سے پورے ہوتے ہیں، چنانچہ ماوردی کہتے ہیں کہ جب دین کمزور پڑتا ہے تو حکومت بھی کمزور پڑ جاتی ہے اورجب دین کی پشت پناہ حکومت ختم ہوتی ہے تو دین بھی کمزور پڑ جاتا ہے، اس کے نشانات مٹنے لگتے ہیں۔ اسلام نے اپنی پوری تاریخ میں ریاست کی اہمیت کوکبھی بھی نظر انداز نہیں کیا۔انبیاء کرامؑ وقت کی اجتماعی قوت کواسلام کےتابع کرنے کی جدوجہد کرتے رہے۔ ان کی دعوت کا مرکزی تخیل ہی یہ تھا کہ اقتدار صرف اللہ تعالیٰ کےلیے خالص ہو جائے اور شرک اپنی ہر جلی اور خفی شکل میں ختم کردیا جائے ۔قرآن کےمطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت یوسف ،حضرت موسی، حضرت داؤد، اور نبی کریم ﷺ نے باقاعدہ اسلامی ریاست قائم بھی کی اور اسے معیاری شکل میں چلایا بھی۔اسلامی فکر میں دین اورسیاست کی دوری کاکوئی تصور نہیں پایا جاتا اور کا اسی کانتیجہ ہے کہ مسلمان ہمیشہ اپنی ریاست کواسلامی اصولوں پر قائم کرنے کی جدوجہد کرتے رہے۔ یہ جدوجہد ان کے دین وایمان کاتقاضا ہے۔قرآن پاک اور احادیث نبویہ میں جس طرح اخلاق اور حسنِ کردار کی تعلیمات موجود ہیں۔اسی طرح معاشرت،تمدن اور سیاست کے بارے میں واضح احکامات بھی موجود ہیں۔ زیر نظر کتاب’’اسلامی ریاست‘‘مفکرِ اسلام مولا نا سید ابو الاعلیٰ مودودی کی کی تصنیف ہے ۔جس میں انھوں نے بیک وقت ان دونوں ضرورتوں کو پورا کرنے کی کما حقہ کوشش کی ہے ۔ ایک طرف انھوں نے اسلام کےپورے نظام حیات کودینی اور عقلی دلائل کےساتھ اسلام کی اصل تعلیمات کودورحاضر کی زبان میں پیش کیاہے ۔ ان کی تحریرات کےمطالعہ سے قاری کوزندگی کے بارے میں اسلام کے نقظہ نظر کا کلی علم حاصل ہوتا ہے اوروہ پوری تصویر کو بیک نظر دیکھ سکتا ہے۔انھوں نےہر مرعوبیت سے بالا تر ہوکر دورحاضرکے ہر فتنہ کا مقابلہ کیا اور اسلام کے نظام زندگی کی برتری اورفوقیت کوثابت کیا ہے۔پھر یہ بھی بتایا ہےکہ اس نظام کودور حاضر میں کیسے قائم کیا جاسکتا ہے اور آج کے اداروں کوکس طرح اسلام کے سانچوں میں ڈھالا جاسکتاہے ۔انھوں نے اسلامی ریاست کے ہمہ پہلوؤں کی وضاحت کرتے ہوئےدور جدید کے تقاضوں کوسامنے رکھ کر اسلامی ریاست کا مکمل نقشہ پیش کیاہے ۔کتاب ہذا دراصل مولانامودودی کے منتشر رسائل ومضامین کامجموعہ ہے جسے پروفیسر خورشید احمد صاحب (مدیر ماہنامہ ترجمان القرآن)نے بڑے حسن ترتیب سے مرتب کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ مصنف ومرتب کی اشاعتِ اسلام کےلیے کی جانے والی تمام کاوشوں کو قبول فرماے۔آمین

مقدمہ

از: مرتب
انسان نے اپنی اجتماعی زندگی کی ترتیب و تہذیب کے لیے جو ادارے قائم کیے ہیں ان میں ریاست کا ادارہ سب سے اہم اور بنیادی ہے۔ ریاست وہ ہیئت ِ سیاسی ہے جس کے ذریعے ایک ملک کے باشندے ایک باقاعدہ حکومت کی شکل میں اپنا اجتماعی نظم قائم کرتے ہیں اور اسے قوت قاہرہ اور قوت نافذہ کا امین قرار دیتے ہیں۔ انسان نے اپنی تہذیبی زندگی کے آغاز سفر ہی میں اس ادارے کی ضرورت کو محسوس کرلیا تھا اور پوری انسانی تاریخ، ریاست کے قیام و استحکام‘ اس کی تنظیم و تہذیب اور اس کے فروغ و ارتقا کی تاریخ ہے۔
دورِ جدید میں عملی طریقوں کی ترقی اور اجتماعی زندگی میں نت نئی پیچیدگیوں کے راہ پا جانے کی وجہ سے ریاست کا دائرۂ کار برابر بڑھ رہا ہے۔ اب دنیا کے تقریباً تمام ہی ممالک میں ریاست کاکام محض امن و امان اور نظم و ضبط قائم رکھنا ہی نہیں، بلکہ اجتماعی عدل اور سماجی فلاح کا قیام بھی ہے۔ آج ریاست نے ایک مثبت کردار (role)اختیار کر لیا ہے اور وہ زندگی کے ہر شعبے کو متاثر کر رہی ہے۔
۱ ۔ ریاست اور اسلام
اسلام نے اپنی پوری تاریخ میں ریاست کی اہمیت کو کبھی بھی نظر انداز نہیں کیا۔ انبیاء کرام علیہم السلام وقت کی اجتماعی قوت کو اسلام کے تابع کرنے کی جدوجہد کرتے رہے۔ ان کی دعوت کا مرکزی تخیل ہی یہ تھا کہ اقتدار خدا اور صرف خدا کے لیے خالص ہو جائے اور شرک اپنی ہر جلی اور خفی شکل میں ختم کر دیا جائے۔ ان میں سے ہر ایک کی پکار یہی تھی کہ:
۱۔ یٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰہَ مَا لَکُمْ مِّنْ اِلٰہٍ غَیْرُہٗ الاعراف7:65
اے برادران قوم! اللہ کی بندگی کرو، اس کے سوا تمھارا کوئی الٰہ ۱؎ نہیں ہے۔
اور ان میں سے ہر ایک نے خدا کے نمائندہ کی حیثیت سے اپنی قوم سے مطالبہ کیا کہ:
۲۔ فَاتَّقُوا اللّٰہَ وَاَطِیْعُوْنِ الشعرآء26:163
اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو۔
خدا کے ان فرستادہ بندوں نے زندگی کے ہر شعبے کی اصلاح کے لیے جدوجہد کی، تاکہ خدا کی زمین پر خدا کا دین قائم ہو، اور اسی کا قانون جاری و ساری ہو۔ ان کی یہ جدوجہد پوری زندگی کی اصلاح کے لیے تھی اور ریاست کی اصلاح ان ذرائع میں سے ایک اہم ذریعہ تھا۔ قرآن کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت یوسف ؑ ، حضرت موسیٰ ؑ،حضرت دائود ؑ، حضرت سلیمان ؑ اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے باقاعدہ اسلامی ریاست قائم بھی کی اور اسے معیاری شکل میں چلایا بھی۔ بائبل اور تلمود کے مطالعے سے دوسرے انبیائے بنی اسرائیل کے بارے میں بھی اس کی شہادت ملتی ہے کہ انھوں نے ریاست کے ادارے کی اصلاح کی کوشش کی اور غلط قیادت پر بھرپور تنقید کی۔
فکر اسلامی میں ریاست کی اہمیت کا اندازہ اس امر سے کیا جاسکتا ہے کہ وہ خالقِ ارض و سماوات اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ دعا سکھاتا ہے کہ:
وَ قُلْ رَّبِّ اَدْخِلْنِیْ مُدْخَلَ صِدْقٍ وَّ اَخْرِجْنِیْ مُخْرَجَ صِدْقٍ وَّ اجْعَلْ لِّیْ مِنْ لَّدُنْکَ سُلْطٰنًا نَّصِیْرًا
بنی اسرائیل17: 80
اور دعا کرو: اے پروردگار!مجھ کو جہاں بھی تو داخل کر‘ سچائی کے ساتھ داخل فرما اورجہاں سے بھی نکال، سچائی کے ساتھ نکال اور اپنی طرف سے ایک اقتدار کو میرا مددگار بنا دے۔
یہ آیت ہجرت نبوی سے کچھ پہلے نازل ہوئی تھی۔ اس تاریخی پس منظر سے اس کی اہمیت اور بھی واضح ہو جاتی ہے اور اس سے ریاست کے ادارے کی اہمیت بالکل روشن ہو جاتی ہے اور اس آیت کا مفہوم مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودی صاحب کے الفاظ میں یہ ہے کہ:
یا تو مجھے خود اقتدار عطا کر، یا کسی حکومت کو میرا مددگار بنا دے، تاکہ اس کی طاقت سے میں دنیا کے اس بگاڑ کو درست کر سکوں‘ فواحش اور معاصی کے اس سیلاب کو روک سکوں اور تیرے قانونِ عدل کو جاری کرسکوں۔ یہی تفسیر ہے اس آیت کی جو حسن بصریؒ اور قتادہؒ نے کی ہے اور اسی کو ابن جریرؒ اور ابن کثیرؒ جیسے جلیل القدر مفسرین نے اختیار کیا ہے اور اسی کی تائید یہ حدیث کرتی ہے کہ: اِنَّ اللّٰہَ لَیَزَعُ بِالسُّلْطَانِ مَالاَ یَزَعُ بِالْقُرْآنِ۔۲؎
یعنی ’’اللہ تعالیٰ حکومت کی طاقت سے ان چیزوں کا سدباب کردیتا ہے جن کا سدباب قرآن سے نہیں کرتا۔
اس سے معلوم ہوا کہ اسلام دنیا میں جو اصلاح چاہتا ہے‘ وہ صرف وعظ و تذکیر سے نہیں ہوسکتی‘ بلکہ اس کو عمل میں لانے کے لیے سیاسی طاقت بھی درکار ہے۔ پھر جب کہ یہ دعا اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو خود سکھائی ہے تو اس سے یہ بھی ثابت ہوا کہ اقامت دین اور نفاذ شریعت اور اجرائے حدود اللہ کے لیے حکومت چاہنا اور اس کے حصول کی کوشش کرنا نہ صرف جائز، بلکہ مطلوب و مندوب ہے اور وہ لوگ غلطی پر ہیں جو اسے دنیا پرستی یا دنیا طلبی سے تعبیر کرتے ہیں۔ دنیا پرستی اگر ہے تو یہ کہ کوئی شخص اپنے لیے حکومت کا طالب ہو۔ رہا خدا کے دین کے لیے حکومت کا طالب ہونا تو یہ دنیا پرستی نہیں‘ بلکہ خدا پرستی کا عین تقاضا ہے۔ (تفہیم القرآن‘ ج۲‘ص ۶۳۸)
اس پر مزید روشنی مندرجہ ذیل آیات و احادیث سے پڑتی ہے:
۱۔ لَقَدْ اَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَیِّنٰتِ وَاَنْزَلْنَا مَعَہُمُ الْکِتٰبَ وَالْمِیْزَانَ لِیَقُوْمَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ وَاَنْزَلْنَا الْحَدِیْدَ فِیْہِ بَاْسٌ شَدِیْدٌ وَّمَنَافِعُ لِلنَّاسِ ۔ الحدید57:25
ہم نے اپنے رسول واضح نشانیاں دے کر بھیجے ہیں اور ان کے ساتھ کتاب اور میزان (عدل) اتاری ہے، تاکہ انسان انصاف پر قائم ہوں اور ہم نے اتارا لوہا (ریاست کی قوت و جبروت) جس میں سخت قوت ہے اور لوگوں کے لیے بہت فوائد ہیں۔
۲۔ ہُوَ الَّذِیْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْہُدٰی وَدِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْہِرَہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ وَلَوْ کَرِہَ الْمُشْرِکُوْنَ
الصّف61: 9
وہی ہے (ذات باری تعالیٰ) جس نے اپنے رسولؐ کو ہدایت اور دینِ حق کے ساتھ بھیجا تاکہ اس کو تمام ادیان پر غالب کر دے، خواہ مشرکین کو یہ کتنا ہی ناگوار کیوں نہ ہو۔
۳۔ مَنْ لَّمْ یَحْکُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللّٰہُ فَاُولٰٓئِکَ ھُمُ الْکٰفِرُوْنَ المائدہ5:44
اور وہ جو خدا کے نازل کردہ قانون کے مطابق فیصلہ نہیں کرتے وہی کافر ہیں۔
اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
اَلْاِسْلَامُ وَالسُّلْطَانُ اَخَوَانِ تَوَامَانِ لَایَصْلَحُ وَاحِدٌ مِّنْھُمَا اِلاَّ بِصَاحِبٍ فَالْاِسْلَامُ اَسٌّ وَالسُّلْطَانُ حَارِسٌ وَمَالَالِاَسٍّ لَہ‘ لَیَھْدِ مُ وَمَا لَاحَارِسٌ لَہ‘ ضَائِعٌ۔ (کنزالعمال)
اسلام اورحکومت و ریاست دو جڑواں بھائی ہیں۔ دونوں میں سے کوئی ایک دوسرے کے بغیر درست نہیں ہوسکتا۔ پس اسلام کی مثال ایک عمارت کی ہے اور حکومت گویا اس کی نگہبان ہے، جس عمارت کی بنیاد نہ ہو، وہ گر جاتی ہے اور جس کا نگہبان نہ ہو، وہ لوٹ لیا جاتا ہے۔
اسلامی فکر میں دین اور سیاست کی دُوئی کا کوئی تصور نہیں پایا جاتا اور یہ اسی کا نتیجہ ہے کہ مسلمان ہمیشہ اپنی ریاست کو اسلامی اصولوں پر قائم کرنے کی جدوجہد کرتے رہے ہیں۔ یہ جدوجہد ان کے دین و ایمان کا تقاضا ہے۔ وہ قرآنِ پاک اور احادیثِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں جس طرح اخلاق اور حسن کردار کی تعلیمات پاتے ہیں، اسی طرح معاشرت‘ تمدن‘ معیشت اور سیاست کے بارے میں واضح احکام بھی پاتے ہیں۔ اس دوسرے حصے پر عمل کے لیے ضروری ہے کہ اسلامی ریاست ہو، اور اگر اس حصے پر عمل نہ کیا جائے تو شریعت کا ایک حصہ معطل ہو کر رہ جاتا ہے اور قرآن کے تصور کا معاشرہ وجود میں نہیں آتا۔ یہی وجہ ہے کہ فقہائے امت نے متفقہ طور پر نصب امامت کو فرض قرار دیا ہے اور اس بارے میں کوتاہی ایک دینی حکم کی بجا آوری میں کوتاہی ہے۔ علامہ ابن حزم اپنی کتاب ’’الفصل بین الملل و النحل‘‘ میں لکھتے ہیں:
اِتَّفَقَ جَمِیْعُ اَھْلِ السُّنَّۃِ وَجَمِیْعُ الْمَرجِیْئَۃِ وَجَمِیْعُ الشِّیْعَۃِ وَجَمِیْعُ الْخَوَارِجِ عَلٰی وُجُوْبِ الْاِمَامَۃِ وَاَنَّ الِاْمَامَۃَ وَاجِبٌ عَلَیْھَا الْاِ نْقَیَادُ لِاِمَامٍ عَادِلٍ یُقِیْمُ اَحْکَامَ اللّٰہِ وَ یَسُوْ سُھُمْ بِاَحْکَامِ الشَّرِیْعَۃِ الَّتِیْ اَتٰی بِھَا رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ۔ ۳؎
کل اہل سنت‘ مرجیہ‘ شیعہ اور خوارج سب کا اتفاق ہے کہ نصب امام واجب ہے اور یہ کہ امت پر ایسے امام عادل کی اطاعت واجب ہے جو اللہ تعالیٰ کے احکام قائم کرے اور ان احکامِ شریعت کے مطابق ان کا سیاسی نظام قائم کرے جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم لے کر آئے ہیں۔
اور شاہ ولی اللہؒ لکھتے ہیں:
مسلمانوں پر جامع شرائط خلیفہ کا مقرر کرنا واجب بالکفایہ ہے اور یہ حکم قیامت تک کے لیے ہے۔۴؎
یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جس پر پوری امت کا اجماع ہے۔ عملاً صحابہ کرامؓ نے نصب امام کو کتنی اہمیت دی تھی‘ اس کا اندازہ اس بات سے کیجیے کہ وصال نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد جسد مطہر کی تجہیز و تدفین سے بھی پہلے امام کا انتخاب عمل میں آیا‘ جس نے آپؐ کے قائم کیے ہوئے نظام کو تھام لیا اور پھر پوری شانِ مرکزیت کے ساتھ سارے کام انجام دیے۔ اسلام مادی اقتدار چاہتا ہے اور اس کے بغیر وہ اپنا مشن پورا نہیں کرسکتا۔ یہ اقتدار بجائے خود مقصود نہیں ہے لیکن دعوت کی تکمیل اور اصلاحِ انسانیت کے عظیم کام کی انجام دہی کے لیے ناگزیر ذریعے کی حیثیت رکھتا ہے۔ اسی لیے قرآن نے اس نکتے کو واضح کر دیا کہ اسلام کا مادی اقتدار اس کے روحانی اقتدار کا ذریعہ ہے اور اس کے نتیجے میں نیکیوں کا قیام اور برائیوں کا استیصال واقع ہوتا ہے:
اَلَّذِیْنَ اِنْ مَّکَّنّٰھُمْ فِی الْاَرْضِ اَقَامُوا الصَّلٰوۃَ وَ اٰتَوُا الزَّکٰوۃَ وَ اَمَرُوْا بِالْمَعْرُوْفِ وَ نَھَوْا عَنِ الْمُنْکَرِ وَ لِلّٰہِ عَاقِبَۃُ الْاُمُوْرِ الحج22:41
یہ مسلمان وہ ہیں کہ اگر ہم نے انھیں زمین میں صاحب اقتدار کر دیا (یعنی ان کا حکم چلنے لگا) تو وہ نماز قائم کریں گے‘ ادائے زکوٰۃ میں سرگرم ہوں گے‘ نیکیوں کا حکم دیں گے‘ برائیوں سے روکیں گے اور تمام باتوں کا انجامِ کار اللہ ہی کے ہاتھ میں ہے۔
ہماری اب تک کی بحث سے یہ نتائج نکلتے ہیں:
۱۔ ریاست کا ادارہ انسانی سماج کی ایک بنیادی ضرورت ہے اور اس کے بغیر منظم اجتماعی زندگی کا تصور مشکل ہے۔
۲۔ اسلام انسان کی پوری زندگی کے لیے ہدایت ہے اور اس نے اجتماعی زندگی کے لیے بھی واضح رہنمائی دی ہے۔
۳۔ اسلام دین و سیاست میں کسی تفریق کا روادار نہیں۔ وہ پوری زندگی کو خدا کے قانون کے تابع کرنا چاہتا ہے اور اس مقصد کے لیے سیاست کو بھی اسلامی اصولوں پر مرتب کرتا ہے اور ریاست کو اسلام کے قیام اور اس کے استحکام کے لیے استعمال کرتا ہے۔
۴۔ یہ روش دنیا اور آخرت دونوں میں عتاب الٰہی کی موجب ہے کہ کچھ احکامِ الٰہی کو تو تسلیم کیا جائے اور کچھ دوسرے احکام سے صرفِ نظر اور روگردانی اختیار کی جائے‘ خواہ خواہش اور نفس کی اندرونی وحشت کی بنا پر، یا کسی بیرونی دبائو یا مرعوبیت کی وجہ سے۔
۵۔ دین اور ریاست و حکومت کا اتنا قریبی تعلق ہے اور یہ ایک دوسرے سے اس طرح وابستہ ہیں کہ اگر ریاست و حکومت اسلام کے بغیر ہوں تو ظلم اور بے انصافی کا ذریعہ بن جاتے ہیں اور اس کے نتیجے میں’چنگیزی‘ رونما ہوتی ہے اور اگر اسلام، ریاست و حکومت کے بغیر ہو تو اس کا ایک حصہ معطل ہو کر رہ جاتا ہے اور خدا کا دین حکمرانی اور غلبے کے بجائے غلامی اور مغلوبیت کا شکار ہو جاتا ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ ریاست کو اسلامی بنیادوں پر قائم کیا جائے۔ حکومت اسلام کی پابند ہو، اور اس کے قیام کے لیے سرگرمِ عمل رہے۔
۲۔دور جدید اور اسلامی ریاست
یہ تو ہے مسئلے کا دینی پہلو، لیکن اگر ہم دور حاضر کے تجربات کی روشنی میں اس پر غور کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ اسلامی ریاست کا قیام وقت کی سب سے بڑی ضرورت بھی ہے۔ مغرب میں لادینی ریاست کا تخیل ایک خاص پس منظر کی پیداوار ہے۔ وہاں پاپائی نظام نے جو شکل اختیار کرلی تھی اور مذہب کے نام پر بادشاہوں سے گٹھ جوڑ کے ذریعے جن مظالم کو سند جواز دی گئی انھوں نے ایک ردعمل پیدا کیا۔ عیسائیت کی مخالفت میں اتنی بے اعتدالی پیدا ہوئی کہ خود مذہب ہی کے خلاف بغاوت کر دی گئی اور اس بغاوت کا سیاسی مظہر لادینی ریاست تھی۔
سیکولرزم کی تحریک کا باقاعدہ آغاز ۱۸۳۲ء میں ہوا، جب جیکب ہولیک ] ۱۷۸۱ء۔ ۱۸۳۲ء[ نے سیاست کو مذہب سے پاک رکھنے کی یہ تحریک قائم کی۔ اس تحریک کی سربراہی اہل فکر و سیاست کے ہاتھوں میں رہی اور بہت جلد اس مسلک کو سیاسی قبولیت حاصل ہوگئی۔ مختصراً اس تحریک کا مقصد یہ تھا کہ مذہب کا دائرہ انفرادی زندگی تک محدود رہنا چاہیے اور اسے اجتماعی اور سیاسی زندگی میں کوئی مداخلت نہیں کرنی چاہیے۔ شروع میں بات صرف مذہب کے معاملے میں غیر جانب داری اور فرد کی کامل آزادی کی تھی، لیکن بعد میں اس تحریک کا ایک حصہ مذہب کی مخالفت اور جارحانہ مادیت اور اشتراکیت کا داعی بن گیا۔
مغرب میں لادینی ریاست کے جو اثرات رونما ہوئے ہیں وہ یہ ہیں:
۱۔ سیکولرزم نے تشکیک اور ذہنی پراگندگی کو پیدا کیا ہے۔ کوئی ایک نصب العین انسان کے سامنے نہیں رہا اور ایک قسم کی بے عقیدگی پھیل گئی ہے۔ یہ اسی ذہنی انتشار اور فکری تَشَتُّت ہی کا نتیجہ ہے کہ اشتراکیت اور فسطائیت جیسی تحریکوں نے جنم لیا اور انسان کو مادہ پرستی کی انتہا کی طرف لے گئیں۔ اشتراکیت کا مشہور نقاد آر۔ این کریوہنٹ لکھتا ہے:
’’اشتراکیت غربت و افلاس اور خراب سماجی حالات کی پیداوار نہیں ہے۔ اس لیے کہ اس کی اصلی کشش نچلے افلاس زدہ طبقات کے مقابلے میں، اچھی تنخواہ والے مزدوروں اور تعلیم یافتہ اور تربیت یافتہ کارکنوں کے لیے ہے۔ یہ اس امر کا نتیجہ بھی نہیں ہے کہ عوام میں اب سرمایہ دارانہ نظام کی خباثتوں اور بے انصافیوں کا شعور پیدا ہوگیا ہے اور نہ ہی یہ نظام پیداوار کی اکتا دینے والی یکسانی اور عدم تنوع کا نتیجہ ہے۔ حقیقت یہ ہے اور آخری تجزیہ ہمیں اسی نتیجے تک لاتا ہے کہ اشتراکیت ان نظریات کے مجموعے کا نام ہے جنھوں نے ہماری زندگی کے اس خلا کو پُر کیا ہے جسے منظم مذہب کے انہدام نے پیدا کیا تھا اور جو زندگی پر لادینیت کے غلبے کا لازمی نتیجہ تھا، اور اس نظام فکر و عمل کا مقابلہ اگر کیا جاسکتا ہے تو ایک دوسرے ہمہ گیر نظام حیات ہی سے کیا جاسکتا ہے جو کچھ دوسرے اصولوں کا علم بردار ہو‘‘۔۵؎
اور جو حضرات اشتراکیت کی طرف نہیں گئے‘ وہ ذہنی بے اطمینانی‘ روحانی اضطراب‘ جذباتی تَلَوُّن اور بے عقیدگی کا شکار ہوئے ہیں۔
۲۔ فرد کے سامنے نیا نصب العین صرف ذاتی اغراض و خواہشات کی تکمیل رہ گیا اور قومی پیمانے پر مصلحت اور موقع پرستی نے انفرادی اور اجتماعی زندگی کو ظلم سے بھر دیا اور کوئی مستقل ضابطۂ اخلاق، ملکی اور قومی زندگی کے لیے باقی نہ رہا۔ نتیجتاً اس صدی نے دو ایسی ہولناک عالمی جنگوں کا مشاہدہ کیا جن میں ہلاک اور زخمی ہونے والوں کی تعداد انسانیت کی پوری تاریخ کی تمام جنگوں کے مجموعی مقتولین و مجروحین کی تعداد سے کہیں زیادہ ہے۔
۳۔ اس کے عام اخلاقی اثرات بھی تباہ کن تھے۔ مستقل مزاجی‘ پامردی‘ جرأت‘ اور سب سے بڑھ کر نیکی اور بدی میں تمیز کا مادہ ختم ہونے لگا اور افادیت‘ مصلحت بینی اور ابن الوقتی انفرادی اور اجتماعی اخلاق کی بنیاد بن گئے۔ اس کے نتیجے میں ہزاروں سماجی اور معاشرتی برائیاں رونما ہوئیں جو معاشرے کو سکون و اطمینان سے محروم کیے ہوئے ہیں۔
۴۔ تجربے نے بتایا ہے کہ اگر خالص مادی فائدہ پیشِ نظر ہو اور کوئی اعلیٰ اخلاقی اور روحانی نظام موجود نہ ہو‘ تو محض مادی فائدہ بھی انسان کو حاصل نہیں ہوتا ہے۔
آرنلڈ ٹائن بی سیکولرزم کے نتائج کا جائزہ لے کر کھلے الفاظ میں اس کی ناکامی کا اعتراف کرتا ہے:
’’یہ اب واضح ہوگیا ہے کہ اگر صرف دنیاوی خوشی کو مقصد زیست بنا دیا جائے گا تو اس میں فرد کی مادی خوش حالی اور دنیاوی سکون کا حصول بھی ناممکن ہے۔ ہاں یہ قابلِ فہم ہے کہ اگر سیکولرزم سے بلند و بالا کوئی روحانی مقصد سامنے رکھا جائے تو ایک ضمنی نتیجے کی حیثیت سے انسان کو دنیاوی خوشی بھی حاصل ہو جائے۔۶؎ ‘
۵۔ پھر حقیقت یہ ہے کہ سیکولرزم عملاً ناکام ہی نہیں ہوا ہے، بلکہ تاریخ اب سیکولرزم سے بہت آگے نکل چکی ہے۔ اگر گہری نگاہ سے دیکھا جائے تو سیکولرزم آج ایک دقیانوسی اور ازکارِ رفتہ تصور ہے اور گردشِ ایام کے اس کی طرف لوٹنے کا کوئی امکان نہیں۔ سیکولرزم کچھ خاص تاریخی عوامل کی پیداوار تھا اور ایک مخصوص فضا ہی میں وہ کام کرسکتا ہے۔ اگر وہ عوامل موجود نہ ہوں تو اس کا قائم رہنا ممکن نہیں ہے۔
سیکولرزم، جیسا کہ ہم نے اوپر کہا: اس نظام کو کہتے ہیں جس میں سیاسی اور ریاستی معاملات میں مذہب کو کوئی دخل نہ ہو۔ لیکن اگر مزید تجزیہ کیا جائے تو بات یہاں آجاتی ہے کہ یہ مذہبی اور نظریاتی غیر جانب داری کا داعی ہے۔ انیسویں صدی کی سیاسی تاریخ کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ سیکولرزم‘ انفرادیت‘ قومیت اور معاشی امور میں مکمل آزادی اور ریاست کی عدمِ مداخلت سیاست کے بنیادی تصورات تھے، اور یہ تمام تصورات ایک دوسرے سے مربوط ہیں۔ سیکولرزم اس وقت کامیاب ہوسکتا ہے جب ریاست صرف ایک دفاعی ادارہ (پولیس اسٹیٹ) ہو۔ یعنی اس کی ذمے داری محض نظم و نسق کو قائم رکھنا اور ملک کو بیرونی حملے اور اندرونی بدامنی سے بچانا ہو۔ ایسے ہی نظام ریاست میں فرد کو پوری پوری آزادی دی جاسکتی ہے کہ وہ جس طرح چاہے زندگی گزارے اور صرف اسی صورت میں حکومت (کم از کم نظری حد تک) مذہبی اور نظریاتی غیر جانب داری کو روا رکھ سکتی ہے اور یہی تصور انیسویں صدی میں تھا لیکن آج ریاست کا تصور بدل گیا ہے۔ آج ریاست محض ایک عظیم الشان بت نہیں۔ آج یہ ممکن نہیں ہے کہ ایک خاص دائرے کو چھوڑ کر ملک میں جو کچھ بھی ہوتا رہے‘ ریاست عدمِ مداخلت پر کار بند رہے گی۔ آج اس کے وظائف نہایت عظیم اور اس کا دائرۂ کار نہایت وسیع ہے۔ وہ زندگی کے ہر شعبے کی صورت گری کرتی ہے اور اپنی پالیسی کے ذریعے سے اس کی ضابطہ بندی کرتی ہے۔ یہ حکومت کی ذمے داری ہے کہ وہ جہالت کو ختم کرے اور علم کی شمعیں روشن کرے، غربت کو ختم کرے اور دولت کی منصفانہ تقسیم کی کوشش کرے، سماجی برائیوں کا قلع قمع کرے اور شہریوں کی اخلاقی اور معاشرتی تعلیم کا بندوبست کرے، بیماریوں کا علاج‘ مظلوموں کی فریاد رسی‘ مجبوروں کی مدد و استعانت کا اہتمام کرے۔ مختصراً، آج کی ریاست ایک فلاحی ریاست ہے اور اس کے لیے یہ ناممکن ہے کہ وہ نظریاتی غیر جانب داری برت سکے۔ اسے کچھ نہ کچھ اقدار کوتو ماننا ہوگا‘ کسی نہ کسی نظریے کو قبول کرنا ہوگا‘ خیر و شر اور فلاح و خسران کے کسی نہ کسی معیار کو اختیار کرنا ہوگا، اور اس کی روشنی میں اپنی پوری پالیسی کو ترتیب دینا ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ آج کی ریاست ایک نظریاتی ریاست بنتی جا رہی ہے اور وہ بنیادیں جن پر سیکولرزم کا نظامِ فکر قائم تھا‘ تاریخی یادوں کی حیثیت سے تو ضرور موجود ہیں لیکن دنیائے حقیقت میں ان کا کوئی وجود نہیں۔ جن بنیادوں پر یہ قلعہ تعمیر ہوا تھا وہ گر چکی ہیں اور محض تمنائوں کے ذریعے اس خلا کو پر نہیں کیا جاسکتا۔ آج کی دنیا میں سیکولرزم کے لیے کوئی گنجایش نہیں‘ تاریخ اسے بہت پیچھے چھوڑ آئی ہے۔ آج کی ضرورت نظریاتی ریاست ہے جو سیکولرزم کی عین ضد ہے اور جسے اسلام قائم کرنے کا داعی ہے۔
۳۔عالمِ اسلام میں اسلامی ریاست کی جدوجہد
اس پس منظر میں جب ہم قدرت کے اس انتظام پر غور کرتے ہیں کہ دوسری عالمی جنگ کے بعد، مسلمان ممالک برسوں کی غلامی کے بعد پھر آزادی سے ہمکنار ہو رہے ہیں اور ان میں سے تقریباً ہر ملک میں اسلامی نظام اور اسلامی ریاست کے قیام کی تحریک زور پکڑ رہی ہے تو ہمیں فطرت کا یہ اشارہ صاف محسوس ہوتا ہے کہ گویا جدید تہذیب کے زوال سے جو خلا رونما ہو رہا ہے، اُسے پُر کرنے کابندوبست کیا جارہا ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ انیسویں صدی میں مسلمان ممالک ایک ایک کرکے مغربی استعمار کے چنگل میں چلے گئے، اور صرف دو تین ہی ملک ایسے رہ گئے جو سیاسی غلامی کی تاریک رات سے محفوظ رہے۔ بیسویں صدی میں حالات نے کروٹ لی اور خصوصیت سے دوسری عالمگیر جنگ کے بعد مسلمان ممالک کی آزادی کا رجحان رونما ہوا۔ اس وقت ۳۴ آزاد مسلمان ملک موجود ہیں۷؎ جو اپنے سیاسی اور تمدنی مستقبل کو خود تعمیر کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔
سیاسی آزادی کے ساتھ ہی بہت سے اہم مسائل رونما ہوگئے ہیں۔ جب تک مسلمان استعماری طاقتوں کے غلام تھے‘ ان کے لیے یہ ممکن نہ تھا کہ اپنی اجتماعی زندگی کی صورت گری اسلام کے اصولوں کے مطابق کرسکیں۔ ان کا دین زندگی کا ایک مکمل ضابطہ فراہم کرتا ہے اور وہ اس وقت تک اپنے ایمان کے تقاضوں کو پورا نہیں کرسکتے جب تک انفرادی اور اجتماعی زندگی کے تمام گوشوں میں خدا اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کو جاری و ساری نہ کرلیں۔ فطری طور پر آزادی کے فوراً بعد یہ سوال پیدا ہوا کہ اب مجموعی نظامِ حیات کو اور خصوصیت سے ریاست اور قانون کو اسلامی اصولوں سے ہم آہنگ کیا جائے۔ یہی وہ احساس ہے جو اسلامی نظامِ حیات اور اسلامی ریاست کے قیام کے عوامی مطالبے کی پُشت پر کار فرما ہے۔
تاریخ کے وسیع ترپس منظر میں یہ تحریک بڑی حوصلہ افزا ہے اور اس سے مستقبل کی بہترین امیدیں وابستہ کی جاسکتی ہیں لیکن غور و فکر کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ آخر ایک مسلمان ملک میں اسلامی ریاست کے مطالبے کی ضرورت ہی کیوں پیش آئی ____ اسے تو فطری طور پر اسلامی ریاست ہی ہونا چاہیے اور اس کی ساری قوتیں اسی مقصد کے لیے صرف ہونی چاہییں کہ وہ اسلام کے معیار سے مطابقت پیدا کرے ____ لیکن بدقسمتی سے اصل صورت حال یہ نہیں ہے اور اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ دور استعمار میں جو تعلیمی انقلاب آیا اس نے خود مسلمانوں کے تعلیم یافتہ طبقے کو اسلام سے دور کر دیا۔ ان میں سے ایک عظیم اکثریت کی معلومات اسلام کے بارے میں نہ ہونے کے برابر ہیں اور ان میں ایک طبقہ ایسا بھی ہے جس کے ذہنوں کو اتنا مسموم کر دیا گیا ہے کہ وہ اسلام کے بارے میں چند در چند غلط فہمیوں کا شکار ہوگیا ہے۔ وہ اسلامی تعلیمات سے بدظن ہے اور ان کو مغرب کے پیدا کردہ تعصبات کی عینک سے دیکھتا ہے۔ یہ گروہ آج کے دور میں اسلام کو ازکارِ رفتہ سمجھتا ہے اور مغرب کی اندھی تقلید اس کا دین و ایمان بن چکی ہے۔ یہ طبقہ خود اپنے ملک کے لوگوں کے جذبات و احساسات سے برسرپیکار ہے اور آگے بڑھتے ہوئے قدموں کی راہ میں رکاوٹ بن گیا ہے۔ ایک طرف غفلت اور جہالت ہے اور دوسری طرف سُو ئے ظن اور عداوت اور یہی چیزیں اسلامی ریاست کے فروغ کی راہ میں اہم ترین رکاوٹیں ہیں۔
ہماری نگاہ میں ان رکاوٹوں کو دور کرنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ ایک طرف اسلامی تعلیمات کو زیادہ سے زیادہ وسیع پیمانے پر پھیلایا جائے اور عوام کی ذہنی اور فکری تربیت ہو، اور دوسری طرف زندگی کے تمام شعبوں میں ایک ایسی قیادت کو ابھار کر اوپر لایا جائے جو مسلمانوں کے سوادِ اعظم کے جذبات و احساسات کو سمجھتی ہو‘ اسلام پر پکا یقین رکھتی ہو اور زندگی کے تمام شعبوں میں اسے جاری و ساری کرنے کا داعیہ رکھتی ہو۔ یہی وہ صورت ہے جس میں قوم کی صلاحیتیں اور قوتیں باہم کشمکش کے بجائے مثبت تعمیر میں صرف ہوں گی اور اس طرح برسوں کی منزلیں مہینوں میں طے ہوسکیں گی۔
۴۔ کچھ اس کتاب کے بار ے میں
مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی صاحب کا سب سے بڑا کارنامہ ہی یہ ہے کہ انھوں نے بیک وقت ان دونوں ضرورتوں کو پورا کرنے کی کماحقہ کوشش کی ہے۔ ایک طرف انھوں نے اسلام کے پورے نظامِ حیات کو دینی اور عقلی دلائل کے ساتھ پیش کیا ہے اور اسلام کی اصل تعلیمات کو دورِ حاضر کی زبان میں پیش کیا ہے۔ ان کی تحریرات کے مطالعے سے قاری کو زندگی کے بارے میں اسلام کے نقطۂ نظر کا کلی علم حاصل ہوتا ہے اور وہ پوری تصویر کو بیک نظر دیکھ سکتا ہے۔ انھوں نے ہر مرعوبیت سے بالا ہو کر دور حاضر کے ہر فتنے کا مقابلہ کیا ہے اور اسلام کے نظام زندگی کی برتری اور فوقیت کو ثابت کیا ہے۔ پھر سب سے بڑھ کر اسلامی نظام کی محض نظری تشریح و توضیح ہی نہیں کی ہے، بلکہ یہ بھی بتایا ہے کہ اس نظام کو دور حاضر میں کیسے قائم کیا جاسکتا اور آج کے اداروں کو کس طرح اسلام کے سانچوں میں ڈھالا جاسکتا ہے۔
ویسے تو مولانا مودودی صاحب نے یہ کام زندگی کے ہر شعبے کے بارے میں کیا ہے لیکن اسلامی ریاست کے تصور اور اس کے نظام کار کی تشریح و توضیح ان کا خاص میدان رہی ہے۔ انھوں نے جس اعتماد اور یقین کے ساتھ‘ جس بالغ نظری کے ساتھ‘ جس وسعت فکر اور گہرائی کے ساتھ اور جس شرح و بسط کے ساتھ اسلامی ریاست کے ہمہ پہلوئوں کی وضاحت کی ہے‘ اس میں دور حاضر میں ان کا کوئی شریک اور مد مقابل نہیں۔ بلاشبہہ وہ اس پہلو سے عرب و عجم میں منفرد ہیں۔ موصوف نے دور جدید کے تقاضوں کو سامنے رکھ کر اسلامی ریاست کا مکمل نقشہ پیش کیا ہے اور اجتہادی بصیرت کے ساتھ پیش کیا ہے اور تمام عملی مسائل کا لحاظ رکھتے ہوئے پیش کیا ہے ____ اور یہی ان کا امتیازی کارنامہ ہے۔
اسلامی ریاست کے بارے میں مولانا کے یہ مضامین و مقالات منتشر تھے۔ ان میں سے کچھ مختصر پمفلٹوں کی شکل میں شائع ہو کر مقبول ہو چکے ہیں‘ لیکن تمام مضامین ایک جگہ کتابی شکل میں پیش نہیں کیے جاسکے تھے۔ میں نے جس وقت اسلامی قانون اور اسلامی ریاست کے موضوعات پر مولانا کی تحریرات کا انتخاب انگریزی میں ’اسلامک لا اینڈ کانسٹی ٹیوشن‘ (Islamic Law & Constitution)کے نام سے پیش کیا تھا‘ اسی وقت اس ضرورت کا احساس بھی پیدا ہوا تھا کہ یہ مجموعہ اردو میں بھی شائع ہونا چاہیے لیکن مولانا اپنی بڑھتی ہوئی مصروفیات کے باعث خود یہ کام نہ کرسکے۔ پھر جب میں نے انگریزی کتاب کا دوسرا نظر ثانی شدہ ایڈیشن تیار کیا تو یہ احساس دوبارہ تازہ ہوگیا اور چند احباب کے اصرار پر مولانا کے ارشاد کے مطابق میں نے اردو کتاب کی ترتیب کاکام بھی شروع کر دیا۔ تمام مواد جمع کرنے کے بعد اندازہ ہوا کہ اسلامی ریاست اور اسلامی قانون کے موضوعات پر الگ الگ کتابیں تیار کرنی ہوں گی۔ ایک ہی کتاب دونوں قسم کے مقالات کی متحمل نہ ہوسکے گی۔ اس لیے ۱۳۸۰ھ (مطابق ۱۹۶۰ء) میں‘ میں نے ’اسلامی ریاست‘ کے نام سے مولانا کے اہم مضامین کو مرتب کیا اور اللہ کا شکر ہے کہ یہ کتاب بڑی مقبول ہوئی۔ اہل علم نے اسے بہت پسند کیا اور یونی ورسٹیوں میں اسے نصاب میں شامل کیا گیا۔ لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ وہ کتاب کئی پہلوئوں سے نامکمل تھی اور میرے اصل منصوبے کے مطابق نہ تھی‘ لیکن چونکہ اس وقت کام کرنے کی وہ سہولتیں موجود نہ تھیں جو کام کی تکمیل کے لیے درکار تھیں، اس لیے اس حالت میں کتاب کو طباعت کے لیے بھیج دیا گیا۔ اب الحمد للہ ادارہ معارف اسلامی ] کراچی [ میں مولانا محترم کی تمام تحریرات جمع کرلی گئی ہیں اور یہاں مولانا کی تمام نگارشات کو نئی ترتیب کے ساتھ لانے کاکام کیا جارہا ہے۔ کئی مہینے کی محنت کے بعد ہم اپنی پہلی پیش کش ’’اسلامی ریاست: فلسفہ، نظام کار اور اصول حکمرانی‘‘ پیش کر رہے ہیں۔
اس کتاب میں حتی الوسع مولانا مودودی صاحب کی ان تمام تحریرات کو ایک خاص ترتیب کے ساتھ جمع کیا گیا جو اسلامی ریاست سے متعلق ہیں۔ کتاب کے پہلے ایڈیشن میں نظری مباحث اور پاکستان میں اسلامی ریاست کے قیام کی جدوجہد کے سلسلے کی تحریرات گڈمڈ تھیں‘ اب ان کو بھی الگ الگ کر دیا گیا ہے۔ اس کتاب میں صرف نظری اور علمی مباحث ہیں۔ پاکستان کے سلسلے کی نگارشات کو ان شاء اللہ الگ مرتب کیا جائے گا۔
اس کتاب میں ماہنامہ ترجمان القرآن کے پرانے فائلوں سے وہ مضامین بھی لے لیے گئے ہیں جو اب تک کتابی شکل میں نہیں آئے تھے، البتہ ہم نے اس بات کا خیال رکھا ہے کہ پرانی تحریرات میں سے صرف ان حصوں کو شامل کیا جائے جو موضوع زیر نظر سے متعلق ہیں۔ رہیں وہ بحثیں جو وقتی نوعیت کی تھیں، یا جن کا تعلق مخصوص شخصیات اور ان کے اس وقت کے نظریات سے تھا‘ ان کو حذف کر دیا گیا ہے۔ چونکہ ہمارے پیش نظر ان بحثوں اور اختلافات کو زندہ کرنا نہیں ہے‘ اس لیے وہ چیزیں اب غیر ضروری تھیں، البتہ ہم نے ان تمام حصوں کو محفوظ کرلیا ہے جن میں اصولی مباحث تھے اور اس طرح وہ اپنی دائمی قدر و قیمت رکھتے ہیں۔ ماہنامہ ترجمان القرآن کے فائلوں کے علاوہ ہم نے تفہیم القرآن کوبھی بغور پڑھا ہے اور اس کے حواشی میں کی ہوئی علمِ سیاست کی تمام اہم بحثوں کو بھی نکال لیا ہے اور انھیں دو مستقل مقالات کی شکل میں مرتب کر دیا ہے۔ اس طرح یہ دونوں مقالے اپنی موجودہ شکل میں پہلی مرتبہ زیور طباعت سے آراستہ ہو رہے ہیں اور ان سے قارئین کو اندازہ ہوگا کہ تفہیم القرآن میں کتنی ضمنی بحثیں آگئی ہیں جن کے منتشر ہونے کی وجہ سے ان سے بیک نظر استفادہ نہیں کیا جاسکتا تھا۔
مرتب نے اس بات کی پوری کوشش کی ہے کہ مولانا کی تحریرات کو زیادہ سے زیادہ حسنِ ترتیب اور منطقی ربط کے ساتھ پیش کرے۔ اسے اس سلسلے میں کچھ حذف و اضافے سے بھی کام لینا پڑا ہے۔ اس کے لیے مولانا کی تحریر میں ذرا سی تبدیلی بھی ایک بڑا ہی مشکل اور شاق کام تھا۔ لیکن ایسے مضامین کو جو تقریباً ۲۵ سال کے عرصے میں مختلف نوعیت کی ضرورتوں کے پیش نظر لکھے گئے ہوں اور جن میں لکھتے وقت کسی کتابی ترتیب کو سامنے نہ رکھا گیا ہو‘ کتابی شکل میں لاتے وقت کچھ تبدیلیاں ناگزیر تھیں۔ حق تو یہ تھا کہ یہ کام مولانا محترم خود انجام دیتے، لیکن ان کی مصروفیات نے انھیں اجازت نہ دی اور حالات تقاضا کر رہے تھے کہ یہ قیمتی تحریرات مرتب شکل میں اہل علم کے سامنے آجائیں۔
مجھے اپنی علمی بے بضاعتی کا پورا پورا احساس ہے اور شاید میں یہ کام کبھی نہ کر پاتا اگر خود مولانا کی حوصلہ افزائی مہمیز کاکام نہ کرتی۔ میں ان کا ممنون ہوں کہ انھوں نے مجھ پر اتنا اعتماد فرمایا اور یہ اہم خدمت میرے سپرد کی۔
میرے لیے اس کتاب کی تیاری ایک بہت بڑی سعادت کی حیثیت رکھتی ہے اور مجھے خوشی ہے کہ مولانا نے ہر قدم پر میری رہنمائی کی ہے اور اپنے مشوروں سے مجھے نوازتے رہے ہیں۔ اب اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ میں اس ذمے داری کو کس حد تک ادا کرسکا ہوں۔ اگر میں اس میں کچھ بھی کامیاب رہا ہوں تو یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے اور اس کام میں جو بھی کوتاہی رہی ہے‘ اس کا بار میرے اوپر ہے۔ وَمَا تَوْفِیْقِیْ اِلاَّ بِاللّٰہِ۔

خورشید احمد
ادارہ معارف اسلامی‘ کراچی
/۲۷ صفر‘ ۱۳۸۶ھ
مئی ۱۹۶۶ء

شیئر کریں