Search
Close this search box.

فہرست موضوعات

دیباچہ
پیش لفظ
مقدمہ
انسان کا معاشی مسئلہ اور اس کا اسلامی حل
جُزو پرستی کا فتنہ
اصل معاشی مسئلہ
معاشی انتظام کی خرابی کا اصل سبب
نفس پرستی اور تعیش
سرمایہ پرستی
نظامِ محاربہ
چند سری نظام
اِشتراکیت کا تجویز کردہ حل
نیا طبقہ
نظامِ جبر
شخصیت کا قتل
فاشزم کا حل
اسلام کا حل
بنیادی اصول
حصولِ دولت
حقوقِ ملکیت
اصولِ صَرف
سرمایہ پرستی کا استیصال
تقسیم ِ دولت اور کفالتِ عامہ
سوچنے کی بات
قرآن کی معاشی تعلیمات (۱) بنیادی حقائق
۲۔ جائز و ناجائز کے حدود مقرر کرنا اللہ ہی کا حق ہے
۳۔ حدود اللہ کے اندر شخصی ملکیت کا اثبات
۴۔معاشی مساوات کا غیر فطری تخیل
۵۔ رہبانیت کے بجائے اعتدال اور پابندیِ حدود
۶ ۔ کسبِ مال میں حرام و حلال کا امتیاز
۷۔ کسبِ مال کے حرام طریقے
۸۔ بخل اور اکتناز کی ممانعت
۹۔ زر پرستی اور حرصِ مال کی مذمت
۱۰ ۔ بے جا خرچ کی مذمت
۱۱۔ دولت خرچ کرنے کے صحیح طریقے
۱۲۔ مالی کفّارے
۱۳۔ انفاق کے مقبول ہونے کی لازمی شرائط
۱۵۔ لازمی زکوٰۃ اور اس کی شرح
۱۶۔ اموالِ غنیمت کا خُمس
۱۷۔ مصارفِ زکوٰۃ
۱۸۔ تقسیم میراث کا قانون
۱۹۔ وصیت کا قاعدہ
۲۰۔ نادان لوگوں کے مفاد کی حفاظت
۲۱۔ سرکاری املاک میں اجتماعی مفاد کا لحاظ
۲۲۔ ٹیکس عائد کرنے کے متعلق اسلام کا اصولی ضابطہ
سرمایہ داری اور اسلام کافرق
۱۔ اکتساب مال کے ذرائع میں جائز اور ناجائز کی تفریق
۲۔ مال جمع کرنے کی ممانعت
۳۔ خرچ کرنے کا حکم
۴۔ زکوٰۃ
۵۔ قانونِ وراثت
۶۔ غنائم جنگ اور اموالِ مفتوحہ کی تقسیم
۷۔اقتصاد کا حکم
اسلامی نظامِ معیشت کے اُصول اور مقاصد( یہ تقریر پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ انتظامات کی مجلس مذاکرہ میں 17؍ دسمبر 65ء کو کی گئی تھی (مرتب)
اسلام کے معاشی نظام کی نوعیت
نظمِ معیشت کے مقاصد
(ا) انسانی آزادی
(ب) اخلاقی اور مادی ترقی میں ہم آہنگی
(ج) تعاون و توافُق اور انصاف کا قیام
بنیادی اصول
شخصی ملکیت اور اس کے حدود
منصفانہ تقسیم
اجتماعی حقوق
زکوٰۃ
قانونِ وراثت
محنت، سرمایہ اور تنظیم کا مقام
زکوٰۃ اور معاشی بہبود
غیر سُودی معیشت
معاشی، سیاسی اور معاشرتی نظام کا تعلق
معاشی زندگی کے چند بنیادی اصول (قرآن کی روشنی میں)
(۱) اسلامی معاشرے کی بنیادی قدریں(۱)
(۲) اخلاقی اور معاشی ارتقاء کا اسلامی راستہ (۱)
(۳) تصوّرِ رزق اور نظریۂ صَرف
(۴)اصولِ صرف
(۵) اصولِ اعتدال
(۶) معاشی دیانت اور انصاف
ملکیت ِ زمین کا مسئلہ
قرآن اور شخصی ملکیت (۱)
(۲) دورِ رسالت اور خلافتِ راشدہ کے نظائر
قسمِ اوّل کا حکم
قسمِ دوم کا حکم
قسم سوم کے احکام
قسمِ چہارم کے احکام
حقوقِ ملکیت بربنائے آبادکاری
عطیۂ زمین من جانب سرکار
عطیۂ زمین کے بارے میں شرعی ضابطہ
جاگیروں کے معاملے میں صحیح شرعی رویہ
حقوقِ ملکیت کا احترام
(۳) اسلامی نظام اور انفرادی ملکیت
(۴) زرعی اراضی کی تحدید کا مسئلہ
(۵) بٹائی ( ایک سوال کے جوا ب میں ترجمان القرآن، اکتوبر ۱۹۵۰ء۔) کا طریقہ اور اسلام کے اصول انصاف
(۶)ملکیت پر تصرف کے حدود
مسئلۂ سود
(۱) سود کے متعلق اسلامی احکام( ماخوذ از ’’سود‘‘۔)
ربوٰا کا مفہوم
جاہلیت کا ربٰوا
بیع اور ربوٰا میں اصولی فرق
علتِ تحریم
حُرمتِ سود کی شدت
(۲)سود کی ’’ضرورت‘‘… ایک عقلی تجزیہ( ماخوذ از ’سود‘۔)

معاشیات اسلام

اس ویب سائٹ پر آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ اب آپ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمتہ اللہ علیہ کی کتابوں کو ’’پی ڈی ایف ‘‘ کے ساتھ ساتھ ’’یونی کوڈ ورژن‘‘ میں بھی پڑھ سکتے ہیں۔کتابوں کی دستیابی کے حوالے سے ہم ’’اسلامک پبلی کیشنز(پرائیوٹ) لمیٹڈ، لاہور‘‘، کے شکر گزار ہیں کہ اُنھوں نے اس کارِ خیر تک رسائی دی۔ اس صفحے پر آپ متعلقہ کتاب PDF اور Unicode میں ملاحظہ کیجیے۔

مقدمہ

(یہ مقدمہ مولانا محترم کی اس تقریر پر مشتمل ہے جو انہوں نے ریڈیو پاکستان، لاہور سے 2؍مارچ 1948ء کو ’’اسلام کے اقتصادی نظام‘‘ کے موضوع پر نشر فرمائی تھی ، اور موضوع کی مناسبت سے یہاں اسے اس کتاب کے مقدمہ کے طور پر شریکِ اشاعت کیا جا رہا ہے ۔ (مرتب)

انسان کی معاشی زندگی کو انصاف اور راستی پر قائم رکھنے کے لیے اسلام نے چند اصول اور چند حدود مقرر کر دیئے ہیں تا کہ دولت کی پیدائش ، استعمال اور گردش کا سارا نظام انھی خطوط کے اندر چلے جو اس کے لیے کھینچ دیئے گئے ہیں ۔ دولت کی پیداوار کے طریقے اور اس کی گردش کی صورتیں کیا ہوں؟ اسلام کو اس سوال سے کوئی بحث نہیں ہے۔ یہ چیزیں تو مختلف زمانوں میں تمدن کے نشوونما کے ساتھ ساتھ بنتی اور بدلتی رہتی ہیں۔ ان کا تعین انسانی حالات و ضروریات کے لحاظ سے خود بخود ہو جاتا ہے۔ اسلام جو کچھ چاہتا ہے وہ یہ ہے کہ تمام زمانوں اور حالات میں انسان کے معاشی معاملات جو شکلیں بھی اختیار کریں ان میں یہ اصول مستقل طور پر قائم رہیں اور ان حدود کی لازماً پابندی کی جائے۔
اسلامی نقطۂ نظر سے زمین اور اس کی سب چیزیں خدا نے نوع انسانی کے لیے بنائی ہیں، اس لیے ہر انسان کا یہ پیدائشی حق ہے کہ زمین سے اپنا رزق حاصل کرنے کی کوشش کرے۔ اس حق میں تمام انسان برابر کے شریک ہیں۔ کسی کو اس حق سے محروم نہیں کیا جاسکتا۔ نہ کسی کو اس معاملے میں دوسروں پر ترجیح ہی حاصل ہوسکتی ہے۔ کسی شخص یا نسل یا طبقے پر ایسی کوئی پابندی ازروئے شرع عائد نہیں ہوسکتی کہ وہ رزق کے وسائل میں سے بعض کو استعمال کرنے کا حقدار ہی نہ رہے، یا بعض پیشوں کا دروازہ اس کے لیے بند کر دیا جائے۔ اسی طرح ایسے امتیازات بھی شرعاً قائم نہیں ہوسکتے جن کی بنا پر کوئی ذریعۂ معاش یا وسیلۂ رزق کسی مخصوص طبقے یا نسل یا خاندان کا اجارہ بن کر رہ جائے۔ خدا کی بنائی ہوئی زمین پر اس کے پیدا کئے ہوئے وسائلِ رزق میں سے اپنا حصہ حاصل کرنے کی کوشش کرنا سب انسانوں کا یکساں حق ہے اور اس کوشش کے مواقع سب کے لیے یکساں کھلے ہونے چاہئیں۔
قدرت کی جن نعمتوں کو تیار کرنے کا یا کارآمد بنانے میں کسی کی محنت و قابلیت کا کوئی دخل نہ ہو وہ سب انسانوں کے لیے مباحِ عام ہیں۔ ہر شخص کو حق ہے کہ اپنی ضرورت بھر ان سے فائدہ اٹھائے۔ دریائوں اور چشموں کا پانی، جنگل کی لکڑی، قدرتی درختوں کے پھل، خودرَو گھاس اور چارہ، ہوا اور پانی اور صحرا کے جانور،سطح زمین پر کھلی ہوئی کانیں، اس قسم کی چیزوں پر نہ تو کسی کی اجارہ داری قائم ہوسکتی ہے اور نہ ایسی پابندیاں لگائی جاسکتی ہیں کہ بندگانِ خدا کچھ دیے بغیر ان سے اپنی ضرورتیں پوری نہ کرسکیں۔ ہاں جو لوگ تجارتی اغراض کے لیے بڑے پیمانے پر ان میں سے کسی چیز کو استعمال کرنا چاہیں ان پر ٹیکس لگایا جاسکتا ہے۔
خدا نے جو چیزیں انسان کے فائدے کے لیے بنائی ہیں، انہیں لے کر بیکار ڈال رکھنا صحیح نہیں ہے۔ یا تو ان سے خودفائدہ اٹھائو، ورنہ چھوڑ دو تا کہ دوسرے ان سے متمتع ہوں۔ اسی اصول کی بنا پر اسلامی قانون پر فیصلہ کرتا ہے کہ کوئی شخص حکومت کی عطا کردہ زمین کو تین سال سے زیادہ مدت تک افتادہ حالت میں نہیں رکھ سکتا۔ اگر وہ اس کو زراعت یا عمارت یا کسی دوسرے کام میں استعمال نہ کرے تو تین سال گزر جانے کے بعد وہ متروکہ زمین سمجھی جائے گی۔ کوئی دوسرا شخص اسے کام میں لے آئے تو اس پر دعویٰ نہ کیا جاسکے گا اور اسلامی حکومت کو بھی یہ اختیار ہوگا کہ اس زمین کو اس شخص سے لے کر کسی اور کو آبادکاری کے لیے دے دے۔
جو شخص براہِ راست قدرت کے خزانے میں سے کوئی چیز لے اور اپنی محنت و قابلیت سے اس کو کارآمد بنائے وہ اس چیز کا مالک ہے۔ مثلاً کسی افتادہ زمین کو، جس پر کسی کے حقوقِ ملکیت ثابت نہ ہوں، اگر کوئی شخص اپنے قبضے میں لے لے اور کسی مفید کام میں اسے استعمال کرنا شروع کر دے تو اس کو بے دخل نہیں کیا جاسکتا۔ اسلامی نظریے کے مطابق دنیا میں تمام مالکانہ حقوق کی ابتدا اسی طرح ہوئی ہے۔ پہلے پہل جب زمین پر انسانی آبادی شروع ہوئی تو سب چیزیں سب انسانوں کے لیے مباحِ عام تھیں۔ پھر جس جس شخص نے جس مباح چیز کو اپنے قبضے میں لے کر کسی طور پر کارآمد بنالیا وہ اس کا مالک ہوگیا، یعنی اسے یہ حق حاصل ہوگیا کہ اس کا استعمال اپنے لیے مخصوص رکھے اور دوسرے اسے استعمال کرنا چاہیں تو ان سے اس کا معاوضہ لے۔یہ چیز انسان کے سارے معاشی معاملات کی فطری بنیاد ہے اور اس بنیاد کو اپنی جگہ قائم رہنا چاہیے۔
جائز شرعی طریقوں سے جو مالکانہ حقوق کسی کو دنیا میں حاصل ہوں وہ بہرحال احترام کے مستحق ہیں۔ کلام اگر ہوسکتا ہے تو اس امر میں ہوسکتا ہے کہ کوئی ملکیت شرعاً صحیح ہے یا نہیں جو ملکیتیں ازروئے شرع ناجائز ہوں انہیں بے شک ختم ہو جانا چاہیے۔ مگر جو ملکیتیں شرعاً صحیح ہوں، کسی حکومت اور کسی مجلسِ قانون ساز کو یہ حق نہیں ہے کہ انہیں سلب کرلے، یا ان کے مالکوں کے شرعی حقوق میں کسی قسم کی کمی بیشی کرے۔ اجتماعی بہتری کا نام لے کر کوئی ایسا نظام قائم نہیں کیا جاسکتا جو شریعت کے دیئے ہوئے حقوق کو پامال کرنے والا ہو۔ جماعت کے مفاد کے لیے افراد کی ملکیتوں پر جو پابندیاں شریعت نے خود لگا دی ہیں ان میں کمی کرنا جتنا بڑا ظلم ہے اتنا ہی بڑا ظلم ان پر اضافہ کرنا بھی ہے۔ یہ بات اسلامی حکومت کے فرائض میں سے ہے کہ افراد کے شرعی حقوق کی حفاظت کرے اور ان سے جماعت کے وہ حقوق وصول کرے جو شریعت نے ان پر عائد کئے ہیں۔
خدا نے اپنی نعمتوں کی تقسیم میں مساوات ملحوظ نہیں رکھی ہے، بلکہ اپنی حکمت کی بنا پر بعض انسانوں کو بعض پر فضیلت دی ہے۔ حسن، خوش آوازی، تندرستی، جسمانی طاقتیں، دماغی قابلیتیں، پیدائشی ماحول اور اسی طرح کی دوسری چیزیں سب انسانوں کو یکساں نہیں ملیں۔ ایسا ہی معاملہ رزق کا بھی ہے۔ خدا کی بنائی ہوئی فطرت خود اس بات کی متقاضی ہے کہ انسانوں کے درمیان رزق میں تفاوت ہو۔ لہٰذا وہ تمام تدبیریں اسلامی نقطہ نظر سے مقصد اور اصول میں غلط ہیں جو انسانوں کے درمیان ایک مصنوعی معاشی مساوات قائم کرنے کے لیے اختیار کی جائیں۔ اسلام جس مساوات کا قائل ہے وہ رزق میں مساوات نہیں بلکہ حصولِ رزق کی جدوجہد کے مواقع میں مساوات ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ سوسائٹی میں ایسی قانونی اور رواجی رکاوٹیں باقی نہ رہیں جن کی بنا پر کوئی شخص اپنی قوت و استعداد کے مطابق معاشی جدوجہد نہ کرسکتا ہو۔ اور ایسے امتیازات بھی قائم نہ رہیں جو بعض طبقوں، نسلوں اور خاندانوں کی پیدائش خوش نصیبی کو مستقل قانونی تحفظات میں تبدیل کر دیتے ہوں۔ یہ دونوں طریقے فطری نامساوات کی جگہ زبردستی ایک مصنوعی نامساوات قائم کرتے ہیں۔ اس لیے اسلام انہیں مٹا کر سوسائٹی کے معاشی نظام کو ایسی فطری حالت پر لے آنا چاہتا ہے جس میں ہر شخص کے لیے کوشش کے مواقع کھلے ہوں۔ مگر جو لوگ چاہتے ہیں کہ کوشش کے ذرائع اور نتائج میں بھی سب لوگوں کو زبردستی برابر کر دیا جائے، اسلام ان سے متفق نہیں ہے۔ کیونکہ وہ فطری نامساوات کو مصنوعی مساوات میں تبدیل کرنا چاہتے ہیں۔ فطرت سے قریب تر نظام صرف وہی ہوسکتا ہے جس میں ہر شخص معیشت کے میدان میں اپنی دوڑ کی ابتدا اسی مقام اور اسی حالت سے کرے جس پر خدا نے اسے پیدا کیا ہے۔ جو موٹر لیے ہوئے آیا ہے وہ موٹر ہی پر چلے، جو صرف دو پائوں لایا ہے وہ پیدل ہی چلے، اور جو لنگڑا پیدا ہوا ہے وہ لنگڑا کر ہی چلنا شروع کر دے۔ سوسائٹی کا قانون نہ تو ایسا ہونا چاہیے کہ وہ موٹر والے کا مستقل اجارہ موٹر پر قائم کر دے اور لنگڑے کے لیے موٹر کا حصول ناممکن بنا دے، اور نہ ایسا ہی ہونا چاہیے کہ سب کی دوڑ زبردستی ایک ہی مقام اور ایک ہی حالت میں شروع ہو اور آگے تک انہیں لازماً ایک دوسرے کے ساتھ باندھ رکھا جائے۔ برعکس اس کے قوانین ایسے ہونے چاہئیں جن میں اس امر کا کھلا امکان موجود رہے کہ جس نے اپنی دوڑ لنگڑا کر شروع کی تھی وہ اپنی محنت و قابلیت سے موٹر پاسکتا ہو تو ضرور پائے، اور جو ابتدا میں موٹر پر چلا تھا وہ بعد میں اپنی نااہلی سے لنگڑا ہو کر رہ جائے تو رہ جائے۔
اسلام صرف اتنا ہی نہیں چاہتا کہ اجتماعی زندگی میں یہ معاشی دوڑ کھلی اور بے لاگ ہو، بلکہ یہ بھی چاہتا ہے کہ اس میدان میں دوڑنے والے ایک دوسرے کے لیے بے رحم اور بے درد نہ ہوں بلکہ ہمدرد اور مددگار ہوں۔ وہ ایک طرف اپنی اخلاق تعلیم سے لوگوں میں یہ ذہنیت پیدا کرتا ہے کہ اپنے درماندہ اور پسماندہ بھائیوں کو سہارا دیں۔ دوسری طرف وہ تقاضا کرتا ہے کہ سوسائٹی میں ایک مستقل ادارہ ایسا موجود رہے جو معذور اور بے وسیلہ لوگوں کی مدد کا ضامن ہو۔ جو لوگ معاشی دوڑ میں حصہ لینے کے قابل نہ ہوں وہ اس ادارے سے اپنا حصہ پائیں۔ جولوگ اتفاقاتِ زمانہ سے اس دوڑ میں گر پڑے ہوں انہیں یہ ادارہ اٹھا کر پھر چلنے کے قابل بنائے۔ اور جن لوگوں کو جدوجہد کے میدان میں اترنے کے لیے سہارے کی ضرورت ہو انہیں اس ادارے سے سہارا ملے۔ اس مقصد کے لیے اسلام نے اَزرُوئے قانون یہ طے کیا ہے کہ ملک کی تمام جمع شدہ دولت پر ڈھائی فیصدی سالانہ اور اسی طرح پورے تجارتی سرمائے پر بھی ڈھائی فیصدی سالانہ زکوٰۃ وصول کی جائے۔ تمام عشری زمینوں کی زرعی پیداوار کا دس فیصدی یا پانچ فیصدی حصہ لیا جائے۔ بعض معدنیات کی پیداوار کا بیس فیصدی حصہ لے لیا جائے۔ مویشیوں کی ایک خاص تعداد پر بھی ایک خاص تناسب سے سالانہ زکوٰۃ لگائی جائے اور یہ تمام سرمایہ غریبوں، یتیموں، بوڑھوں، معذوروں، بے روزگاروں، بیماروں اور دوسرے ہر طرح کے محتاجوں کی مدد کے لیے استعمال کیا جائے۔ یہ ایک ایسا اجتماعی انشورنس ہے جس کی موجودگی میں اسلامی سوسائٹی کے اندر کوئی شخص زندگی کی ناگزیر ضروریات سے کبھی محروم نہیں رہ سکتا۔ کوئی محنت کش آدمی کبھی اتنا مجبور نہیں ہوسکتا کہ فاقے کے ڈر سے خدمت کی وہی شرائط منظور کرلے جو کارخانہ دار یا زمیندار پیش کر رہا ہو۔ کسی شخص کی طاقت اس کم سے کم معیار سے کبھی نیچے نہیں گر سکتی جو معاشی جدوجہد میں حصہ لینے کے لیے ضروری ہے۔
فرد اور جماعت کے درمیان اسلام ایسا توازن قائم کرنا چاہتا ہے جس میں فرد کی شخصیت اور اس کی آزادی بھی برقرار رہے اور اجتماعی مفاد کے لیے اس کی آزادی نقصان دہ بھی نہ ہو، بلکہ لازمی طور پر مفید ہو ۔ اسلام کسی ایسی سیاسی یا معاشی تنظیم کو پسند نہیں کرتا جو فرد کو جماعت میں گم کر دے اور اس کے لیے وہ آزادی باقی نہ چھوڑے جو اس کی شخصیت کے صحیح نشوونما کے لیے ضروری ہے۔ کسی ملک کے تمام ذرائع پیداوار کو قومی ملکیت بنا دینے کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ ملک کے تمام افراد جماعتی شکنجے میں جکڑ جائیں۔ اس حالت میں ان کی انفرادیت کا بقا و ارتقاء سخت مشکل بلکہ غیر ممکن ہے۔ انفرادیت کے لیے جس طرح سیاسی اور معاشی آزادی ضروری ہے اسی طرح معاشی آزادی بھی بہت بڑی حد تک ضروری ہے۔ اگر ہم آدمیت کا بالکل استیصال نہیں کر دینا چاہتے تو ہماری اجتماعی زندگی میں اتنی گنجائش ضرور رہنی چاہیے کہ ایک بندئہ خدا اپنی روزی آزادانہ پیدا کرکے اپنے ضمیر کا استقلال برقرار رکھ سکے اور اپنی ذہنی و اخلاقی قوتوں کو اپنے رجحانات کے مطابق نشوونما دے سکے۔ راتب بندی کا رزق، جس کی کنجیاں دوسروں کے ہاتھ میں ہوں، اگر فراواں بھی ہو تو خوشگوار نہیں۔ کیونکہ اس سے پرواز میں جو کوتاہی آتی ہے محض جسم کی فربہی اس کی تلافی کبھی نہیں کرسکتی۔
جس طرح اسلام ایسے نظام کو ناپسند کرتا ہے اسی طرح وہ ایسے اجتماعی نظام کو بھی پسند نہیں کرتا جو افراد کو معاشرت اور معیشت میں بے لگام آزادی دیتا ہے اور انہیں کھلی چھٹی دے دیتا ہے کہ اپنی خواہشات یا اپنے مفادکی خاطر جماعت کو جس طرح چاہیں نقصان پہنچائیں۔ ان دونوں انتہائوں کے درمیان اسلام نے جو متوسط راہ اختیار کی ہے وہ یہ ہے کہ پہلے فرد کو جماعت کی خاطر چند حدود اور ذمے داریوں کا پابند بنایا جائے، پھر اسے اپنے معاملات میں آزاد چھوڑ دیا جائے۔ ان حدود اور ذمے داریوں کی ساری تفصیل بیان کرنے کا یہاں موقع نہیں ہے، میں ان کا صرف ایک مختصر سا نقشہ آپ کے سامنے پیش کروں گا۔
پہلے کسبِ معاش کو لیجئے۔ دولت کمانے کے ذرائع میں اسلام نے جتنی باریک بینی کے ساتھ جائز و ناجائز کی تفریق کی ہے دنیا کے کسی قانون نے نہیں کی۔ وہ چن چن کر ان تمام ذرائع کو حرام قرار دیتا ہے جن سے ایک شخص دوسرے اشخاص کو، یا بحیثیت مجموعی پوری سوسائٹی کو، اخلاقی یا مادی نقصان پہنچا کر اپنی روزی حاصل کرتا ہے۔شراب اور نشہ آور چیزوں کا بنانا اور بیچنا، فحش کاری اور رقص و سرود کا پیشہ، جوا، سٹہ، لاٹری، سود، قیاس اور دھوکے اور جھگڑے کے سودے، ایسے تجارتی طریقے جن میں ایک فریق کا فائدہ یقینی اور دوسرے کا مشتبہ ہو، ضرورت کی چیزوں کو روک کر ان کی قیمتیں چڑھانا، اور اسی طرح کے بہت سے وہ کاروبار جو اجتماعی طور پر ضرر رساں ہیں، اسلامی قانون میں قطعی طور پر حرام کر دیئے گئے ہیں۔ اس معاملے میں اگر آپ اسلام کے معاشی قانون کا جائزہ لیں تو حرام طریقوں کی ایک طویل فہرست آپ کے سامنے آئے گی اور ان میں بہت سے وہ طریقے آپ کو ملیں گے جنہیں استعمال کر کے ہی موجودہ سرمایہ داری نظام میں لوگ کروڑ پتی بنتے ہیں۔اسلام ان سب طریقوں کو ازروئے قانون بند کرتا ہے اور آدمی کو صرف ان طریقوں سے دولت کمانے کی آزادی دیتا ہے جن سے وہ دوسروں کی کوئی حقیقی اور مفید، خدمت انجام دے کر انصاف کے ساتھ اس کا معاوضہ حاصل کرے۔
حلال ذرائع سے کمائی ہوئی دولت پر اسلام آدمی کے حقوق ملکیت تسلیم کرتا ہے۔ مگر یہ حقوق بھی غیر محدود نہیں ہیں۔ وہ آدمی کو پابند کرتا ہے کہ اپنی حلال کمائی کو خرچ بھی جائز ذرائع سے جائز راستوں ہی میں کرے ۔ ایسی قیود لگا دی ہیں جن سے آدمی ایک ستھری اور پاکیزہ زندگی تو بسر کرسکتا ہے مگر عیاشیوں میں دولت اڑا نہیں سکتا، نہ شان و شوکت کے اظہار میں اس قدر حد سے گزر سکتا ہے کہ دوسروں پر اس کی خدائی کا سکہ جمنے لگے۔ بے جا خرچ کی بعض صورتوں کو تو اسلامی قانون میں صراحتاً ممنوع ٹھیرایا گیا ہے، اور بعض دوسری صورتوں کی اگرچہ صراحت نہیں ہے لیکن اسلامی حکومت کو یہ اختیارات حاصل ہیں کہ اپنی دولت میں نار و اتصرّفات کرنے سے لوگوں کو حکما ً روک دے۔
جائز اور معقول اخراجات سے جو دولت آدمی کے پاس بچے اسے وہ جمع بھی کرسکتا ہے اور مزید دولت پیدا کرنے میں بھی لگا سکتا ہے ۔ مگر ان دونوں حقوق پر پابندیاں ہیں۔ جمع کرنے کی صورت میں اسے نصاب سے زائد دولت پر ڈھائی فیصدی سالانہ زکوٰۃ دینی ہوگی۔ کاروبار میں لگانا چاہے تو صرف جائز کاروبار ہی میں لگا سکتا ہے۔ جائز کاروبار خواہ آدمی خود کرے یا کسی دوسرے کو اپنا سرمایۂ روپے، زمین یا آلات و اسباب کی صورت میں دے کر نفع و نقصان کا شریک ہو جائے، یہ دونوں صورتیں جائز ہیں۔ ان حدود کے اندر کام کر کے اگر کوئی شخص کروڑ پتی بھی بن جائے تو اسلام کی نگاہ میں یہ کوئی قابلِ اعتراض چیز نہیں ہے، بلکہ خدا کا انعام ہے۔ لیکن جماعتی مفاد کے لیے وہ اس پر دو شرطیں عائد کرتا ہے۔ ایک یہ کہ وہ اپنے تجارتی مال پر زکوٰۃ اور زرعی پیداوار پر عشر ادا کرے ۔ دوسرے یہ کہ وہ اپنی تجارت یا صنعت یا زراعت میں جن لوگوں کے ساتھ شرکت یا اجرت کا معاملہ کرے ان سے انصاف کرے۔ یہ انصاف اگر وہ خود نہ کرے گا تو اسلامی حکومت اسے انصاف پر مجبور کرے گی۔
پھر جو دولت ان جائز حدود کے اندر فراہم ہو اس کو بھی اسلام زیادہ دیر تک سمٹا نہیں رہتے دیتا بلکہ اپنے قانونِ وراثت کے ذریعے سے ہر پشت کے بعد دوسری پشت میں اسے پھیلا دیتا ہے۔ اس معاملے میں اسلامی قانون کا رُجحان دنیا کے تمام دوسرے قوانین کے رجحانات سے مختلف ہے۔ دوسرے قوانین کوشش کرتے ہیں کہ جو دولت ایک دفعہ سمٹ چکی ہے وہ پشت در پشت سمٹی رہے۔ برعکس اس کے اسلام ایسا قانون بناتا ہے کہ جو دولت ایک شخص نے اپنی زندگی میں فراہم کی ہو وہ اس کے مرتے ہی اس کے قریبی عزیزوں میں بانٹ دی جائے، قریبی عزیز نہ ہوں تو دور کے رشتہ دار بحصۂ رسدی اس کے وارث ہوں، اور اگر کوئی دور پرے کا رشتے دار بھی نہ ہو تو پھر پوری مسلم سوسائٹی اس کی حقدار ہے۔ یہ قانون کسی بڑی سرمایہ داری و زمین داری کو مستقل اور دائم نہیں رہنے دیتا۔ پچھلی ساری پابندیوں کے باوجود اگر دولت کے سمٹائو سے کوئی خرابی پیدا ہو بھی جائے تو یہ آخری ضرب اس کا ازالہ کر دیتی ہے۔
(بہ اجازت ریڈیو پاکستان)

شیئر کریں