برعظیم ہندو پاکستان میں گزشتہ ربع صدی سے ضبط ولادت (birth control) کی تحریک زور پکڑ رہی ہے۔{ FR 7085 } اس کی تائید میں نشرواشاعت کرنے اور لوگوں کو اس کی طرف رغبت دلانے اور اس کے عملی طریقوں کے متعلق معلومات بہم پہنچانے کے لیے انجمنیں قائم ہو چکی ہیں اور رسالے شائع کیے جا رہے ہیں۔ پہلے لندن کے برتھ کنٹرول انٹرنیشنل انفارمیشن سنٹر کی ڈائریکٹر مسز ایڈتھ ہومارٹن (Mrs Edith How Martyn) نے اس تحریک کی نشروشاعت کے لیے اس برعظیم کا دورہ کیا۔ پھر 1931ء کی مردم شماری کے کمشنر ڈاکٹر ہٹن (Dr.Hutton) نے اپنی رپورٹ میں ہندوستان کی بڑھتی ہوئی آبادی کو خطرناک ظاہر کرکے ضبط ِولادت کی ترویج پر زور دیا۔ اس کے بعد متحدہ ہندوستان کی کونسل آف اسٹیٹ کے ایک ’’مسلمان‘‘ ممبر نے حکومت کو توجہ دلائی کہ وہ ہندوستان میں آبادی کی افزائش کو روکنے کے لیے عملی تدابیر اختیار کرے۔ اگرچہ حکومت ہند نے اس وقت اس تجوید کو رد کر دیا تھا لیکن لکھنؤ میں عورتوں کی آل انڈیا انجمن نے اس کی حمایت میں ایک قرار داد پاس کر دی۔ کراچی اور بمبئی کی مجالس بلدیہ میں اس کی عملی تعلیم رائج کرنے پر بحث کی گئی۔ میسور اور مدراس اور بعض دوسرے مقامات پر اس کیلئے مُطِب (clinics) کھول دیے گئے اور صاف نظر آنے لگا کہ مغرب سے آئی ہوئی دوسری چیزوں کی طرح یہ تحریک بھی اس برعظیم میں پھیل کر رہے گی۔ اس کے بعد ہندوستان اور پاکستان دو آزاد ملک بن گئے اور کچھ زیادہ مدت نہ گزری تھی کہ دونوں ملکوں کی حکومتوں نے اپنے اپنے حدود میں اس تحریک کو ایک قومی پالیسی کی حیثیت سے اختیار کر لیا۔
جہاں تک ہندوستان کا تعلق ہے وہ تو ایک ’’لادینی مملکت‘‘ ہونے کا دعویٰ کرتا ہے، اس لیے اسے اپنی کسی سرکاری پالیسی کے لیے مذہب سے سند کی ضرورت نہیں۔ لیکن پاکستان ماشاء اللہ ایک اسلامی مملکت ہے، اس لیے یہاں یہ بھی ثابت کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ یہ تحریک عین مطابق اسلام ہے۔ اس کے بعد اگر اسلامی قوانین کا علم رکھنے والے خاموش رہیں تو عام طور پر یہی سمجھ لیا جائے گا کہ اسلام فی الواقع اس تحریک کا حامی ہے، یا کم از کم اسے جائز رکھتا ہے۔
یہ کتاب اسی غلط فہمی کو رفع کرنے کے لیے لکھی جا رہی ہے لیکن قبل اس کے کہ اس مسئلہ پر اسلامی نقطۂ نظر سے بحث کی جائے، یہ سمجھ لینا ضروری ہے کہ ضبط ولادت کی تحریک کیا ہے؟ کس طرح شروع ہوئی؟ کن اسباب سے اس نے ترقی کی؟ اور جن ممالک میں اس نے رواج پایا، وہاں اس کے کیا نتائج رونما ہوئے؟ جب تک یہ مقدمات اچھی طرح ذہن نشین نہ ہو جائیں گے، شرعِ اسلام کا فتویٰ ٹھیک ٹھیک سمجھ میں نہ آئے گا، نہ دل اس پرمطمئن ہو سکیں گے۔ اس لیے سب سے پہلے ہم انھی امور پر روشنی ڈالیں گے اور آخر میں اس کے متعلق اسلامی نقطۂ نظر کی توضیح کریں گے۔ اس سلسلے میں جو مواد اِن صفحات میں پیش کیا جا رہا ہے، ہم توقع رکھتے ہیں کہ ملک کے تعلیم یافتہ اصحاب بھی، اور ہمارے حکمران بھی سنجیدگی کے ساتھ اس پر غور کریں گے۔ اجتماعی زندگی کے مسائل اس قدر پیچیدہ ہوتے ہیں کہ کسی ایک ہی نقطہ نظر سے ان پر سوچنا اور ان کا ایک حل تجویز کر دینا کبھی مفید نہیں ہوتا۔ ایک اجتماعی مسئلے کو حل کرنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ اس کے تمام متعلقہ پہلوئوں پر جامعیت کے ساتھ نگاہ ڈالی جائے اور کسی وقت بھی بحث وتحقیق کا دروازہ بند نہ کیا جائے۔ اگر کسی مسئلے کے متعلق ایک قومی پالیسی بنا بھی لی گئی ہو تو اسے غورِ مکرر اور نظر ثانی سے بالاتر نہ سمجھ لینا چاہیے۔