Search
Close this search box.

فہرست موضوعات

عرضِ ناشر
مقدمہ
باب اوّل: دُنیوی زندگی کا اسلامی تصور
دُنیوی زندگی کا اِسلامی تصوّر
باب دوم: زندگی کا نصب العین
زِندگی کا نصب العین
حصہ سوم: ۱۔ ایمان کی حقیقت و اہمیت
۲۔اسلام کے ایمانیات
۳۔ ایمان باللّٰہ
۴۔ ایمان بالملائکہ
۵۔ ایمان بالرُّسُل
۶۔ ایمان بالکتب
۷۔ ایمان بالیوم الآخر
۸۔ اسلامی تہذیب میں ایمان کی اہمیت
ضمیمہ: زندگی بعد موت

اسلامی تہذیب اور اس کے اُصول ومبادی

اس ویب سائٹ پر آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ اب آپ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمتہ اللہ علیہ کی کتابوں کو ’’پی ڈی ایف ‘‘ کے ساتھ ساتھ ’’یونی کوڈ ورژن‘‘ میں بھی پڑھ سکتے ہیں۔کتابوں کی دستیابی کے حوالے سے ہم ’’اسلامک پبلی کیشنز(پرائیوٹ) لمیٹڈ، لاہور‘‘، کے شکر گزار ہیں کہ اُنھوں نے اس کارِ خیر تک رسائی دی۔ اس صفحے پر آپ متعلقہ کتاب PDF اور Unicode میں ملاحظہ کیجیے۔

مقدمہ

مغربی مصنّفین اور ان کے اثر سے مشرقی اہلِ علم کا بھی ایک بڑا گروہ یہ رائے رکھتا ہے کہ اسلام کی تہذیب اپنے ماقبل کی تہذیبوں اور خصوصاً یونانی و رُومی تہذیب سے ماخوذ ہے اور وہ ایک جداگانہ تہذیب صرف اس وجہ سے بن گئی ہے کہ عربی ذہنیت نے اس پرانے مواد کو ایک نئے اسلوب سے ترکیب دے کر اس کی ظاہری شکل و صورت بدل دی ہے۔ یہی نظریہ ہے جس کی بِنا پر یہ لوگ اسلامی تہذیب کے عناصرِ ترکیبی ایرانی، بابلی، سریانی، فینیقی، مصری، یونانی اور رومی تہذیبوں میں تلاش کرتے ہیں اور پھر عربی خصائص میں اس ذہنی عامل کا سراغ لگاتے ہیں جس نے ان تہذیبوں سے اپنے ڈھب کا مسالا لے کر اسے اپنے ڈھنگ پر ترتیب دیا۔
غلط فہمی
لیکن یہ ایک بڑی غلط فہمی ہے۔ میں اس حقیقت سے انکار نہیں کرتا کہ ہر زمانے میں انسان کا حال اس کے ماضی سے متاثر ہوتا ہے اور ہر نئی تعمیر میں پچھلی تعمیروں کے مواد سے کام لیا جاتا ہے، مگر میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ اسلامی تہذیب اپنی ذات و جوہر میں خالص اسلامی ہے اور کسی غیر اسلامی مؤثر کے اثر کا اس میں ذرّہ برابر دخل نہیں ہے، البتہ عرضی امور میں عربی ذہنیت، عربی روایات اور ماقبل اور مابعد کی تہذیبوں کے اثرات ضرور داخل ہو گئے ہیں۔ عمارت میں ایک چیز تو اس کا نقشہ، اس کا مخصوص طرزِ تعمیر، اس کا مقصد اور اس مقصد کے لیے اس کا مناسب و مطابق ہونا ہے، اور یہی اصل و اساس ہے۔ دوسری چیز اس کا رنگ روغن، اس کے نقش و نگار، اس کی زینت و آرائش ہے، اور یہ ایک جزوی و فروعی چیز ہے۔ پس جہاں تک اصل و اساس کا تعلق ہے، اسلامی تہذیب کا قصر کلیتاً اسلام کی اپنی تعمیر کا نتیجہ ہے۔ اس کا نقشہ اپنا ہے، کسی دوسرے نقشے کی مدد اس میں نہیں لی گئی ہے۔ اس کا طرزِ تعمیر خود اسی کا ایجاد کردہ ہے، کسی دوسرے نمونے کی نقل اس میں نہیں کی گئی ہے۔ اس کا مقصدِ تعمیر نرالا ہے، کوئی دوسری عمارت اس مقصد کے لیے نہ اس سے پہلے تعمیر کی گئی اور نہ اس کے بعد۔ اسی طرح اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے جس قسم کی تعمیر ہونی چاہیے تھی، اسلامی تہذیب ٹھیک ویسی ہی ہے۔ اس مقصد کے لیے جو کچھ اس نے تعمیر کر دیا اس میں کوئی بیرونی مہندس نہ ترمیم کی قدرت رکھتا ہے اور نہ اضافے کی۔ باقی رہے جزئیات و فروع، تو اسلام نے ان میں بھی دوسروں سے بہت کم استفادہ کیا ہے، حتیٰ کہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ وہ بھی بیش تر اسلام کے اپنے ہیں۔ البتہ مسلمانوں نے دوسروں سے رنگ و روغن، نقش و نگار اور زینت و آرائش کے سامان لے کر اس میں اضافے کر دیے اور وہی دیکھنے والوں کو اتنے نمایاں نظر آئے کہ انھوں نے پوری عمارت پر نقل کا حکم لگا دیا۔
تہذیب کا مفہوم
اس بحث کا فیصلہ کرنے کے لیے سب سے پہلے اس سوال کا تصفیہ ہونا ضروری ہے کہ تہذیب کس چیز کو کہتے ہیں؟ لوگ سمجھتے ہیں کہ کسی قوم کی تہذیب نام ہے اس کے علوم وآداب، فنونِ لطیفہ، صنائع و بدائع، اطوارِمعاشرت، اندازِ تمدن اور طرزِ سیاست کا۔مگر حقیقت میں یہ نفسِ تہذیب نہیںہیں بلکہ تہذیب کے نتائج و مظاہر ہیں۔تہذیب کی اصل نہیں ہیں، شجرِتہذیب کے برگ و بار ہیں۔ کسی تہذیب کی قدر و قیمت ان ظاہری صورتوں اور نمائشی ملبوسات کی بنیاد پر متعین نہیں کی جا سکتی۔ ان سب کو چھوڑ کر ہمیں اس کی روح تک پہنچنا چاہیے اور اس کے اساسِ اصول کا تجسس کرنا چاہیے۔

تہذیب کے عناصرِ ترکیبی
اس نقطۂ نظر سے سب سے پہلی چیز جس کا کسی تہذیب میں کھوج لگانا ضروری ہے، وہ یہ ہے کہ دنیوی زندگی کے متعلق اس کا تصور کیا ہے؟ وہ اس دنیا میں انسان کی کیا حیثیت قرار دیتی ہے؟ اس کی نگاہ میں دنیا کیا ہے؟ انسان کا اس دنیا سے کیا تعلق ہے؟ اور انسان اس دنیا کو برتے تو کیا سمجھ کر برتے؟ یہ تصورِ حیات کا سوال ایسا اہم سوال ہے کہ انسانی زندگی کے تمام اعمال پر اس کا نہایت گہرا اثر ہوتا ہے، اور اس تصور کے بدل جانے سے تہذیب کی نوعیت بنیادی طور پر بدل جاتی ہے۔
دوسرا سوال جو تصورحیات کے سوال سے گہرا تعلق رکھتا ہے، زندگی کے نصب العین کا سوال ہے۔ دنیا میں انسان کی زندگی کا مقصد کیا ہے؟ یہ ساری دنیا آخر کس لیے ہے؟ وہ کیا چیز مطلوب ہے جس کی طرف آدمی کو دوڑنا چاہیے؟ وہ کون سا مطمحِ نظر ہے جس تک پہنچنے کے لیے ابنِ آدم کو کوشش کرنی چاہیے؟ وہ کون سا منتہا ہے جسے انسان کو اپنی ہر سعی اور اپنے ہر عمل میں پیشِ نظر رکھنا چاہیے؟ یہی مقصود ومطلوب کا سوال انسان کی عملی زندگی کا رخ اور اس کی رفتار متعین کرتا ہے اور اسی کے مطابق عمل کے طریقے اور کام یابی کے وسائل اختیار کیے جاتے ہیں۔
تیسرا سوال یہ ہے کہ زیرِ بحث تہذیب میں انسانی سیرت کی تعمیر کن بنیادی عقائد و افکار پر کی گئی ہے؟ انسان کی ذہنیت کو وہ کس سانچے میں ڈھالتی ہے؟ انسان کے دل و دماغ میں کس قسم کے خیالات جاگزیں کرتی ہے؟ اور اس میں وہ کون سے محرکات ہیں جو اس کے نصب العین کے مطابق انسان کو اپنی مخصوص قسم کی عملی زندگی کے لیے ابھارتے ہیں؟ یہ بات کسی بحث کی محتاج نہیں ہے کہ انسان کے قوائے عمل اس کے قوائے فکر کے تابع ہیں۔ اس کے دست و پا کو جو روح حرکت دیتی ہے، وہ اس کے دل و دماغ سے آتی ہے۔ دل و دماغ پر جو عقیدہ، جو تخیل، جو مفکورہ پوری قوت کے ساتھ مسلّط ہو گا، عملی قوتیں اسی کے زیرِ اثر حرکت کریں گی۔ ذہن جس سانچے میں ڈھلا ہو گا، اسی کے مطابق جذبات، حسیات اور داعیات پیدا ہوں گے، اور انھی کے اتباع میں اعضاو جوارح کام کریں گے۔ پس دنیا کی کوئی تہذیب ایک اساسی عقیدہ اور ایک بنیادی متخیلہ کے بغیر قائم نہیں ہو سکتی، اور اس بِنا پر ہر تہذیب کو سمجھنے اور اس کی قدر و قیمت جانچنے کے لیے اس عقیدہ اور متخیلہ کو سمجھنا اور اس کے حسن و قبح کو جانچنا اتنا ہی ضروری ہے جتنا کسی عمارت کی مضبوطی و پائداری کا حال معلوم کرنے کے لیے یہ جاننا ضروری ہے کہ اس کی بنیادیں کتنی گہری اور کتنی مضبوط ہیں۔
چوتھاسوال یہ ہے کہ وہ تہذیب انسان کو بحیثیت ایک انسان کے کس طرح کا آدمی بناتی ہے؟ یعنی وہ کس قسم کی اخلاقی تربیت ہے جس سے وہ انسان کو اپنے نظریے کے مطابق کام یاب زندگی بسر کرنے کے لیے تیار کرتی ہے؟ وہ کون سے خصائل، اوصاف اور نفسی خصائص ہیں جنھیں وہ انسان میں پیدا کرنے اور نشوونما دینے کی کوشش کرتی ہے؟ اور اس کی مخصوص اخلاقی تربیت سے انسان کیسا انسان بنتا ہے؟ گو تہذیب کا اصل مقصد نظامِ اجتماعی کی تعمیر ہوا کرتا ہے، لیکن افراد ہی وہ مسالا ہوتے ہیں جن سے جماعت کا قصر بنتا ہے اور اس قصر کا استحکام اس پر منحصر ہوتا ہے کہ اس کا ہر پتھر اچھا ترشا ہوا ہو، ہر اینٹ خوب پکی ہوئی ہو، ہر شہتیر مضبوط و پائدار ہو، کوئی لکڑی گُھن کھائی ہوئی نہ ہو، اور کسی حصے میں ناکارہ، کچا اور بے جان مسالا استعمال نہ کیا جائے۔
پانچواں سوال یہ ہے کہ اس تہذیب میں انسان اور انسان کا تعلق اس کی مختلف حیثیتوں کے لحاظ سے کس طرح قائم کیا گیا ہے؟ اس کے تعلقات اس کے خاندان سے، اس کے ہمسایوں سے، اس کے دوستوں سے، اس کے ساتھ رہنے اور بسنے والوں سے، اس کے ماتحتوں سے، اس کے بالادستوں سے، خود اس کی اپنی تہذیب کے پیرووں سے، اور اس کی تہذیب کی پیروی نہ کرنے والوں سے کس قسم کے رکھے گئے ہیں؟ اس کے حقوق دوسروں پر اور دوسروں کے حقوق اس پر کیا قرار دیے گئے ہیں؟ اسے کن حدود کا پابند کیا گیا ہے؟ اسے آزادی دی گئی ہے تو کس حد تک، اور مقید کیا گیا ہے تو کس حد تک؟ اس سوال کے ضمن میں اخلاق، معاشرت، قانون، سیاست اور بین الاقوامی تعلقات کے تمام مسائل آ جاتے ہیں، اور اسی سے یہ معلوم ہو سکتا ہے کہ زیرِ بحث تہذیب خاندان، سوسائٹی اور حکومت کی تنظیم کس ڈھنگ پر کرتی ہے۔
اس بحث سے معلوم ہوا کہ تہذیب جس چیز کا نام ہے، اس کی تکوین پانچ عناصر سے ہوتی ہے:
۱۔ دنیوی زندگی کا تصور
۲۔ زندگی کا نصب العین
۳۔ اساسی عقائد و افکار
۴۔ تربیتِ افراد
۵۔ نظامِ اجتماعی
دنیا کی ہر تہذیب انھی پانچ عناصر سے بنی ہے، اور اسی طرح اسلامی تہذیب کی تکوین بھی انھی سے ہوئی ہے۔ اس کتاب میں مَیں نے اسلامی تہذیب کے پہلے تین عناصر کا جائزہ لے کر بتایا ہے کہ یہ تہذیب زندگی کے کس مخصوص تصور، کس خاص مقصدِ حیات اور کن اساسی عقائد و افکار پر قائم کی گئی ہے اور انھوں نے کس طرح اسے دنیا کی تمام تہذیبوں سے الگ ایک امتیازی شکل دے دی ہے۔ اس کے بعد آخری دو عناصر باقی رہ جاتے ہیں جن سے اس کتاب میں بحث نہیں کی گئی ہے۔ ان میں سے ’’تربیت افراد‘‘ کے موضوع پر تو میری کتاب ’’اسلامی عبادات پر ایک تحقیقی نظر‘‘ اور ’’خطبات‘‘ (خطبہ نمبر ۲۰ تا ۲۸) کا مطالعہ مفید ہو گا۔ رہا ’’نظامِ اجتماعی‘‘ کا عنوان، تو اس کا ایک اجمالی نقشہ میری ان تقریروں میں مل جائے گا جو ’’اسلام کا نظامِ حیات‘‘ کے نام سے شائع ہو چکی ہیں۔

ابو الاعلیٰ

شیئر کریں