آج مغربی قوموں سے سبق سیکھ کر ہر جگہ کے مسلمان نسلیت اور وطنیت کے راگ الاپ رہے ہیں۔ عرب عربیت پر ناز کر رہا ہے۔ مصری کو اپنے فراعنہ یاد آرہے ہیں۔ ترک اپنی ترکیت کے جوش میں چنگیزخاں اور ہلاکو سے رشتہ جوڑ رہا ہے۔ ایرانی اپنی ایرانیت کے جوش میں کہتا ہے یہ محض عرب امپریلزم کا زور تھا کہ حسینؓ اور علیؓ ہمارے ہیرو بن گئے حالانکہ حقیقت میں ہمارے قومی ابطال تو رستم و اسفند یار تھے۔ ہندوستان میں بھی ایسے لوگ پیدا ہورہے ہیں جو اپنے آپ کو ہندوستانی قومیت سے منسوب کرتے ہیں۔ وہ لوگ بھی یہاں موجود ہیں جو آبِ زم زم سے قطع تعلق کرکے آبِ گنگا سے وابستگی پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ ایسے لوگ بھی ہیں جو بھیم اور ارجن کو اپنا قومی ہیرو قرار دینے کا ارادہ رکھتے ہیں مگر یہ سب کچھ اس لیے ہے کہ ان نادانوں نے نہ اپنی تہذیب کو سمجھا ہے اور نہ مغربی تہذیب کو، اصول اور حقائق ان کی نگاہوں سے پوشیدہ ہیں۔ وہ محض سطح بیں ہیں اور سطح پر جو نقوش ان کو زیادہ نمایاں اور زیادہ خوش رنگ نظر آتے ہیں انھی پر لوٹ پوٹ ہونے لگتے ہیں۔ ان کو خبر نہیں کہ جو چیز مغربی قومیت کے لیے آبِ حیات ہے، وہی چیز اسلامی قومیت کے لیے زہر ہے۔ مغربی قومیتوں کی بنیاد نسل، وطن اور زبان و رنگ کی وحدت پر قائم ہوئی ہے اس لیے ہرقوم مجبور ہے کہ ہراس شخص سے اجتناب کرے جو اس کا ہم قوم، ہم نسل، ہم زبان نہ ہو، خواہ وہ اس کی سرحد سے ایک ہی میل کے فاصلہ پر کیوں نہ رہتا ہو۔ وہاں ایک قوم کا آدمی دوسری قوم کا سچا وفادار نہیں ہوسکتا۔ کوئی قوم کسی دوسری قوم کے فرد پر اعتماد نہیں کرسکتی کہ وہ اس کے مفاد کو اپنی قوم کے مفاد پر ترجیح دے گا مگر اسلامی قومیت کا معاملہ اس کے بالکل برعکس ہے۔ یہاں قومیت کی بنیاد نسل، وطن کے بجائے اعتقاد و عمل پر رکھی گئی ہے۔ تمام دنیا کے مسلمان ہرجنسی امتیاز کے بغیر ایک دوسرے کے شریکِ حال اور معاون ہیں۔ ایک ہندی مسلمان مصر کا ویسا ہی وفادار شہری بن سکتا ہے جیساکہ وہ خود ہندوستان کا ہے۔ ایک افغانی مسلمان شام کی حفاظت کے لیے اسی جانبازی کے ساتھ لڑسکتا ہے جس کے ساتھ وہ خود افغانستان کے لیے لڑتا ہے۔ اس لیے ایک ملک کے مسلمان اور دوسرے ملک کے مسلمان میں جغرافی یا نسلی تفریق کی کوئی وجہ نہیں۔ اس معاملہ میں اسلام کے اصول اور مغرب کے اصول ایک دوسرے کی ضد واقع ہوئے ہیں۔ جو وہاں سبب ِ قوت ہے وہ یہاں عین سبب ضُعف ہے۔ اور جو یہاں مایۂ حیات ہے وہ وہاں بعینہٖ سمِ قاتل ہے۔ اقبال نے اس حقیقت کو کس خوبی کے ساتھ بیان کیا ہے۔
اپنی ملّت پر قیاس اقوامِ مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قومِ رسولِؐ ہاشمی
ان کی جمعیت کا ہے ملک و نسب پر انحصار
قوتِ مذہب سے مستحکم ہے جمعیت تری
بعض لوگ اس خیالِ خام میں مبتلا ہیں کہ وطنی یا نسلی قومیت کے احساسات پیدا ہونے کے بعد بھی اسلامی قومیت کا رشتہ مسلمانوں کے درمیان باقی رہ سکتا ہے، اس لیے وہ اپنے نفس کو یہ کَہ کر دھوکا دیتے ہیں کہ یہ دونوں قسم کی قومیتیں ساتھ ساتھ چلیں گی، ایک سے دوسری پر آنچ نہ آئے گی، اور ہم ان دونوں کے فوائد جمع کرلیں گے۔ لیکن یہ محض جہل اور قلت ِ فکر کا کرشمہ ہے۔ جس طرح خدا نے ایک سینے میں دو قلب نہیں رکھے، اسی طرح ایک قلب میں دو قومیتوں کے متضاد اور متصادم جذبات کو جمع کرنے کی گنجائش بھی نہیں رکھی ہے۔
احساسِ قومیت کا لازمی نتیجہ اپنے اور غیر کا امتیاز ہے۔ اسلامی قومیت کے احساس کا فطری مقتضا یہ ہے کہ آپ مسلم کو اپنا اور غیرمسلم کو غیر سمجھیں اور وطنی یا نسلی قومیت کے احساس کا طبعی اقتضا یہ ہے کہ آپ ہر اس شخص کو اپنا سمجھیں جو آپ کا ہم وطن یا ہم نسل ہو اور اس کو غیر سمجھیں جو دوسرے ملک یا نسل سے تعلق رکھتے ہو۔ اب کوئی صاحب ِ عقل ہمیں سمجھا دے کہ یہ دونوں احساس ایک جگہ کیسے جمع ہوسکتے ہیں؟ کیوں کر ممکن ہے کہ آپ اپنے غیرمسلم ہم وطن کو اپنا بھی سمجھیں اور غیر بھی؟ اور غیروطنی مسلمان سے بعید بھی ہوں اور قریب بھی؟
ھَلْ یَجْتَمِعَانِ مَعًا؟ اَلَیْسَ مِنْکُمْ رَجُلٌ رَّشِیْدٌ
پس یہ خوب سمجھ لینا چاہیے کہ مسلمان میں ہندیت ، ترکیت ، افغانیت، عربیت اور ایرانیت کے احساسات کا پیدا ہونا اسلامی قومیت کا احساس مٹنے اور اسلامی وحدت کے پارہ پارہ ہونے کو مستلزم ہے اور یہ نتیجہ محض عقلی نہیں ہے بلکہ بارہا مشاہدہ میں آچکا ہے۔ مسلمانوں میں جب کبھی وطنی یا نسلی تعصبات پیدا ہوئے تو مسلمان کا گلا ضرور کاٹا اور :
لَا تَرْجِعُوْنَ بَعْدِیْ کُفَّارً ایَّضْرِبُ بَعْضُکُمْ رَقَابَ بَعْضٍ
کے اندیشہ ِ نبویؐ کی تصدیق کر کے ہی چھوڑی ۔لہٰذا وطنیت کے داعیوں کو اگر یہ کام کرنا ہی ہے تو بہتر ہے کہ وہ اپنے آپ کو اور دُنیا کو دھوکا نہ دیں بلکہ جو کچھ کریں یہ جان کر کریں کہ وطنی قومیت کی دعوت محمدؐ رسول اللہ کی دعوت کی عین ضد ہے۔
(ترجمان القرآن، رجب شعبان ۱۳۵۲ھ، نومبر، دسمبر ۱۹۳۳ء)