یورپین اصول پر جب نیشنلزم کو ترقی دی جائے گی تو وہ بالآخر اسی مقام پر پہنچ کر دم لے گی جو لوگ ابھی بیچ کی منزلوں میں ہیں اور اس حد تک نہیں پہنچے ہیں۔ ان کے نہ پہنچنے کی وجہ صرف یہ ہے کہ ابھی تک ان کے جذبات قومیت کو ویسی سخت ٹھیس نہیں لگی ہے جیسی جرمنی کو گذشتہ جنگ ِ عظیم میں لگی تھی لیکن یقین رکھیے کہ جب وہ نیشنلزم کے راستے پر گامزن ہوئے ہیں تو ان کی آخری منزلِ مقصود بہرحال کمال درجہ کی جاہلی عصبیت ہے جو خدا اور مذہب تک کو قومی بنائے بغیر مطمئن نہیں ہوتی۔ یہ نیشنلزم کی فطرت کا تقاضا ہے۔ نیشنلزم اختیار کرکے اس کے فطری تقاضے سے کون بچ سکتا ہے؟ غور کیجیے آخر وہ کیا چیز ہے جو قوم پرستانہ طرزِ فکر اختیار کرتے ہی ایک مصری نیشنلسٹ کا رُخ خود بخود عہد فراعنہ کی طرف پھیر دیتی ہے؟ جو ایرانی کو شاہنامے کی افسانوی شخصیتوں کا گرویدہ بنا دیتی ہے؟ جو ہندوستانی کو ’’پراچین سمے‘‘ کی طرف کھینچ لے جاتی ہے اور گنگ و جمن کی تقدیس کے ترانے اس کی زبان پر لاتی ہے؟ جو ترک کو مجبور کرتی ہے کہ اپنی زبان، اپنے ادب اور اپنی زندگی کے ایک ایک شعبے سے عربی اثرات کو خارج کرے اور ہرمعاملہ میں عہد جاہلیت کی ترکی روایات کی طرف رجوع کرے؟ اس کی نفسانی توجیہ بجز اس کے آپ اور کیا کرسکتے ہیں کہ نیشنلزم جس دل و دماغ میں پیدا ہوتا ہے اس کی تمام دلچسپیاں قومیت کے دائرے میں محدود ہوجاتی ہیں اور اس دائرے سے باہر کی ہرچیز سے اس کا رُخ پھر جاتا ہے۔
میرے سامنے اس وقت انقرہ کے ڈائرکٹر جنرل آف پریس کا ایک مضمون رکھا ہے جس کا عنوان ہے: ’’ترکی عورت تاریخ میں‘‘۔ اس کے ابتدائی فقرے حسب ذیل ہیں:
’’قبل اس کے کہ ہم اس بلند اور معزز رُتبے سے بحث کریں جو ہماری نوخیز جمہوریت نے ترکی عورتوں کو دینا پسند کیا ہے، ہمیں ایک نظر یہ دیکھ لینا چاہیے کہ تاریخ کے مسلسل اَدوار میں ترکی عورت کی زندگی کیسی رہی ہے۔ اس مختصر تبصرے سے یہ بات واضح ہوجائے گی کہ آج ترکی مردوں اور عورتوں میں جو مساوات پائی جاتی ہے وہ ہماری قومی تاریخ میں نئی چیز نہیں ہے۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوگا کہ سب ترکی خاندان اور ترکی نظامِ تمدن بیرونی اثرات سے آزاد تھا۔ ترکی عورت ہمیشہ ہرتمدنی تحریک میں حصہ لیتی تھی۔ ہمارے مشہور ماہر اجتماعیات ضیاء گوک الپ نے اس مضمون کی خوب تحقیق کی ہے اور اس کی تحقیقات سے ان بہت سے حقوق کا پتہ چلا ہے جو ترکی عورت کو پرانی ترکی تہذیب میں حاصل تھے۔ ان شہادتوں سے یہ بات صاف ہوجاتی ہے کہ قدیم ترکی عورت اور آج کی ترکی عورت کے درمیان تمدنی اور سیاسی اُٹھان (Emancipation) کے اعتبار سے گہری مماثلت پائی جاتی ہے‘‘۔
ان فقروں کو دیکھیے قوم پرست ترک کس طرح اپنی تاریخ کے اس دور سے منہ موڑتا ہے جس میں اس کی قوم اس ’’بیرونی اثر‘‘ میں آگئی تھی اور کس طرح اپنے حال کے لیے اپنے اس ماضی کو ’’اسوئہ حسنہ‘‘ بناتا ہے جب کہ اس کی قوم اس بیرونی اثر سے آزاد تھی۔ یوں یہ نیشنلزم آدمی کے دماغ کو اسلام سے جاہلیت کی طرف پھیر دیتا ہے۔ گوک الپ ضیاء جو دراصل تمدنی اور تہذیبی اعتبار سے ترکی جدید کا بانی ہے اور جس کے بنائے ہوئے راستے پر آج ترکی قوم چل رہی ہے وہ خالدہ ادیب خانم کے الفاظ میں:
’’ایک نئی ترکی بنانا چاہتا تھا جو عثمانی ترکوں اور ان کے تورانی اَسلاف کے درمیان کی خلیج کو پُر کرسکے۔ وہ اس مواد کی بنا پر تمدُّنی اصلاح کرنا چاہتا تھا جو اس نے ترکوں کے زمانہ قبل اسلام کی سیاسی و تمدُّنی تنظیمات کے متعلق فراہم کیا تھا۔ اسے یقین تھا کہ عربوں کا قائم کیا ہوا اسلام ہمارے مناسب حال نہیں ہوسکتا۔ اگر ہم اپنے ’’عہد ِ جاہلیت‘‘ کی طرف رجعت نہ کریں تو پھر ہمیں ایک مذہبی اصلاح (Reformation) کی ضرورت ہے جو ہماری طبائع سے مناسبت رکھتی ہو‘‘۔
یہ الفاظ کسی مغربی پروپیگنڈسٹ کے نہیں ہیں جو ترکوں کو بدنام کرنا چاہتا ہو، بلکہ خود ایک قوم پرست ترکن کے ہیں۔ ان میں آپ صاف طور پر یہ منظر دیکھ سکتے ہیں کہ مسلمان کے دل و دماغ میں جب ایک راستہ سے قوم پرستی گھسنی شروع ہوتی ہے تو کس طرح دوسرے راستے سے اسلام نکلنے لگتا ہے اور یہ چیز کچھ بیچارے ترکوں ہی کے ساتھ مخصوص نہیں۔ جس مسلمان نے بھی نیشنلزم کے شیطان سے بیعت کی ہے اسلام کے فرشتوں سے اس کا رخصتی مصافحہ ہوگیا ہے۔ ابھی حال میں ہندوستان کے ایک ’’مسلمان ‘‘ شاعر نے ترانہ وطن کے عنوان سے ایک نظم لکھی ہے جس میں وہ اپنی بھارت ماتا کو خطاب کرتے ہوئے کہتا ہے:
جس کا پانی ہے اَمرت وہ مخزن ہے تو
جس کے دانے ہیں بجلی وہ خرمن ہے تو
جس کے کنکر ہیں ہیرے وہ معدن ہے تو
جس سے جنّت ہے دنیا میں وہ گلشن ہے تو
دیویوں دیوتائوں کا مسکن ہے تو
تجھ کو سجدوں سے کعبہ بنا دیں گے ہم
آخری بیت کو پڑھ کر اس امر میں کیا شبہ باقی رہ جاتا ہے کہ نیشنلزم اور اسلام دو بالکل الگ اور قطعی متضاد ذہنیتوں سے تعلق رکھتے ہیں اور ان دونوں کا ایک جگہ جمع ہونا محالات سے ہے۔ درحقیقت نیشنلزم خود ایک مذہب ہے جو شرائع الٰہیہ کا مخالف ہے، بلکہ عملی حیثیت سے بھی انسان کی زندگی کے ان تمام پہلوئوں پر ملکیت کا دعویٰ کرتا ہے جنھیں شرائع الٰہیہ اپنی گرفت میں لینا چاہتی ہیں۔{ پروفیسر لینن کہتا ہے: ’’نیشنلزم نے مذہب اور عقل و ضمیر دونوں کی جگہ چھین لی ہے۔ وہ انسان کی زندگی کے تمام شعبوں پر اسی طرح حاوی ہونا چاہتا ہے جس طرح کہ مذہب۔ آج جو شخص اس خدا کے سامنے جس کا نام قومی اسٹیٹ ہے جھکنے اور اپنے ضمیر کو قربان کر کے اس کی عبادت بجا لانے سے انکار کرتا ہے وہ شخصی آزادی اور حقوقِ شہریت سے محروم کر دیا جاتا ہے‘‘۔ (ملاحظہ ہو: Social Philosophies in consliet, p45) } اب ایک مردِ عاقل کے لیے صرف یہی ایک صورت باقی ہے کہ دل و دماغ اور جسم و جان کا مطالبہ کرنے والے ان دونوں مدعیوں میں سے کسی ایک کو پسند کرکے اپنے آپ کو اس کے حوالے کردے اور جب ایک کی آغوش میں چلا جائے تو دوسرے کا نام تک نہ لے۔