میں نے مغربی نیشنلزم اور اس کے اندازِ فکر اور طریق کار کو اپنے الفاظ میں بیان کرنے کے بجائے خود اہلِ مغرب کے الفاظ میں نقل کرنا زیادہ پسند کیا ہے تاکہ اس کی پوری تصویر خود گھروالوں کے موقلم سے کھنچی ہوئی آپ کے سامنے آجائے۔ اُوپر کے اقتباسات اس امرکی بین شہادت پیش کرتے ہیں کہ یورپ میں جن تخیلات اور جن اصولوں پر نیشنلزم کا نشوونما ہوا ہے وہ انسانیت کی عین ضد ہیں۔ انھوں نے انسان کو حیوانیت بلکہ درندگی کے مقام تک گرا دیا ہے۔ وہ خدا کی زمین کو فساد، ظلم اور خون ریزی سے بھرنے والے اور انسانی تہذیب کے پُرامن نشووارتقاء کو روکنے والے اصول ہیں۔ ابتدا سے خدا کے بھیجے ہوئے پیغمبر دنیا میں جن پاک مقاصد کے لیے سعی کرتے رہے ہیں، یہ اصول ان سب پر پانی پھیر دیتے ہیں۔ الٰہی شریعتیں جن اَغراض کے لیے دُنیا میں آئی ہیں، اور آسمانی کتابیں جن اَخلاقی و روحانی تعلیمات کو لے کر نازل ہوئی ہیں، یہ شیطانی اصول ان کے مدمقابل، ان کے مزاحم اور معاند واقع ہوئے ہیں۔یہ انسان کو تنگ دل، تنگ نظر{ قوم پرستانہ تنگ نظری کی انتہا یہ ہے کہ جاپان میں ہندوستان کے آم کا داخلہ بند ہے۔ گویا ایک نعمت، جو اللہ نے زمین پر پیدا کی ہے ، ایک قوم کے لوگ اپنے اُوپر اس کو صرف اس لیے حرام کر لیتے ہیں کہ وہ دوسری قوم کے ملک میں کیوں پیدا ہوئی؟ } اور متعصب بناتے ہیں۔ یہ قوموں اور نسلوں کو ایک دوسرے کا دشمن بنا کر حق اور انصاف اور انسانیت کی طرف سے اندھا کردیتے ہیں۔ یہ مادی طاقت اور حیوانی زور کو اَخلاقی حق کا قائم مقام قرار دے کر شرائعِ الٰہیہ کی عین بنیاد پر ضرب لگاتے ہیں۔
الٰہی شریعتوں کا مقصد ہمیشہ سے یہ رہا ہے کہ انسانوں کے درمیان اَخلاقی و روحانی رشتے قائم کرکے انھیں وسیع پیمانے پر ایک دوسرے کا معاون بنایا جائے، مگر نیشنلزم نسلی اور وطنی امتیاز کی قینچی لے کر ان رشتوں کو کاٹ دیتا ہے اور قومی منافرت پیدا کرکے انسانوں کو ایک دوسرے کا معاون بنانے کے بجائے مزاحم اور دشمن بنا دیتا ہے۔{ ابھی پچھلے ہی سال نیشنلزم کا یہ کرشمہ ساری دُنیا نے دیکھا کہ برما کے ہولناک فسادات میں (جن کا محرک برمی نیشنلزم کا جذبہ تھا)۔ برمی بودھوں نے عام ہندوستانیوں کی طرح ہندوستانی بودھوں کو بھی نہایت بے دردی کے ساتھ قتل و غارت کیا۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ نیشنلزم کی مقراض نے اس روحانی و اخلاقی رشتہ کو قطع کر کے رکھ دیا جسے بدھ مت نے ایک ہندوستانی اور ایک برمی کے درمیان قائم کیا تھا۔ یہ نیشنلزم کا فطری خاصہ ہے۔ اس نے مسیحی اقوام کے درمیان بھی رشتۂ اخوت کو اسی طرح کاٹا تھا، اور اب مسلمان قوموں کے درمیان بھی کاٹ رہا ہے۔ چنانچہ شام کی سرحد پر ترکوں اور عربوں کے درمیان جو صورتِ حال اس وقت رُونما ہے وہ اسی نیشنلزم کا نتیجہ ہے۔ }
الٰہی شریعتیں چاہتی ہیں کہ انسان اور انسان کے درمیان آزادانہ ربط کے زیادہ سے زیادہ مواقع پیدا کیے جائیں کیونکہ انھی پر انسانی تہذیب و تمدن کی ترقی کا انحصار ہے، مگر نیشنلزم ان روابط کی راہ میں ہرقسم کی رکاوٹیں پیدا کرتا ہے حتیٰ کہ ایک قوم کے حلقۂ اثر میں دوسری قوم والوں کے لیے سانس لینا تک مشکل کردیتا ہے۔{History of National Socialism Konard Heldern. }
الٰہی شریعتوں کا منشا ء یہ ہے کہ ہرفرد، ہرقوم اور ہرنسل کو اپنی طبعی خصوصیات اور پیدائشی قابلیتوں کے نشوونما کا پورا موقع ملے تاکہ وہ مجموعی حیثیت سے انسانیت کی ترقی میں اپنا حصہ ادا کرسکے۔ مگر نیشنلزم ہرقوم اور ہرنسل میں یہ داعیہ پیدا کرتا ہے کہ وہ طاقت حاصل کرکے دوسری قوموں اور نسلوں کو ادنیٰ اور ذلیل اوربے قدر و قیمت قرار دے اور انھیں غلام بناکر ان کی پیدائشی قابلیتوں کو بڑھنے اور کام کرنے کا موقع ہی نہ دے، بلکہ ان سے زندگی کا حق ہی سلب کرکے چھوڑے۔
الٰہی شریعتوں کا اساسی اصول یہ ہے کہ طاقت کے بجائے اَخلاق پر انسانی حقوق کی بنیاد قائم ہو، حتیٰ کہ ایک طاقت ور شخص یا گروہ کمزور شخص یا گروہ کے حق کو بھی ادا کرے جب کہ قانونِ اَخلاق اس کی تائید میں ہو۔ لیکن نیشنلزم اس کے مقابلہ میں یہ اصول قائم کرتا ہے کہ طاقت ہی حق ہے اور کمزور کا کوئی حق نہیں۔ اس لیے کہ وہ اسے حاصل کرنے کی طاقت نہیں رکھتا۔
شرائع الٰہیہ جس طرح اَخلاقی حدود کے اندر نفس پروری کی مخالف نہیں ہیں، اسی طرح وہ قوم پروری کی بھی مخالف نہیں ہیں۔ درحقیقت وہ اس کی تائید کرتی ہیں، کیونکہ ایک ایک قوم کے اپنی اپنی جگہ ترقی کرنے ہی پر مجموعی حیثیت سے انسانیت کی ترقی کا مدار ہے۔ لیکن آسمانی شریعتیں ایسی قوم پروری چاہتی ہیں جو انسانیت عامہ (Humanity at Large) کی طرف ہمدردی، معاونت اور خیرخواہی لیے ہوئے بڑھے اوروہ خدمت انجام دے جو سمندر کے لیے زمین کے دریا انجام دیتے ہیں۔ برعکس اس کے نیشنلزم انسان کے اندر یہ ذہنیت پیدا کرتا ہے کہ وہ اپنی تمام قوتیں اور قابلیتیں صرف اپنی قوم کی بڑائی کے لیے مخصوص کرے اور انسانیت عامہ کا نہ صرف یہ کہ مددگار نہ ہو بلکہ اپنی قوم کے مفاد پر انسانیت کے عمومی مفاد کی قربانی چڑھا دے۔ انفرادی زندگی میں جو حیثیت ’’خودغرضی‘‘ کی ہے، اجتماعی زندگی میں وہی حیثیت ’’قوم پرستی‘‘ کی ہے۔ ایک قوم پرست فطرتاً تنگ دل ہوتا ہے۔ وہ دُنیا کی ساری خوبیاں صرف اپنی قوم یا اپنی نسل ہی میں دیکھتا ہے۔ دوسری قوموں یا نسلوں میں اسے کوئی چیز ایسی قابلِ قدر نظر نہیں آتی جو زندگی اور بقاء کی مستحق ہو۔ اس ذہنیت کا مکمل نمونہ ہم کو جرمنی کے نیشنل سوشلزم میں نظر آتا ہے۔ ہٹلر کی زبان میں نیشنل سوشلسٹ کی تعریف یہ ہے کہ:
’’ہر وہ شخص جو قومی نصب العین کو اس حد تک اپنانے کے لیے تیار ہو کہ اس کے نزدیک اپنی قوم کی فلاح سے بالاتر کوئی نصب العین نہ ہو، اور جس نے ہمارے قومی ترانے ’’جرمنی سب سے اُوپر‘‘ کے معنی و مقصود کو اچھی طرح سمجھ لیا ہو، یعنی اس وسیع دنیا میں جرمن قوم اور جرمنی سے بڑھ کر کوئی چیز اس کی نگاہ میں عزیز اور محترم نہ ہو، ایسا شخص نیشنل سوشلسٹ ہے‘‘۔{My Struggle, London, pp 120-121. }
اپنی کتاب ’’میری جدوجہد‘‘ میں ہٹلر لکھتا ہے:
’’اس زمین میں جو کچھ قابلِ قدر ہے … سائنس، آرٹ، فنی کمالات اور ایجادات… وہ سب کا سب چند گنی چنی قوموں کی تخلیقی قابلیتوں کا نتیجہ ہے اور یہ قومیں اصل میں ایک ہی نسل سے تعلق رکھتی ہیں… اگر ہم نوعِ انسانی کو تین قسموں میں تقسیم کریں… کلچر بنانے والے، اس کی حفاظت کرنے والے، اس کو غارت کرنے والے… تو صرف آریہ نسل ہی کا شمار پہلی قسم میں کیا جاسکے گا‘‘۔{ ٹھیک یہی ذہنیت عرب کے ان یہودیوں کی تھی جنھوں نے رسول اللہ ﷺ کی رسالت پر ایمان لانے سے صرف اس لیے انکار کر دیا تھا کہ آپؐ بنی اسرائیل میں سے نہیں۔}
اسی نسلی تفاخر کی بنیاد پر جرمنی میں غیرآریہ لوگوں کے لیے عرصۂ حیات تنگ کر دیا گیا ہے اور اسی بنیاد پر جرمنی کی جہانگیری کا نظریہ قائم ہے۔ ایک نیشنل سوشلسٹ کے نزدیک دُنیا میں جرمن قوم کا مشن یہ ہے کہ وہ ’’ادنیٰ درجہ‘‘ کی قوموں کو غلام بنا کر ’’تہذیب‘‘ پھیلانے میں آلہ کے طور پر استعمال کرے اور یہ محض جرمنی ہی کی خصوصیت نہیں ہے۔ جمہوریت پسند امریکا میں بھی رنگ کا امتیازاسی بنیاد پر ہے… سفید فام امریکن سیاہ فام حبشی کو انسان سمجھنے کے لیے کسی طرح تیار نہیں… اور یہی مسلک یورپ کی ہرقوم کا ہے، خواہ وہ برطانیہ ہو یا فرانس یا اٹلی یا ہالینڈ۔
پھر اس قوم پرستی کی ایک لازمی خصوصیت یہ ہے کہ یہ انسان کو مطلب پرست بناتی ہے۔ شرائع الٰہیہ تو دنیا میں اس لیے آئی ہیں کہ آدمی کو اصول پرست بنائیں اور اس کے طرزِعمل کو ایسے مستقل اصولوں کا پابند بنا دیں جو اَغراض اور خواہشات کے ساتھ بدلنے والے نہ ہوں۔ لیکن قوم پرستی اس کے برعکس آدمی کو بے اصولا بنادیتی ہے۔ قوم پرست کے لیے دُنیا میں کوئی اصول اس کے سوا نہیں ہے کہ وہ اپنی قوم کا فائدہ چاہتا ہے۔ اگر اَخلاق کے اصول اس کے سوا نہیں ہیں کہ وہ اپنی قوم کا فائدہ چاہتا ہے۔ اگر اَخلاق کےاصول ، مذہب کے احکام اور تہذیب کے نظریات اس مقصد میں اس کے مددگار ہوں تو وہ ان پر ایمان لانے کا خوشی سے دعویٰ کرتا رہے گا اور اگر وہ اس کے راستے میں حائل ہوں تو ان سب کو بالائے طاق رکھ کر کچھ دوسرے اصول و نظریات اختیار کرلے گا۔ مسولینی کی سیرت میں ہم کو ایک قوم پرست کے کیرکٹر کا پورا نمونہ ملتا ہے۔ جنگ ِ عظیم سے پہلے وہ اِشتِراکی تھا۔ جنگ ِ عظیم میں محض اس لیے اِشتِراکیوں سے الگ ہوگیا کہ اٹلی کے شریکِ جنگ ہونے میں اس کو قومی فائدہ نظر آتا تھا۔ پھر جب غنائم جنگ میں اٹلی کو مطلوبہ فوائد حاصل نہ ہوئے تو اس نے جدید فاشستی تحریک کا علَم بلند کیا۔ اس نئی تحریک میں بھی وہ برابر اپنے اصول بدلتا چلا گیا۔ ۱۹۱۹ء میں وہ لبرل سوشلسٹ تھا۔ ۱۹۲۰ء میں انارکسٹ بنا، ۱۹۲۱ء میں چند مہینے تک سوشلسٹ اور جمہوری طبقوں کا مخالف رہا۔ چند مہینے ان کے ساتھ اتحاد کی کوشش کرتا رہا اور بالآخر ان سے کٹ کر اس نے ایک نئی پالیسی وضع کرلی۔ یہ تلون، یہ بے اصولی اور یہ ابن الوقتی مسولینی کے لیے مخصوص نہیں ہے۔ بلکہ یہ نیشنلزم کی فطرت کا طبعی خاصہ ہے۔ انفرادی زندگی میں جو کچھ ایک خود غرض آدمی کرتا ہے وہی قومی زندگی میں قوم پرست کرتاہے۔ کسی اصول اور نظریہ پر مستقل ایمان رکھنا اس کے لیے ناممکن ہے۔
مگر نیشنلزم اور الٰہی شریعتوں میں سب سے کھلا ہوا تصادم ایک اور صورت سے ہوتا ہے۔ یہ ظاہر ہے کہ خدا کی طرف سے جو نبی ؑ بھی آئے گا وہ بہرحال کسی الگ قوم اور کسی ایک سرزمین ہی میں پیدا ہوگا۔ اسی طرح جو کتاب اس نبی ؑ کو دی جائے گی وہ بھی لامحالہ اسی ملک کی زبان میں ہوگی جس میں وہ مبعوث ہوا ہے۔ پھر اس نبوت کے مشن سے تعلق رکھنے والے جن مقامات کو عزت و احترام اور تقدیس کی حیثیت حاصل ہوگی وہ بھی زیادہ تر اسی ملک میں واقع ہوں گے مگر ان سب محدودیتوں کے باوجود وہ صداقت اور تعلیم ہدایت جو ایک نبی ؑخدا کی طرف سے لے کر آتا ہے کسی قوم اور ملک کے لیے محدود نہیں ہوتی بلکہ تمام انسانوں کے لیے عام ہوتی ہے۔ پوری نوعِ انسانی کو اس نبی ؑ پر اور اس کی لائی ہوئی صداقت پر ایمان لانے کا حکم دیا جاتا ہے، خواہ کسی نبی ؑ کا مشن محدود ہو جیساکہ ہود اور صالح علیہما السلام اور بہت سے پیغمبروں ؑ کا تھا یا اس کا مشن عام ہو، جیساکہ حضرت ابراہیم ؑ اور سیّدنا محمدؐ کا تھا، بہرصورت ہر نبی ؑ پر ایمان لانے اور اس کا احترام کرنے کے لیے تمام انسان مامور ہیں اور جب کہ کسی نبی ؑ کا مشن عالم گیر ہو تو یہ قدرتی بات ہے کہ اس کی لائی ہوئی کتاب کو بین الاقوامی حیثیت حاصل ہوگی۔ اس کی زبان کا تہذیبی اثر بین الاقوامی ہوگا۔ اس کے مقدس مقامات ایک ملک میں واقع ہونے کے باوجود بین الاقوامی مرکزیت حاصل کریں گے اور نہ صرف وہ نبی بلکہ اس کے حواری اور اس کے مشن کی اشاعت میں نمایاں حصہ لینے والے ابتدائی لوگ بھی ایک قوم سے تعلق رکھنے کے باوجود تمام قوموں کے ہیرو قرار پائیں گے… یہ سب کچھ ایک نیشنلست کے مذاق، اس کی افتادِ طبع ، اس کے جذبات اور اس کے نظریات کے خلاف ہے۔ نیشنلسٹ کی غیرت قومی اس کو کسی طرح گوارا نہیں کرسکتی کہ وہ ایسے لوگوں کو ہیرو بنائے جو اس کی اپنی قوم کے نہیں ہیں، ایسے مقام کی مرکزیت اور تقدیس و احترام قبول کرے جو اس کے اپنے وطن کے نہیں ہیں، ایسی زبان کا تہذیبی اثر قبول کرے جو اس کی اپنی زبان نہیں ہے، ان روایات سے روحانی تحریک (Inspiration) حاصل کرے جو باہر سے آئی ہوں۔ وہ ان سب چیزوں کو نہ صرف اجنبی (Foreign) قرار دے گا بلکہ انھیں اس نفرت اور ناگواری کی نگاہ سے دیکھے گا جس سے بیرونی حملہ آوروں کی ہر چیز دیکھی جاتی ہے اور ان تمام خارجی اثرات کو اپنی قوم کی زندگی سے نکال دینے کی کوشش کرے گا۔ اس کے جذبۂ قومیت کا فطری اقتضاء یہ ہے کہ اپنے ہی وطن کے دریائوں اور پہاڑوں کی حمد میں گیت گائے، اپنی ہی قوم کی پرانی تاریخی روایات کو (انھی روایات کو جنھیں یہ باہر سے آنے والا مذہب ’عہد ِ جاہلیت‘ سے تعبیر کرتا ہے) زندہ کرے اور ان پر فخر کرے، اپنے حال کا رشتہ اپنے ہی ماضی سے جوڑے اور اپنی ثقافت کا تسلسل اپنے اسلاف ہی کی ثقافت کے ساتھ قائم کرے، اپنی ہی قوم کے تاریخی یا افسانوی بزرگوں کو اپنا ہیرو بنائے اور انھی کے خیالی یا واقعی کارناموں سے روحانی تحریک حاصل کرے۔ غرض یہ بات نیشنلزم کی عین طبیعت میں شامل ہے کہ وہ ہر اس چیز سے جو باہر کی ہو، منہ موڑ کر ان چیزوں کی طرف رُخ کرے جو اس کے اپنے گھر کی ہوں۔ یہ راستہ جس آخری منزل پر پہنچتا ہے وہ یہ ہے کہ باہر سے آئے ہوئے مذہب کو بھی کُلی طور پر چھوڑ دیا جائے اور ان مذہبی روایات کو زندہ کیا جائے جو خود اپنی قوم کے عہد ِ جاہلیت سے کسی نیشنلسٹ کو پہنچی ہوں۔ ممکن ہے کہ بہت سے نیشنلسٹ اس آخری منزل تک نہ پہنچے ہوں، اور ابھی بیچ ہی کسی منزل میں ہوں، مگر جس راستے پر وہ گامزن ہیں، وہ جاتا اسی طرف ہے۔
آج جرمنی میں جو کچھ ہو رہاہے وہ نیشنلزم کے اسی فطری خاصہ کی مکمل توضیح و تبیین ہے۔ نازیوں میں سے ایک گروہ تو علانیہ حضرت عیسیٰ ؑسے بیزاری کا اظہار کر رہا ہے اس لیے کہ وہ یہودی النسل تھے اور کسی شخص کا یہودی ہونا اس بات کے لیے کافی ہے کہ ایک آریہ نسل پرست اس کی تمام تہذیبی، اَخلاقی اور روحانی قدروقیمت سے انکار کردے۔
چنانچہ اس گروہ کے لوگ بلاتکلف کہتے ہیں کہ ’’مسیح ایک پرولتاری یہودی تھا، مارکس کا پیش رو، اسی لیے تو اس نے کہا کہ جو مسکین ہیں وہی زمین کے وارث ہوں گے‘‘۔ اس کے برعکس جن نازیوں کے دل میں ابھی تک مسیح کے لیے جگہ باقی ہے وہ ان کو نارڈک نسل کا ثابت کرتے ہیں۔ گویا ایک جرمن قوم پرست یا تو مسیح کو مانے گا نہیںکیونکہ وہ یہودی تھے۔ یا اگر مانے گا تو اسرائیلی مسیح کو نہیں بلکہ نارڈک نسل کے مسیح کو مانے گا۔ بہرصورت اس کا مذہب اس کی نسل پرستی کے تابع ہے۔ کسی غیرآریہ کو روحانی و اَخلاقی تہذیب کا پیشوا ماننے کے لیے کوئی جرمن قوم پرست تیار نہیں۔{ٹھیک یہی ذہنیت عرب کے ان یہودیوں کی تھی جنھوں نے رسول اللہ ﷺ کی رسالت پر ایمان لانے سے صرف اس لیے انکار کر دیا تھا کہ آپؐ بنی اسرائیل میں سے نہیں۔
} حد یہ ہے کہ جرمن قوم پرستوں کے لیے وہ خدا بھی قابلِ قبول نہیں جس کا تصور باہر سے درآمد ہوا ہے۔ بعض نازی حلقوں میں کوشش ہورہی ہے کہ ان دیوتائوں کو پھر زندہ کیا جائے جنھیں پرانے ٹیوٹن قبائل پوجا کرتے تھے۔ چنانچہ تاریخ قدیم کی چھان بین کرکے پوری دیومالا تیار کرلی گئی ہے اور ووٹان (Wotan) نامی دیوتا کو، جسے عہد ِ جاہلیت کے ٹیوٹن لوگ ’’طوفان کا خدا‘‘ کہتے تھے مہادیو قرار دیا گیا ہے۔ یہ مذہبی تحریک تو ابھی نئی نئی شروع ہوئی ہے لیکن سرکاری طور پر نازی نوجوان کو آج کل جس عقیدہ کی تعلیم دی جارہی ہے اس میں بھی خدا کو رب العالمین کی حیثیت سے نہیں بلکہ محض رب الالمانین کی حیثیت سے خدا تسلیم کیا گیا ہے۔ اس عقیدے کے الفاظ یہ ہیں:
’’ہم خدا پر اس حیثیت سے ایمان رکھتے ہیں کہ وہ قوت و حیات کا ازلی مظہر ہے زمین میں اور کائنات میں… خدا کا خیال جرمن انسان کے لیے فطری ہے ۔ خدا اور ازلیت کے متعلق ہمارا تصور کسی دوسرے مذہب یا عقیدے کے تصورات سے کسی قسم کی مماثلت نہیں رکھتا۔ ہم جرمن قوم اور جرمنی کی ازلیت پر ایمان رکھتے ہیں۔ ہم اپنے قومی مقاصد کی حقانیت پر ایمان رکھتے ہیں۔ ہم اپنے قائد اڈولف پر ایمان رکھتے ہیں‘‘۔
یعنی خدا اس قوت و حیات کا نام ہے جو جرمن قوم میں حلول کرگئی ہے۔ جرمن قوم اس خدا کا ارضی ظہور ہے، ہٹلر اس کا رسول ہے اور ’’قومی مقاصد‘‘ اس رسول کا لایا ہوا مذہب ہے… ایک قوم پرست کی ذہنیت سے اگر کوئی مذہبی تصور مناسبت رکھتا ہے تو وہ بس یہی ہے۔